حضرت طلحہ بن عبید اللہ التمیمی رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت طلحہ بن عبید اللہ التمیمی رضی اللہ عنہ
من سرہ ینظر الی رجل یمشی علی الارض وقد قضی نجه فلینظروا الی طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ♡فرمان نبوی ﷺ ♡
طلحہ بن عبداللہ قریش کے ایک تجارتی قافلہ کے ہمراہ جا رہے تھے جب یہ قافلہ بصرہ شہر پہنچا تو بڑے بڑے قریشی تاجر خرید وفروخت کے لئے وہاں کی مقامی آبادی کی منڈی کی طرف چل پڑے ۔
طلحہ ابھی نو عمر تھے اور میدان تجارت میں نو خیز، لیکن بلا کی ذہانت وبصیرت کی بنا پر میدان تجارت میں کامیابی وکامرانی سے ہم کنار ہونے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے ۔
طلحہ رضی اللہ عنہ صبح و شام اس منڈی میں جایا کرتے تھے جہاں ہر جگہ سے آنے والے تاجروں کا ہجوم رہتا۔
اس سفر میں انہیں ایک ایسا واقع پیش آیا جس نے ان کی زندگی کا رخ تبدیل کر دیا ۔
یہ نصیحت آموز واقعہ طلحہ بن عبید اللہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم بصرہ کے بازار میں خرید و فروخت میں مشغول تھے ۔اچانک ایک راہب لوگوں میں یہ منادی کرنے لگا ۔اے تاجرو !مجھے بتاو کیا تم کوئی ایسا شخص بھی ہے جو مکے سے آیا ہو میں اس راہب کے بالکل قریب کھڑا تھا جلدی سے بولا ہاں۔میں مکے سے آیا ہوں۔
اس نے مجھ سے پوچھا ۔
کیا تم میں احمد کاظہور ہو چکا ہے؟
میں نے پوچھا :
احمد صلی اللہ علیہ وسلم کون؟
اس نے کہا۔ ابن عبداللہ بن عبدالمطلب ۔
اس مہینے میں اس کا ظہور ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو گا ۔ مکہ میں پیدا ہو گا اور مدینہ کی طرف ہجرت کر جائے گا ۔
اے نوجوان تم جلدی سے اس کے پاس جانا ۔
طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ راہب کی باتیں میرے دل میں گھر کر گئیں۔ میں جلدی سے اپنی سواری کی طرف گیا اس پر سوار ہوا اور تجارتی قافلے کو وہیں چھوڑتے ہوئے مکہ کی جانب چوکڑیاں بھرتے ہوئے بھاگ نکلا ۔
جب میں وہاں پہنچا تو گھر والوں سے دریافت کیا: کیا ہمارے جانے کے بعد مکہ میں کوئی نیا واقعہ پیش آیا ہے ؟
انہوں نے بتایا ہاں!
محمدﷺ بن عبداللہ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کی بات مان لی ہے۔
طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو بکر کو پہلے سے جانتا تھا ،یہ بڑے نرم خو ہمدرد اور ہر دلعزیز انسان تھے اور یہ کہ وہ ایک خوش اخلاق اور مستقل مزاج تاجر تھے۔ہم ان سے مانوس تھےاور انکی مجلسوں میں بیٹھنا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ قریش کی تاریخ سے خوب اچھی طرح واقف تھے ۔میں سیدھا ان کے پاس گیا اور پوچھا
کیا یہ بات درست ہے کہ محمد بن عبداللہ نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے؟
اور آپ ان کے مطیع و فرمابردار بن گئے ہیں؟
انہوں نےکہا ہاں!
پھر وہ اپنی آپ بیتی سنانے اور مجھے بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے لگے ،میں نے انہیں راہب کی بات بتائی تو وہ یہ سن کر حیران و ششدر رہ گئے اور کہنے لگے ابھی میرے ساتھ چلو خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ بات پیش کرو اور ان کی باتیں سنو تاکہ تم دائرہ اسلام میں داخل ہو سکو۔
طلحہ کہتے ہیں کہ:
میں حصرت محمدﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا آپ نے میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، قرآن مجید کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور مجھے دنیا وآخرت کی بھلائی کی خوش خبری دی ۔
اللہ سبحان تعالی نے اسلام کے لئے میرا سینہ کھول دیا ۔میں نے بصرہ کے راہب کا واقعہ سنایا ۔آپﷺ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ ایک راہب نے آپﷺ کے ظہور کے متعلق خبر دی ۔
پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا اس طرح میں چوتھا انسان تھا جس نے حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام قبول کیا ۔
اس قریشی نو جوان کا اسلام قبول کرنا اہل خانہ کو ایسا نا گوار گزرا جیسے اچانک ان پر بجلی گر پڑی ہو ۔ان کے اسلام قبول کرنے کا سب سے زیادہ افسوس ان کی والدہ کو ہوا ۔ماں کی دلی خواہش تھی کہ میرا بیٹا اپنی قوم کا سردار بنے ،کیونکہ اس میں سردار بننے کی بھر پور صلاحتیں موجود ہیں ۔
اسلام سے منحرف کرنے کے لئے ان کی قوم حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی ،لیکن یہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔جب یہ حسن سلوک سے اپنی بات منوانے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے درد ناک تکالیف دے کر اپنی بات منوانے کا حربہ استعمال کیا ۔
مسعود بن خراش بیان کرتے ہیں کہ:
میں صفا ومروہ کے درمیان سعی کر رہا تھا۔بہت سے لوگ ایک ایسے انسان کے پیچھے لگے ہوئے تھے جس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ جکڑے ہوئے تھے ۔پیچھے سے اس کو عورتیں اور مرد ٹھوکریں مار کر بھاگنے پر مجبور کر رہے تھے اور خود شور و غل مچاتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے ۔ان میں سے ایک بڑھیا عورت چیختی چلاتی ہوئی اس کو گالیاں دے رہی تھی ۔میں نے لوگوں سے پوچھا یہ نوجوان کون ہے ؟
کیوں اسے تکلیف دی جا رہی ہے انہوں نے بتایا کہ یہ عبیداللہ کا بیٹا طلحہ ہے
یہ بے دین ہو گیا اس نے بنو ہاشم کے ایک نوجوان کی پیروی کر لی ہے ۔
میں نے پوچھا کہ اس کے پیچھے یہ بڑھیا کون ہے؟
انہوں نے بتایا یہ اس نوجوان طلحہ رضی اللہ عنہ کی والدہ معبہ بنت حضری ہیں ۔
پھر اپنے آپ کو شیر قریش کہلانے والے نوفل بن خویلد اٹھا اس نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ اور ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو ایک رسی میں جکڑا اور مکہ کے اوباش نو جوانوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ ان دونوں کو عبرت ناک سزا دے سکیں۔
پھر تیزی سے دن گزر گئے واقعات و داستانیں جنم لیتی رہیں اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ترقی اور کمال کی منزلیں طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے ۔
اللہ کی راہ میں ان کی آزمائش دن بدن فزوں تر ہوتی گئی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اور وفاداری میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا ۔
یہاں تک کہ لوگ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو زندہ شہید کے لقب سے یاد کرنے لگے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نیک طلحہ، سخی طلحہ، فراخ دل طلحہ کے لقب سے پکارتے۔ہر لقب اپنے دامن میں ایک داستان لئے ہوئے ہے ۔
زندہ شہید کے لقب کی داستان یہ ہے کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو انصار صرف تیرہ اور مہاجرین میں صرف حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے سب بکھر گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور یہ ساتھی پہاڑی پر چڑھ رہے تھے کہ مشرکین کا ایک جتھا آ پہنچا جو آپﷺ کو قتل کر دینا چاہتا تھا آپﷺ نے نازک صورتحال دیکھ کر ارشاد فرمایا:
آپ میں سے کون ہے جو ان کو یہاں سے بھگائے؟ وہ میرا جنت میں رفیق ہو گا ۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!
آپﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں تم ابھی رہنے دو ،انصار میں سے ایک شخص بولا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!
آپﷺ نے ارشاد فرمایا۔ہاں، تم مقابلے کے لئے آگے بڑھو ۔
وہ انصاری آپﷺ کا حکم پا کر بےجگری سے لڑا یہاں تک کہ شہید ہو گیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی کچھ اور اوپر چڑھے تو مشرکین نے پھر گھیرا ڈال لیا ۔
آپﷺ نے فرمایا ان کا کون مقابلہ کرے گا؟
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
آپ نے ارشاد فرمایا: نہیں تم ابھی نہیں ۔
انصار میں سے ایک شخص بولا میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
آپ نے ارشاد فرمایا:ہاں تم آگے بڑھو ! یہ انصاری مقابلے میں اترا اور جام شہادت نوش کر گیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل پہاڑ کی بلندی کی طرف چڑھتے گئے اور مشرکین بھی پیچھے لگے رہے ، یہاں تک کہ آپ کے ہمراہ تمام انصاری جام شہادت نوش کر گئے اور آخر صرف حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ رہ گئے۔
آپ نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو مشرکین کا مقابلہ کرنے کی اجازت دے دی ۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہو چکے تھے ۔آپﷺ کی پیشانی خون آلود تھی ۔ہونٹوں پر گہرے زخم آ چکے تھے ۔خون آپﷺ کے چہرے مبارک بہہ رہا تھا۔تھکاوٹ اور زخموں سے آپﷺ نڈھال ہو چکے تھے۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے اکیلے مشرکین پر ایک زوردار حملہ کرتے اور جب انہیں پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو جاتے تو تیزی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپکتے اور آپﷺ کو سہارا دے کر پہاڑ کی بلندی کی طرف چڑھتے ۔
پھر آپﷺ کو چٹان کی اوٹ میں بٹھا کر نئے سرے سے مشرکین پر حملہ آور ہوتے۔مسلسل اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ یہ مشرکین کو وہاں سے بھگانے میں کامیاب ہو گئے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کافی فاصلے پر تھے، جب ہم وہاں پہنچے ان کی مرہم پٹی کرنے لگے تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو اور اپنے ساتھی طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کی خبر لو ۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کا خون بہہ رہا تھا ،ان کے جسم پر ستر سے زائد نیزے اور تلوار کے زخم لگ چکے تھے ۔ایک ہاتھ بھی کٹ چکا تھا ۔بے ہوش ہو کر ایک گڑھے میں گر چکے تھے ۔
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے جو چاہتا کہ کسی زندہ شہید کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تو طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے ۔۔۔۔۔۔۔
حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ احد کی لڑائی تو در حقیقت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے ہی لڑی اور اس کی کامیابی کا سہرہ بھی اسی کے سر ہے ۔
یہ تو حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو زندہ شہید کا لقب ملنے کی داستان ہے جہاں تک طلحہ الخیر (نیک دل طلحہ )اور طلحہ الجود (سخی طلحہ )کا لقب ملنے کا تعلق ہے اس ضمن میں تو سینکڑوں واقعات بیان کئے جا سکتے ہیں۔
ان میں سے صرف ایک واقعہ پیش خدمت ہے ۔حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بہت بڑے تاجر تھے ایک ان کے پاس حضر موت سے سات ہزار درھم آئے
یہ رات انہوں نے غم و اندوہ اورحزن و ملال میں گزاری ۔
آپ کی بیوی کلثوم بنت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:
میرے سر کے تاج ! شاید مجھ سے کوئی ایسی بات ہو گئی جو آپ کو ناگوار گزری ۔فرمانے لگے نہیں:
آپ تو بہت فرمابردار اور نیک بیوی ہو ۔میں رات بھر یہ سوچتا رہا کہ وہ شخص اپنے رب کو کیا جواب دے گا جو اپنے گھر میں رات اس حال میں گزار رہا ہے کہ اس کے پاس کثیر مقدار میں مال و دولت موجود ہے ۔
بیوی نے کہا کہ یہ کون سی غم و اندوہ والی بات ہے؟
آپ کی قوم اور دوست و احباب میں بہت سے لوگ موجود ہیں جو ضرورت مند ہیں۔ صبح ہوتے ہی یہ مال ان میں تقسیم کر دیں۔یہ تجویز سن کر وہ خوش ہو گئے اور اپنی بیوی کو دعائیں دینے لگے۔
جب صبح ہوئی تو تمام مال تھیلوں میں اور بڑے پیالوں میں رکھا اور مہاجر و انصار فقراء میں تقسیم کر دیا ۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس ایک شخص مالی تعاون کے لئے آیا اور رحم دلی کا اس نے حوالہ دیا ۔حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میری رحم دلی کا اس سے پہلے کسی نے تذکرہ نہیں کیا تھا۔ فرمانے لگے میرے پاس زمین کا ایک پلاٹ ہے جو مجھے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے دیا تھا چاہو تو یہ پلاٹ لے لو اور اگر چاہو تو اس کی قیمت تین لاکھ درھم بنتی ہے وہ لے لو ۔وہ شخص کہنے لگا میں تو قیمت ہی لوں گا۔ آپ نے اسے تین لاکھ درھم عنایت کر دئیے۔
حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو خیر وجود کا لقب مبارک ہو جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا ۔ اللہ ان سے راضی ہو اور ان قبر کو منور کر دے آمین ثمہ آمین۔
حصرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
1۔طبقات ابن سعد۔۔۔153/3
2۔تہذیب التھذیب ۔۔۔20/5
3۔البدء و التاریخ۔۔۔12/5
4۔الجمع بین رجال الصحیحین۔۔230
5۔غابہ النایہ۔۔۔342/1
6۔الریاض النضرہ۔۔249/2
7۔صفہ الصفوہ۔۔۔130/1
8۔حلیہ الاولیاء۔۔7/1
9۔ذیل المذیل ۔۔11
10تھذیب ابن عساکر ۔۔71/7
11۔العبر ۔۔۔۔355
12۔رغبہ الامل۔۔۔۔89،16/3
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments