حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ
"یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی جنت میں مجھے آپﷺ کا رفیق بنا دے۔"
{تمنائے ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ }
حضرت ربیعہ بن کعب فرماتے ہیں۔
میں ابھی عنفوان شباب میں تھا کہ روح نور ایمان سے چمک اٹھی۔ اور میرا دل اسلام کے رموزواسرار سے لبریز ہو گیا۔ جب میں بے دیدار نبی کا سرمہ اپنی آنکھوں میں ڈالا تو آپ کی محبت میرے روئیں روئیں میں سرایت کر گئی۔ آپﷺ کی بے پناہ محبت نے مجھے آپﷺ کے سوا ہر چیز کو بھلا دیا۔ ایک دن میں نے اپنے دل سے کہا۔
ربیعہ، تجھ پر افسوس ہے۔ بھلا تو اپنے آپ کو رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لیے وقف کیوں نہیں کر دیتا۔ اس مقصد کے لیے تجھے پہلی فرصت میں بارگاہ رسالت میں عرض پیش کر دینی چاہیے۔ اگر درخواست قبول ہو گئی تو تیرے بھاگ جاگ اٹھیں گے۔ تجھے قرب کی سعادت نصیب ہو گی۔ اور محبت میں کامیابی بھی، علاوہ ازیں دنیا و آخرت کی خیرو برکت تیری جھولی میں ڈال دی جائے گی۔ یہ سوچتے ہی میں نے بارگاہ رسالت میں درخواست کی یا رسول الله ازراہِ کرم مجھے اپنا خادم بنا لیجیے۔ آپﷺ نے کمال شفقت مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے اپنی خدمت کے لیے قبول کر لیا۔ زہے قسمت، واہ رے خوش نصیبی۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشذ خدائے بخشذہ
میں خوشی میں جھوم گیا اور اپنی قسمت پر ناز کرنے لگا۔ میں اسی دن سے سائے کی طرح آپﷺ کے ساتھ ہو گیا، جہاں چلتے میں چلتا، جہاں بیٹھتے میں بیٹھتا۔ جس طرف بھی رخ کرتے آپﷺ کے ساتھ خدمت کے لیے تیار ہوتا۔ جب آپ میری طرف نگاہ اٹھاتے تو میں فوراً آپ کے سامنے باادب آکھڑا ہوتا۔
جب آپﷺ مبھے کسی کام خا حکم دیتے تو پلک جھپکنے میں اس کام کو سر انجام دیتا ۔ اس طرح میں دن رات آپﷺ کی خدمت میں مصروف رہتا۔
اس طرح میں دن بھر آپﷺ کی خدمت میں مصروف رہتا۔ جب نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد آپﷺ اپنے حجرے میں تشریف لے جاتے تو کہیں جانے کی بجائے آپﷺ کے گھر کی دہلیز پر بیٹھ جاتا کہ شاید رات کے وقت آپﷺ کو کوئی کام یاد آ جائے اور میں وہاں موجود نہ ہوا تو آپﷺ کو وہ کام خود کرنا پڑے یہ میرے لئے کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ میرے جیتے جی آپﷺ کو کام کرنے کی زحمت اٹھانا پڑے۔ میں نے وہاں ایمان افروز منظر بھی دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ رات کا اکثر حصہ نماز پڑھتے ہوئے گزارتے
بسا اوقات سورہ فاتحہ پڑھنے کی آواز میرے کانوں کو سنائی دیتی۔ بعض اوقات آپﷺ وجد میں آکر سوری فاتحہ بار بار پڑھتے ۔
بسا اوقات { سمع اللہ لمن حمدہ} کی لذت بھری آواز مجھے سنائی دیتی ۔ یہ کلمات بھی آپﷺ کمال کیف و سرور اور لذت آشنائی کے انداز میں بار بار دہراتے۔
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی آپﷺ سے حسن سلوک سے پیش آتا تو آپﷺ اس کا بدلہ اس سے بہتر انداز میں دیتے۔ ایک روز آپﷺ نے میری خدمات کا صلہ دینے کے لئے مجھے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا:
اے کعب کے فرزند ربیعہ رضی اللہ عنہ
میں نے کہا لیبک یا رسول اللہ ﷺ!
آپﷺ نے فرمایا: مجھ سے مانگو کہ آج تجھے عطا کر دوں۔ میں یہ سن کر اپنی قسمت پر ناز کرنے لگا۔ میرے نصیب کے کیا کہنے کہ شاہ امم سلطان مدینہ کی نظر کرم آج مجھ پر ہے۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ: مجھے کچھ مہلت دیجئے تاکہ میں سوچ کر کوئی فیصلہ کر سکوں کہ میں آپ سے کیا مانگوں۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: خوب سوچ لیجئے۔ میں ایک مفلس کنگال نوجوان تھا نہ میرے پاس کوئی گھر تھا، نہ بیوی نہ مال بلکہ دیگر صحابہ کی طرح مسجد کا چبوترہ میرا ٹھکانہ تھا۔ لوگ ہمیں اسلام کا مہمان کہہ کر پکارتے تھے۔ جب کوئی مسلمان رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ لے کر آتا آپﷺ وہ سبھی کچھ ہمارے پاس بیھج دیا کرتے تھے ، جب کوئی تحفہ لے کر آتا تو اس میں سے تھوڑا سا آپﷺ لیتے باقی ہماری طرف بیھج دیا کرتے۔ میرے دل میں خیال ایا کہ میں بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے مال و دولت کا سوال کروں تاکہ میں بھی دوسروں کی طرح صاحب مال و دولت، رفیقہ حیات اور اولاد والا بن سکوں، لیکن ساتھ ہی ایک دوسرا خیال میرے دل میں آیا
۔
اے ربیعہ ! افسوس تو کیا سوچ رہا ہے۔ یہ دنیا تو ڈھلتی چھاوں ہے۔ یہ فنا ہو جائے گی۔ اس میں تیرا رزق اللہ تعالی نے مقرر کر دیا ہے۔ وہ ہر صورت میں تجھے مل کر رہے گا۔
بلاشبہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب کے ہاں بڑا مقام ہے۔ یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی طلب کو بارگاہ ایزدی میں رد نہیں کیا جائے گا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگنا ہے تو آخرت کی بھلائی مانگو۔ یہ دنیا تو جیسے تیسے گزر ہی جائے گی اس میں ہم جیسے لوگوں کے لیے کیا رکھا دھرا پے۔ یہ خیال آتے ہی میرا دل خوش ہو گیا۔ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ربیعہ کیا اردے ہیں؟
میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری یہ التجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے اللہ سے دعا کریں کہ مجھے جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفیق بنا دے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:
کیا خوب! یہ مطالبہ کرنے کی سوچ کس نے پیدا کی؟
میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نے بھی مجھے یہ مطالبہ کرنے کو نہیں کہا۔ بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں سے کچھ مانگوں۔ تو پہلے میرے دل میں خیال آیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا کا مطالبہ کروں۔ پھر اچانک میرے دل میں خیال آیا کیوں ناں باقی رہنے والی آخرت کو فنا ہونے والی دنیا پر ترجیع دوں۔ یہ سوچ کر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے اللہ تعالی سے دعا کریں کہ وہ مجھے جنت میں آپ کا رفیق بنا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک خاموش رہے ۔ پھر ارشاد فرمایا: کیا اس کے علاوہ بھی کوئی مطالبہ ہے؟ میں نے برجستہ کہا: ہرگز نہیں۔ میں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کو ہر چیز پر ترجیع دیتا ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جنت میں میری رفاقت چاہتے ہو تو دل لگا کر زیادہ سے زیادہ عبادت کیا کرو، اس طرح جنت میں رفاقت کا میسر آنا آسان ہو جائے گا۔
میں یہ مثردہ جانفزا سن کر زیادہ وقت عبادت میں مصروف و منہمک رہنے لگا
۔
ابھی جند دن ہی گزرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا:
ربیعہ! کیا تو شادی نہیں کررے گا۔
میں نے عرض کیا ۔میں برضا ورغبت تیار ہوں۔جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سر آنکھوں پر۔ میں اور میرا یہ نصیب زہےقسمت ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا فلاں گھر جاو۔ اہل خانہ سے میرا سلام کہنا اور انہیں یہ پیغام دینا کہ اللہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ ربیعہ کو اپنا داماد بنا لو ۔
میں شرماتا اور جھجھکتا ہوا ان کے پاس گیا ۔سلام کیا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بغیر کسی حیل وحجت کے وہ مجھے اپنا بیٹا بنانے کے لئے تیار ہو گئے اور محبت بھرے انداز میں کہنے لگے کہ حبیب کبریاء کا حکم سر آنکھوں پر ہم انہیں اور ان کے بھیجے ہوئے پیغام رساں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انتخاب، زہے قسمت ، یہ ہماری خوش نصیبی ہے ۔
آئیے تشریف رکھیے۔چشم ما روشن دل ما شاد۔
اس کے بعد بغیر کسی پس و پیش کے انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیا اور میں شاداں اور فرحان اپنی قسمت پر ناز کرتا بار گاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو واقعی ہی قابل رشک گھرانہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنتے ہی انہوں نے مجھے اپنا داماد بنا لیا۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب میں اپنی بیوی کے لئے مہر کہاں سے لاوں؟
یہ سن کر رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور بنو اسلم کے سردار بریدہ کو حکم دیا کہ ربیعہ رضی اللہ عنہ کے لئے سونے کی ڈلی کا انتظام کرے اور اس نے فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سونے کی ڈلی بار گاہ رسالت میں پیش کر دی ۔
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ سونے کی ڈلی لے جاو اور اہل خانہ سے کہنا یہ آپ کی بیٹی کا مہر ہے، اسے قبول فرمائے ۔ میں ان کے پاس گیا ۔ سونے کی وہ چھوٹی سی ڈلی پیش کی۔
قسمت پر ناز کرتا بار گاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو واقعی ہی قابل رشک گھرانہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنتے ہی انہوں نے مجھے اپنا داماد بنا لیا۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب میں اپنی بیوی کے لئے مہر کہاں سے لاوں؟
یہ سن کر رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور بنو اسلم کے سردار بریدہ کو حکم دیا کہ ربیعہ رضی اللہ عنہ کے لئے سونے کی ڈلی کا انتظام کرے اور اس نے فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سونے کی ڈلی بار گاہ رسالت میں پیش کر دی ۔
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ سونے کی ڈلی لے جاو اور اہل خانہ سے کہنا یہ آپ کی بیٹی کا مہر ہے،اسے قبول فرمائے ۔ میں ان کے پاس گیا ۔ سونے کی وہ چھوٹی سی ڈلی پیش کی۔
انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے قبول کیا۔ میں ان کے اخلاق اور خندہ پیشانی سے بے حد متاثر ہوا اور بار گاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخدا! وہ تو بہت اچھے لوگ ہیں کھجور کی گھٹلی کی مانند سونے کی ڈلی دیکھ کر انہیں کوئی ملال نہ ہوا بلکہ وہ کہنے لگے ،یہی بہت ہے۔
پھر میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔ اب میں ولیمہ کہاں سے کروں؟ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اپنی قوم کے سردار بنو اسلم کو بلا کر لاو۔ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بریدہ اپنی قوم کے اس فرد کی خوشی میں شامل ہوتے ہوئے ایک مینڈھے کا انتظام کرو۔ تاکہ یہ ولیمہ کی سنت ادا کر سکے۔ اس نے فورا حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک موٹا تازہ مینڈھاخرید کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ربیعہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاو اور اسے کہو کہ تجھے آٹا دے دے، میں ان کے پاس گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا انہوں نے فرمایا: کہ برتن میں جو کا آٹا پڑا ہے لے جاو۔ میں نے اسے کپڑے میں ڈالا تقریبا بیس سیر تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اناج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نہ تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور ہمدردی اور محبت کے صدقے جاوں کسقدر اپنے مریدوں کی دل جوئی کا خیال ہے۔
مینڈھا اور آٹا لے کر لے میں سسرال کے گھر گیا اور یہ دونوں چیزیں ان کے سپرد کیں تاکہ ولیمے کا انتظام ہو سکے۔
انہوں نے کہا روٹی ہم تیار کر دیتے ہیں اور یہ جانور اپنے دوست احباب سے کہیں کہ ذبح کر کے وہ پکا دیں، لہذا میری قوم کے چند افراد نے اسے ذبح کیا اور پکایا۔ روٹی اور سالن تیار ہو گیا۔ میں نے محسن انسانیت، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دعوت دی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بخوشی قبول کی اور اس میں شرکت کر کے میری حوصلہ افزائی کی ۔
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زمین سے ملحق مجھے بھی زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کر دیا۔ اس طرح دنیا کے مال کا میرے گھر ورد ہونے لگا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ ایک کھجور کے درخت کی وجہ سے میرا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جھگڑا ہو گیا۔ میں نے کہا یہ درخت میرا ہے کیونکہ یہ میری زمین میں ہے۔ وہ فرمانے لگے: یہ درخت میرا ہے اور ایک عرصے سے میری ملکیت ہے۔
جب میں نے اپنی ملکیت پر اصرار کیا تو انہیں غصہ آ گیا اور مجھے جلی کٹی سنانے لگے۔ میں خاموش ہو گیا۔ جب ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو آپ بہت پشیمان ہوئے۔ غم و اندوہ سے کبیدہ خاطر ہو کر کہنے لگے:
ربیعہ! مجھے معاف کر دو۔ یا ویسے ہی کلمات مجھے کہو جو میں نے تمہیں کہے ہیں تاکہ دنیا میں ہی حساب بے باک ہو جائے
میں نے کہا بخدا میں آپ کو ایسا کہنے کی جرآت نہیں کروں گا۔
تو جلال میں آ کر کہنے لگے: اگر بدلہ نہیں لو گے، تو میں تمھاری شکایت بارگاہ رسالت میں کروں گا۔ یہ کہہ کر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیئے میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ میری قوم کے چند افراد بھی میرے ساتھ چل پڑے۔ وہ میرے کان میں کہنے لگے یہ بھی عجیب ماجرا ہے۔ غصے کا نشانہ بھی تجھے ہی بنایا گیا اور الٹی شکایت بھی تیری ہونے لگی۔ میں نے یہ سن کر ان کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا: جانتے ہو یہ کون ہیں؟ ان کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔
سن لو! یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ مسلمانوں کے محسن ہیں۔
خبردار! اگر ان کے خلاف کسی نے کوئی بات کی۔ تم یہیں سے واپس چلے جاؤ۔ تمھاری مدد کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ وہ واپس لوٹ گئے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں پیش ہو کر سارا واقعہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا دیا۔ آپﷺ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا:
ربیعہ (رضی اللہ عنہ) کیا بات ہے؟
میں نے ادب سے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ غصے میں آ کر جس طرح انہوں نے مجھے کہا ویسے ہی میں ان سے بدلہ لوں۔ بھلا میں یہ جرآت کیسے کر سکتا ہوں!
آپﷺ نے فرمایا:
ربیعہ! تم نے بہت اچھا کیا۔
لیکن اب یہ کہو کہ الہی ! میں نے سچے دل سے ابو بکر کو معاف کیا۔
میں نے جب یہ کہا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے فورا خوشی سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمانے لگے ۔ ربیعہ! اللہ تجھے جزائے خیر عطا کرے۔ تو نے مجھ پر احسان کیا ہے۔
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
ا۔ اسد الغابہ : 171/2
2- الاصابہ : 511/1
3۔ الاستیعاب : 506/1
4۔ البدایہ و النھایة : 335-336
5۔ کنز الایمان : 36/7
6۔ الطبقات الکبری : 313/4
7۔ مسند ابی داود : 161-162
8۔ تاریخ الخلفاء : 56
9۔ مجمع الزوائد : 252/4-257
10۔ حیاة صحابہ : فہرست دیکھیے
11۔ تھذیب التھذیب : 262/3- 263
12۔ خلاصہ تھذیب تھذیب الکمال : 116
13۔ تجربہ اسماء الصحابہ : 194/1
14۔ الجمیع بین رجال الصحیحین : 136/1
15۔ الجرح و التعدیل : 472/2
16۔ تاریخ الکبیر: 256/2
17۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط : 111
18۔ الطبقات الکبری : 313/4-314
19۔ تاریخ اسلام ذھبی 15/3
20۔ الفصل الاسلامیہ فی عھد النبوہ
والراشدین : 656/2 احمد حافظ حکمی
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد ۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments