سیدہ أمّ رومان رضی اللہ عنہا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
سیدہ أمّ رومان رضی اللہ عنہا
✨خاندانی پس منظر :-
ان کا نام زینب تھا ، بعض کہتے ہیں کہ ان کا نام وعد تھا ۔ لیکن ام رومان کا لقب نام پر غالب آگیا اور وہ اپنے اسی لقب سے مشہور و معروف ہوئیں ۔
والد کا نام عامر بن عویمر تھا ۔ زمانہ جاہلیت میں ام رومان کی شادی حارث بن سنجرہ ازدی کے ساتھ ہوئی جن کا اپنی قوم میں بڑا بلند مقام و مرتبہ تھا ۔ ام رومان نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام طفل بن حارث رکھا گیا ۔
یہ خاندان جزیرة العرب کے سداة نامی مقام پر قیام پذیر تھا ۔ پھر حارث اپنے اہل خانہ کو لیکر روانہ ہوا اور مکّہ معظمہ میں رہائش اختیار کر لی ۔
اس دور میں یہ قانون تھا جو بھی باہر سے آکر مکّہ معظمہ میں قیام پذیر ہونا چاہتا ہے ، اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ مقام زعماء میں سے کسی کو اپنا حلیف بنا لے ، تاکہ اسے اس کی کفالت میسر آسکے اور وہاں آسانی سے گزر بسر ہوسکے ۔ حارث نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا کفیل بنا لیا ۔
یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا ہے ۔ حارث کے خاندان کو مکہ معظمہ میں رہائش اختیار کئے ہوئے ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ام رومان کا رفیق حیات ، جس پر بھروسا کیے ہوئے زندگی بسر کر رہی تھی ، وہ دنیائے فانی سے کوچ کر گیا ۔
جزیرة العرب میں یہ رواج پایا جاتا تھا کہ جب کوئی شخص وفات پا جاتا تو اس کی بیوہ کی شادی کرنے میں جلدی کی جاتی ۔
یہ طرز عمل مرنے والے کی عزت و تکریم کے پیش نظر اختیار کیا جاتا ، اس طرح میت کے خاندان کو سہارا مل جاتا اور بیوہ کی زندگی پر امن بسر ہونے لگتی۔
اسی معاشرتی نظام کے مد نظر رکھتے ہوئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ام رومان کے ساتھ شادی کر لی اور اس شادی کے نتیجے میں عبد الرحمن اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ام المؤمنين ہونے کا شرف حاصل ہوا
✨ام رومان کا مسلمان ہونا :-
ام رومان نے اپنے بیٹے طفیل بن حارث کے ساتھ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر میں سعادت ، فیاضی ، امن ، سکھ ، چین اور خوشحالی کی زندگی بسر کی ۔
پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس کے دل میں آسمانی نور کی جھلک پیدا ہوئی ۔
ہوا ہہ کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گھر میں تشریف لائے اور انہوں نے ام رومان کو بتایا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ، دعوت و ارشاد کے میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاون میری ذمہ داری ہے اور لوگوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچانے کا فریضہ بھی میں سر انجام دیتا ہوں اور نئے دین کے احکامات کی وضاحت کرنے کی بھی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ محسوس کیا کہ دعوت کا آغاز اپنے قریبی رشتہ داروں سے کیا جائے ، کیونکہ رشتہ داروں میں اعتماد کی فضا زیادہ ہوتی ہے ۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ام رومان کو اپنے نقشے قدم پر چلنے کی دعوت دی اور انہوں نے فوری طور پر اسے قبول کر لیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کر لی ۔
لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی ام رومان سے کہا کہ ابھی اپنے مسلمان ہونے کو صیغہ راز میں رکھیں ، کسی کو بتائے نہیں ۔ یہ صورت حال اس وقت تک رہے جب تک اللہ رب العالمین سازگار ماحول نہ پیدا کرے ۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام رومان کے اسلام قبول کرنے کا بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ خوش ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر و بیشتر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آمد و رفت تھی ، کیونکہ یہ گھر آپ کے لیے دوسروں گھروں کی نسبت زیادہ محفوظ و مامون تھا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر تشریف لاتے تو دونوں وفا کے پیکر میاں بیوی وفور شوق سے خوش آمدید کہتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے گھر میں بہار آجاتی ، فضائیں جھومنے لگتیں ۔ گھر کے آنگن میں مسرت و شادمانی کا ہن برسنے لگتا ۔
اس طرح ام رومان کا گھر اس اعتبار سے بڑا بابرکت ثابت ہوا کہ اس میں سب سے پہلے قرآنی آیات کی تلاوت ہوئی اور اسلام کا جھنڈا لہرایا ، بلکہ یہ گھر ایسا روشندان بنا جس سے اسلامی دعوت کے انوار ہر سو پھیلنے لگے
✨ازدواجی ذمے داری :-
سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا اپنے خاوند کی بہترین معاون ثابت ہوئیں اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے لیے بہترین رفیق حیات ثابت ہوئے ۔
ان دونوں سے بڑھ کر سعادت مند کون ہوسکتا ہے جن کے گھر اعلی و ارفع ، بہتر و برتر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم قدم رنجا فرماتے ہوں ۔ ان کی خوش نصیبی کے کیا کہنے جن کے اللہ سبحانہ و تعالٰی کا بہتر و برتر فرشتہ وحی لے کر آتا ہو !!
سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے بلا تأخیر کمر بستہ ہو جاتیں اور اس کے لیے ذاتی جدوجہد کے ساتھ بے دریغ مال و دولت بھی خرچ کرتیں ۔ وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حوصلہ دیتے ہوئے اس کام پر آمادہ کرتیں کہ وہ ان کمزور و ناتواں غلاموں کو خرید کر آزاد کریں جنہیں اسلام قبول کرنے کی پاداش میں طرح طرح کی سزائیں دی جاتی ہیں ۔
وہ عموما ان خرید کردہ غلاموں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرنے کی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ترغیب دلاتیں تھی ۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اعلاء کلمہ اللہ کے لیے اپنی بیوی کی جانب سے حوصلہ افزائی اور تعاون کو دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوتے اور اس طرز عمل کو ہر خوبی پر ترجیح دیتے ۔
سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کو اس بات کا احساس تھا کہ اسلام نے اس پر گھر کے اندر اور باہر ازدواجی ذمے داری کو نبھانے کا حکم دیا ہے ۔
گھر کے اندر ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند کی ضروریات کا خیال رکھے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ دے ۔
یہ کیسی دلچسپ صورت حال کہ گھر میں ایک تروتازہ کلی پرورش پا رہی ہے ، جسے سیدہ عائشہ( رضی اللہ عنہا ) کے نام سے یاد کیا جاتا ، جو آگے چل کر ام المومنین اعلی و ارفع اعزاز حاصل کرنے والی ہیں ، جس کی مہک پوری دنیا میں پھیلنے والی ہے ۔
گھر سے باہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے خاوند سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ دشمنان اسلام سے ملنے والی تکالیف پر ان دونوں کو دلاسا دیتیں ، ان کے حوصلے بڑھاتیں ، تاکہ ظالموں اور شرپسندوں کی ریشہ دوانیوں کا دلجمی سے مقابلہ کر سکیں اور ان دشمنوں کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کر سکیں
✨حبیبِ کبریا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ داری :-
سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کو یہ جان کر بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی خوشدامن بنانے کی دلی رغبت رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
اے خاندان ابو بکر ! اس سے بڑھ کر خیر و برکت تم پر اور کونسی نازل ہوسکتی ہے ؟
اس سے بڑھ کر فضل و شرف اور کیا ہوسکتا ہے ؟
اس سے بڑھ کر تم کیا عزت پا سکتے ہو؟
اس سے بڑھ کر تمہیں اور کیا اعزاز مل سکتا ہے ۔
تمہیں یہ شرف مبارک ہو کہ رب العزت نے سات آسمانوں کے اوپر سے یہ حکم دیا ہے ۔ اس نے اپنے سفیر سیدنا جبرائیل علیہ السلام کو وحی دے کر بھیجا کہ اپنے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس با برکت شادی کی اطلاع دے ۔
اے ام رومان رضی اللہ عنہا !-----ذرا بتاؤ تو سہی تمہارے لیے اور تمہارے جلیل القدر خاوند کے لیے اس سے بڑھ کر عزت افزائی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ رب العالمیـــــــــــن نے اپنی ساری مخلوق میں سے بے مثال شخصیت کو تمہارا داماد بنانے کے لیے تمہیں پسند کیا ۔
تیری قسمت کے کیا کہنے ! تمہیں بہت بڑی سعادت مند خوش دامن ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ تمہیں اس سعادت پر ناز کرنا چاہئے کہ تمہاری بیٹی کو ام المومنین بننے کی سعادت حاصل ہوئی اور تمام ازواج مطہرات پر فوقیت لے جانے کا شرف حاصل ہوا ۔
یہ بات تاریخی اعتبار سے بالکل صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی ہجرت سے پہلے مکّہ معظمہ میں ہوئی اور رخصتی ہجرت کے بعد ماہ شوال کو مدینہ منورہ میں ہوئی ، لیکن بابرکت ہجرت کا واقعہ کس طرح اور کب پیش آیا ؟ تو سنیے۔۔۔۔۔۔۔۔
🌟دینہ منورہ کی طرف ہجرت :-
جب اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو آپ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بتانے کے لیے ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر ہجرت پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " آپ میرے ساتھ چلیں گے ۔ "
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : " میں اس مقصد کے لیے دو اونٹنیاں کی ہوئی ہیں ، ان میں سے ایک آپ قبول فرمائیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مجھے منظور ہے لیکن میں اس کی قیمت ادا کروں گا ۔ "
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ ہجرت کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سو جائیں اور صبح ہوتے ہی جنکی امانتیں میرے پاس جمع وہ ان کے سپرد کر کے ام المومنین سیدہ سودہ بنت زمعہ اور آپ کی دونوں بیٹیاں سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ الزھراء رضی اللہ عنہما کو اپنے ساتھ لیکر مدینہ منورہ پہنچ جائیں ۔
رہا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خاندان ام رومان اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما تو وہ عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ سفر ہجرت پر روانہ ہوگا ۔ اس طرح اللہ سبحانہ و تعالٰی کے فضل و کرم کے ساتھ ہجرت کا سفر تمام ہوا ۔
مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی اور اس کے ساتھ ملحق امہات المومنین کی رہائش کے لیے حجرے تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔
سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے ہجرت کے بعد جب مدینہ منورہ رہائش اختیار کر لی تو ان کے ذہن میں یادوں کی بارات محو سفر ہوئی ۔ ان کے خیال میں پہلے خاوند کی رفاقت اور اس کے ساتھ مکّہ معظمہ کی طرف منتقل ہونا ، وہاں پہلے خاوند کی وفات ، اس کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا ، پھر دائرہ اسلام میں داخل ہونا ۔ پھر اللہ رب العالمیـــــــــــن کی منشاء کے مطابق سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا داماد بننا ۔
یہ تمام خیالات یکے بعد دیگرے ان کے ذہن رقص کناں ہوئے اور اپنے آپ کو اس حوالے سے سعادت مند سمجھنے لگیں کہ اللہ رب العالمیـــــــــــن نے ان تمام نوازشات کے لیے اس کا انتخاب کیا
🌟 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان:-
لیکن سیاہ بادل اور کالی گھٹا نے سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کے صاف ستھرے ماحول میں اندھیرا بکھیر دیا ۔ ان کی صاف شفاف اور پر سکون زندگی کو اضطراب کی لہروں نے گندلا کے رکھ دیا ۔
رئیس المنافقين عبد اللہ بن ابی بن سلول نے بہتان تراشی کا گھناؤنا کردار ادا کیا اور پھر اس کے معاشرے میں خوب ڈھنڈورا پیٹا ۔
اس عاقبت نا اندیش نے صدیقہ کائنات ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں الزام تراشی کی ، ان کی پاک دامنی اور عفت و عصمت پر انگشت نمائی کی ۔
وہ اس کو بھول گیا کہ جس عظیم المرتبت خاتون پر الزام تراشی کر رہا ہے سیدہ ام رومان اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما نے بطور خاص انتہائی عمدہ انداز میں اس کی تربیت کا اہتمام کیا اور اسے اعلی و ارفع اور عمدہ و بہترین اخلاق سے آراستہ کیا ہے ، اس کے بارے میں اس نوعیت کی گھٹیا سوچ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
وہ ناہنجار اس چیز کو بھول گیا کہ ام المؤمنين سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تمام کائنات کی خواتین میں اخلاقیات کے اعتبار سے ایک بلند مقام پر فائز ہیں ۔ اللہ رب العالمیـــــــــــن نے انہیں تقوی و طہارت کی ایک بلند چوٹی پر فائز کیا ہے اور اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے انہیں منتخب کیا ، لیکن رئیس المنافقين ، بدبخت عبد اللہ بن ابی بن سلول نے اپنی بد باطنی اور خباثت کا بھر پور مظاہرہ کیا اور اپنی شر پسندی اور کینہ پروری کا ثبوت دیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور نے یثرب کے تمام زعماء کا منصوبہ خاک میں ملا دیا تھا ، جو گندگی کے ڈھیر عبد اللہ بن ابی بن سلول کے سر پر بادشاہی کا تاج رکھنا چاہتے تھے اور اسے اپنا سربراہ بنانا چاہتے تھے ۔ یہ باطل کے سرغنے بری طرح ناکام ہوگئے ۔ یہ طومار باندھنے والے تباہ و برباد ہوگئے ۔
اے ابن ابی ! تو تباہ ہوگیا ، تجھ پر ہزار لعنت ! تو نے خواتین میں سب سے زیادہ پاکیزہ خاتون پر کچرا اچھالا ۔ تو نے سب سے زیادہ پاکدامن عورت پر طعنہ زنی کر کے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے ۔ تو باقی اہل ایمان کی خواتین کے خلاف کیا کچھ نہیں کر سکتا ۔
میں ببانگ دہل اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تو بڑا بے حیا ہے ۔ تو گندگی کے دلدل میں گھس گیا ، تو بے حیائی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں داخل یوگیا ۔ میرے خیال میں تو تباہ و برباد ہوگیا ۔ اللہ اور دین کے دشمن کا انجام اسی طرح عبرتناک ہوتا ہے ۔ قیامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے رب العالمیـــــــــــن تجھے ذلیل و خوار کریگا
اے شفقت کی پیکر ہمدرد و غمگسار اماں جان ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، تجھے ابی کے بیٹے نے کتنے غم و اندوہ میں مبتلا کیا ، حالانکہ آپ نے کوئی ادنی سا بھی جرم نہیں کیا تھا ۔
لیکن ظالم جو کچھ کرتے ہیں اللہ ان کے کردار سے غافل نہیں ، البتہ وہ انہیں قیامت کے دن تک کے لیے مہلت دے دیتا ہے ۔ جس دن کے وقوع ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا ۔
اے اس عظیم المرتبت خاتون کی والدہ ! جو پاکیزگی کا استعارہ تھیں ، جو پاکدامنی عفت و عصمت کی علامت تھیں ، جس کی پاکیزگی ضرب المثل تھی ، ایک بہتان تراش ، فتنہ پرواز ، ناہنجار ، گنہگار اور عاقبت نا اندیش شخص نے تیری مثالی تربیت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا اور تم پر بلا وجہ طعن زنی کی ۔ اس کا اسے کوئی استحقاق حاصل نہ تھا ۔
لیکن ام رومان ! بلا شبہ اللہ تعالی کی ، اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اہل ایمان تمہارے فضل و شرف جانتے ہیں اور تمہاری قدر و قیمت پہچانتے ہیں ۔ تمہارے اور تمہاری بیٹی کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے ۔ اللہ تعالٰی تم دونوں کو کسی کمینے ، کینہ پرور کے سپرد ہرگز نہیں کرے گا اور نہ کسی بہتان تراش مذموم شخص کے چنگل میں آنے دے گا ۔
اللہ تعالٰی نے ظلم کو اپنے لیے حرام قرار دیا ہے اور ظلم کو اپنے بندوں کے درمیان بھی حرام قرار دے دیا ہے :
🌷 وَ سَیَعۡلَمُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اَیَّ مُنۡقَلَبٍ یَّنۡقَلِبُوۡنَ ﴿ الشعراء ٢٧ / ٢٢٧)
" عنقریب وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا وہ جان لیں گے کہ لوٹنے کی کونسی جگہ لوٹ کر جائیں گے ؟ "
سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا جب لوگوں کو بیہودہ گوئی میں مشغول دیکھا ، تو شدید صدمے کی بناء پر مدہوش ہوکر زمین پر گر پڑیں ، لیکن اللہ تعالٰی پر پختہ ایمان نے انہیں صبر کا دامن تھامنے اور اور اللہ تعالٰی کی کتاب قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ کیا ۔
وہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کی بارگاہ میں گڑگڑانے لگیں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان کو اس غم س نجات دلائے ۔ بلا شبہ وہ قادر مطلق اور حامی و ناصر ہے ۔
سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا اس صورت حال کو اپنی لاڈلی بیٹی سے چھپائے رکھا ، وہ بیٹی پر انتہائی شفیق ہونے کی وجہ سے اس بات کو بخوبی جانتی تھیں کہ وہ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے گی ، لیکن اللہ تعالٰی کی کرنی ہو کر رہتی ہے۔
تھوڑے ہی عرصے میں یہ بات ہر طرف پھیل گئی ۔ گھر گھر باتیں ہونے لگیں ۔ ام مسطح کے ذریعے سے یہ بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے کانوں تک پہنچ گئی ۔ ام مسطح اکثر و بیشتر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملنے آیا کرتی تھیں ۔
یہ بیہودہ باتیں سن کر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا شدید غم میں مبتلا ہو گئیں اور اس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس راز کا پتہ چلا کہ کچھ عرصہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلو تہی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ اپنے والدین کے پاس جانا چاہتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے والدین کے یہاں جانے کی اجازت دے دی ۔
جب وہ ان کے پاس پہنچیں تو کیا دیکھتیں ہیں کہ دونوں غم کی تصویر بنے بیٹھیے ہیں ، دونوں شدید غم میں مبتلا ہیں ۔
انہوں نے اپنے والدین کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا ۔ روتے ہوئے ہچکی بندھ گئی ، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔
پھر اماں جان سے گلہ شکوہ کرتے ہوئے کہنے لگیں : امی جان ! آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ، مجھ سے یہ بات چھپا کر کیوں رکھی ، یہ مجھ پر کیا ظلم ڈھایا جا رہا ہے ، میں کیا کروں ؟ کس کو اپنا دکھڑا سناؤں؟
سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے غمزدہ لہجے میں شفقت بھرا انداز اختیار کرتے ہوئے کہا : میری پیاری بیٹی ! غم نہ کر ، جب کوئی عورت اپنے خاندان کی محبوب نظر ہوتی ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوں تو تو اکثر و بیشتر اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
لیکن جو دل اللہ سبحانہ و تعالٰی کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں ، وہ اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ، آزمائش کی گھڑیوں میں وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں تو اللہ بھی ان کی لاج رکھتا ہے
میرے خیال میں مسلمانوں کے گھروں میں سے کسی مسلمان کا گھر ، جس میں رہنے والوں کے دل نور ایمان سے منور ہوں ، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خاندان کے گھر سے بڑھ کر نہ ہوگا ، کیونکہ اس گھر سے ہدایت کی شعاعیں تمام گھروں کی طرف سفر کرتی تھیں ۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل سے دوسرے لوگوں کے دل نور ایمان کی دولت سے فیضیاب ہوتے تھے ۔ جب اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اس کٹھن آزمائش کو طشت از بام کرنے کا حکم دیا تو اپنے سفیر سیدنا جبرائیل علیہ السلام کو اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی دیکر بھیجا ، جس میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس گھناؤنے الزام سے بالکل بری ہونے کی نوید سنائی گئی تھی اور فتنہ پرور افترا پردازوں کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ رسید کیا گیا تھا ۔
وحی درج ذیل آیات پر مشتمل تھی ، جو قرآن مجید میں قیامت تک پڑھی جائیں گی ۔
ارشادِ باری تعالٰی ہے :
🌷اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ ؕ لَا تَحۡسَبُوۡہُ شَرًّا لَّکُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ؕ لِکُلِّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ مَّا اکۡتَسَبَ مِنَ الۡاِثۡمِ ۚ وَ الَّذِیۡ تَوَلّٰی کِبۡرَہٗ مِنۡہُمۡ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۱}
🌷وۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّ قَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۲﴾
🌷لَوۡ لَا جَآءُوۡ عَلَیۡہِ بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ ۚ فَاِذۡ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِالشُّہَدَآءِ فَاُولٰٓئِکَ عِنۡدَ اللّٰہِ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿۱۳﴾
🌷وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ لَمَسَّکُمۡ فِیۡ مَاۤ اَفَضۡتُمۡ فِیۡہِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ۚ ۖ
🌷اِذۡ تَلَقَّوۡنَہٗ بِاَلۡسِنَتِکُمۡ وَ تَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِکُمۡ مَّا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ وَّ تَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا ٭ۖ وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمٌ ﴿۱۵﴾
🌷وَ لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ قُلۡتُمۡ مَّا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّتَکَلَّمَ بِہٰذَا ٭ۖ سُبۡحٰنَکَ ہٰذَا بُہۡتَانٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۶﴾
🌷یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنۡ تَعُوۡدُوۡا لِمِثۡلِہٖۤ اَبَدًا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۱۷﴾
🌷وَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۱۸﴾
🌷اِنَّ الَّذِیۡنَ یُحِبُّوۡنَ اَنۡ تَشِیۡعَ الۡفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ۙ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۹﴾
🌷وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ رَحۡمَتُہٗ وَ اَنَّ اللّٰہَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۰﴾٪
( النور ٢٤ / ١١ _ ٢٠ )
" جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے اندر کا ایک ٹولہ ہیں ، اس واقعے کو اپنے حق میں شر نہ سمجھو ، بلکہ یہ بھی تمہارے لیے خیر ہی ہے ۔ اس میں جس نے جتنا حصہ لیا اس نے اتنا ہی گناہ سمیٹا اور جس شخص نے اس کی ذمہ داری کا بڑا حصہ اپنے سر لیا اس کے لیے تو عذاب عظیم ہے ۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے ۔ وہ لوگ اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ لائے ؟ جب کہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں ۔ اور اگر تم لوگوں پر دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل اور رحم و کرم نہ ہوتا تو جن باتوں میں پڑ گئے تھے ان کی پاداش میں بڑا عذاب تمہی پر تھا ۔ ذرا غور تو کرو اس وقت تم کیسی غلطی کر رہے تھے جب کہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا ، تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے ، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا ، سبحان اللہ! یہ تو ایک بہتان عظیم ہے ، اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا ، اگر تم مومن ہو ۔ اللہ تمہیں صاف صاف ہدایت دیتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے ۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والے لوگوں میں فحاشی بھیلے وہ دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کے مستحق ہیں ، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق و رحیم ہے ( تو بہتان لگانے والوں پر فورا اللہ کا عذاب آجاتا )"
جب نزول وحی کا کام تمام ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش و خرم جلدی سے خوشخبری سنانے کے لیے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف لپکے ، پاکیزہ اور صاف ستھرا خانہ نبوی مسرت و شادمانی سے بھر گیا ۔
اسی طرح سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دیگر تمام مسلمانوں کے گھروں میں مسرت و شادمانی آگئی اور افترا پردازوں کے چہروں پر ذلت و رسوائی کی سیاہی نمودار ہونے لگی ۔ سب شرمندگی سے اپنی بغلیں جھانکنے لگے ۔
🌟جنت کی حور کی وفات :-
غزوہ حنین کے دوران میں سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا قضائے الہی سے وفات پا گئیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر میں اترے اور یہ کلمات کہے ؛
💕(( اللهم انت تعلم ما لقيت ام رومان فيك و فى رسولك ))
" الہی ! تو جانتا ہے کہ ام رومان تیرے اور تیرے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی رضا کے لیے کس قدر مصائب و مشکلات کا شکار ہوئی ۔ "
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا :
💕(( من سّرہ ان ینظر الی امرءة من الحور العین فلينظر الی ام رومان ))
" جس کو یہ چیز پسند ہو کہ وہ کسی ایسی عورت کو دیکھے جو جنت کی حور ہو تو وہ ام رومان کو دیکھ لے ۔ "
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام رومان رضی اللہ عنہا کے حق میں مغفرت کی دعا کی ۔
اللہ تعالٰی ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ، انہیں دار المتقين میں جگہ عطا کرے اور انہیں اپنی رضا سے نوازے ۔
آمین!
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد۔۔
تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments