حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ

 حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ 







۔بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ 

  

"انصار میں سے تین اشخاص ایسے ہیں کہ فضل و شرف میں کوئی ان سے بڑھ کر نہیں، سعد بن معاذ، اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی عنہم۔" 

                 {فرمان عائشہ رضی اللہ عنہا}



تاریخی دعوت محمدیہﷺ میں حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کا نام سنہری باب کی حیثیت رکھتا ہے-


اگر آپ اس عبادت گزاروں میں تلاش کریں تو متقی، پرہیزگار، شب زندہ دار اور رات بھی قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں میں ملیں گے- اگر آپ اس جوانمردوں میں تلاش کریں گے تو اسے بہادر، نڈر، جرات مند اور اللہ کا نام بلند کرنے کے لیے معرکوں میں بے خطر کود جانے والا دیکھیں گے-



آپ اسے حکمرانوں میں تلاش کریں گے تو اسے طاقتور، امانت دار اور مسلمانوں کے مال کے محافظ پائیں گے- 

بے شمار خوبیوں کی بناء پر ام امومنین نے اس کے اور اس کی قوم کے دیگر دو اشخاص کے متعلق ارشاد فرمایا-


انصار میں تین اشخاص ایسے ہیں کہ فضل و شرف میں کوئی ان سے بڑھ کر نہیں، وہ تمام ایک ہی قبیلے بنو عبد الاشھل کے فرد ہیں- سعد بن معاذ اور عباس بن بشر وادی یثرب کے افق پر جب ہدایت محمدیہﷺ کی پہلی کرن چمکی ، اس وقت عباد بن بشر ابھرتے ہوئے کڑیل جوان، فرشتہ سیرت، پاکیزہ نگاہ اور پاکدامن گھبرو جوان تھے جس کے چہرے پر پاکیزگی اور پاکدامنی کی رونق اور تروتازگی دکھائی دیتی تھی، لیکن اس کے کارناموں سے پختہ کار لوگوں کی سنجیدگی کے آثار نمایاں دکھائی دیتے، حالانکہ ابھی اس نے عمر کی پچیس بہاریں ہی تو دیکھی تھیں-



جب مکہ معظمہ سے آنے والے نوجوان مبلغ حضرت معصب رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو ایمان کی مقناطیسی قوت نے دونوں کے دل جوڑ دئیے ۔ اچھی عادات اور عمدہ خصائل نے دونوں کے درمیان وحدت پیدا کر دی۔


حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو جب خوش الحانی اور ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو کلام الہی کی محبت دل میں گر کر گئی اور دل اسے اندر جذب کرنے کے لئے کشادہ ہو گیا اور پھر یہ ہمہ وقت قرآن مجید کے ہی ہو کر رہ گئے۔ دن ہو یا رات، سفر ہو یا حضر، کھڑے ہوں یا بیٹھے ہر دم قرآنی آیات ہی ان کی زبان پر ہوتیں ۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام میں امام پیشوا اور قرآن کے رفیق اور دوست کے نام سے مشہور ہو گئے


ایک رات کا واقعہ ہے کہ رسول کریم مسجد نبوی سے ملحق حضرت عائشہ کے حجرے میں نماز تہجد ادا کر رہے تھے، تو آپﷺ نے حضرت عباد بن بشر کو دلآویز و دل سوز آواز میں ایسے ہی قرآن پڑھتے ہوئے سنا جیسا جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ آپﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوا تھا- آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

عائشہ مجھے عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کی آواز سنائی دے رہی ہے-

حضرت عائشہ مے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ یہ اسی کی آواز ہے- 

آپﷺ نے دعا دی: اللہ اسے بخش دے- 


حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں حاضر ہوئے اور ہر غزوے میں کوئی نہ کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو ایک حامل قرآن کے لیے لائق اور مناسب ہو سکتا ہے۔

بطور مثال ایک واقعہ پیش خدمت ہے-

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجاہدین اسلام کے ہمراہ ذات الرقاع سے واپس تشریف لا رہے تھےتو رات گزارنے کے لیے ایک پہاڑی کی اوٹ میں پڑاؤ کیا- ہوا یہ کہ اس غزوے میں دشمن قیدیوں میں ایک عورت بھی قید ہو کر آ ئی جس کا خاوند وہاں موجود نہ تھا- جب اسے صورت حال کا علم ہوا تو اس نے لات و عزی کی قسم کھا کر کہا کہ میں مسلمانوں کے لشکر کا پیچھا کروں گا اور اسے نقصان اور خون بہائے بغیر واپس نہیں لوٹوں گا-


جب مسلمانوں نے پہاڑ کی اوٹ میں پڑاؤ کیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین سے پوچھا-

آج رات پہرہ کون دے گا؟

حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ایک دم کھڑے ہوئے اور بولے ہم یا رسول اللہ! پہرہ دیں گے- یہ جب مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بھائی قرار دیا تھا- 


جب پہرہ دینے کے لیے پہاڑ کے درے میں کھڑے ہوئے تو حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عمار بن یاسر سے پوچھا:

آپ رات کے پہلے حصے میں سوئے گے یا آخری حصے میں- انہوں نے کہا میں پہلے حصے میں آرام کروں گا اور آخری حصے میی پہرہ دوں گا- یہ کہہ کر اس کے نزدیک ہی لیٹ گئے



رات تاریک، خنک، پر سکون اور اطمینان بخش تھی- رات کی تاریکی میں جھلملاتے ہوئے تارے، لہلہاتے ہوئے درخت اور اپنی جگہ ہمہ ادب اور احترام کی تصویر بنے ہوئے پتھر اپنے رب کی تعریف، پاکیزگی اور عظمت کے زبان حال سے نغ۔ے الاپ رہے تھے-


      اس دلآویز دلکش اور دلفریب ماحول میں حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ عبادت و تلاوت سے اپنے دل شادباغ و شاد کام کیا جائے-

اسے قرآن مجید کی تلاوت سے بڑھ کر کوئی چیز لطف نہ دیتی تھی، لیکن جب یہ نماز میں تلاوت کرتے تو مزہ دوچند ہو جاتا-


    پھر یہ قبلہ رخ کھڑے ہوئے، نماز شروع کر دی-

جب یہ لشکارے مارتے ہوئے نورالہی کے دریا میں تیر رہے تھے اور اس کی نوری کرنوں کی ضیاء پاشیوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، کہ ایک بدبخت، بدنیت، بدباطن وناہنجار جس کی بیوی اس قافلے میں قیدی کی حیثیت سے شامل تھی دبے پاؤں بڑی تیزی سے آگے بڑھا جب دور سے اس نے دیکھا کہ پہاڑی کے دورے میں ایک شخص کھڑا پہرہ دے رہا ہے- وہ سمجھا یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی اس پہاڑ کے اوٹ میں آرام کر رہے ہوں گے، اس نے جلدی سے کمان پکڑی اپنی تیرکش سے تیر نکالا اور نشانہ باندھ کر چلا دیا- وہ سیدھا حضرت عباد بن بشر کے جسم میں پیوست ہو گیا-


     انہوں نے ہاتھ سے تیر پکڑا اور اپنے جسم سے نکال کر باہر پھینک دیا- دشمن نے دوسرا تیر مارا وہ بھی ان کے جسم میں پیوست ہوگیا، انہوں نے اسے بھی نکال کر پرے پھینک دیا- اس نے تیسرا تیر مارا وہ بھی آپ کے جسم میں پیوست ہو گیا اور یہ پہلے دو تیروں کی نسبت زیادہ گہرہ لگا لیکن انہوں نے اسے بھی کھینچ کر پرے پھینک دیا-  


    اب کیا تھا کہ جسم سے خون کے فوارے پھوٹ نکلے- دھیرے دھیرے کھسک کر اپنے بھائی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے قریب ہوئے سلام پھیرا اور اسے جگا دیا- 


 کہنے لگے بھائی اٹھو زخموں کے گھاؤ نے تو میرے بدن کا خون نچوڑ لیا ہے- میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا ہے-کمزوری و نقاہت سے میرا دل ڈوب رہا ہے-


    جب تیر مارنے والے دشمن نے دیکھا کہ درے میں ایک کے بجائے دو آدمی ہیں تو وہ خوف کے مارے بھاگ نکلا


حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے ساتھی حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کے جسم میں تین جگہ سے خون نکل رہا ہے تو وہ گھبرا گئے-


  فرمانے لگے بڑے تعجب کی بات ہے پہلا تیر لگنے پر مجھے جگا دیا ہوتا!

حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

میں اپنے من میں ڈوب کر دنیاوما فیہا سے بے نیاز نماز کی حالت میں سورہ کہف پڑھ رہا تھا اور مجھے اس قدر لطف آرہا تھا کہ دل نہ چاہا کہ سورہ مکمل کیے بغیر سلام پھیروں- 


اللہ کی قسم: اگر مجھے اس ذمہ داری کے زیاں و نقصان کا اندیشہ نہ ہوتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر عائد کی ہے، تو میری جان چلی جاتی اور میں یہ نماز و تلاوت کا سلسلہ منقطع نہ ہونے دیتا-


جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مرتدین کے خلاف معرکہ آرائی ہولناک صورت اختیار کے چکی تھی، تو انہوں نےمسیلمہ کذاب کے فتنے کو ختم کرنے اور بپھرے ہوئے مرتدین کو پسپا کرنے کے لیے ایک لشکر جرارتیار کیا جس میں حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ بڑے نمایاں، صف اول کے بہادروں میں دکھائے دیتے تھے۔  


    لشکر اسلام اور مسیلمہ کی فوج آپس میں ٹکرائی ہوئی گھسمان کا رن پڑا، دشمن فوج کی پسائی کے کوئی آثار دکھائی نہ دیتے تھے، لشکر اسلام کو کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی، اس نازک ترین صورت حال میں حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ انصار مہاجرین پر اور مہاجرین انصار پر تکیہ لگائے ہوئے ایک دوسرے کو نا کامی کا سبب قرار دے رہے ہیں، تو یہ غیظ و غضب میں تلملا اٹھے لیکن اپنے آپ پر ضبط کرتے ہوئے انہوں نے اس ہولناک معرکے میں لشکر اسلام کی کامیابی کے اسباب و ذرائع پر سوچا۔ بڑے غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اب کامیابی کی ایک ہی صورت ہے کہ مہاجرین اور انصار الگ الگ منصوبہ بندی کریں پھر ایک ساتھ دشمن کی فوج پر دونوں طرف سے حملہ اور ہوں تا کہ پتہ چل سکے کمزوری کس طرف سے واقع ہو رہی ہے اور جم کر مقابلہ کون کر رہا ہے



ایک رات جب لڑائی پورے شباب پر تھی، حضرت عباد بن بشر کو نیند آئی تو خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ آسمان کا دروازہ کھلا میں اندر داخل ہوا تو دروازہ بند کر دیا گیا۔ صبح ہوئی تو میں نے یہ خواب ابو سعید رضی اللہ عنہ کو بیان کیا اور ساتھ ہی خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے کہا:-

اے ابو سعید رضی اللہ عنہ  

: الله کی قسم! اس خواب میں مجھے شہادت کا اشارہ دیا گیا ہے۔ 


جب دن چڑھا لڑائی شروع ہوئی تو حضرت عباد بن بشر ایک ٹیلے پر چڑھ کر بآواز بلند پکار پکار کر کہنےلگے۔ اے انصار لوگوں سے الگ ہو جاؤ۔ اپنی تلواروں کی نیام میں توڑ ڈالو ، دیکھو تمھاری طرف سے اسلام میں کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ پورے جوش و جذبے سے یہ بات بار بار دھراتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس چار سو افراد جمع ہو گئے۔ جن میں ثابت بن قیس، براء بن ملک اور رسول کریم کا شمشیر بردار ابو دجانہ بھی موجود تھے۔


 حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ ان مجاہدوں کی قیادت کرتے ہوئے اپنی شمشیر براں سے دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے ہلاکت و موت سے بزور سینہ اٹکھلیاں کرتا آگے چلا گیا یہاں تک کہ مسلمہ کذاب کی فوج کو گلستان موت میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ 


حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ دیوانہ وار لڑتے ہوئے باغ کی دیوار کے پاس زخم کھا کر گرے اور شہید ہوگئے۔  

 

دشمن کی تلواروں، نیزوں اور تیروں کے زخموں سے ان کا بدن چھلنی ہو چکا تھا چہرے پر اس قدر زخم تھے کہ پہچانا نہ جاتا تھا۔ زخم کے ایک نشان کی بنا پر ان کی لاش کی شناخت ہو سکی۔ 


*بنا کر دند خوش رسمی بخون و خاک غلطیدن*

*خدا رحمت کند ایم عاشقان پاک طینت را*


حضرت عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کی مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں: 


1۔ تاریخ اسلام ذھبی : 370/1


2۔ تہذیب التھذیب: 90/5


3- الطبقات الکبری : 440/3


4۔ المجر فی التاریخ : 282


5۔ سیر اعلام النبلاء : 243/1


6- حیات الصحابہ : 716/1



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد

  

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی





Post a Comment

0 Comments