حضرت سلمہ بن قیس اشجعی رضی اللہ عنہ
۔بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت سلمہ بن قیس اشجعی رضی اللہ عنہ
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے رات بھر مدینہ منورہ کی گلیوں میں پہرہ دیا تاکہ لوگ جی بھر کے اطمینان سے سو سکیں ۔
آپ پہرے کے دوران پوری رات گلیوں اور بازاروں میں چکر لگاتے رہے اور ساتھ ساتھ بہادر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق سوچتے رہے کہ ان میں سے ایران کے مغربی صوبے اہواز کو فتح کرنے کے لئے لشکر اسلام کا سپہ سالار کس کو بنایا جائے ۔۔
سو چتے سوچتے ان کی نظر انتخاب سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ پر پڑی تو خوشی سے اچھل پڑےاور فرمانے لگے آ۔۔۔۔۔۔ ہا کیا کہنے ! میں ایک مناسب سپہ سالار کے انتخاب میں کامیاب ہو گیا ہوں ۔
جب صبح ہوئی تو آپ نے حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا:
سلمہ میں نے آپکو اہواز کی مہم پر روانہ ہونے لشکر کا سپہ سالار مقرر کیا ہے ۔ بنام خدا! اپنی کمان میں لشکر اسلام کو لے کر روانہ ہو جاو۔ پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو ،اگر وہ اسلام قبول کر لیں اور اپنے گھروں میں بیٹھنا پسند کریں اور تمہارے ساتھ جہاد میں شریک نہ ہوں تو ان سے صرف زکوة وصول کرنا ۔ بایں صورت مال غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہو گا ۔اگر وہ تمہارے ساتھ جہاد میں شریک ہو جائیں تو پھر وہ مال غنیمت میں برابر کے شریک ہوں گے۔اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں تو ان سے بہرصورت ٹیکس وصول کرنا اور دشمن سے ان کی حفاظت کرنا اور انہیں ایسی تکلیف نہ دینا جسے وہ برداشت نہ کر سکیں۔اگر وہ ٹیکس دینے سے انکار کر دیں تو پھر ان سے جنگ کرنا ۔اللہ تعالی تمہاری مدد کرے گا ۔اگر وہ لڑائی کے دوران قلعہ بند ہو جائیں۔اور تم سے مطالبہ کریں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار ہیں توان کی یہ تجویز منظور نہ کرنا کیونکہ تمہیں علم نہیں کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کی مراد کیا ہے ؟
اگر وہ مطالبہ کریں کہ ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے پر سرنگوں ہوتے ہیں تو تم ان کی یہ تجویز بھی منظور نہ کرنا اس میں کوئی مکر و فریب پوشیدہ نہ ہو البتہ وہ تمہارے سامنے آکر ہتھیار ڈال دیں تو پھر ان پر تلوار نہ چلانا۔
جب تم لڑائی میں کامیاب ہو جاو تو حد سے تجاوز نہ کرنا ،نہ عذر کرنا نہ ہی دشمن کے ناک ،کان کاٹنا اور نہ ہی کسی بچے کو قتل کرنا۔
حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین کی نصیحت امیز باتیں سن کر ان پر عمل کرنے کا اقرار کیا
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں بڑی گرم جوشی سے رخصت کیا اور ان کے لئے کامیابی وکامرانی کی دعا کی ۔
حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کو اس بھاری ذمہ داری کا پوری طرح اندازہ تھا
جوامیر المومینین نےاسکے کندھے پر ڈالی تھی۔ اس لئے کہ ایران کا صوبہ اہواز دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں سے تھا اور بصرہاور ایران کے درمیان سرحد پر واقع تھا اور یہاں ایک بہادر اور جنگجو قوم کرد آباد تھی مسلمانوں کے لئے اس کو فتح کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہ تھا ،کیونکہ بصرہ میں آباد مسلمانوں کو ایرانیوں کے حملوں سے اسی طور بچایا جا سکتا تھا کہ آہوز پر مسلمانوں کا قبضہ ہو۔
۔حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ لشکر اسلام کو لے کر روانہ ہو گئے ۔ابھی وہ سر زمین آہواز میں داخل ہوئے ہی تھے۔ کہ انہیں نا مساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ لشکر اہواز کے چٹیل پہاڑوں پر بمشکل چڑھنے لگے اور آگے نشیبی علاقوں میں گلے سڑے پانی کے جوہڑوں سے کبیدہ خاطر ہو کر گزرنے پر مجبور ہوا۔
راستے میں نکلنے والے زہریلے اژدہوں اور بچھووں کو تہس نہس کرتے ہوئے آگے بڑھتے گیا۔
اس دشوار گزار راستے میں سپہ سالار حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی لشکر کو حاصل تھی جس کی وجہ تکلیف، راحت اور حسن وملال فرحت وشادمانی میں تبدیل ہو گیا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ اپنے لشکر کو پندونصائح سے نوازتے جس سے ان کے حوصلے بلند تر ہوتے جاتے ۔
رات کا سماں قرآنی آیات کی عطر بیز فضاؤں سے مہک اٹھتا۔ رات بھر تمام مجاہدین قرآن مجید کی ضیاء پاشیوں سے اپنے سینوں کو منور کرتےاور اس کے لعل و جواھر سے اپنے دامن کو بھرتے رہتے۔جس کی وجہ سے تکلیف کو بھی بھول چکے تھے۔
حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے امیر المومینین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق باشندگان اہواز کو سب سے پہلے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی، لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔پھر انہیں ٹیکس کی ادائیگی کا حکم دیا۔ انہوں نے تکبر نخوت کا مظاہرہ کرتےہوئے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا۔
اب مجاہدین کے لئے کوئی چارہ کار باقی نہ تھا ۔ لہذا وہ اللہ کا نام لیکر میدان کارزار میں اتر گئے
اس شخص کے ساتھ مدینہ منورہ میں جو سلوک امیر المومینین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے کیا وہ ہر مسلمان کے لئے باعث عبرت ہے ۔
ہم یہ واقعہ آپکو انہیں کی زبانی سناتے ہیں ۔
قبیلہ الشجع کا وہ شخص بیان کرتا ہے: کہ میں اور میرا غلام بصرہ کی طرف روانہ ہوئے ۔وہاں پہنچ کر ہم نے دو سواریاں خریدیں۔اس کے لئے اجازت اور سرمایہ حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے دیا ۔ ہم نے زادہ راہ ان پر لادا اور سفر کے لئے روانہ ہو گئے۔
ہم جب وہاں پہنچے تو میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو تلاش کیا۔وہ ایک جگہ پر اپنے عصا ساتھ ٹیک لگائے مسلمانوں کو کھلائے جانے کھانے کی نگرانی کر رہے تھے آپ اپنے غلام یرفاء کو فرما رہے تھے ۔اے یرفاء ان لوگوں کے سامنے گوشت رکھو ۔
اے یرفاء ان لوگوں کے سامنے روٹی رکھو ۔
اے یرفاء ان لوگوں کے سامنے شوربہ رکھو۔
جب میں ان کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا بیٹھو ! میں ان لوگوں کے سامنے بیٹھ گیا اورمیرے سامنے کھانا رکھا گیا اور میں نے کھانا کھایا۔
جب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ارشاد فرمایا ۔
اے یرفاء دستر خوان اٹھا لو پھر آپ چل دیئے اور میں آپ کے ہو لیا۔
جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی آپ نے کمال شفقت سے عنایت کر دی آپ بالوں کی بنی چارپائی بچھا کر بیٹھ گئے دو ایسے تکیوں کے ساتھ ٹیک لگائے تھے جو کھجور کے پتے سے بھرے ہوئے تھے ان میں سے ایک انہوں نے میری طرف بڑھایا میں اس پر بیٹھ گیا آپ کے پیچھےایک پردو لٹکا ہوا تھا آپ نے پردے کی طرف دیکھا اور اپنی بیوی سے ارشاد فرمایا
اے کلثوم ہمیں کھانا دیجئے ۔۔۔۔۔۔
میرے دل میں خیال آیا کہ امیر المومینین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے اچھا کھانا پکوایا ہو گا۔
بیوی نے تیل میں تلی ہوئی ایک روٹی جس پر سالن کی جگہ نمک رکھا ہوا تھا آپکو پکڑا دی ۔
پھر آپ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا: آو کھانا کھائیں۔میں نے تعمیل حکم کے طور پر چند ایک لقمے لئے۔آپ نے کھانا کھایا ۔آپ کا کھانا کھانے کاانداز کسی اور میں نہ دیکھا تھا ۔
پھر آپ نے فرمایا: ہمیں پانی پلاؤ تو آپ کی خدمت میں ستو سے بھرا ایک پیالہ پیش کر دیا گیا ۔
آپ نے ارشاد فرمایا: پہلے اس مہمان کو پلاؤ۔ میں نے پیالہ پکڑا اور تھوڑے سے ستو نوش کئے ۔میں نے محسوس کیا کہ جو ستو میں نے اپنے لئے تیار کروائے ہیں وہ اس کہیں بہتر اورعمدہ ہیں- پھر آپ نے پیالہ پکڑا اور ستو نوش فرمائے۔اور یہ دعا پڑھی ۔
الحمد للہ الذی اطعمنا و اشبعنا وسقانا فاروانا
شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں کھلایا اور سیر کیا اور پلایا اور سیراب کیا۔
اس کے بعد میں نے عرض کیا :
امیر المومینین! میں ایک خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔
آپ نے دریافت کیا کہاں سے؟
میں نے عرض کیا سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی جانب سے ۔۔
آپ نے کہا میں سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ اور اس کے قاصد کو خوش آمدید کہتا ہوں۔لشکر اسلام کے متعلق کچھ بتائیے۔۔۔۔
میں نے عرض کیا: امیر المومینین!
آپ کی تمنا کے مطابق لشکر اسلام کو اللہ تعالی نے فتح ونصرت سے ہم کنار کیا۔میں نے اس جنگ میں پیش آنے والے واقعات تفصیل کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کئے ۔
آپ نے تفصیلات سن کر ارشاد فرمایا!
اللہ سبحانہ وتعالی کا شکر ہے کہ اس نے ہم پر بے انتہا اپنا فضل وکرم فرمایا!
پھر آپ نے ارشاد فرمایا:
کیا تمہارا بصرہ سے گزر ہوا ؟
میں نے عرض کیا ہاں یا امیر المومینین!
آپ نے پوچھا مسلمانوں کا کیا حال ہے؟
میں نے عرض کیا الحمداللہ! خیریت سے ہیں۔
آپ نے ارشاد فرمایا:
بازار میں اشیاء صرف کے نرخ کیسے ہیں؟
میں نے عرض کیا چیزیں بہت سستی ہیں ۔
آپ نے پوچھا گوشت کا کیا بھاؤ ہے ؟
گوشت عربوں کی مرغوب غذا ہے جب تک گوشت نہ ملے انہیں تسلی نہیں ہوتی۔
میں نے عرض کیا گوشت تو وافر مقدار میں دستیاب ہے۔
پھر آپ نے اس صندوقچی کی طرف دیکھا جو میرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ،آپ نے پوچھا یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟
میں نے عرض کیا: جب اللہ تعالی نے ہمیں دشمن پر غلبہ دے دیا تو ہم نے مال غنیمت جمع کیا۔ سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے جب یہ ہار دیکھا تو لشکر اسلام سے کہا :
اگر یہ ہار تم میں تقسیم کر دیا جائے تو کسی کا کچھ نہیں بنے گا
اگر تم بطیب خاطر اجازت دو تو میں تو یہ ہار بطور تحفہ امیر المومینین کی خدمت میں بھیج دوں۔
سب نے کہا ہاں ضرور بھیج دیں ہم خوش ہیں یہ کہہ کر میں نے صندوقچی آپ کی خدمت میں پیش کر دی جب آپ نے اسے دیکھا اور آپ کی نظر سرخ ، زرد اورسبز رنگ کے چمکتے ہوئے نگینوں پر پڑی تو غصے سے آگ بگولا ہو گئے اور صندوقچی کو زور سے زمین پر پٹخ دیا، تو وہ موتی دائیں بائیں بکھر گئے۔
خواتین خانہ نے سمجھا کہ میں یہ موتی چننے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ وہ صورتحال دیکھ کر پردے کے پیچھے ہو گئیں۔
پھر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ انہیں اکٹھا کرو ۔
اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ جب یہ موتی چننے لگے تو اس کی پیٹھ پر کوڑے مارو ۔میں موتی چننے لگا اور آپ کا غلام یرفاء مجھے مارنے لگا ۔پھر آپ نے کہا کمبخت کھڑے ہو جاؤ-
میں نے کانپتے ہوئے عرض کیا کہ مجھے میری سواری دے دیں۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اے یرفاء ان لوگوں کو بیت المال دو سواریاں دے دو۔
پھر آپ نے حکم دیا کہ جب تمہارا سفر ختم ہو جائے تو یہ کسی ضرورت مند مسلمان کو دے دینا۔
میں نے عرض کیا: امیر المومینین میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا ۔
پھر آپ میری طرف غضبناک انداز سے دیکھا اور فرمایا :
اللہ سبحانہ وتعالی کی قسم! اگر یہ ہار لشکر میں تقسیم نہ کیا تو میں تیری اور سپہ سالار کی ہڈی پسلی ایک کر دوں گا۔
میں نے وہاں سے اپنی سواری کو سرپٹ دوڑایا اور جتنی بھی جلدی ہو سکتا تھا حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور ہانپتے ہوئے میں نے کہا!
اے سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ اگر تم میری اور اپنی جان کی خیر چاہتے ہو تو ابھی یہ ہار لشکر میں تقسیم کر دو اور پیش آنے والا پورا واقعہ میں نے انہیں سنا دیا آپ نے اسی مجلس میں یہ ہار برابر تقسیم کر دیا ۔
حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں-
1۔الاصابہ ۔۔۔۔۔ 7/2
2۔الاستیعاب۔۔۔۔89/2
3۔اسد الغابہ۔۔۔۔۔۔432/2
4۔تہذیب التھذیب ۔۔154/4
5۔معجم البلدان۔۔۔284/1
6۔حیات الصحابہ۔۔341/1
قادہ فتح فارس۔
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments