حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
۔بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ
"میری امت میں حلال و حرام میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔" {فرمان نبوی ﷺ}
جب جزیرہ عرب رشد وہدایت اور حق وصداقت کے نور سے چمک اٹھا تو ایک ابھرتے ہوئے یثربی جوان معاذ بن جبل کے دل میں ایک طوفان برپا ہو گیا ۔یہ اپنے ہم عمر ساتھیوں میں سب سے زیادہ ذہین ،فطین ،باہمت اور فصیح البیان تھا ۔اس کے ساتھ یہ سرمیلی آنکھوں،گھنگریالے بالوں ،چمکیلے دانتوں والا ایک ایسا حسین وجمیل نوجوان تھا کہ اسے دیکھنے والی آنکھیں ٹک ٹک دیکھتی ہی رہ جاتیں اور دیکھنے والے کا دل اس خوبصورت اور دل کش چہرے کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ جاتا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے مکی مبلغ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور عقبہ کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بہتر (72) خوش نصیب قافلے میں شامل تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ کا قصد کیا ،تاکہ آپﷺ کی بیعت کا شرف حاصل کر سکیں اور تاریخ اسلام کے سنہری باب میں اپنا نام درج کرانے کا شرف حاصل کر سکیں ۔
اس نوجوان نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچتے ہی بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے ہم عصر ساتھیوں کا ایک گروپ ترتیب دیا ۔انہوں نے خفیہ اور اعلانیہ کاروائی شروع کر دی ۔
ان نوخیز جوانوں کی تحریک سے متاثر ہو کر یثرب کی ایک اہم شخصیت عمرو بن جموح نے اسلام قبول کر لیا ۔
عمرو بن جموح بنو سلمہ کا ہر دلعزیز سردار تھا اور اس نے اپنے لئے نہایت عمدہ لکڑی کا بت تیار کروایا تھا اور یہ اس کی بڑی دیکھ بھال (تعظیم) کیا کرتا تھا ۔ اسے ریشمی کپڑے پہناتا اور قیمتی عطریات ملتا ۔
ایک رات نوجوان اندھیرے میں چپکے سے اس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کے بت کو اٹھا کر دبے پاؤں باہر نکلے اور بنو سلمہ کے گھروں کے پیچھے ایک ایسے گڑھے میں پھینک دیا جس میں گندگی تھی۔
جب صبح سردار عبادت کی غرض سے اپنے بت کے پاس گیا تو اسے غائب پایا ،ہر جگہ اس کی تلاش کی بالآخر اپنے بت کو گڑھے میں گندگی میں لت پت اوندھے منہ پڑے ہوئے پایا۔اسے وہاں سے اٹھایا، غسل دیا ،گندگی سے پاک کیا اور دوبارہ اس کی جگہ پر لا کر رکھ دیا
عرض کیا: اے منات! بخدا!اگر مجھے اس بات کا پتہ چل جائے کہ تیرے ساتھ بدسلوکی کرنے والا کون ہے تو میں سر عام اس کو ایسا رسوا کروں کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے ۔۔۔
جب رات ہوئی اور سردار خراٹے لینے لگا تو ان نوجوانوں نے وہی کام کیا جو پہلی رات سر انجام دیا تھا ۔
تلاش بسیار کے بعد اسے اسی جیسے ایک دوسرے گڑھے میں اوندھے منہ پڑا ہوا پایا۔
اسے وہاں سے اٹھایا، غسل دیا، صاف ستھرا کیا ،عطر لگایا اور یہ سلوک کرنے کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور سر عام انہیں کیف کردار تک پہنچانے کی دھمکی دی بار بار اس عمل کو دہرایاگیا۔
نوجوان کنویں میں پھینک آتے اور یہ وہاں سے نکال کر غسل دے کر اسی جگہ رکھ دیتا اور اس کی پوجا پاٹ کر دیتے۔
بالآخر اس نے تنگ آکراس بت کے گلے میں تلوار لٹکا دیاور اس سے مخاطب ہوا ۔
اللہ کی قسم تیرے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کا مجھے علم نہیں۔
اے منات! اگر تم میں طاقت اور ہمت ہے تو اپنا دفاع کر یہ تلوار تیرے پاس ہے ۔
جب رات ہوئی اور سردار نیند کی آغوش میں محو استراحت ہوا، نوجوان بت پر ٹوٹ پڑے اس کی گردن میں لٹکی ہوئی تلوار کو ایک مردہ کتے کی گردن کے ساتھ باندھ دیا اور بت کو نزدیک ہی گڑھے میں اوندھے منہ پھینک آئے۔
جب صبح ہوئی سردار نے اپنا بت غائب پایا، تلاش شروع کی تو اسے انتہائی بد تر حالت میں ایک گھڑے میں اوندھے منہ پڑا ہوا پایا۔گندگی سے وہ لت پت تھا اور ساتھ مردہ کتا بندھا ہوا تھا اور اس کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی ۔
سردار نے یہ قبیح منظر دیکھتے ہی یہ شعر پڑھا۔۔
اللہ کی قسم اگر تو الہ ہوتا تو تو اور کتا ایک ساتھ گھڑے میں اوندھے منہ پڑے ہوئے نہ ہوتے۔
بنو سلمہ کے سردار نے یہ شعر پڑھنے کے بعد اسلام قبول کر لیا ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے ۔ تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ آپﷺ ساتھ سائے کی طرح چمٹ گئے ۔آپﷺ سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور شرعی احکامات کا علم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے یہاں تک کہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ کتاب الہی اور شریعت اسلامیہ کا علم رکھنے والے بن گئے
یزید بن قطیب بیان کرتے ہیں میں ایک دن حمص کی مسجد میں داخل ہوا تو وہاں ایک گھنگریالے بالوں والا نوجوان بیٹھا ہوا تھا اور لوگ اس کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے جب وہ گفتگو کرتا تو یوں معلوم ہوتا جیسےاس کے منہ میں نور کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں اور چار سو مستی بکھر رہے ہیں۔
میں نے پوچھا یہ کون ہے؟
لوگوں نے بتایا یہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں ۔
ابو مسلم خولانی بیان کرتے ہیں میں ایک روز دمشق کی مسجد میں داخل ہوا ۔ وہاں عمر رسیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایک حلقے میں بیٹھا ہوا دیکھا اور ان کے درمیان سرمیلی آنکھوں اور چمکتے ہوئے دانتوں والا نوجوان بیٹھا ہوا تھا ۔
جب بھی کسی مسئلے میں اختلاف پیدا ہو جاتا تو وہ اس نوجوان کی طرف رجوع کرتے ۔میں نے ایک ہم نشین سے پوچھا یہ کون ہے ۔
اس نے بتایا یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں۔
اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی بچپن سے ہی مدرسہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تربیت ہوئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمہ علم سے خوب اچھی طرح سیراب ہوئے تھے اور انہوں نے اس چشمہ صافی سے علم و عرفان کے جام پیئےتھے ۔
وہ ایک بہترین معلم کے بہترین شاگرد تھے ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے لئے یہ سند کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق یہ ارشاد فرمایا:
میری امت میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہے ۔
ان کے شرف وفضل کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ان چھ خوش نصیب افراد میں سے ہیں جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن جمع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔اس لئے جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کسی مسئلے پر گفتگو کرتے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان میں موجود ہوتے تو ان کی طرف بڑے احترام سے دیکھتے اور ان کے علم کی تعظیم کرتے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اس تابعہ عصر علمی شخصیت سے اسلام اور مسلمانوں کی
خدمت کا کام لیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد جب دیکھا کہ قریش گروہ در گروہ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں،تو ان نئے مسلمانوں کے لئے ایک تجربہ کار معلم کی ضرورت محسوس ہوئی جو انہیں اسلام کی تعلیم دے اورشرعی احکام بھی سمجھائے ۔
آپﷺ نے عتاب ابن اسید کو مکہ کا گورنر مقرر کیا اور ان کے ساتھ حضرت معاذ بن جبل کو وہیں رہنے دیا تاکہ وہ لوگوں کو دینی احکامات اور قرآن کی تعلیم دیں۔
جب شاہان یمن کے ایلچی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،انہوں نے آپﷺ کے رو برواپنے مسلمان ہونے اور ماتحت دیگر یمنیوں کے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ ان کے ہمراہ کچھ ایسے حضرات بھیج دیں، جو نئے مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیں آپﷺ نے اس مشن پر بھیجنے کے لئے چند ایک مبلغین کو منتخب کیا اور ان کا امیر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رشد و ہدایت پر مشتمل مبغلبین کی جماعت کو االوداع کرنے کے لئے خود مدینہ منورہ کے باہر تک تشریف لائے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود پیدل چل رہے تھے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اونٹنی پر سوار تھے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک ان کے ساتھ چلتے رہے ، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ دیر تک چلنا اور باتیں کرنا چاہتے تھے ۔
پھر آپﷺ نے انہیں وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہو سکتا آپﷺ مجھے پھر نہ مل سکیں۔
شاید آپﷺ میری مسجد اور قبر کے پاس سےگزریں۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق سے غمزدہ ہو کر زار و قطار رونے لگے اور آپ کے ساتھ دیگر ساتھی بھی سسکیاں لینے لگے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خبر مبنی بر صداقت تھی۔ اس کے بعد حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا سرمہ اپنی آنکھوں میں ڈالنے کا موقع میسر نہ آیا ۔
حصرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے یمن سے واپس لوٹنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے ۔
جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ واپس پہنچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق میں دھاڑیں مار کر رونے لگے
جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بنو کلاب کی طرف بھیجا تاکہ وہ اغنیاء سے صدقات وصول کر کے ان کے فقراء و مساکین میں تقسیم کریں۔ آپ نے اس ذمےداری کو پوری طرح نبھایا ۔
آپ جب اپنی بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے مفلر کے طور پر اپنی گردن پر وہ ٹاٹ لپیٹ رکھا تھا جسے عام طور پر گھوڑے کی زین کے نیچے بچھایا جاتا تھا ۔
بیوی نے کہا وہ تحائف کہاں ہیں جو منصب دار اپنے گھر والوں کے لئے لایا کرتا ہے۔
آپ نے ارشاد فرمایا: میرے ساتھ ایک بیدار مغز چوکس نگہبان بیٹھا ہوا تھا۔۔جو میری ہر ایک حرکت کو نوٹ کرتا تھا۔
بیوی نے حیران ہو کر کہا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تو آپ امین تھے پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے آپ پر ایک نگہبان مقررکر دیا ۔ یہ خبر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیویوں میں پھیل گئی ، اس لیے کہ ان سے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی بیوی نے دکھ بھرے انداز میں شکوہ کیا تھا ،جب یہ بات حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو انہوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور پوچھا:
اے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کیا میں نے تمہاری نگرانی کے لئے کوئی نگہبان مقرر کیا ہے؟
عرض کیا: یا امیر المومینین !
در اصل مجھے اپنی بیوی کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی عزر نہیں ملا تھا ۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر ہنس پڑے اور اپنے پاس سے کچھ تحائف دئیے اور فرمایا: جاؤ یہ تحائف دے کر اسی راضی کر لو ۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے گورنر یزید بن ابی سفیان نے یہ مطالبہ کیا ۔
امیر المومینین! باشندگان شام کی تعداد بہت ہو چکی ہے اب ان کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو انہیں قرآن مجید کی تعلیم دیں اور دینی احکامات سکھائیں،امیر المومینین اس سلسلہ میں میری مدد کریں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلایا جنہوں نے عہد نبوت قرآن پاک جمع کیا تھا اور وہ تھے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ،حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ،حضرت ابی بن کعب اور حضرت ابو دردہ رضی اللہ عنہ
آپ نے ارشاد فرمایا!
شام میں مقیم آپ کے مسلمان بھائیوں نے مجھ سے یہ مدد طلب کی ہے کہ ایسے افراد ان کے پاس بھیج دئیے جائیں جو ان کو قرآن مجید کی تعلیم دیں اوردینی احکامات سکھائیں۔اس سلسلہ میں آپ مجھ سے تعاون کرین۔اللہ آپ پر اپنی رحمت کی بارش برسائے ۔
میں تم میں سے تین افراد کو اس مشن پر بھیجنا چاہتا ہوں۔۔اگر چاہو تو قرعہ ڈال لو یا میں تم میں سے تین احباب کو نامزد کر دیتا ہوں۔
انہوں نے کہا قرعہ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بوڑھے ہو چکے ہیں۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیمار ہیں۔
باقی ہم تین رہ گئے ہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
حمص سے تعلیم کا آغاز کرنا جب تم باشندگان حمص کی حالت سے مطمئن ہو جاؤ، تو اپنے میں سے ایک شخص کو یہیں چھوڑ دینا ۔تم میں سے ایک شخص دمشق اور تیسرا فلسطین روانہ ہو جائے ۔یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اتنی دیر حمص میں رہے ، جتنی دیر رہنے کی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت دی تھی
پھر وہاں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو چھوڑا۔ حضرت ابو درداء دمشق روانہ ہو گئے اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فلسطین چلے گئے۔
وہاں پہنچ کر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایک وبائی مرض میں مبتلا ہو گئے ۔جب موت کا وقت قریب آیا تو بار بار یہ ترانہ پڑھنے لگے ۔
مرحبا ۔۔۔۔بالموت۔۔۔۔۔مرحبا
زائر ۔۔۔۔۔جاء۔۔۔۔بعد ۔۔۔غیاب
وحبیب۔۔۔وفد۔۔۔۔علی۔۔۔۔شوق
خوش آمدید موت کو خوش آمدید
بڑی غیر حاضری کے بعد ملاقاتی آیا ہے
اور محبوب شوق کی سواری پر آیا ہے
پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگے ۔ الہی تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی دنیا سے محبت نہیں کی اور نہ ہی یہاں درخت لگانے اور نہریں چلانے کے زیادہ دیر رہنے کو پسند کیا ۔
الہی!میری طرف سے نیکی کو قبول فرما جو تو کسی مومن کی جانب سے قبول کرتا ہے ۔
پھر اپنے وطن،اہل خانہ سے دور دعوت الی اللہ اور ہجرت فی سبیل اللہ کی صورت میں ان کی پآکیزہ روح قفس عصری سے پرواز کر گئی۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:
1 ۔الاصابہ۔۔۔406/3
2۔الاستیعاب۔۔۔1402/3
3۔اسد الغابہ۔۔374/4
4سیر اعلام النبلاء۔318/1
5۔الطبقات الکبری۔583/3
6۔حلیہ الاولیاء۔228/1
7۔صفہ الصفوہ۔195/1
8۔تھذیب الاسماء واللغات۔195/2
9۔تاریخ اسلام ذھبی۔24/2
10۔الجمع بین رجال الصحیحین ۔487/2
11اسیر اعلام النبلاء۔318/1
12۔البدایہ والنھایہ۔93/7
13۔دسل الاسلام۔5/1
14۔تہذیب التھذیب ۔186/10
15۔وفیات الاعیان۔۔۔۔۔
جمھرہ الاولیاء۔48/2
17۔طبقاتفقھاء الیمن ۔44
ا8البدء والتاریخ ۔117/5
19۔کتاب الذھد۔۔۔۔180
20۔تذکرہ الحفاظ۔19/1
21۔المعارف لابن قتیبہ۔111/1
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments