سیدہ ام فضل لبابہ ہلالیہ رضی اللہ عنہا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
سیدہ ام فضل لبابہ ہلالیہ رضی اللہ عنہا
🌟خاندانی پس منظر:-
نام لبابہ، والد کا نام حارث بن حزن اور والدہ کا نام ہند بنت عوف تھا۔ ان کی والدہ ہند بنت عوف کو دنیا کی معزز ترین شخصیات کے خوش دامن ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ وہ اس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیٹی سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے ان کی دوسری بیٹی سیدہ ام فضل کے ساتھ شادی کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے چچا سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے ان کی تیسری بیٹی سلمی رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی۔ جب وہ جنگ موتہ میں شہید ہو گئے تو سیدہ اسما رضی اللہ عنہا کے ساتھ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے شادی کی اور جب وہ وفات پا گئے تو امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سیدہ اسما رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کی۔
کیا دنیا میں کسی خوش دامن کو اتنے بہترین شرافت کے پیکر داماد میسر آئے جتنے ہند بنت عوف کو میسر آئے؟ وہ اس اعتبار سے دنیا بھر میں ممتاز دکھائی دیتی ہیں ۔
سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے چھ لخت جگر ہوئے۔ پہلے بیٹے کا نام فضل تھا، اسی کی نسبت سے سیدہ لبابہ کی کنیت ام فضل رکھی گئی۔
دوسرا بیٹا عبداللہ تھا، جسے امت کا متجر عالم اور ترجمان القرآن ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ تیسرا بیٹا عبیداللہ تھا جسے فقیہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، چوتھے بیٹے کا نام معبد تھا، پانچویں کا نام قثم اور چھٹے بیٹے کا نام عبد الرحمن تھا۔
🌟سیدہ ام فضل اور ان کی آل کا اسلام قبول کرنا:-
سیدہ ام فصل رضی اللہ عنہا نے ابتدا ہی میں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ انہیں سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے بعد اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا، اس طرح انہیں اسلام قبول کرنے کے حوالے سے خواتین میں دوسرے نمبر پر ہونے کا شرف حاصل ہوا
اسلام قبول کرنے کی وجہ سے انہیں انتہائی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں اپنی قوم میں بلند مرتبہ حاصل تھا۔ یہ اپنے خاندان کی خواتین کی سردار تھیں، جس طرح کے ان کے خاوند سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے سردار تھے۔ سیدہ ام فضل اور ان کے بیٹے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اسلام کا اعلان کرنے کے بعد دونوں کا شمار کمزور و ناتواں اور بے بس مسلمانوں میں ہونے لگا۔
امام بخاری رحمتہ اللہ نے عبید اللہ کے حوالے سے اپنی کتاب "صحیح البخاری" میں نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((کنت انا و امی من المستضفین من الرجل ا النساء ))
"میں اور میری والد مردوں اور عورتوں میں سے کمزور و ناتواں تھے"
امام بخاری رحمتہ اللہ نے ابن ابی ملیکہ کے حوالے سے روایت کیا، وہ فرماتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
4 : سورة النساء 75
🌷وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚ ۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾
""بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یُوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مُقّرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا ۔""
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اور میری والدہ ان لوگوں میں سے تھے۔ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ ام فضل کی بہت قدر کرتے تھے، ان کے گھر تشریف لے جاتے اور کبھی اللہ تعالی نے معذور قرار دیا
دوپہر کے وقت وہاں سو جاتے۔ اللہ سبحانہ وتعالی نے سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا کو شجاعت، بہادری اور جسمانی توانائی سے نوازا تھا۔ انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو دین اسلام کی نصرت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے صرف کیا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لگائی بجھائی کرنے والی خاتون ام جمیل اور اس کے خاوند ابولہب کے مقابلے میں اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع کا بیان ہے کہ میں عباس بن عبد المطلب کا غلام تھا، اسلام ہم تک پہنچا تو میں نے اسلام قبول کر لیا اور ام فضل نے بھی اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کر لی، سیدنا عباس نے اسلام قبول کر لیا لیکن وہ اپنی قوم سے خوفزدہ تھے- وہ اپنے مسلمان ہونے کو صیغہ راز میں رکھے ہوئے تھے۔ اللہ کا دشمن ابولہب جنگ بدر میں پیچھے رہ گیا، اپنی جگہ اس نے عاص بن ہشام بن مغیرہ کو جنگ میں شامل ہونے کے لیے بیجھا۔
وہ لوگ اسی طرح کیا کرتے تھے، جو خود جنگ میں شامل نہ ہوتا وہ اپنی جگہ کسی دوسرے کو جنگ میں شامل ہونے کے لیے بھیج دیتا۔ جب ہمیں اطلاع پہنچی کہ جنگ بدر میں لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی ہے تو اللہ نے ابولہب کو ذلیل وخوار کیا اور ہمارے حوصلے بلند ہوگئے۔ ہم اپنے آپ کو پہلے کی نسبت زیادہ توانا محسوس کرنے لگے، لشکر اسلام کی فتح سے ہماری عزت اور وقار میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا۔
ابو رافع فرماتے ہیں کہ میں کمزور آدمی تھا، پیالے بنانے کا کام کرتا تھا- حجرہ زمزم میں بیٹھ کر پتھر کو تراش کر پیالے بنایا کرتا تھا۔ اللہ کی قسم! میں وہاں بیٹھا اپنے کام میں مشغول تھا، میرے پاس ام فضل تشریف فرما تھیں ۔ ہمیں جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح کی خبر ملی تو ہم بہت خوش ہوئے، اچانک ابولہب مٹک مٹک کر چلتا ہوا آیا اور ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ وہ بیٹھا ہوا تھا کہ لوگوں نے کہا کہ یہ دیکھو ! ابوسفیان بن حارث آیا ہے
ابو لہب نے ابوسفیان کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کہنے لگا: سناؤ کیا خبر لائے ہو؟ وہ ابولہب کے پاس بیٹھ گیا، لوگ وہاں جمع ہو گئے، سبھی لوگ دم بخود کھڑے تھے۔
ابولہب نے ابوسفیان سے کہا: میرے بھائی کے بیٹے! سناؤ میدان بدر میں ہمارے لوگوں کی کیا صورت حال رہی؟
وہ کہنے لگا: کیا بتاؤں ، جب ہم میدان جنگ میں اترے، ہمارے مدمقابل دشمنوں نے ہماری گردنوں کو دبوچ لیا، پھر انہوں نے ہمارے افراد کو جیسے چاہا قتل کیا، دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے لاشوں کے ڈھیر لگا دیے۔ جسے چاہا اسے گرفتار کر لیا، ہم ان کے سامنے بےبس ہو گئے۔
اللہ کی قسم! پھر بھی میں اپنے لوگوں پر کوئی الزام نہیں دھرتا، کیونکہ ہمارے مقابلے میں سفید رنگ کے شہسوار سیاہ و سفید ڈبی دار گھوڑوں پر میدان جنگ میں برسر پیکار تھے۔ اللہ کی قسم! کوئی چیز بھی ان کے آڑے نہیں آ رہی تھی۔
ابو رافع کہتے ہیں کہ میں نے حجرے کی تناییں اپنے ہاتھ سے اوپر بلند کی اور پھر کہا: اللہ کی قسم! وہ فرشتے تھے۔
ابولہب نے میری یہ بات سنتے ہی میرے چہرے پر ایک زوردار طمانچہ رسید کر دیا، میری اس سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ اس نے مجھے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور میرے سینے پر بیٹھ کر مجھے مار نے لگا۔
میں کمزور آدمی تھا، سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا نے حجرے سے ایک لٹھ پکڑی اور زور سے ابولہب کے سر پر دے ماری، جس سے اس کے سر میں شگاف پڑ گیا اور غضب ناک انداز میں کہنے لگی: کیا تو نے اسے کمزور سمجھا، تجھے یہ جرآت اس لئے ہوئی کہ اس کا مالک یہاں نہیں ہے۔ ابولہب ذلیل وخوار ہو کر گردن جھکائے ہوئے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔
اللہ کی قسم! سات دن بعد اللہ تعالی نے اسے کینسر کے مرض میں مبتلا کر دیا اور اسی بیماری سے وہ واصل جہنم ہو گیا۔
اس کے بیٹوں نے اس کی لاش اس کے فوت ہو جانے کے بعد تین دن تک اسے دفن نہ کیا، جس سے اس کی لاش میں سڑاند پیدا ہو گئی
بیٹوں کے پاس قریش کا ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابولہب کے بیٹو! تمھارا کچھ نہ رہے، کیا تمھیں شرم محسوس نہیں ہوتی کہ تمھارے باپ کی لاش سے بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے ہیں، اس کی لاش گھر میں پڑی ہے اور تم اسے دفن نہیں کر رہے۔ شرم سے ڈوب مرو، نالائق کہیں کے۔
وہ کہنے لگے: ہم تو اس لاش کے قریب نہیں ہو رہے کہ یہ متعدی بیماری ہمیں بھی لاحق ہو جائے گی۔ اس نے کہا چلو کمبختو آگے بڑھو، میں تمھاری مدد کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے اسے اس طرح غسل دیا کہ دور ہی سے اس کے لاشے پر پانی پھینک دیا، اس کے جسم کو ہاتھ نہ لگایا اور زمین میں گڑھا کھودا اور لکڑی کے سہارے سے لاش کو گڑھے میں دھکیل دیا، پھر دور سے اس پر پتھر پھینک کر اس کی لاش کو چھپا دیا۔ اس طرح
طرح ابولہب اپنے بد انجام کو پہنچا۔
اس کی بدمعاشی کی یہ انتہا تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف دعوت دینے کے لئے کہیں تشریف لے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیھچے پیھچےچلنے لگتا اور بڑی ڈھٹائی سے لوگوں سے کہتا کہ دیکھنا اس کی بات نہ ماننا، اس کو کہیں سچا نہ سمجھ لینا۔ اس کے داؤ پیچ سے بچ کر رہنا۔
ایسے گھناؤنے کردار کے لوگوں کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے:
🌷{{فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿ ٢/ ۸۵﴾
" تم میں سے جو بھی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے دن سخت عذاب کی مار ، اور اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ۔"
🌟💕 سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی مسلمان ہونے کی علامتیں:-
ابولہب جس قدر اپنے بھتیجے کے خلاف بغض و عداوت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا چچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنا ہی پیار کرتا تھا، اتنا ہی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غمگسار اور دعوت کے میدان میں مددگار تھا۔ سیدنا عباس بن عبد المطلب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے بھائی کے بیٹے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلمان ہونے کو صیغہ راز میں رکھنے کی موافقت کر لی تھی، تاکہ وہ مکہ معظمہ میں رہتے ہوئے اہل مکہ کی صورتحال سے نبی کریم کو آگاہ کر سکیں
قریش کی ریشہ دوانیوں کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا سکیں اور جو کچھ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کر رہے ہیں اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر سکیں۔
ہجرت پہلے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بہت سے شواہد پائے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
1⃣ عقبہ ثانیہ کے موقع پر کچھ لوگ مدینہ منورہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تاکہ انصار سے اپنے بھتیجے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اس بات کی بھرپور تائید حاصل کر لیں کہ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ جائیں تو وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور مدد کریں گے۔ عقبہ میں یہ ملاقات رات کی تاریکی میں خفیہ تھی۔ قریش کے جاسوسوں سے بچنے کا پورا اہتمام کیا گیا تھا۔
اگر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ مشرک ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس اہم ترین موقع پر اپنے ساتھ جانے کی دعوت نہ دیتے۔ ایک مشرک پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھلا کیسے اعتماد کر سکتے تھے، مشرکوں کا کوئی اعتبار نہیں۔
2⃣ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہو گئے تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے ایک بااعتماد شخص کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط بیجھا۔ جس میں یہ اطلاح دی کہ قریش مکہ جنگ بدر کی بھرپور تیاری کر رہے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے تمام ساتھیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔
اگر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ مسلمان نہ ہوتے تو قریش کی جنگی تیاری کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کرنے کی انہیں کیا ضرورت تھی۔ وہ چونکہ مسلمان ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خط دے کر ایک قابل اعتماد شخص کو بیجھا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے مقابلے کے لئے تیاری کر لیں
3⃣ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حکم دیا کہ میدان بدر میں اگر عباس رضی اللہ عنہ تم میں سے کسی کے سامنے آ جائے تو اسے قتل نہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ قریش مکہ کی جانب سے جنگ بدر میں شریک ہویے تھے ، ان کے مسلمان ہونے کا کسی کو پتا نہیں چلا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت سے آگاہ ہو چکے تھے۔ وہ مشرکین مکہ کی جاسوسی کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے، اسی لئے وہ مکہ معظمہ مین مقیم تھے اوراپنے مسلمان ہونے کے صیغہ راز میں رکھا ہوا تھا۔
اگر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جنگ بدر کے لئے مشرکین کے ساتھ روانہ نہ ہوتے تو قریش مکہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے اور سوچنے لگتے کہ دال میں کچھ کالا ہے، اس لئے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ قریش مکہ کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔
4⃣ ابو رافع کا بیان پہلے گزر چکا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور ان کی رفیقہ حیات ابتدائی مرحلے میں ہی دائرہ اسلام میں داخل ہس چکے تھے۔
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے مسلمان ہونے کو صیغہ راز میں رکھ کر مسلمانوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خدمات سرانجام دیں اگر آپ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیتے تو یہ خدمات سر انجام نہیں دے سکتے تھے۔ کیونکہ اگر سرداران قریش کو پتا چل جاتا کہ یہ مسلمان ہیں تو وہ ان کو کبھی اپنی مجلسوں میں بیٹھنے کی اجازت نہ دیتے اور انہیں یہ آزادی نہ ہوتی کہ بلا روک ٹوک سرداران قریش کے ساتھ میل ملاقات رکھیں ۔ ان کی رائے اور منصوبہ بندی معلوم کرنے کے لیے وقتا فوقتا مسلمانوں کو آگاہ کرتے رہیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور قیامت کے دن سبھی لوگ اللہ رب العالمین کے دربار حاضر ہوں گے تو انہیں ان کی خدمات کا بہتر بدلہ عطا کیا جائے۔ بلاشبہ قیامت کے دن ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، نیکی کا اچھا بدلہ ہو گا اور برائی کا برا بدلہ دیا جائے گا
✨💕 بابرکت خواب:-
سیدہ ام فضل لبابہ رضی اللہ عنہا کو ایک رات ڈراؤنا خواب آیا، وہ گھبرا کر ننید سے بیدار ہوئیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قریبی رشتہ دار تھیں، اکثر و بیشتر آپ سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا- جب بھی ان کے دل میں کوئی ایسا اضطراب پیدا ہوتا جس کو برداشت کرنا دشوار ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کرتیں۔
اس دفعہ انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا خواب بتا کر اس کی تعبیر معلوم کرے۔
وہ اس غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
مجھے خواب میں یہ نظر آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کا ایک حصہ میرے گھر میں پڑا ہوا ہے، میں تو یہ منظر دیکھ کر گھبرا گئی۔
آپ نے فرمایا: گھبرانے کی بات نہیں، اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا، جو تیرا دودھ پی کر پروان چڑھے گا اور وہ تیرے بیٹے قثم کے ساتھ دودھ پیئے گا۔"
بعد میں ایسے ہی ہوا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بیٹے کو جنم دیا، جس کا نام حسن رکھا گیا۔ دودھ پلانے کے لئے میرے سپرد کر دیا گیا، جب میں نے اس کا دودھ چھڑایا تو اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بٹھا دیا۔
اس نے آپ کی گود میں پیشاب کر دیا، میں نے یہ صورت حال دیکھی تو اس کے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ مارا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اللہ تجھ پر رحم کرے! میرے بیٹے کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آؤ."
میں نے عرص کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنا تہ بند تبدیل کر لیجیے، تاکہ میں اسے دھو دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دوسرا کپڑا زیب تن کر لیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
《 انما یغسل بول الجاریة و ینضح بول الغلام 》
" بیٹی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے آور بیٹے کے پیشاب کو چھینٹے مارے جاتے ہیں"
ایک دوسری روایت میں صالح ابو الخلیل عبداللہ بن حارث اور سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں:
وہ فرماتی ہیں: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میرے گھر، یا میرے کمرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کا ایک حصہ پڑا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ ان شاء اللہ میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا جس کی دیکھ بھال تم کرو گی۔"
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حسن رضی اللہ عنہ کو جنم دیا اور اس نے اپنے بیٹے کو میرے سپرد کر دیا ۔ میں نے اسے اپنے بیٹے قثم کے ساتھ دودھ پلایا
ایک دن میں حسن کو لے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑ کر اپنے سینے پر بٹھا لیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر پیشاب کر دیا، وہ پیشاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تہ بند تک پہنچ گیا، میں نے حسن کے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ دے مارا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم نے میرے بیٹے کو تکلیف دی ہے، اللہ تم پر رحم کرے۔"
میں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہ بند (تبدیل کر کے) مجھے دے دیں ، میں اسے دھو ڈالوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بیٹی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے آور بیٹے کے پیشاب کو پر چھینٹے مارے جاتے ہیں-"
سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا خواب کی یہ تعبیر سن کر بہت خوش ہوئیں اور انہیں اس بات پر ندامت ہوئی کہ اس نے خواب کی تعبیر پوچھنے میں تاخیر کی کیوں اس خواب سی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد مطلع کیوں نہ کیا؟
ابوداؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ سیدہ ام فضل ایک مرتبہ دودھ پینے والے بچےکو لے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام فقہی حکم صادر فرمایا۔
ابوداؤد میں ام فضل کا بیان ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دوسرا کپڑا زیب تن کر کے یہ تہ بند مجھے دے دیجئے، تاکہ میں اسے دھو ڈالو-
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بیٹی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے آور بیٹے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جاتے ہیں
✨💕 احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت:-
✨سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! جب آپ اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائیں گے تو پھر ہمارا کیا بنے گا، ہمیں کچھ وصیت فرما دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
" تم میرے بعد مغلوب اور کمزور ہو جاؤ گے"
💕سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا نے تقریبا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تئیس احادیث بیان کرنے کا شرف حاصل کیا، ان میں سے بعض احادیث تو ان کے بیٹے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے آگے روایت کیں اور اس طرح انس بن مالک ، سیدہ ام فضل کے تمام غلام اور بعض دیگر صحابہ کرام رضی اللہ نے بھی سیدہ ام فضل سے احادیث کو آگے بیان کرنے کا شرف حاصل کیا ۔
✨💕 وفات :-
سیدہ ام فصل رضی اللہ عنہا اسلام کے لیے ایک مضبوط سہارا تھیں، انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں صرف کر دی۔ وہ دشمنان اسلام کافروں اور مشرکوں کی راہ میں رکاوٹ بنی رہیں ۔
انہوں نے ایک مثالی مومن، صالح اور بہادر کا کردار ادا کیا، انہوں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے اور ہمارے لئے اعلی و ارفع اخلاقی قدروں کو چھوڑا۔ سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا ظاہر و باطن سے ایک مثالی خاتون تھیں ۔ وہ سیدنا عثمان بن عفان کے دور خلافت میں قضائے الہی سے وفات پا کر اپنے رب کریم سے جا ملیں۔ ان کی نماز جنازہ ان کے خاوند سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، پھر انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔
" طبقات ابن سعد" میں عبد اللہ بن یزید الہلالی یہ اشعار نقل کئے گئے ہیں:
ما و لدت نجیبة من فحل
بجبل نعلمها او سھل
کستة من بطن ذی الفضل
و خاتم الرسل و خیر الرسل
" شریف الطبع خاتون سیدہ ام الفضل نے ہمہ اوصاف شخصیت کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر چھ معزز بیٹوں کو جنم دیا،ان کے خاوند فضل و شرف والے، آخری اور خیر و برکت والے رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے چچا تھے۔"
اللہ سبحانہ وتعالی سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے۔ انہیں اپنی خوشنودی سے نوازے اور جنت الفردوس میں نیک دل، تقوی شعار لوگوں کی سی جزا سے سر فراز کرے۔ آمین یا رب العالمین ۔
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============> ختم شد ۔۔
تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments