حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ

حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ







 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ


"نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ جانتا ہے کہ جنگ میں دھوکہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے"


نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک زندہ دل' بیدار مغز' چاق و چوبند اود ایسا جرآت مند' بہادر نوجوان تھا جیسے مشکلات و مصائب عاجز و درماندہ نہ کر سکتی تھیں ۔



 اللہ تعالی نے اسے فہم و فراست' عقل و دانش کا وافر حصہ وطا کر رکھا تھا' لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ شوقین مزاج' رنگین طبع اور عیش عشرت کا دلدادہ تھا۔ رنگین مزاجی میں یثرب میں بسنے والے یہودیوں سے بھی دو قدم آگے تھا۔ 



جب بھی اس کے دل میں کسی مغنیہ سے ملاقات اور گانا سننے کا شوق پیدا ہوتا تو وافر مقدار میں مال و متاع لے کر نجد سے سوئے یثرب روانہ ہو جاتا وہاں پہنچ کر یثرب کے باشندوں پر یے دریغ دولت نچھاور کرتا تا کہ وہ خوش ہو کر اس کے لئے دل پسند عیش و عشرت کا ماحول مہیا کریں۔ 



اس لئے نعیم کا یثرب میں اکثر آنا جانا رہتا اور یثرب کے یہودیوں سے اس کے گہرے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ خاص طور پر بنو قریظہ سے اا کی بہت گہری دوستی تھی۔  



جب اللہ سبحانہ و تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو رشدو ہدایت اور حق و صداقت کا سر چشمہ دین اسلام دے کر بھیجا اور اس طرح انسانیت پر اپنے فضل و کرم کی برکھا برسائی اور اسلام کی نورانی کرنوں سے مکہ معظمہ کے درودیوار چمک اٹھے۔



 لیکن نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی دھن میں مگن رہا' دین جدید سے اس لئے پہلو تہی اختیار کی کہ یہ میری عیش و عشرت میں رکاوٹ بن جائے گا ۔ اس طرح یہ اسلام کے بدترین دشمنوں کے ساتھ مل گیا تا کہ اپنی تلوار سے ان کی بیخ کنی کر سکے

لیکن نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ جاننے کے لئے اپ کو ذرا پس منظر میں جھانکنا پڑے گا۔



غزوہ احزاب سے چند روز پہلے یثرب کے یہودی بنو نضیر حرکت میں آئے اور رسول اقدس ﷺ سے نبرد آزما ہونے کے لئے آپس میں منظم ہو کر تیاریاں کرنے لگے۔



تاکہ یکبارگی زوردار حملے سے رسول اللہ ﷺ اور اس کے لائے ہوئے دین کا کام تمام کر دیا جائے۔ اس سلسلہ میں مدینہ کے زعمائے یہود مکہ قریش کے پاس گئے انہیں مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کے لئے آمادہ کیا اور ان سے پختہ عہد کیا کہ جونہی تمھاری فوجیں مدینہ کے قریب پہنچیں گی ، ہم پوری تیاری کے ساتھ تمہارا استقبال کرتے ہوئے تم میں شامل ہو جائیں گے۔




پھر زعمائے یہود کا یہ وفود نجد کی طرف روانہ ہوا اور وہاں جا کر بنو غطفان سے ملا اور انہیں اسلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکایا اور دین جدید کی بیخ کنی کے لئے آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور رازدارانہ انداز میں انہیں اپنے اور قریش کے مابین طے پا جانے والے معاہدے کے بارے میں آگاہ کیا، بلآخر بنو غطفان کے ساتھ بھی وہی معاہدہ طے پا گیا جو قریش کے ساتھ طے پایا تھا۔




قریش اپنے قائد ابو سفیان بن حرب کی زیر کمان بڑے طمطراق سے مکہ سے سوئے مدینہ روانہ ہوئے۔ لشکر میں گھڑ سوار بھی تھے اور پیادہ بھی قابل ذکر کوئی بھی قریشی مکہ میں نہ رہا ، اسی طرح بنو غطفان اپنے سپہ سالار عینہ بن حص غطفانی کی قیادت میں نجد سے روانہ ہوئے۔ بنو غطفان کے لشکر میں اس داستان کے ہیرو جناب نعیم بن مسعود بھی تھے۔



جب رسول اقدسﷺ کو دشمن افواج کی آمد کا پتہ چلا تو مشورے کے لئے اپنے صحابہ رضی اللہ کو اکٹھا کیا، سوچ و بچار کے بعد یہ بات طے پائی کہ حفاظتی اقدامات کے طور پر مدینہ کے اردگرد خندق کھودی جائے، اتنے بڑے لشکر کا دفاع کرنے کے لئے یہ خندق بہت مفید ثابت ہو گی


مکہ اور نجد سے آنے والے دونوں لشکر جونہی مدینہ منورہ کے قریب پہنچے- یہودی قبیلے بنو نضیر کے زعماء مدینہ میں بنو قریظہ کے پاس پہنچے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائی میں شرکت کی دعوت دی اور انہیں مکہ اور نجد سے آنے والے لشکروں کا خیر مقدم کرنے کے لئیے آمادہ کیا۔ بنو قریظہ کے زعماء نے انہیں کہا:



 آپ لوگوں نے دل پسند اور مرغوب کام کی طرف ہمیں دعوت دی ہے ہم بھی یہی چاہتے ہیں، لیکن تم یہ جانتے ہو کہ ہماری یہ مجبوری ہے ۔کہ ہمارے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ طے پا چکا ہے کہ ہم مدینہ میں امن اور آشتی سے رہیں گے اور تم جانتے ہو کہ اس تحریری معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی۔



ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑائی میں کامیاب ہو گئے ،تو ہم پر ان کی گرفت مضبوط ہو جائے گی اور وہ ہمیں معاہدہ توڑنے کے جرم میں تہس نہس کر دیں گے لیکن بنو نضیر کے زعماء انہیں مسلسل معاہدہ توڑنے کے لئے اکساتے رہے اور اس سلسلے میں انہیں سبز باغ دکھاتے رہے اور انہوں نے فیصلہ کن انداز میں کہا اس دفعہ مسلمان اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے ، یہ بھی بتایا کہ ہماری مدد کے لئے دو بڑے لشکر پہنچنے والے ہیں ۔



بالآخربنو قریظہ نے بنو نضیر کی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر یو کر رسول اقدس ﷺ کے ساتھ کیا یوا معاہدہ توڑ دیا اور تحریری دستاویز کو پھاڑ دیا اور مسلمانوں کے خلاف غزوہ احزاب میں شمولیت کا اعلان کر دیا، یہ خبر مسلمانوں پر بجلی بن کر گری۔



رسول اکرم ﷺ نے یہ محسوس کیاکہ اب وہ دونوں جانب سے دشمن کے نرغے میں ہیں۔ قریش اور بنو غطفان ہمارے مقابلے کے لئے آ رہے ہیں بنو قریظہ مدینہ منورہ کے انر سے ہمارے مقابلے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، ان کے علاوہ وہ لوگ جن کے دلوں میں نفاق کا مرض تھا کہنے لگے کہ حضرت محمدﷺ کا تو ہم سے وعدہ تھا



کہ ہم کسری و قیصر کے مالک بن جائیں گےاور آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بے خوف بیت الخلاء تک بھی نہیں جا سکتا، پھر وہ یکے بعد دیگرے مسلمانوں سے الگ ہونے لگے ، انہیں یہ اندیشہ تھا کہ داخلی محاذ سے بنو قریظہ کے حملہ آور ہونے کی بنا پر ہماری عورتیں بچے اور گھر محفوظ نہیں رہیں گے۔



 اب صورت حال یہ ہو گی کہ چند سینکڑے وہی مسلمان آپ کے ساتھ رہ گئے جو پختہ ایمان کے حامل تھے۔



 دشمن کی جانب سے محاصرے کو تقریبا بیس دن گزر چکے تھے۔ اندرونی و بیرونی اعتبار سے حالات ناگفتہ بہ صورت حال اختیار کر چکے تھے۔ 



اس نازک ترین صورت حال کو دیکھ کر ایک رات رسول اللہ ﷺ بارگاہ رب العالمین میں گڑگڑاتے ہوئے بار بار یہ فرمانے لگے


الہی! اپنے وعدے کے مطابق ہماری مدد فرما: 


الہی! اپنے وعدے کے مطابق ہماری مدد فرما: 



ادھر آپ فرما رہے تھے اور ادھر نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ بستر پر لیٹے بڑی بے چینی کے ساتھ کروٹیں لے رہے تھے۔ بےتابی اوراضطراب کی وجہ سے نیند نہیں آ رہی تھی۔اپنی نگاہ کو صاف و شفاف آسمان پر جگمگاتے تاروں میں دوڑا رہے تھے ۔اور گہری سوچ میں پڑے ہوئے تھے ۔



پھر اپنے دل سے محو گفتگو ہوئے اور کہنے لگے۔نعیم تجھ پر افسوس ہے! نجد جیسے دور دراز علاقے سے برگزیدہ شخص اور اس کے ساتھیوں سے تم کیوں لڑنے آئے ہو۔تم کسی چھنے ہوئے حق کو حاصل کرنے ، یا پامال شدہ عزت کو بحال کرنے کے لئے تو ان نہیں لڑ رہے ۔تم بغیر کسی وجہ کے لڑنے آئے ہو۔

   


کیا تجھ جیسے دانشمند شخص کے لئے مناسب ہے کہ بلاوجہ کسی کو مارے یا خود مرے؟


 نعیم تجھ پر صد افسوس! بھلا تجھے کیا چیز برانگیخت کرتی ہے کہ ایک ایسے برگزیدہ شخص کے مقابلے میں آؤ جو اپنے ماننے والوں کو عدل و انصاف اور صدقہ و خیرات کا حکم دیتا ہے؟


بھلا تجھے کیا چیز برانگیخت کرتی ہے کہ تم اپنا نیزہ اس کے ان ساتھیوں کے خون میں رنگو جنہوں نے اس رشد و ہدایت کے پیغام کی پیروی کی جو آپ ﷺ ان کے پاس لے کر آئے؟


جناب نعیم کے دل میں یہ خیالات و افکار گردش کر رہے تھے کہ اچانک انہوں نے ایک انقلابی اقدام کرنے کا تاریخی فیصلہ کر لیا اور سوچا کہ اس فیصلہ کو فوری طور پر نافذ کر دیا جائے۔


نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ رات کی تاریکی میں اپنی چھاونی سے نکلے اور تیز تیز چلتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ جب نبی اکرم ﷺ نے اسے اپنے سامنے تسلیم و رضا اور ادب و احترام کی تصویر بنے کھڑے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا : 


کیا تم نعیم بن مسعود ہو؟  


عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ ﷺ 


فرمایا : اس وقت یہاں کیسے آئے ہو؟


عرض کیا: حضور ﷺ میں اس لئے حاضر ہوا ہوں تاکہ یہ گواہی دوں کہ :


اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور جو پیغام آپ لے کر آئیں وہ برحق ہے۔


یا رسول اللہ ﷺ! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میرے مسلمان ہونے کا میری قوم کو ابھی علم نہیں ہوا، اب جو بھی آپ مجھے حکم دیں گے ، میں برضا و رغبت اسے بجا لاؤں گا۔



رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم واپس اپنی قوم میں جاؤ اور کوئی ایسی چال چلو جس سے دشمن کے موجودہ محاصرے میں اضمحال پیدا ہو اور وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو جائے کیونکہ لڑائی میں دھوکہ دہی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔


عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ ﷺ ! چشم ماروشن دل ماشاد


میں دشمن کے خلاف ایسی چال چلوں گا کہ آپ دیکھ کر خوش ہو جائیں گے



 نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ فوری طور پر بنو قریظہ کے پاس پہنچے۔پہلے وہ ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے۔


ان سے کہا:


اے بنو قریظہ ! تم جانتے ہو کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں اور تمہارے لئے کس قدر خیر خواہی کے جذبات رکھتا ہوں۔


انہوں نے کہا آپ ہمارے جگری دوست ہیں۔


اس نے کہا:


 اس لڑائی میں تمہاری حثیت قریش اور بنو غطفان سے مختلف ہے۔ 


انہوں نے پوچھا وہ کیسے ؟


اس نے کہا: یہ تمہارا شہر ہے، اس میں تمہارا مال، اولاد اور عورتیں ہیں تم اس شہر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے ۔یہ قریش اور بنو غطفان کا شہر نہیں، ان لکے مال ،اولاد اور عورتیں یہاں نہیں ہیں ۔ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں سے لڑائی کرنے آئے ہیں،انہوں نے تمہیں مسلمانوں کےساتھ معاہدہ توڑنے اور اپنی مدد کے لئے پکارا ہے تم نے ان کی بات کو تسلیم کر لیا ۔اگر وہ اس لڑائی میں کامیاب ہو گئے، تو اسے غنیمت سمجھیں گے اور جی بھر کا مال غنیمت سمیٹ کر لے جائیں گے۔ اگر لڑائی میں ناکام ہو گئے تو اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے اور تمہیں یہاں مسلمانوں کا نشانہ بننا پڑے گا اور تم جانتے ہو کہ اس صورت حال میں تم کچھ نہ کر سکو گے۔


انہوں نے کہا:


تم سچ کہتے ہو، بتاؤ ہم کیا کریں، تمہاری کیا رائے ہے؟

 

اس نے کہا میری مخلصانہ رائے یہ ہے کہ اس شرط پر لڑائی میں ان کا ساتھ دو کہ وہ اپنے چند معزز افراد تمہارے پاس گروی رکھیں۔ اس طرح وہ تمہارے شانہ بشانہ مسلمانوں کے خلاف آخر دم تک لڑیں گے ، یا وہ کامیاب ہوں گے یا اس میدان میں فنا ہو جائیں ۔


انہوں نے کہا:


 آپ نے بڑے پتے کی بات کی ہے ۔



آپ نے بڑے پتے کی بات کی ہے ۔ آج آپ نے دوستی و خیر خواہی کا حق ادا کر دیا، پھر وہ ان کے پاس سے اٹھے اور سیدھا قریش کے سردار ابو سفیان بن حرب کے پاس گئے اور ان سے کہا: 



اے خاندان قریش!


 تم اچھی طرح جانتے ہو کہ مجھے تم سے محبت ہے اور حضرت محمد ﷺ سے عداوت ہے۔

 


مجھے آج ایک بات کا پتہ چلا اور میں فورا تمہیں بتانے چلا آیا۔ تمہارے لئے بہتر ہے کہ اسے چھپائے رکھنا اور میرے حوالے سے کسی کو نہ بتانا۔


انہوں نے کہا:

 

بالکل ٹھیک، ہمارا آپ سے وعدہ ہے ۔ ہم کسی کو نہیں بتائیں گے۔


اس نے کہا:


بنو قریظہ محمد ﷺ سے جھگڑے پر بڑے ہی نادم ہیں اور انہوں نے محمد ﷺ کی طرف یہ پیغام بھیجا ہے کہ ہم اپنے کئے پر نادم ہیں۔



ہمیں معاف کیا جائے۔ ہم دوبارہ آپ کے ساتھ امن وآشتی سے رہنے کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔آپ اگر چاہیں تو قریش اور بنوغطفان کے بیشتر معروف افراد آپ کے سپرد کرنے کا اہتمام کر دیں گے چاہیں۔ تو آپ ان کی گردنیں اڑا دیں، پھر ہم آپ کے شانہ بشانہ ان کے خلاف لڑیں گے، یہاں تک کہ آپ ان کا کام تمام کر دیں- پھر اس نے اپنی بات جاری رکھتے ارشاد فرمایا:



اگر یہودی تمہارے افراد اپنے پاس گروی رکھنے کا مطالبہ کریں تو کوئی اپنا فرد ان کے سپرد نہ کرنا۔


ابو سفیان نےباتیں سن کر کہا:


تم ہمارے بہترین دوست اور گواہ ہو۔


آپ کو جزائے خیر ہو۔


پھر نعیم ابو سفیان کے پاس سے اٹھے اور سیدھے اپنی قوم بنو غطفان کے پاس پہنچے اور ان سے وہی باتیں کیں جو بنو سفیان سے کی تھیں اور انہیں بھی صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے اسی طرح ڈرایا جس طرح ابو سفیان کو اندرونی خطروں سے آگاہ خوف زدہ کیا تھا ۔



ابو سفیان نے بنو قریظہ کا امتحان لینے کے لئےاپنے بیٹے کو ان کے پاس بیجھا۔



بیٹے نے بنو قریظہ سے کہا:


 ابا جان آپ کو سلام کہتے ہیں اور انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ مسلمانوں کا محاصرہ طول اختیار کر گیا ہے جس سے ہم اکتا چکے ہیں۔


ہم نے اب فیصلہ کیا ہے ہم محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں سے فیصلہ کن جنگ کریں گے ۔ ابا جان نے مجھے تمھارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ تمھیں اس جنگ میں شرکت کی دعوت دوں۔ کل آپ کو مقابلے میں شریک ہونے کے لئے وہاں آنا ہو گا۔



یہ بات سن کر انہوں نے کہا:



کل تو ہفتہ ہے ۔ یہ ہمارا مبارک دن ہے ۔ اس دن ہم کوئی کام نہیں کرتے اور دوسری بات یہ کہ اس وقت ہم تمھارے ساتھ مل کر لڑائی نہیں کریں گے جب تک تم اپنے اور قبیلہ غطفان کے ستر آدمی ہمارے پاس گروی نہیں رکھو گے۔



ہمیں خطرہ یہ ہے کہ جب لڑائی شدت اختیار کر جائے گی تو تم یہاں سے بھاگ جاؤ گے اور ہمیں بے یار و مددگار مسلمانوں کا تختہ مشق بننے کے لئے چھوڑ جاؤ گے ۔ تم جانتے یو کہ ہم میں یہ سکت نہیں کہ اکیلے ان کا مقابلہ کر سکیں۔



جب اب سفیان کا بیٹا اپنی قوم کے پاس واپس آیا اور انہیں وہ سب کچھ بتایا جو بنو قریظہ سے سنا تھا تو سب نے بیک زبان کہا: 



تف بندروں اور خنزیروں کی اولاد نے بری کمینگی کا مظاہرہ کیا ہے۔



بخدا! اگر گروی ہم سے رکھنے کے ایک بکری کا مطالبہ کریں تو وہ بھی ہم ان کے سپرد نہ کریں۔



اسی طرح نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ دشمن کی صفوں مین پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے ۔



اس کے بعد اللہ تعالی نے قریش اور ان کے ہمنوا قبائل پر ایسی تیز آندھی چلائی جس سے ان کے خیمے اکھڑ گئے۔ کھانے کے برتن الٹ گئے آگ کے چولھے بجھ گئے۔چہرے خسک آلودہ ہو گئے اور آنکھیں غبار سے اٹ گئیں۔


دم دبا کر بھاگ جانے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ کار نہ رہا ۔جب مسلمانوں نے دشمن اسلام کو پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے دیکھا تو نعرہ تکبیر بلند کیا اور اللہ سبحانہ و تعالی کا شکر ادا کرتے ہوئے کہنے لگے:


سب تعریفیں اللہ تعالی کے لئے جس نے اپنے بندے کی دعا سن کی مدد کی۔ اپنے لشکر کو عزت و سرفرازی عطا فرمائی اور دشمن کے لشکر کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔


غزوہ احزاب کے نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے انتہائی قابل احترام حیثیت اختیار کر گئے۔ انہیں بہت سے فرائض سونپ دئے گئے اور کئی موقع پر لشکر اسلام کا جھنڈا ان کے ھاتھ میں تھمایا گیا۔


فتح مکہ کے دن ابو سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ لشکر اسلام کو بغور دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے ایک شخص کو قبیلہ غطفان کا جھنڈا اٹھانے ہوئے دیکھا۔


ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھی سے پوچھا یہ کون ہے جس کے ھاتھ میں جھنڈا ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ ہے۔


اس نے غزوہ خندق میں اس نے ہمارے ساتھ ایسا داؤ کھیلا کہ ہم چکرا گئے۔


بخدا! یہ تو محمدﷺ کا جانی دشمن تھا اور آج جھنڈا ہاتھ میں لئے اپنی قوم کی قیادت کرتے ہوئے لشکر اسلام میں شامل ہے اور ہم سے لڑائی کرنے آ رہا ہے۔


حضرت نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:


1۔ الاصابہ (مترجم) : 877


2۔ اسد الغابہ : 348/0


3۔ انساب الاشرف :345'340


4۔ السیرہ النبویہ لابن ھشام


5۔ حیات صحابہ : جلد چہارم کی فہرست دیکھئے



🌴بارک اللہ فیکم🌴



============>ختم شد



تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ---- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments