حضرت سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا

حضرت سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا







بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


حضرت سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا




✨خاندانی پس منظر..


نام اسماء، والد کا نام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رفیق سفر اور غار ثور کے دوسرے مکین تھے. والدہ کا نام قتیلہ بنت عبد العزی تھا اور خاوند میدان جہاد کے نامور شہسوار اور اسلام قبول کرنے میں سبقت کا اعزاز حاصل کرنے والے جلیل القدر صحابی سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے. والد کی جانب سے ان کی ہمشیرہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھیں. ان کے بیٹے کا نام عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھا، ہجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والا یہ سب سے پہلا بچہ تھا.


ان کے والد نے ان کی والدہ قتیلہ کو زمانہ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی۔ جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرلیا تو اپنی رفیقہ حیات ام رومان اور ان کے بطن سے پیدا ہونے والی اولاد کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اور ان کی بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے برضا و رغبت اسلام قبول کر لیا، البتہ ان کے بیٹے عبد الرحمن نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا، اسماء اور ان کے بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کر لی۔ بعد میں عبدالرحمن بھی دائر اسلام میں داخل ہو گئے.


✨ہجرت کے وقت کا کارنامہ:::


ام. المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ کم ہی کوئی دن ہوگا جس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر صبح یا شام کے وقت تشریف نہ لائے ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مدینہ منورہ کی طرف روانگی کا حکم دیا گیا تو آپ ہمارے پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے کہا : نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت کسی اہم معاملہ کے پیش نظر ہے ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں۔ 


جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں داخل ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جو بھی آپ کے پاس ہے اسے باہر بھیج دیجئے. تو انہوں نے عرض کیا


اے اللہ کے رسول! یہ میری دو بیٹیاں عائشہ اور اسماء ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "کیا آپ کو یہ معلوم ہوگیا ہے کہ مجھے روانگی کا حکم دے دیا گیا ہے؟" 

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! زہے قسمت! مجھے بھی آپ کے ساتھ چلنے کی اجازت ہے؟

 آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ہاں! آپ بھی میرے ساتھ چلیں گے۔

 انہوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میرے پاس دو اونٹنیاں ہیں، جنہیں میں نے سفر کے لئے تیار کیا ہے، ان میں سے ایک آپ قبول فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ٹھیک ہے، میں نے (تجھ سے) ایک اونٹنی قیمت کے عوض لے لی۔


سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اللہ کی قسم! میں نے آج سے پہلے کبھی کسی کو خوشی سے روتے نہیں دیکھا لیکن آج میں نے دیکھا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انتہائی خوشی کی وجہ سے رو رہے ہیں۔


جب مکہ معظمہ کے گلی کوچوں پر اندھیرا چھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس موجود تمام امانتیں ان کے سپرد کردیں، تاکہ وہ انہیں ان کے حق داروں کی طرف لوٹا دیں۔


 پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں ثور پہاڑ کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں ایک غار میں داخل ہو گئے۔


عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ قریش کی کارروائیوں کے بارے میں روزانہ تازہ ترین معلومات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا کرتے تھے اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کھانا اور پانی لے کر غار ثور میں آتیں یہاں تک کہ دونوں ہستیاں مدینہ کی طرف روانہ ہو گئیں۔


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی روانگی کی داستان کچھ یوں بیان کرتی ہیں:


 جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے کھانا تیار کردیا۔ ہمیں کھانے کے تھیلے اور پانی کے مشکیزے کا منہ باندھنے کے لئے کوئی رسی نہ ملی۔


میں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : اللہ کی قسم! 

میرے کمر بند کے علاوہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس سے تھیلے اور مشکیزے کا منہ باندھ سکوں. انہوں نے فرمایا : ازار بند پھاڑ کر دو حصے کر لو، ایک کے ساتھ مشکیزے اور دوسرے کے ساتھ کھانے کے تھیلے کا منہ باندھ دو، تو میں نے ایسے ہی کیا۔


اس بنا پر میرا نام "ذات النطاقین" یعنی دو ازار بندوں والی رکھ دیا گیا


فرماتی ہیں کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے حق میں یہ دعا کی.


((ابدلک اللہ بنطاقک ھذا نطاقین فی الجنۃ))

" تیرے اس کمر بند کے بدلے اللہ سبحانہ و تعالٰی تجھے جنت میں دو کمر بند عطا کرے گا"


قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کوئی نشان نہ ملا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر ہجرت پر روانہ ہوگئے تو قریش کی ایک ٹولی ہمارے پاس آئی، ان کے ساتھ ابو جہل بن ہشام بھی تھا۔ وہ لوگ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آئے۔ میں گھر سے باہر آئی، تو انہوں نے کہا : تیرا باپ ابو بکر کہاں ہے؟ میں نے کہا : اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میرا باپ کہاں ہے!

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ابو جہل نے میرے رخسار پر طمانچہ رسید کر دیا جس سے میرے کان کی بالی دور جا گری۔ فرماتی ہیں کہ پھر قریشی واپس چلے گئے۔


تین دن گزر گئے، ہم نہیں جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کس طرف کا رخ کیا ہے، پھر ہمیں معلوم ہوا کہ آپ نے مدینہ منورہ جانے کا ارادہ کیا ہے۔ آپ کے ساتھ میرے ابا جان، غلام عامر بن فہیرہ اور راستے کی رہنمائی کرنے کے لئے عبداللہ بن اریقط بھی تھے۔


✨عمدہ ذہانت::::::


امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر ہجرت پر روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی روانہ ہوئے۔


 سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال پانچ ہزار یا چھ ہزار درہم اپنے ساتھ لے لئے۔ 


فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس میرے دادا جان قحافہ آئے، وہ نابینا تھے، ہمیں کہنے لگے : اللہ کی قسم! میرے بیٹے نے تمہیں ذاتی اور مالی صدمہ پہنچایا ہے۔ کہتی ہیں کہ میں نے کہا : دادا جان! ایسی بات نہیں ہے، وہ ہمارے لیے بہت سا مال چھوڑ گئے ہیں۔ کہتی ہیں کہ میں نے گھر کے روشندان میں کچھ سنگریزے رکھ کر ان پر کپڑا ڈال دیا تھا، جہاں میرے ابا جان درہم و دینار رکھا کرتے تھے، پھر میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا: دادا جان! اپنا ہاتھ اس پر رکھیئے اور دیکھئے کہ وہ کتنا مال ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں!


 انہوں نے کہا : اگر وہ اتنا مال تمہارے لیے چھوڑ گئے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔


 اس نے بہت اچھا کیا۔ یہ مشکل وقت میں تمہارے کام آئے گا۔ فرماتی ہیں : 

اللہ کی قسم! انہوں نے ہمارے لئے کوئی چیز بھی نہیں چھوڑی تھی لیکن میں نے چاہا کہ اس طریقے سے میں بوڑھے دادا جان کو تسلی دوں


✨اسلام کے ساتھ وابستگی


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو اپنے دین پر فخر تھا، وہ دین اسلام کے احکامات پر عمل پیرا تھیں. ان کے تقوی نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ دریافت کریں کہ کیا وہ اپنی والدہ کا استقبال کر سکتی ہیں.؟ کیونکہ وہ مشرکہ ہے۔


امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہ روایت اپنی کتاب صحیح مسلم میں نقل کی ہے کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میری والدہ میرے پاس بڑی چاہت لے کر آئی ہے۔ کیا میں اس سے صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ہاں


ایک دوسری روایت میں کچھ اس طرح ہے :

 ابو کریب محمد بن العلاء سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو اسامہ نے ہشام سے اور اس نے اپنے باپ کے حوالے سے حدیث بیان کی اور اس نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے، وہ فرماتی ہیں، میرے پاس میری والدہ اس دور میں آئی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش سے معاہدہ کر رکھا تھا۔


میری والدہ مشرکہ تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فتوی طلب کیا کہ میری والدہ میرے پاس مجھ سے ملنے کی چاہت لے کر آئی ہے، کیا میں اس سے مل سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ہاں.، تم اپنی والدہ سے ملو.


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ کو اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک رکھا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان سنا تو انہوں نے اپنی والدہ کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے دی اور اس کے تحائف قبول کر لئے۔


اے آسماء!.... واہ آپ کی قسمت اور آپ کی عظمت کو سلام..!!.. اللہ نے تمہیں کتنا بلند نصیب عطا کیا! آپ نے اللہ تعالٰی کی شریعت کو ترجیح دی۔ آپ نے شریعت کے خیال کو فراموش نہ کیا اور اس تعلق کو بھی نہ چھوڑا جسے شریعت نے ماں کے ساتھ جوڑنے کا حکم دیا ہے. آپ اسلامی احکامات پر بڑی مضبوطی اور دلجمعی سے عمل پیرا ہوئیں. آپ کی عظمت کے کیا کہنے... آپ کی سر بلندی کو سلام


ایسے ہی کردار کے حامل لوگوں کے حق میں اللہ سبحانہ و تعالٰی نے یہ فرمایا ہے:


🌷حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ. 21.


🌷ذٰلِکَ ٭ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ. 22.


یکسو ہو کر اللہ کے بندے بنو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا. اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے، یا ہوا اسے دور دراز جگہ لے جاکر پھینک دے گی۔


یہی ( حکم ہے) اور جو شخص اللہ کی ( عظمت کی) نشانیوں کی تعظیم کرے، تو بلاشبہ یہ دلوں کے تقوی سے ہے۔


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کا تقوی روز روشن کی طرح واضح اور آفتاب و مہتاب کی مانند آشکار تھا اور وہ ہر قسم کے شکوک و شبہات سے مبرا اور پاک تھیں.


✨پہلے بچے کی والدہ==


سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ تمام امانتیں اہل امانت کے سپرد کرنے کے بعد آل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر ہجرت پر روانہ ہوئے۔ اس قافلے میں عبداللہ بن ابو بکر رضی اللہ عنہ، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا اور دونوں بہنیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا تھیں۔


سیدنا اسماء رضی اللہ عنہا حالت حمل میں تھیں۔ جب مدینہ منورہ پہنچیں تو انہوں نے نومولود کو جنم دیا، جسے ان کی ہمشیرہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے اسے گٹھی دی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔


✨صبر کرنے والی بیوی==


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ مفلسی کی زندگی بسر کی۔ گھریلو کام کاج اور اپنے خاوند کی گھوڑی کی دیکھ بھال نے انہیں تکلیف میں مبتلا کر رکھا تھا۔ مزید بر آں ان کا خاوند سخت مزاج تھا۔ جب سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اس صورت حال کی اپنے ابا جان سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو انہوں نے اسے صبر کرنے کی تلقین کی۔


تھوڑے عرصہ کے بعد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی مالی حالت بہتر ہو گئی، مال و دولت کی فراوانی ہو گئی، لیکن اس مالی فراوانی اور گھریلو خوشحالی نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے طرز معاشرت میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کی۔


 سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا دل کی بڑی غنی تھیں۔ دنیاوی چمک دمک ان کی طبیعت پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوتی تھی۔ وہ شریف الطبع اور کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے والی تھیں۔ جب وہ بیمار میں مبتلا ہونے کے بعد شفا یاب ہوئیں تو انہوں نے اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے اور اس کے فضل و کرم کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے غلام آزاد کئے۔ وہ اپنی اولاد کو سخاوت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں:


🌷انفقوا و تصدقوا ولا تنتظروا الفضل


✨=خرچ کرو، صدقہ و خیرات اور فراوانی کا انتظار نہ کرو=


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے والد گرامی کی نصیحت کو اپنی اولاد کی طرف منتقل کیا اور اپنے بیٹے عبداللہ کو بلند اخلاقی کے جوہر سے آراستہ کیا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ مشرکین کے ساتھ نبرد آزما ہوتے وقت بیٹے عبداللہ کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھالیا کرتے تھے۔ تاکہ وہ لڑائی کا فن سیکھ لے اور شہسواری میں مہارت پیدا کر لے۔


وہ اپنے والد گرامی سے شرف و کرم کا درس لیا کرتے تھے۔ وہ میدان حرب میں مقابلےکا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے میں دین الہی کے غلبہ کے لئے بہادری کا جوہر پیدا کیا تھا اور اسے ہر گھڑی حق کا ساتھ دینے کے لئے تیار کیا تھا۔


ایک دن کا ذکر ہے کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اور سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کا تعاون چاہا، جب وہ ان دونوں کے پاس اندر آنے لگے تو سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے غضبناک ہو کر کہا کہ اگر تم اندر آئے تو تیری والدہ کو طلاق دے دوں گا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کو اس گھٹن سے نجات دلانا چاہتے تھے۔


 وہ دل کڑا کرکے اندر داخل ہوئے تو زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو قطعی طلاق دےد ی۔ اس طرح دونوں میں ہمیشہ کے لئے جدائی ہو گئی۔


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہائش اختیار کر لی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے لئے علم و ہدایت کی دعا کیا کرتے تھے


ایک دفعہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی گردن میں ورم پیدا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوجی ہوئی جگہ پر اپنا دست مبارک لگایا تو اللہ تعالٰی نے شفا عطا کر دی۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو سب سے بڑا صدمہ اس وقت پہنچا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دنیائے فانی سے اپنے رفیق اعلی رب العالمین کی طرف کوچ کر گئے۔ وہ اس موقع پر بہت زیادہ غمزدہ ہو ئیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ساتھ انتہائی رحم دلی اور شفقت کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیائے فانی سے کوچ کرنے سے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا ایک مضبوط سہارے سے محروم ہو گئیں۔ پھر تھوڑی عرصہ بعد سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے والد گرامی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی دنیائے فانی سے کوچ کر گئے، جس سے یہ دوسرے بڑے مضبوط سہارے سے محروم ہو گئیں۔


✨انوکھی بہادری اور ثابت قدمی==


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اپنے بیٹے عبداللہ کے ساتھ زندگی کے دن بسر کرنے لگیں۔ وہ ایک بہادر اور جوانمرد شخص تھے۔ جس نے اپنی والدہ کی نگرانی میں پرورش پائی تھی، انہوں نے اپنے بیٹے کو شمائل محمدیہ سے آراستہ کیا تھا۔ دن پے در پے گزرنے لگے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بڑا محتاط دانشور بن گیا، اسے شمشیر زنی میں مہارت حاصل ہوگئی۔


یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے بعد مروان بن حکم بھی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اپنا زیر فرمان بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جب اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان مسند اقتدار پر براجمان ہوا تو اس نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کے ساتھ اس بات پر اتفاق کیا کہ عبداللہ بن زبیر کو طاقت کے زور پر مطیع فرمان بنایا جائے اور اس مقصد کے لئے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی جائے، وہ اگر اطاعت قبول نہ کریں تو اس کا کام تمام کر دیا جائے۔


حجاج بن یوسف اپنا لشکر لے کر مکہ معظمہ پہنچا اور اس نے وہاں پہنچ کر جبل ابو اقبیس کی چوٹی پر توپ نصب کر لی اور مسجد حرام اور کعبۃ اللہ پر گولہ باری شروع کر دی، کیونکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مسجد حرام میں پناہ لئے ہوئے تھے.


حجاج بن یوسف نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا سخت محاصرہ کیا. جب محاصرے نے شدت اختیار کرلی تو انہوں نے محاصرہ توڑنے کی غرض سے اپنے دشمن کا مقابلہ شروع کر دیا. سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے موقع پا کر اپنی والدہ کے پاس پہنچ گئے، تاکہ ان سے پند و نصائح اور رہنمائی حاصل کریں.


سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کو بڑے واضح انداز میں بتایا کہ بیشتر ساتھی ان کو چھوڑ گئے ہیں، محاصرہ بڑا سخت ہے، حالات بڑے کٹھن ہیں. سیدنا اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا قتل ہو جانے کے ڈر سے اپنے دینی جذبات کو پامال نہ کرنا۔


سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا : اماں جان! مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کر کے میری لاش کے ٹکڑے کر دیں گے.


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا : بیٹا.! بکری کو جب ذبح کر دیا جاتا ہے تو پھر اسے کیا، جس طرح بھی اس کے گوشت کو کاٹا جائے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے، بیٹا جاؤ، اللہ کی مدد طلب کرو اور اپنی بصیرت کے مطابق عمل کرو۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کے پاس سے اٹھے اور بڑی بہادری کے ساتھ میدان میں اتر کر دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے لگے اور بار بار یہ شعر پڑھنے لگے.


✨اسماء ان قتلت لا تبکی....

✨لم یبق الا حسبی و دینی..... 

✨وصارم لا نت بہ یمینی....


"" اے میری والدہ سیدہ اسماء! اگر میں قتل کر دیا گیا تو آپ مجھ پر آہ و بکا نہ کریں

 میرا خاندان اور دین باقی رہے گا 

اور میرا دایاں ہاتھ تیز تلوار کے ساتھ نرم پڑگیا. ""


سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کب تک ظالم ٹولے کے سامنے ڈٹے رہتے، وہ پورے جوش و جذبے کے ساتھ دشمن کے ساتھ نبرد آزما تھے کہ اس دوران میں مسجد کا ایک ستون ٹوٹ کر ان پر گر پڑا جس سے وہ شہید ہو گئے


امام مسلم رحمہ اللہ اپنی کتاب صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:


سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہر کی ایک گھاٹی میں دیکھا گیا کہ ان کی لاش پڑی ہوئی ہے اور ان کے پاس سے قریش اور دوسرے لوگ چپکے سے دیکھتے ہوئے گزرتے جا رہے ہیں۔


جب سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو لاش کو دیکھ کر رک گئے اور تین مرتبہ لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا : اے ابو حبیب..! السلام علیکم..!


پھر غمزدہ ہو کر تین مرتبہ یہ کہا کہ اے ابو حبیب میں نے تجھے اس مقابلہ آرائی سے روکا تھا، اللہ کی قسم..! تو امت کا ایک بہترین فرد تھا. یہ کہتے ہوئے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وہاں سے چل دیئے.


حجاج بن یوسف کو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے وہاں رکنے اور ان کی باتوں کا پتا چل گیا۔ اس نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش کو تختہ دار سے اتارنے کا حکم دیا اور اسے یہودیوں کے قبرستان میں پھینک دیا گیا۔


پھر حجاج بن یوسف نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی والدہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ اس کے پاس آئے۔ انہوں نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ اس نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ میرے پاس آئیں، ورنہ میں کسی ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تجھے سر کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر میرے پاس لائے گا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے یہ بات سن کر پورے جوش و جذبے سے کہا:


جاؤ! اس سے کہہ دو میں تیرے پاس نہیں آؤں گی، تو ایسے شخص کو بھیج جو مجھے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ کر تیرے پاس لے کر آئے۔


پھر حجاج نے جوتے پہنے اور اکڑفوں کرتے اور اتراتے ہوئے چلا اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ کر کہنے لگا:


دیکھ لیا! اپنے بیٹے کا انجام۔ میں نے اللہ کے دشمن کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کمال صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا : تونے اس کی دنیا خراب کر دی اور اس نے تیری آخرت برباد کر دی


پھر فرمانے لگیں : مجھے پتا چلا ہے کہ تم میرے بیٹے کو ذات النطاقین کا فرزند کہہ کر پکارتے ہو! مجھے اپنے ذات النطاقین ہونے پر فخر ہے، میں نے ہجرت کے موقع پر اپنے کمر بند کے دو حصے کئے، ایک کے ساتھ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کھانے کے تھیلے کا منہ بند باندھ دیا۔ 


پھر فرمایا: کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلہ ثقیف کے بارے میں ارشاد فرمایا : اس میں ایک کذاب اور ایک تباہی مچانے والا ہوگا۔


کذاب تو ہم نے دیکھ لیا، میرا خیال ہے کہ تباہی مچانے والے تم ہو۔ حجاج خاموشی سے اٹھ کر چلا گیا اور کوئی جواب نہ دیا۔


سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش کو تختہ دار پر لٹکائے جانے کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ مسجد حرام میں داخل ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ ام عبداللہ سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا مسجد کے کونے میں تشریف فرما ہیں۔


آپ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں دلاسا دیتے ہوئے فرمانے لگے : ان جسموں کی کوئی بات نہیں، اصل معاملہ تو روحوں کا ہے۔ وہ اللہ تعالٰی کے ہاس محفوظ ہوجاتی ہیں، آپ صبر سے کام لیں اور ہر دم اللہ سے ڈرتی رہیں۔


اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی پروا نہیں۔ کچھ دنوں بعد سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بھی سفر آخرت پر روانہ ہو کر اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئیں.


رہے نام اللہ کا یہ دنیا مسافر خانہ ہے.


نزلنا ھھنا ثم ارتحلنا کذا الدنیا نزول وارتحال


ہم یہاں فرو کش ہوئے، پھر ہم نے یہاں سے کوچ کیا۔


اسی طرح دنیا میں آنا جانا لگا رہتا ہے......۔۔۔۔۔۔۔



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد ۔۔

  

 

تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ----- لقمان قاسمی 

Post a Comment

0 Comments