حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ






 ۔بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ 

  

"مکہ میں چار اشخاص ایسے ہیں کہ میں ان کے شرک میں مبتلا ہونےسے بیزار ہوں اور ان کے اسلام قبول کرنے کی دلی رغبت رکھتا ہوں۔" {فرمان نبوی ﷺ}


 



کیا آپ اس جلیل القدر صحابی کے متعلق کچھ جانتے ہیں؟


تاریخ میں یہ بات قلم بند ہو چکی ہے کہ ان ولادت با سعادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔


اس طرح ان کی والدہ محترمہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کعبے کے اندرونی منظر کا مشاہدہ کرنے کے لئیے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوئی۔اس دن کعبہ کا دروازہ کسی خاص مناسبت کی وجہ سے کھلا ہوا تھا اور اندر داخل ہوتے ہی اسے درد شروع ہو گئی۔۔اور وہ درد اس قدر شدید تھی کہ اس کے لئے کعبہ سے باہر آنا ممکن نہیں تھا ۔فوری طور وہاں چمڑے کی ایک چادر منگوائی گئی جس پر اسے لٹا دیا گیا اور چند لمحے بعد اس نے ایک خوبصورت بچے کو جنم دیا ۔۔



یہ خوش اطوار بچہ ام المومینین حضرت خدیجہ بنت خویلد کا بھتیجا حکیم بن حزام تھا ۔



حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی پرورش شریف النسل ، عظیم المرتبت اور خوشحال گھرانے میں ہوئی۔آپ عقل و خرد ،طبعی شرافت اور علمی فضل وشرف کے پیکر تھے۔ ان خوبیوں کی بنا پر قوم نے آپ کو اپنا سردار بن لیا اور حاجیوں کی خدمت کا منصب ان کے سپرد کر دیا ۔



زمانہ جاہلیت میں حاجیوں کی خدمت اپنے مال میں سےایک خواص حصہ نکال کر الگ کر لیا ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ آپ کے گہرے دوست تھے ۔


اگرچہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ سال بڑے تھے مگر آپﷺ سے الفت اور محبت، موانست ومودت مثالی نوعیت کی تھی۔


یہ آپﷺ کی مجلس میں بیٹھ دلی اطمینان اور انتہائی خوشی محسوس کرتے ۔ان کے جواب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ محبت و الفت سے پیش آتے ۔



جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پھوپھی حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو پھر اس رشتے داری کی وجہ سے تعلقات اور بھی مضبوط ہو گئے۔



اتنے گہرے اورمخلصانہ تعلقات وروابط آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے دن مشرف بہ اسلام ہوئے ۔جبکہ آپ کو نبوت ملے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا تھا۔



عقل ودانش کا تقاضہ تو یہ تھا کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جیسا زیرک، معاملہ فہم دانشور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قریبی رشتہ دار بھی ہونے کا شرف حاصل تھا، سب سے پہلے آپﷺ پر ایمان لے آتا۔ آپﷺ کی دعوت کی تصدیق کرتا اور آپ کی ہدایت کو تسلیم کر لیتا۔


لیکن اللہ کی مشیت ہر چیز پر غالب آتی ہے


وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے تاخیر سے اسلام قبول کرنے سے جیسے آپﷺ متعجب ہوئے ۔انہیں خود بھی تعجب ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر سے کام کیوں لیا؟


وہ حلاوت ایمانی کا مزہ چکھنے سے اتنی دیر محروم کیوں رہے ؟


وہ اپنی زندگی کے ہر اس لمحے پر بے انتہا شرمندہ تھے ۔جو انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کرنے اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے میں گزارا ۔


اسلام قبول کرنے کے بعد ایک روز بیٹے نے دیکھا کہ ابا جان زارو قطار رو رہے ہیں۔

پوچھا ابا جان:


آپ رو کیوں رہے ہیں۔

فرمایا:


بہت سی باتیں ہیں بیٹے۔ ہر بات پر مجھے رونا آتا ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسلام قبول کرنے میں تاخیر سے کام لیا جس کی بنیاد پر درجات اور خیر وبھلائی کے حصول دے محروم رہا ۔ اب میں زمین کے وزن کے برابر بھی خالص سونا راہ اللہ میں خرچ کروں تب بھی ان درجات کو نہیں پہنچ سکتا جن پر پہلے اسلام قبول کرنے والے فائز ہو چکے ہیں۔


2۔۔۔دوسری بات یہ کہ اللہ تعالی نے مجھے بدر اور احد کی غزوات سے بچا لیا اور میں نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ میں آج کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں قریش کی کوئی مدد نہیں کروں گا اور کسی بھی معرکے میں حاضر ہونے کے لئے مکہ سے باہر پاؤں نہیں رکھوں گا۔لیکن پھر مجھے قریش کی مددکے لئے کھینچ کر باہر لایا گیا اور مجھے مجبور کر دیا گیا کہ میں قریش کی ہم نوائی کروں۔


3۔۔۔تیسری بات یہ کہ جب میں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تو میری نظر سرداران قریش کی طرف اٹھتی تو میں یہ سوچتا کہ یہ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں اپنی قوم پر ان کا رعب ودبدبہ بھی ہے۔

 قریش میں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ان خیالات کے آتے ہی میرا ارادہ بدل جاتا اور پھر میں قریش کے شانہ بشانہ کھڑا ہو جاتا


 کاش کہ میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔

ہمیں تو ہمارے آباو اجداداور بڑوں نے ہلاک کر دیا ۔

بیٹا بتاؤ پھر میں کیوں نہ روؤں۔


جس طرح ہم حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے تاخیر سے اسلام قبول کرنے پر تعجب کناں ہیں ۔جس طرح وہ خود تاخیر سے اسلام قبول کرنے پر متعجب ہی نہیں،بلکہ نادم و پریشان ہیں ۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت تعجب تھا کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ جیسے زیرک اور دانشمند انسان پر اسلام کی خوبیاں مخفی ہیں۔ وہ اللہ کے دین میں داخل ہونے میں سبقت نہ کر سکے ۔


فتح مکہ مکرمہ کے دن ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرمایا: مکہ میں چار ایسے اشخاص موجود ہیں، میں ان کے شرک سے بیزار اوران کے اسلام قبول کرنے میں دلی رغبت رکھتا ہوں۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہیں ۔

آپ نے فرمایا:

1۔عتاب بن اسید

2۔جبیر بن مطعم

3۔سہیل بن عمرو ۔

4۔حکیم بن حزام

(رضی اللہ عنہم )


 اللہ نے ان پر فضل کیا کہ وہ چاروں ایک ساتھ اسی رات مسلمان ہو گئے ۔


جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاتح کی حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو آپﷺ نے یہ اعلان کروادیا۔

1۔جو اس بات کا اقرار کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں"

وہ آج امن میں ہو گا ۔اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔


2۔جو کعبہ کے پاس بیٹھ جائے اور اپنےہتھیار نیچے رکھ دے وہ بھی امن میں ہو گا ۔


3۔جو اپنے گھر میں پناہ لے اور دروازہ بند کرکے بیٹھ جائے وہ بھی امن میں ہو گا .


4۔جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے وہ بھی امن میں ہو گا ۔


5۔اور جو حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے گھر میں پناہ لے وہ بھی امن میں ہو گا ۔


اسے آج کچھ نہیں کہا جائے گا ان دنوں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا گھر مکہ معظمہ کے نشیبی علاقے میں تھااور ابو سفیان کا گھر مکہ کے بالائی علاقے میں تھا۔


 حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو یہ اسلام ان کی عقل اور دانش پرغالب آ گیا۔وہ ایسا ایمان لائے کہ یہ ایمان فورا ان کے رگ و پے میں سرایت کر گیا


  انہوں نے اپنے دل سے یہ قطعی عہد کیا اور قسم کھائی کہ میں اپنے دور جاہلیت کی حماقتوں کا مداوا کروں گا اور جس قدر میں نے مال ودولت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں خرچ کیا ، اس سے بڑھ کر اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اسلام کی تائید میں خرچ کروں گا ۔


واقعی انہوں نے اپنی قسم پوری کر دکھائی ۔


دار الندوہ وہ پر شکوہ تاریخی عمارت جس میں قریش دور جاہلیت میں مشورے کیا کرتے تھے جس میں صنادید قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے منصوبے بنایا کرتے تھے، وہ عمارت حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی ملکیت تھی ۔انہوں نے دور جاہلیت کی یادیں بھلا دینے کی خاطر اسے ایک لاکھ درھم میں فروخت کر دیا۔


ایک قریشی نوجوان نے ان سے کہا۔


چچا جان! آپ نے عزت واکرام کی نگاہ سے دیکھا جانے والا قریش کا ایک عظیم مرکز بیچ دیا ۔آپ نے یہ کیا غضب کیا ۔

آپ نے فرمایا:

بیٹا تیری اس سوچ پر مجھے از حد افسوس ہے ۔اب تقوی اور ایمان کے علاوہ ساری عزتیں ملیامیٹ ہو گئیں۔


سنو ! میں نے اسے اس لئے بیچا ہے کہ اس کی قیمت سے جنت میں ایک گھر خرید سکوں۔


میں تجھے گواہ بنا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ میں نے ساری رقم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے وقف کر دی ہے ۔


اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے حج کیا اور اپنے ساتھ ایک سو صحتمند اور موٹی تازی اونٹنیاں لیں اور ان پر خوبصورت اور قیمتی کپڑے ڈالے تاکہ اور زیادہ دیدہ زیب معلوم ہوں اور سب اونٹنیوں کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ۔  


دوسرے حج میں وقوف عرفات کے دوران ایک سو غلام جن کی گردنوں میں چاندی کے کڑے ڈالے ہوئے تھے، ان سب کی آزادی کا اعلان کر دیا ۔


تیسرے حج میں ایک ہزار بکری منی میں رضائے الہی کی خاطر قربان کی اور ان کا گوشت مسکینوں اور غریبوں میں بانٹ دیا۔


غزوہ حنین کے بعد حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال غنیمت مانگا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا۔ پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور زیادہ عطا کیا یہاں تک کہ سو اونٹ ہوگئے ۔


آپ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔

اے حکیم:


یہ مال بڑا ہی دلفریب ہے۔ جو دلی قناعت کے ساتھ حاصل اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور جو اسے طمع ولالچ کے ساتھ حاصل کرے تو اس سے برکت اٹھا لی جاتی ہے ۔وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہےجو کھاتا ہے پر کبھی سیر نہیں ہوتا ۔

یاد رکھو! دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔


جب حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تو عرض کیا:


یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قسم اس ذات کی جس نے آپﷺ کو حق کا پیامبر بنا کر بھیجا ،آج کے بعد میں کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا۔ زندگی بھر کسی سے کچھ نہیں مانگوں گا۔


حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے یہ قسم پوری کر دکھائی۔


حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کئی بار بیت المال سے حصہ دینے کے لئے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو بلایا، انہوں نے اپنا حصہ لینے سے انکار کر دیا۔یہاں تک کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا ۔

لوگو گواہ رہنا میں نے بار بار حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو بیت المال سے اپنا حصہ لینے کے لئے بلایآ لیکن اس ہر بار اپناحصہ لینے سے انکار کر دیا۔


حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ زندگی میں اپنے اس موقف پر ڈٹے رہے ۔کسی سے کچھ نہیں مانگا اگر کسی خلیفہ نے کچھ دینے کی کوشش کی تو آپ نے اسے لینے سے انکار کر دیا

اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔

وہ اللہ پہ رضی اور اللہ اس پہ راضی ۔


۔۔۔حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:


1۔۔الاستیعاب۔۔۔368/1


2۔۔الاصابہ۔۔327/1


3۔۔الملل والنحل۔۔27/1


4۔۔الطبقات الکبری۔26/1


5۔۔سیر اعلام النبلاء۔164/3


6۔۔زعماء الاسلام121/1


7حماہ الاسلام ۔۔121/1


8۔۔تاریخ الخلفاء۔۔126


9۔۔الصفوہ۔۔319/1


10۔۔المعارف۔۔92/2


11۔۔الاسد الغابہ۔۔15۔9/2


12۔۔محضرات الادباء۔478/4


13۔۔مروج الذھب۔۔302/2



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد

  

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments