حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ





۔بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ 



حضرت ابو ہریرہ اللہ رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کے لئے ایک ہزار چھ سو سے زائد احادیث رسولﷺ زبانی یاد کیں۔

                     ♧مورخین♧   

             

   

یقینا آپ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے اس چمکتے ہوئے ستارے کو ضرور جاتے ہوں گے ۔بھلا امت مسلمہ میں وہ کون ہے جو حضرت ابو ہریرہ کو نہیں جانتا؟


زمانہ جاہلیت میں لوگ اسے عبد شمس کے نام سے جانتے تھے اللہ تعالی نے جب ان پر کرم فرمایا اور وہ مسلمان ہو گئے ۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارا کیا نام ہے ؟


عرض کیا :عبد شمس 


رسول اللہ ﷺ نےارشادفرمایا:


نہیں، بلکہ آج سے تمہارا نام عبدالرحمن ہے ۔


عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان آپﷺ کا تجویز کردہ نام عبدالرحمن مجھے بہت پسند ہے۔


ان کی کنیت ابو ہریرہ اس لئے پڑی کہ یہ بچپن میں ایک چھوٹی سی بلی کے ساتھ کھیلا کرتے تھے ان کے ہم عمر ساتھی انہیں ابو ہریرہ کہا کرتے تھے۔ یہ کنیت اتنی مشہور ہوئی کہ بالآخر ان کے نام پر بھی غالب آگئی۔



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیار سے ابو ہریرہ کہا کرتے تھے ۔یہ بھی اپنے آپ کو ابو ہر یرہ کہلانا پسند کرتے اور فرمایا کرتے کہ مجھے میرے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نام سے پکارا وہ بہتر ہے۔


ہر مذکر ہے اور ہریرہ مونث ہے مذکر بہرحال مونث سے بہتر ہوتا ہے ۔


حصرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے اسلام قبول کیا۔ہجرت کے چھ سال بعد تک یہ اپنی قوم دوس میں ہی رہے ۔اس کے بعد یہ اپنی قوم کے ایک وفد کے ہمراہ مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ۔


اس دوسی نوجوان نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔


ہر وقت مسجد میں رہتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کرتے اور آپﷺ کی امامت میں نمازیں پڑھتے۔ 


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں انہوں نے شادی نہیں کی ۔



ان کی بوڑھی والدہ مسلسل انہیں شرک کی طرف لوٹانے کی کوشش کرتی رہیں اور یہ انہیں مسلسل دائرہ اسلام میں لانے کی کوشش کرتے رہے ،لیکن والدہ مسلسل انکار ،ہٹ دھرمی،نفرت اور حقارت کے راستے پر گامزن رہی جس کی وجہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا دل ہمیشہ افسردہ رہتا۔


ایک روز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے غصے میں آکر ایسی جلی کٹی باتیں سنائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی ناگوار باتیں کیں جس سے انہیں بہت دلی صدمہ ہوا ۔



یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے ہوئے گئے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روتے کیوں ہو ؟

       

عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور وہ اسے قبول کرنے سے انکاری ہے ۔آج میں نے جب اسے اسلام کی طرف دعوت دی تو اس نے آپﷺ کے متعلق ایسی جلی کٹی باتیں سنائیں اور مجھے بہت ناگوار گزریں ۔



یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ میری ماں کا دل اسلام کی طرف مائل کر دے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں گھر پہنچا تو حالات بدلے ہوئے تھے۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی میری ماں نہا رہی تھی۔ گھر میں داخل ہونے لگا تو میری ماں نے کہا:


ابو ہریرہ ٹھر جاو۔


والدہ نے نہا کر کپڑے پہنے اور کہا : اندر آجاؤ۔ میں اندر داخل ہوا تو مجھے دیکھتے ہی میری ماں پکار اٹھی ۔


اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ۔


میں اس وقت الٹے پاوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں بے انتہا خوشی کی وجہ سےزار وقطار رو رہا تھا جس طرح کہ پہلے غم واندوہ اور حزن وملال کی وجہ سے رویا کرتا تھا ۔


میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبارک ہو اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول کر لی۔ میری ماں نے اسلام قبول کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے رگ و ریشہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سرایت کر چکی تھی۔ دیدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی ان کی نگاہیں سیر نہ ہوتیں۔ اکثر فرمایا کرتے تھے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے بڑھ کر کوئی حسین چہرہ نہیں دیکھا ۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے رخ انور کے فلک پر آفتاب رواں دواں ہو ۔


ہمیشہ اللہ تعالی کی حمد و ثناء کرتے رہتے۔ اس لئے کہ اس ذات وبرکات نے انہیں اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اپنے دین کی پیروی کرنے کا شرف بخشا ۔


فرمایا کرتے تھے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید کا علم عطا کیا ۔


سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہونے کا شرف بخشا۔


 

جس طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت تھی ،اسی طرح دینی علم حاصل کرنے کا شوق ان کے دل میں سمایا ہوا تھا

حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ہمارا ایک ساتھی ہم تینوں اللہ کے حضور دعائیں مانگ رہے تھے ۔اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے پاس بیٹھ گئے ہم سہم گئے اور خاموش ہو گئے ۔



آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنا کام جاری رکھیں ۔



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پہلے میں اور میرے ساتھی نے دعا کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا ۔


پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے دعا کی اور کہا:

الہی میں تجھ سے وہی مانگتا ہوں جو میرے ان ساتھیوں نے مانگا اور مزید مجھے وہ علم عطا کر جو بھولے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہا ۔


ہم نے عرض کیا :


ہم بھی اللہ سے وہ علم مانگیں جو بھلا نہ جا سکے۔



ہماری یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دوسی نوجوان تم سے سبقت لے گیا ۔



جس طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو خود علم سے والہانہ محبت تھی اسی طرح وہ اپنے ساتھیوں کے دل میں علم کی جوت جگانا چاہتے تھے ۔



ایک روز وہ مدینہ منورہ کے ایک بازار سے گزر رہے تھے لوگوں کو دنیاوی کاموں میں منہمک دیکھ کر غم زدہ ہو گئے۔ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئےبآواز بلند کہا:


اے باشندگان مدینہ! تم محروم وبے کس رہ گئے۔



لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تم نے ہماری کون سی محرومی اور بے کسی دیکھی ہے ۔



آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم کی جا رہی ہے اور تم یہیں ہو۔



بھلا تم وہاں جا کر اپنا حصہ کیوں نہیں لیتے ۔


لوگوں نے پوچھا میراث کہاں تقسیم ہو رہی ہے؟


آپ نے فرمایا مسجد میں۔

وہ جلدی سے مسجد میں گئے ۔ حضرت ابوہریرہ لوگوں کے واپس آنے تک وہیں کھڑے رہے ۔جب لوگوں نے انہیں دیکھا تو کہنے لگے۔۔۔۔



ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہم مسجد گئے ہیں ہم وہاں کوئی چیز تقسیم ہوتے نہیں دیکھی۔


آپ نے دریافت فرمایا ۔

کیا تم لوگوں نے مسجد میں کسی کو نہیں دیکھا ؟


انہوں نے کہا :


کیوں نہیں ۔۔۔۔۔ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور کچھ لوگ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے ہیں آور کچھ لوگ حرام وحلال کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:


بڑے افسوس کی بات ہے! یہی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث ہے ۔


حصول علم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے کے سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھوک ،پیاسا، فقر وفاقہ کی جس تکالیف برداشت کرنا پڑیں ۔


عہد صحابہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔وہ اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب بھوک سے میرے پیٹ میں بل پڑنےلگتے تو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےبعض قرآنی آیات کا مفہوم پوچھتا ،حالانکہ مجھے اس کا علم ہوتا ۔مقصد صرف یہ ہوتا کہ وہ میری صورتحال کو بھانپ کر اپنے ساتھ لے جائیں اور کھانا کھلا دیں۔


ایک روز مجھے بے انتہا بھوک لگی، میں نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا اور اس راستے پر بیٹھ گیا ،جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گزر ہوتا ۔حضرت ابو بکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے ۔ میں نے ان سے کتاب الہی کی ایک آیت کا مفہوم پوچھا: میں نے یہ صرف اس لئے پوچھا لہ وہ مجھے کھانے کی دعوت دیں

       

لیکن وہ مفہوم بتا کر چل دئیے اور میری رمز کو نہ سمجھ سکے۔


پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، میں نے ان سے آیت کا مفہوم دریافت کیا ۔انہوں نے بھی میرے ساتھ یہی سلوک کیا، یہاں تک کہ میرے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آیت کا مفہوم پوچھا ۔آپ میری رمز کو پہچان گئے۔

ارشاد فرمایا:

ابو ہریرہ!

میں نے عرض کیا: لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!


آپ نے ارشاد فرمایا: میرے ساتھ چلو ،میں آپﷺ کے پیچھے ہو لیا ۔


آپﷺ کے ساتھ ہی گھر میں داخل ہوا۔آپﷺ نے گھر میں دودھ کا پیالہ دیکھا ۔تو گھر والوں سے دریافت کیا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا؟


انہوں نے کہا فلاں صحابی نے آپﷺ کے لئےبھیجا ہے ۔


آپﷺ نے ارشاد فرمایا ۔

اے ابو ہریرہ! اہل صفہ کو بلا لاؤ۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ایک دودھ کے پیالے سے اہل صفہ کا کیا بنائے گا؟


انتہائی بھوک کی وجہ سے میرا دل چاہتا تھا کہ یہ دودھ کا پیالہ مجھے مل جائے تاکہ میرے جسم میں کچھ توانائی آئے۔


بہر حال آپﷺ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئےاہل صفہ کی جانب چل پڑا اور انہیں بلا لایا ۔جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گئے ۔تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: 


پیالہ پکڑو اور باری باری ان سب کو دودھ پلاؤ میں نے یک بعد دیگرے ان کی خدمت میں دودھ کا پیالہ پیش کیا یہاں تک کہ ان سب نے جی بھر کے پی لیا۔



پھر میں نے پیالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا ۔


آپﷺ نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور فرمایا میں اور تم دونوں ہی رہ گئے ہیں۔


میں نے عرض کیا: بالکل سچ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!

       

آپﷺ نے ارشاد فرمایا: پہلے تم پیو ۔

میں نے پینا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔

جب اپنے لب پیالے سے ہٹاتا تو آپﷺ فرماتے اور پیو، میں پھر پینا شروع کر دیتا، یہاں تک کہ میں پکار اٹھا ۔قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کو برحق مبعوث فرمایا! واللہ پینے کی اب قطعا کوئی گنجائش نہیں رہی پھر آپﷺ نے پیالہ پکڑا اور دودھ نوش فرمایا ۔



اس بات کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ مسلمانوں کے لئے رزق کے دروازے کھول گئے، مختلف مفتوحہ علاقوں سے مال غنیمت وافر مقدار میں آنے لگا ۔ بلا استثناء تمام مسلمان اس سے فیض یآب ہونے لگے۔ اس طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بھی مال و دولت میسر آیا جس سے آپ نے اپنا گھر بنایا سازوسامان خریدااور شادی کی ۔۔۔



لیکن اس مالی فراوانی نے ان کے پاکیزہ دل میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کی ۔آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی، مسکینی کی حالت میں ہجرت کی ۔


بسرہ بنت غزوان کی صرف دو وقت کی روٹی کے لئے ملازمت کی ۔جب مسافر پڑآؤ کرتے تو میں ان کی خدمت کرتا ۔ جب وہ کوچ کرنے کے لئے سوار ہوتے تو میں ان کی سواری کو ہانکتا ۔



پھر اللہ تعالی نے ایسے سبب پیدا کر دئیے کہ میری شادی اس عورت سے ہو گئی جس کے پاس میں ملازم تھا ۔



شکر ہے اس اللہ کا جس نے دین کوایک ضابطہ حیات بنا دیا ۔اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیر بنا دیا ۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے پہلے مدینہ منورہ کے گورنر تھے اور اس منصب نے ان کی طبیعت میں کوئی تکدر پیدا نہیں کیا اور نہ ہی ان کی پاکیزہ روح میں کوئی نخوت کے آثار پیدا کئے ۔



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک دن لکڑیوں کا ایک گٹھا اٹھائے مدینہ منورہ کے ایک بازار سے گزر رہے تھے ۔اس وقت وہ گورنر تھے ۔ثعلبہ بن مالک کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا اے ابن مالک ! اپنے گورنر کے لئے راستہ وسیع کر دو اس نے کہا: اللہ کے بندے گورنر اور اس پیٹھ پر لدھے ہوئے ایندھن کے گٹھے کے لئے راستہ مطلوب ہے ۔



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ تقوی و طہارت کے اعلی معیار پر فائز تھے ۔دن کو روزے رکھتے اور رات کا ایک تہائی حصہ عبادت میں مصروف رہتے ۔پھر اپنی بیوی کو بیدار کرتے وہ رات کے دوسرے تہائی حصے میں مصروف عبادت رہتی پھر وہ اپنی بیٹی کو بیدار کر دیتی وہ رات تیسرے تہائی حصے میں مصروف عبادت ہو جاتی ۔اس طرح پوری رات ان کے گھر عبادت ہوتی رہتی

       

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک سوڈانی لونڈی تھی ایک دن وہ گستاخی سے پیش آئی ۔جس سے آپ غضبناک ہو گئے اسے مارنے کے لئے کوڑا اٹھایا پھر ہاتھ روک لیا اور فرمایا: 


اگر قیامت کے روز قصاص کا اندیشہ نہ ہوتا تو آج خوب تیری پٹائی کرتا لیکن میں تجھے ایسے شخص کے ہاتھوں بیچ دوں گا جو مجھے تیری زیادہ سے زیادہ قیمت دے گا کیونکہ مجھے ان دنوں پیسوں کی بہت ضرورت ہے پھر کچھ سوچ میں پڑ گئے ۔کچھ دیر بعد اپنا سر اوپر اٹھایا اور ارشاد فرمایا:


جاو میں نے تجھے اللہ تعالی کے لئے آزاد کیا ۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے کہا :


ابا جان میری سہیلیاں مجھے طعنہ دہتی ہیں اور کہتی کہ تیرے ابو نے تجھے کوئی زیور بنا کر نہیں دیا۔



آپ نے فرمایا بیٹا :

اپنی سہیلیوں سے کہنا :میرے ابا جان جہنم کے انگاروں سے ڈرتے ہیں ۔



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کو اگر زیور بنا کر نہیں دیا تواس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بخیل تھے ۔آپ تو اللہ کی راہ میں بے دریغ سخاوت کرنے کے دھنی تھے۔


ایک دن مروان بن حکم نے ان کے لئے سو دینار بھیجے۔ دوسرے دن پیغام بھیجا کہ میرے خادم نے غلطی سے آپ کو سو دینار دے دئیے ہیں۔میں تو یہ کسی اور کو دینا چاہتا تھا ۔یہ سن کر حضرت ابوہریرہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔آپ نے فرمایا میں تو یہ دینار اللہ کی راہ میں خرچ کر چکا ہوں،ان میں سے ایک دینار نے بھی میرے گھر میں رات نہیں گزاری ۔جب بیت المسل سے میرا حصہ نکلے گا تو آپ لے لیجئے گا۔ 


مروان نے یہ انداز صرف آپ کا جائزہ لینے کے لئے کیاتھا۔جب معاملے کی تحقیق ہوئی تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو صحیح پایا۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ زندگی بھر اپنی ماں کے فرمابردار اورخدمت گزار رہے ۔جب گھر سے باہر جاتے توپہلے اپنی ماں کے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوتے اور کہتے :

اماں جان !اسلام وعلیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔


اماں جان جواب میں کہتیں: میرے بیٹے و علیکم السلام و رحمت اللہ وبرکاتہ۔۔

       


 پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:


اماں جان! اللہ تعالی آپ پر اسی طرح نوازشات کی برکھا برسائے جس طرح آپ نے بچپن میں میری پرورش کی۔


تو وہ جواب میں فرماتیں ۔

بیٹا! آپ پر اللہ اپنی رحمت کی برکھا برسائے۔ تو بڑھاپے میں میرے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا۔


جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ گھر لوٹتے تو وہی انداز اختیار کرتے ۔



ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی بہت زیادہ ترغیب دلایا کرتے تھے ۔ایک رو ز آپ نے دیکھا کہ دو شخص ایک ساتھ چلے جا رہے ہیں۔ایک ان میں عمر رسیدہ تھا ۔چھوٹے سے پوچھا یہ شخص کون ہے؟ اس نے کہا یہ میرے ابا جان ہیں۔


آپ نے فرمایا کبھی اس کا نام لے کر نہ بلانا ،

کبھی ان کے آگے نہ چلنا ۔

کبھی ان سے پہلے نہ بیٹھنا ۔


جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے۔ تو زار وقطار رونے لگے آپ سے پوچھا گیا ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپ روتے کیوں ہیں۔

آپ نے فرمایا:

میں تمہاری اس دنیا پر آنسو نہی بہاتا میں تو روتا اس لئے ہوں کہ سفر بہت لمبا ہے اور زاد راہ بہت تھوڑا ہے۔ میں اس راستے کے کنارے پر کھڑا ہوں جو مجھے یا جنت یا جہنم میں لے جائے گا۔۔۔۔میں نہیں جانتا کہ میرا انجام کیا ہو گا ۔


خلیفہ وقت مروان بن حکم نے عیادت کی اور دلاسہ دیتے ہوئے کہا: 


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالی آپکو شفا عنایت کر ۔آپ نے یہ دعا کی : الہی میں تیری ملاقات کو محبوب جانتا ہوں تو بھی میری ملاقات کو محبوب گرداننا اور مجھے جلد اپنی زیارت نصیب فرما۔


مروان بن حکم نے ابھی گھر سے باہر قدم رکھا ہی تھا کہ آپ اللہ کو پیارے ہو گئے اللہ سبحانہ وتعالی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ۔انہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک ہزار چھ سو نو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد کر رکھی تھیں۔



اللہ سبحان تعالی انہیں مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔



حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:


1۔الاصابہ۔ 207۔199


2الاستیعاب۔ 698 ۔697


3۔اسد الغابہ ۔ 317۔315/5


4۔تہذیب التھذیب ۔ 267۔262/12


5۔تقریب التھذیب ۔ 484/2


 6۔الجمع بین رجال


 الصحیحین ۔601۔۔602/2


7۔تجرید اسماء الصحابہ۔223/2


8۔حلیتہ الاولیاء۔385۔۔376/1


9۔صفتہ الصفوہ۔289۔295/1


10۔تزکرہ الصحابہ۔31۔28/1


11۔المعار لابن قتیبہ۔121۔120۔


12 ۔طبقات الشعرانی۔33۔32


13۔معرفہ القراء الکبار۔40۔41


14۔شزرات الذھب۔۔64۔۔63/1


15۔الطبقات الکبری۔۔361۔۔362/2


16۔تاریخ اسلام ذھبی۔339۔333/2


17۔البدایہ والنھایہ۔115۔103


18۔ابوہریرہ من سلسلہ اعلام العرب۔



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد 

  

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی 

Post a Comment

0 Comments