سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا

 سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا 







بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


 سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا





✨خاندانی پس منظر :


نام اسماء، والد کا نام عمیس بن سعد اور والدہ کا نام ہند بن عوف تھا۔ ان کی ہمشیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا دوسری ہمشیرہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ام الفضل اور تیسری ہمشیرہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب کی زوجہ محترمہ سیدہ سلمی رضی اللہ عنہا تھیں۔


سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ذوالجناحین سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ دونوں نے اپنے دین کی حفاظت کے پیش نظر حبشہ کی طرف ہجرت کی۔


قریش مسلمانوں کو دین اسلام سے منحرف کرنے کے لئے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے تھے اور طرح طرح کی سزائیں دے رہے تھے۔ قریش کی ایذا رسانی سے بچنے کے لئے یہ دونوں میاں بیوی سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔


حبشہ میں قیام کے دوران میں سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے تین بیٹوں کو جنم دیا۔ جن کے نام ترتیب وار یہ ہیں۔ 1 محمد... 2. عبداللہ... 3. عون...


جب مہاجرین حبشہ سے واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فتح خیبر میں مصروف تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو فتح کر لیا تو آپ کو حبشہ سے مہاجرین کے واپس آنے کی اطلاع دی گئی۔


جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ منورہ پہنچ کر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو اس کے ماتھے کو چوما، اس سے گلے ملے اور یہ فرمایا :


✨ما ادری بایھما انا اسر


بفتح خیبر او بقدوم جعفر


مجھے معلوم نہیں کہ مجھے زیادہ خوشی خیبر فتح ہونے کی ہے یا جعفر رضی اللہ عنہ کے آنے کی ہے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بڑی محبت کرتے تھے اور آپ اسے ہمیشہ یہ فرماتے :


✨اشبھت خلقی و خلقی


تمہاری شکل و صورت اور اطوار مجھ سے ملتے جلتے ہیں



✨مومن بہنیں :


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور ان کی بہنوں کو الاخوات المومنات کہہ کر ان کے مومن ہونے کی گواہی دی ۔ کیا کسی عقل مند کے لئے اس کی زندگی میں ایمان کے تحفہ سے بڑھ کر کوئی اور اعزاز ہو سکتا ہے..!!


سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ان الاخوات مومنات میمونۃ زوج النبی و ام الفضل بنت الحارث و سلمی امراۃ حمزۃ و اسماء بنت عمیس۔


"چار مومن بہنیں میمونہ اور ام الفضل بنت حارث حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیوی سلمی اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا"


✨میدان دعوت و جہاد میں کردار :


سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور اس کی بہنوں کا دعوت الی اللہ کے میدان میں بہت زیادہ اثر انگیز کردار تھا۔ خواتین میں دین اسلام کی نشر و اشاعت میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔


امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب" صحیح بخاری" میں کچھ یوں روایت نقل کی ہے ابو بردہ نے ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، وہ فرماتے ہیں کہ ہم یمن میں تھے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہونے کی خبر ملی۔


میں اور میرے دو بھائی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملنے کے لئے سفر ہجرت پر نکلے۔ میں اپنے دونوں بھائیوں سے عمر میں چھوٹا تھا۔ ایک کا نام ابو بردہ تھا اور دوسرے کا نام ابو رہم تھا


ہمارے ساتھ ہماری قوم کے باون یا ترپن اور اشخاص بھی تھے۔ ہم. کشتی پر سوار ہوئے، سمندر کی لہروں نے ہمیں حبشہ کے ساحل پر پہنچا دیا۔ ہم وہاں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ملے۔ پھر ہم سب اکھٹے مدینہ منورہ کی طرف محو سفر ہوئے اور وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی۔ آپ ابھی خیبر فتح کر کے واپس مدینہ منورہ پہنچے ہی تھے



کچھ لوگ ہم کشتی والوں کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ہجرت کے حوالے سے ہم تم پر سبقت لے گئے ہیں۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کرنے ان کے پاس گئی۔


 یہ ان لوگوں میں شامل تھیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملنے کے لئے ان کے پاس تشریف لائے تو وہاں سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بھی بیٹھی ہوئی تھیں۔


سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : یہ کون ہے؟


سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا : یہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہیں۔


سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : وہی اسماء جو حبشہ میں رہی اور سمندر کے راستے یہاں پہنچی۔


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں : ہاں ہاں وہی!


سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم ہجرت کے حوالے سے تم پر سبقت لے گئے ہیں، ہم تمہاری نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر زیادہ حق رکھتے ہیں۔ یہ سن کر سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ناراض ہو گئیں، کہنے لگیں :


واللہ ایسا نہیں ہو سکتا، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہے، وہ تمہارے بھوکوں کو کھانا کھلاتے رہے، تمہارے جاہلوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہے۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت تک کھانا نہ کھاؤں گی اور نہ پانی پیوں گی جب تک یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گوش گزار نہ کر دوں۔


اللہ کی قسم.! میں جھوٹ نہیں بولوں گی، بالکل وہی بات کروں گی جو آپ نے مجھے کہی، اس میں ذرا برابر بھی کمی بیشی نہیں کروں گی۔


جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ کچھ کہا ہے۔


آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا : تم نے جواب میں اسے کیا کہا ؟


تو انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اسے یہ کچھ کہا ہے۔


پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:


""الیس باحق بی منکم. ولہ ولاصحابہ ھجرۃ واحدۃ ولکم انتم اھل السفینۃ ھجرتان.""


کوئی تم سے زیادہ مجھ پر حق نہیں رکھتا۔ عمر اور اس کے ساتھیوں نے ایک ہجرت کی، جب کہ کشتی والوں نے دو ہجرتیں کرنے کی سعادت حاصل کی


سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابو موسی اور کشتی والے میرے پاس جتھوں کی صورت میں آکر اس حدیث کے بارے میں پوچھتے۔


 کیونکہ ان کے لئے یہی بہت بڑی خوشی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دو ہجرتوں کی سعادت حاصل کرنے والے قرار دیا ہے۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ان کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ وہ اس پر بہت زیادہ نازاں و فرحاں تھے۔

 ابو بردہ بیان کرتے ہیں:

 سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ابو موسی میرے حوالے سے بار بار یہ حدیث بیان کرتے تھے۔


✨شہید جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی بیوی::::


جب سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں مستقل رہائش اختیار کرلی تو جعفر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہر معرکے اور جنگ میں شریک ہونے لگے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رومیوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ موتہ میں تین اشخاص کو یکے بعد دیگرے امیر لشکر بننے کا حکم دیا ان میں ایک سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ تھے۔


امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں خالد بن شمیر سے روایت نقل کی، فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس عبداللہ بن رباح تشریف لائے۔ میں نے انہیں دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے پاس جمع ہیں۔


اس نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک شہسوار صحابی سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رومیوں کے مقابلے کے لئے لشکر روانہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :


"تم زید بن حارثہ کو اپنا امیر بنانا، اگر زید شہید ہوجائے تو جعفر کو اپنا امیر بنانا اور اگر وہ شہید ہوجائے تو عبداللہ بن رواحہ انصاری کو اپنا امیر بنا لینا"


سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں کوئی تھکا ماندہ تو نہ تھا کہ آپ نے زید بن حارثہ کو میرا امیر مقرر کر دیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :


آپ چلیں، آپ کو یہ معلوم نہیں کہ کون بہتر ہے؟



لسکر اسلام روانہ ہوا اور چند دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور حکم دیا:


 کہ "اَلصَّلَاةُ جَامِعَةٌ" کی منادی کر دی جائے۔


 جب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

اللہ خیر کرے، کیا میں تمھیں لشکر کے بارے میں وہ خبر نہ بتاؤں جو مجھے وحی کے ذریعے سے معلوم ہوئی ہے؟


ہوا یہ ہے کہ مجاہدین روانہ ہوئے، دشمن کے ساتھ ان کا مقابلہ ہوا، امیر لشکر زید بن حارٹہ داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گئے، اس کے حق میں مغفرت کی دعا کرو، تو لوگوں نے مغفرت کی دعا کی۔ 


اس کے بعد لشکر اسلام کا جھنڈا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے تھام لیا۔ وہ بھی دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے، اس کے حق میں بھی مغفرت کی دعا کرو، تو لوگوں نے مغفرت کی دعا کی۔ 


اس کے بعد لشکر اسلام کا جھنڈا عبد اللہ بن رواحہ نے تھام لیا، اس نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا لیکن وہ بھی دادِ شہادت دیتے ہوئے شہید ہو گئے، اس کے حق میں بھی مغفرت کی دعا کرو۔ لوگوں نے ان حق میں بھی مغفرت کی دعا کی۔


 پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعد لشکر اسلام کا جھنڈا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے تھام لیا، وہ امیر لشکر بن گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کی دو انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائیں اور یہ ارشاد فرمایا:


💕((اَللَّھُمَّ ھُوَ سَیَفٌ مِّنْ سُیُوفِ اللہِ ))

"الہی! وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے"


💕((فَانْتَصِربِه))


"تو اس کے ذریعے سے لشکر اسلام کی مدد فرما"


پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


💕(( انفِرُوْا فَاَمِدُّوْا اِخْوَانَکُمْ وَ لَا یَتَخَلَّفَنَّ اَحَدٌ))


"چلو اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور کوئی پیچھے نہ رہے۔"


لوگ سخت گرمی میں پیدل اور سوار ہو کر چل پڑے۔ ( مسند احمد )


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کو سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا کیسے علم ہوا؟ 


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا خود شہادت کی داستان کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں، جب جعفر رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھی شہید ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے 

رسول اقدس ﷺ کو جب لشکر اسلام کے تینوں جفاکش سپہ سالار کے یکے بعد دیگرے شہید ہوجانے کی خبر ملی، تو بڑے افسردہ ہوئے، آپ فوراً تعزیت کے لئے اپنے چچا زاد بھائی جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر گئے، وہاں آپ نے عجیب منظر دیکھا کہ ان کی بیوی اسماء بنت عمیس اپنے خاوند کے استقبال کی تیاریاں کررہی ہیں، کھانا تیار کیا ہوا ہے، بچوں کو نہلا دھلا کر انہیں اجلے کپڑے پہنا رکھے ہیں۔


حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ: جب رسول اقدس ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے تو حزن و ملال کے آثار چہرے پر نمایاں تھے، آپ ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل پر خوف طاری ہوگیا، میں نے اپنے خاوند کے متعلق آپ سے پوچھا۔


آپ ﷺ نے فرمایا: جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کو میرے پاس لاؤ، میں نے انہیں آواز دی تو وہ دوڑے ہوئے شاداں و فرحاں حضور ﷺ کی گود میں آکر بیٹھ گئے، آپ پیار سے انہیں چومنے لگے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔


میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ رو کیوں رہے ہیں، کیا آپ کو جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں سپہ سالار کے متعلق کوئی خبر ملی ہے؟ 


فرمایا: ہاں! وہ شہید کردیئے گئے ہیں، جب ان معصوم بچوں نے دیکھا کہ ان کی ماں زار وقطار رو رہی ہے تو ان کے چہروں سے مسکراہٹ جاتی رہی اور بےحس وحرکت ایسے کھڑے ہوگئے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں۔


رسولِ اکرم ﷺ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے تشریف لے گئے اور ہمارے لئے دعا کی: "الٰہی! جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد کی مدد فرما، الٰہی! جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی نگہبانی فرما۔"


پھر آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ: "میں نے جعفر رضی اللہ عنہ کو جنت میں اس حال میں دیکھا کہ اس کے دونوں بازو خون میں آلود ہیں اور پاؤں بھی خون سے رنگین ہوچکے ہیں۔"


🌟سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے شادی:::


غزوہ حنین کے دوران میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیوی ام رومان رضی اللہ عنہا اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دیا۔ 


سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسی مثالی شخصیت کے پیغام کو کیسے مسترد کیا جا سکتا ہے۔ ان کی خوبیاں تو بے شمار ہیں۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اس جلیل القدر ہستی کے گھر داخل ہوئیں جس نے سب سے پہلے نور ایمان سے اپنے دل کو منور اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا تھا۔


سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد اس پر اور اس کی اولاد پر محبت و شفقت نچھاور کی۔ شادی کے بعد حجة الوداع کے لئے جاتے ہوئے راستے میں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاں محمد بن ابی بکر صدیق نے جنم لیا۔ امام نسائی نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے:


💕(( انھا ولدت محمد بن ابی بکر الصدیق بالبیدآء فذکر ابوبکر ذلك لرسول اللہ صلی علیہ وسلم فقال مرھا فلتغتسل ثم لتھل ))


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی یر مسرت و شادمانی میں برابر شریک رہیں۔ دونوں وفا کے پیکر میاں بیوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیائے فانی سے کوچ کرنے اور وحی کے منقطح ہونے کا انتہائی صدمہ پہنچا۔


مسند خلافت پر براجمان ہونے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر پہلا کٹھن مرحلہ پیش آیا وہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی امارت میں لشکر اسلام کی روانگی کا تھا۔ بعض صحابہ کرام نے یہ مطالبہ کیا کہ اسلام کا امیر کسی ایسے صحابی کو بنایا جائے جو ان سے عمر میں بڑا ہو، لیکن سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس تجویز کو نہ مانا، کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے گئے فیصلے کو ختم کرناپسند نہیں کرتے تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لشکر اسامہ کو الوداع کہنے تھوڑی دور تک پیدل اس کے ساتھ چلے

مسند خلافت پر براجمان ہونے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے دوسرا کٹھن مرحلہ ان مرتدین کا پیش آیا جنھوں نے زکوة دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے زکوة نہ دینے والوں کی سرکوبی کے لئے لشکر کشی کی اور عزم راسغ ک مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی جو بنیادیں استوار کی تھیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان بنیادوں کو اور مضبوط کیا اور فتنہ ارتدد میں مبتلا ہونے والوں کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیں۔ عہد صدیقی میں کافر بریدہ ہو گئے اور لشکر اسلام نے یمامہ کے فتنہ پرداز مسلیمہ کذاب کو جہنم رسید کر دیا۔


شیخ الاسلام سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ کے دل میں حبیب کبریا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا شوق انگڑائیاں لینے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کو برداشت کرنا ان کے لئے دشوار ہو گیا تو بیمار پڑ گئے ۔


 جب انہوں نے محسوس کیا کہ میرا آخری وقت آ گیا ہے تو اپنی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو وصیت کی کہ تم مجھے اپنے ہاتھ سے غسل دینا، جس دن میں وفات پا جاوں اس دن نفلی روزہ نہ رکھنا۔ 


جب کوچ کا وقت قریب آیا سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا چہرہ اور زیادہ چمکنے لگا۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے رفیق حیات کو نزع میں دیکھ کر ان کے چہرے کو محبت بھرے انداز میں اپنے سینے سے لگا لیا اور قرآنی آیات کی تلاوت شروع کر دی، تاکہ صدیق اکبر سن کر سکون محسوس کریں۔ تھوڑی دیر بعد زندگی کی دوڑی ٹوٹ گئی۔ اللہ ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے۔ ان پر اپنا فضل کرے اور انھیں اپنی رضا سے نوازے۔


 سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کثرت سے روزے رکھنے کی عادی تھیں، لیکن جس دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ نے وفات پائی انھوں نے روزہ نہ رکھا اور اپنے خاوند کی میت کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیا۔ اس طرح انہوں نے وصیت پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کی۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بہت اچھی رفیقہ حیات ثابت ہوئیں


✨امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے شادی:-


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عدت پوری کی، پہلے خاوند سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے تینوں بیٹوں اور دوسرے خاوند سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے کی تعلیم و تربیت کو وظیفہ حیات بنا لیا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یہ ارادہ کیا کہ انہیں تنہائی کی زندگی سے نکالیں اور ان غموں سے نجات دلائیں جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل سے لاحق ہوئے اور ان غموں کی وجہ سے کبیدہ خاطر ہیں۔ 


سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انھیں نکاح کا پیغام دیا اور ان کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ اس طرح سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا اپنے بیٹوں کے ساتھ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہو گئیں۔ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر ان کی مدد گار بن گئیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکمت و دانائی سے ان کی حکمت و دانائی میں اضافہ ہو گیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے افکار و خیالات کی وجہ سے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے افکار و خیالات مین پختگی پیدا ہوئی اور خوشی و غمی میں ساجھی بن کر دونوں میاں بیوی شاہراہ حیات پر گامزن ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی کے بعد سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاں یحیی نامی بیٹے نے جنم لیا۔


🌟رشد وہدایت پر مبنی ذہانت و فطانت:-

سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بڑی ذہین و فطین خاتون تھیں۔ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو اپنے اللہ کی عطا کردہ صلاحیت سے اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ تلاش کر لیتیں اور امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگتیں


امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی کے بعد پہلے خاوند جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور دوسرے خاوند سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ ہر ایک اپنے باپ پر فخر کرتے ہوئے یہ دعوی کر رہا تھا کہ میرا باپ تیرے باپ کی نسبت کہیں بہتر ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان بچوں کو جھگڑتا ہوا دیکھ رہے تھے، ایک طرف بھائی کے بیٹے تھے اور دوسری طرف سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا لخت جگر تھا ان کے لئے سبھی بچے عزیز تھے۔ وہ حیران تھے کہ ان بچوں کو کس طرح سمجھایاجائے، ان کے جھگڑے کو کس طرح ختم کیا جائے؟؟ 


پھر خیال آیا کہ اپنی رفیقہ حیات سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے مدد لی جائے، کیونکہ وہ ان بچوں کی ماں ہے۔ انہیں بلایا، جب انہوں نے اپنے بچوں کو جھگڑتے دیکھا اور باہمی جھگڑے کی وجہ معلوم ہوئی تو سب بچوں سے مخاطبہو کر فرمانے لگیں: 


سر زمین عرب میں جعفر سے بہتر جوان میں نے نہیں دیکھا اور سر زمین عرب میں ابوبکر صدیق سے بہتر بہتر بزرگ مخھے کوئی نہیں دکھائی دیا۔ یہ بات سن کر سب بچے خاموش ہو گئے اور خوشی سے ایک ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے۔پھر سب مل کر آپس میں کھیلنے لگے، یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ کبھی آپس میں لڑے ہی نہ تھے



سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ صورتحال دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے اور اپنی بیوی کی ذہانت و فطانت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے، پھر مسکراتے ہوئے فرمایا: آپ نے میرے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی، ایک سر زمین عرب کا بہترین جوان اور دوسرا سر زمین عرب کا بہترین، بزرگ ہم کدھر گئے؟ 


سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا ان کی بات سن کر فرمانے لگیں: امیر المومنین! تینوں میں آپ کے بہتر مقام کے بھلا کیا کہنے!


یہ سن کر ابو الحسن سیدنا علی رضی اللہ عنہ خوش ہوگئے۔ سیدنا اسماء رضی اللہ عنہا اس قابل کہ وہ خلیفہ المسلمین کی بیوی ہو اور امیر المومنین کی رفیقہ حیات بن کر خاتون اول کے مقام پر فائز ہو۔


🌟وفات:-


ایک صبح نماز فجر کی ادائیگی کے امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ گھر سے مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ عبد الرحمن بن ملجم نے ان پر زہر میں بجھی ہوئی تلوار کے ساتھ قاتلانہ حملہ کر دیا۔ آپ زخموں کی تاب نہ لا کر اللہ کو پیارے ہو گئے، ان کی وفات سے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، وہ اسی غم و اندوہ میں مبتلا ہو کر بیمار ہو گئیں۔ بیماری ان پر غالب آ گئی، پھر تھوڑے ہی عرصے میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں، اللہ ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسے اور ان کی عمدہ انداز میں مہمان نوازی کرے۔ آمین!


آسمان آپ کی لحد کی شبنم افشانی کرے


🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد ۔۔

  

 

تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ----- لقمان قاسمی


Post a Comment

0 Comments