سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا
✨💕خاندانی پس منظر:-
نام ہند والد کا نام عتبہ بن ربیعہ ۔ عتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ نے اسے قرآنی آیات سنائیں تو وہ اپنی قوم کے پاس جاکر کہنے لگا کہ میں نے جو کلام سنا ہے وہ کسی جادوگر کلام ہے نہ کسی شاعر کا اور نہ کسی نجومی کا ، لیکن وہ اسلام قبول نہ کر سکا ۔
جنگ بدر میں وہ اپنے بھائی شیبہ کے ساتھ مارا گیا جس میں مشرکین کے اور بہت سے دیگر سردار بھی مارے گئے ۔
ہند بنت عتبہ کی والدہ کا نام صفیہ بنت امیہ ، خاوند کا نام ابو سفیان بن حرب اور بیٹے کا نام معاویہ بن ابی سفیان تھا ۔
✨💕سیدہ ہند کی خوبیاں :-
ہند فصاحت و بلاغت ، جرأت و شجاعت ، حوصلہ مندی ، ثابت قدمی ، خود اعتمادی اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے ایک بلند پایہ خاتون تھیں ۔
ایک دن ہند نے اپنے چھوٹے بیٹے معاویہ کو پکڑا ہوا تھا ۔ دونوں کہیں چلے جا رہے تھے تو کسی نے کہا : اگر تیرا بیٹا زندہ رہا تو یہ اپنی قوم کا سردار بنے گا ۔
سیدہ ہند فرمانے لگیں : صرف اپنی قوم کا سردار ، میں تو اسے دنیا بھر کا سربراہ دیکھنا چاہتی ہوں ۔ اگر یہ اپنی قوم کا سردار بنا تو پھر اس کا کیا کمال ۔
جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے ہوئے تو انہوں نے اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں اس تاثر کا اظہار کیا کہ میری زمانہ جاہلیت میں بڑی خطرناک خاتون تھیں اور اسلام قبول کرنے کے بعد یہ خیر و بھلائی کی پیکر بن گئیں
زمانہ جاہلیت میں سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا خاوند فاکہ بن مغیرہ مخزومی تھا ۔ اس نے ایک مہمان خانہ بنا رکھا تھا ، لوگ اس میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے رہائش رکھ سکتے تھے ۔
ایک مرتبہ جب سب مہمان چلے گئے تو اس کا خاوند کسی کام کی غرض سے کہیں چلا گیا ۔ ہند رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ مہمان خانہ خالی ہے تو وہاں آرام کرنے کے لیے چلی گئیں ، وہاں ان پر نیند غالب آگئی تو سو گئیں ۔
اس دوران میں ایک مہمان آیا ۔ اس نے جب دیکھا کہ مکان کی مالکہ گہری نیند سوئی ہوئی ہے تو وہ وہاں سے واپس چلا گیا ، راستے میں اسے مہمان خانہ کا مالک فاکہ بن مغیرہ مخزومی ملا ۔
جب وہ مہمان خانہ میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی ہند گہری نیند سوئی ہوئی ہے ، اسے پاؤں کی ٹھوکر مار کر جگایا اور مہمان خانے سے واپس جاتے شخص کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون تھا اور یہاں کیوں آیا تھا ؟
ہند نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا میں نے تو یہاں کسی شخص کو نہیں دیکھا اور نہ یہاں کوئی آیا ۔
جب اس نے دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا تو اسے احساس ہوا کہ میرا خاوند میرے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہے ۔
اس کے خاوند نے اسے اس کے میکے بھیج دیا ۔ یہ بات لوگوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ گھر گھر میں یہ باتیں ہونے لگیں ۔ جسے دیکھو اس کی زبان پر اسی بات کا تذکرہ ہے ۔
ہند کے والد اور اس کے خاوند کے درمیان یہ طے پایا کہ اس کا حل یمن کے مشہور و معروف نجومی سے کرایا جائے ، تو دونوں اس کے پاس پہنچے ، اسے صورت حال سے آگاہ کیا گیا ، ہند کے ساتھ چند دیگر خواتین بھی تھیں ۔
نجومی نے ان عورتوں پر نگاہ ڈالتے ہی ہند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خاتون بدکردار نہیں ہے ، مستقبل میں اس کے یہاں بیٹا ہوگا جو بادشاہ بنے گا ۔
نجومی کے منہ سے یہ بات سن کر ہند کا خاوند آگے بڑھا ، معذرت کی اور اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا لیکن اس نے اپنے خاوند فاکہ بن مغیرہ مخزومی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور صاف لفظوں میں اسے کہہ دیا کہ میں ایسے شخص کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتی ، میری راہ اس سے جدا ہے ۔ ایسا وہمی شخص میرا رفیق حیات نہیں ہو سکتا
✨اسلام کے ساتھ لڑائی :-
پھر سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کی ابوسفیان بن حرب کے ساتھ شادی ہوگئی اور دونوں میاں بیوی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ک ساتھ دشمنی اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی پر اتفاق ہوگیا ۔ دونوں میاں بیوی نے اس راہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ۔
ہند کے وہم و گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ اس کے ساتھ ایک ایسا حادثہ پیش آنے والا ہے جس کی ہولناکی سے بچے بھی وقت سے پہلے بوڑھے ہو جائیں گے ۔
بدر کا معرکہ بپا ہوا ۔ قریش نے بڑے بڑے زعماء اور تجربہ کار جرنیلوں پر مشتمل لشکر تیار کیا ۔ ہند نے جب لشکر کے جاہ جلال کو دیکھا تو اس کے ذہن میں یہ خیال چھا گیا کہ بس اب اسلام دو گھڑی کا مہمان ہے ۔ مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی جائے گی ، انھیں صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا ، ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا ۔ بس اب پل دو پل کی بات ہے ۔ لیکن ہواؤں کے خالق نے قریش کی کشتیوں کے خلاف ہواؤں کو چلنے کا حکم دے دیا ۔ قریش کو میدان بدر بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
اس ذلت آمیز پسپائی کا انہیں وہم و گمان نہ تھا ۔ قریش کے نامی گرامی بہادر اہل ایمان کی تلواروں کا لقمہ بن گئے ، ان تلواروں کو اللہ رب العزت کے لشکروں کی تائید حاصل تھی ۔
تمام قریش میں سب سے بڑھ کر ہند کو صدمہ پہنچا ، جب اسے یہ اطلاع ملی کہ اس کا باپ ، چچا اور بھائی میدان بدر میں موت کے گھاٹ اتار دئے گئے ہیں اور اس کے غم اور زیادہ اضافہ اس وقت ہوا جب شکست خوردہ لشکر کے باقی ماندہ افراد نے مکہ پہنچ کر یہ بتایا کہ میدان بدر میں قریش کے مقتولین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے قلیب نامی کنویں میں پھینک دیا گیا ہے ۔
ہند نے اپنے والد ، چچا اور بھائی کے غم میں یہ اشعار کہے:
أبکی عمید الابطحین کلیھما
وحامیھما من کل باغ یریدھا
أبی عتبة الخيرات ویحك فأعلمی
و شیبة والحامی الذمار ولیدھا
أولئك ال المجد من آل غالب
و فی العز منھا حین ینمی عدیدھا
" میں دونوں بطحاء کے لیڈروں اور بغاوت کا ارادہ کرنے والے ہر باغی سے ان کی حمایت کرنے والے پر روتی ہوں ۔ تجھ پر افسوس ! تو جان لے میرا باپ عتبہ خیرات بانٹنے والا تھا ۔ شیبہ اور میرا بھائی ولید جو حسب نسب کی حفاظت کرنے والے تھے ۔ ہائے یہ سب مارے گئے ۔ یہ سب آل غالب کے معزز فرزند تھے ۔ جن کی تعداد بڑھتی ہی رہتی تھی ۔ "
ہند نے یہ اشعار اس وقت کہے جب خنساء نے روتے ہوئے اس سے یہ سوال کیا تھا کہ اے ہند ! تو کن پر رو رہی ہے ؟
✨غزوہ احد میں :-
ہند نے اپنے خاوند ابو سفیان پر قسم ڈالی کہ وہ اس کے خاطر بدر کے تمام مقتولین کا بدلہ لینے کے لیے مسلمانوں پر حملہ آور ہو۔
اس نے اپنے خاوند کے ساتھ اپنی ذات پر یہ لازمی قرار دے لیا کہ مسلمانوں کے خلاف دشمنی کی آگ کو بھڑکانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی۔
قریش نے تین ہزار جنگ جو افراد پر مشتمل لشکر تیار کیا ، جس کی قیادت ابو سفیان کو سپرد کی گئی ، ان میں دو سو شہسوار تھے ، جن کی قیادت خالد بن ولید کے سپرد کی۔
ہند مشرکین کی چند خواتین کے ہمراہ جنگجو افراد کو حوصلہ دلانے کے خاطر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئی ۔ اس نے وحشی بن حرب سے وعدہ کیا کہ اگر وہ حمزہ بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ) کو قتل کر دے تو اسے انعام و اکرام سے مالا مال کر دے گی۔
لڑائی شروع ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان تیر اندازوں کو ایک درے میں ڈٹے رہنے کا حکم دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" میدان جنگ کی خواہ کوئی بھی صورت ہو ، تم نے یہاں سے ہلنا نہیں ، اور ان تیر اندازوں کا امیر سیدنا عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ۔
ہند بن عتبہ اور اس کی سہیلیاں دف بجاتے اور رقص کرتے ہوئے یہ گیت گانے لگیں :
نَحْنُ بَنَاتُ طَارِقِ ، نَمْشِی عَلَی النَّمَارِقِ
أَنْ تُقْبِلُوْا نُعَانِقُ ، أَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقُ
فِرَاقَ غَیْرَ وَامِقِ
" ہم معزز قبیلے کی بیٹیاں ہیں ، ہم قالینوں پر چلتی ہیں ۔ اگر تم پیش قدمی کرو گے تو ہم تم سے گلے ملیں گی اور اگر تم پیچھے ہٹ جاؤ گے تو ہم تمھیں چھوڑ دیں گی ، اس شخص کے چھوڑ دینے کی طرح جو محبت کرنے والا نہیں ہوتا ۔ "
ہند غلام وحشی بن حرب کی حرکات و سکنات پر نظر جمائے ہوئے تھی ، وہ اسے یہ کہہ رہی تھی : اے ابو دسمہ ! کیا دیکھتے ہو ، دشمن پر ایسی کاری ضرب لگاؤ کہ دل خوش ہو جائے !
وحشی نے اپنا نیزہ پکڑا اور اپنا نشانہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی طرف سیدھا کیا ، جب اسے اس بات کا یقین ہوگیا کہ اس کا نشانہ خطا نہیں جائے گا تو اس نے ہورے زور سے نیزہ ان کی طرف پھینک دیا ، جو برق رفتاری سے شیر الہی سیدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے جسم میں پیوست ہوگیا ، اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی تلوار سے متعدد مشرکین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد جام شہادت نوش کرتے ہوئے زمین پر گر گئے
ہند کی دلی تمنا پوری ہوئی ، اپنا خنجر ہاتھ میں لیے جلدی سے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کی طرف لپکی ، اس نے اپنے خنجر کا وار کر کے ان کی ناک اور کان کاٹ دیے ، پھر پیٹ چاک کر کے جگر نکالا اور اسے اپنے دانتوں سے چبانے لگی ، چبا کر اسے باہر پھینک دیا اور نگل نہ سکی ۔
وحشی بن حرب میدان جنگ چھوڑ کر چلا گیا ، اسے اب لڑائی کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ اس نے جو کرنا تھا کر لیا ، اپنی اس گھناؤنی حرکت کے بعد اس نے میدان جنگ میں رہ کر کیا کرنا تھا ، اس طرح ہند کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا پوری ہوئی ۔
درے میں متعین تیر اندازوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف درے کو خالی چھوڑ دیا ، حالانکہ ان کے امیر نے انہیں ایسا کرنے سے روکا تھا ، جب خالد بن ولید نے دیکھا کہ درا خالی ہے تو اس نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے لشکر کے شہسواروں کی قیادت کرتے ہوئے اس درے کی جانب سے لشکر اسلام پر حملہ کر دیا اور اپنی تلواروں کو مسلمانوں کے خون سے خوب سیراب کیا ، اس موقع پر جھنڈا بردار سیدنا مصعب بن عمير ، غسیل الملائكة سیدنا حنظلہ ، سیدنا سعد بن ربیع ، سیدنا عمرو بن حرام اور سیدنا عمرو بن جموح رضی اللہ عنھم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام جام شہادت نوش کر گئے اور لشکر اسلام کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کی خود ٹوٹ گئی ، جس سے آپ کی پیشانی زخمی ہو گئی اور آپ کے ہونٹ بھی زخمی ہو گئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی حالت میں دیکھ کر سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پیٹ پر اٹھایا اور لڑائی میں مشغول افراد کی صفوں کی پچھلی جانب چلے گئے ، جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھیرے میں لے لیا ، تاکہ کوئی دشمن آپ تک نہ پہنچ سکے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا سیدنا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی جدائی کا بہت صدمہ ہوا ۔
مسلمانوں کو جنگ میں اس لیے نقصان اٹھانا پڑا کہ لشکر اسلام کے تیر اندازوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف درہ خالی کر دیا تھا ۔
وہ اسے چھوڑ کر نیچے میدان میں اتر آئے ، تاکہ مال غنیمت میں اپنا حصہ وصول کر سکیں اور قریش کے شہسوار خالد بن ولید نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے درے کے راستے لشکر اسلام پر اچانک حملہ کر دیا ، جس سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور لشکر اسلام کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا
ہند ایک ٹیلے پر چڑھ کر بآواز بلند یہ اشعار کہنے لگی :
نَحْنُ جَزَیْنَاکُمْ بِیَوْمِ بَدْرٍ ، وَالْحَرْبُ بَعْدَ الْحَرْبِ ذَاتُ سُعَرِ
مَا کَانَ عَنْ عُتْبَةَ لِیْ مِنْ صَبْرٍ ، وَلاَ أَخِیْ وَ عَمِّهِ وَ بِکْرِیْ
شَفَیْتُ نَفْسِیْ وَ قَضَیْتُ نَذْرِیْ ، شَفَیْتُ وَحْشِیًّ غَلِیْلَ صَدْرِیْ
فَشُکْرُ وَحْشِیٍّ عَلَیَّ عُمْرِیْ ، حَتّی تَرِمَّ أَعْظُمِیْ فِیْ قَبْرِیْ
" ہم نے تم سے جنگ بدر کا بدلہ لے لیا ۔ لڑائی کے لڑائی شعلہ بنی ۔ مجھے اپنے والد عتبہ ، اپنے بھائی اور چچا کے اس جنگ میں قتل ہونے پر صبر نہیں آرہا تھا ۔ آج میرے دل کو چین آ گیا اور میں نے اپنی نذر پوری کر لی اور وحشی بن حرب نے میرا دل خوش کر دیا ۔ میں وحشی کی عمر بھر مشکور ہوں ۔ یہاں تک کہ میری ہڈیاں قبر میں بوسیدہ ہو جائیں ۔ "
پھر ہند دوسری طرف ہو کر یہ شعر کہنے لگی :
شَفَیْتُ مِنْ حَمْزَةَ نَفْسِیْ بِأُحُدَ ، حَتّی بَقَرْتُ بَطْنَهُ عَلَی الْکَبْدِ
أَذْھَبَ عَنِّی ذَاكَ مَا کُنْتُ أَجِدُ ، مِنْ لَزْعَةِ الْحُزْنِ الشَّدِیْدِ الْمُعْتَمَدِ
" احد کے دن حمزہ کے قتل سے میرے دل کو چین آ گیا ۔ حتی کہ میں نے اس کے پیٹ کو جگر والی جگہ سے چیر دیا ۔ اس سے میرے دل کے غم کی سخت جلن چلی گئی ۔ جس کو میں ہر وقت محسوس کرتی تھی ۔ "
مسلمان میدان احد سے ایک اثر انگیز اور نصیحت آمیز سبق لے کر نکلے ، انھوں نے اس حقیقت کو جان لیا کہ سالار لشکر کی اطاعت فتح حاصل کرنے کا اہم سبب بنتی ہے ۔
جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر اسلام کے سالار تھے ، ان کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی تھی ، جس نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہو اسے فتح کیسے نصیب ہو سکتی ہے ۔
مسلمانوں کو اس بات کا اچھی طرح علم ہو گیا کہ فتح و نصرت اللہ سبحانہ و تعالٰی کی جانب سے ہوتی ہے ۔
معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان تو اٹھانا پڑا لیکن انہوں نے یہ پختہ عزم کر لیا کہ وہ آئندہ اس غلطی کو نہیں دہرائیں گے جس کا ارتکاب وہ جنگ احد میں کر چکے تھے ۔
دین اسلام کے احکامات لوگوں میں سے کسی نے نہیں بنائے ، دین اسلام تو اللہ سبحانہ و تعالٰی کا نازل کردہ نظام حیات ہے ۔ یہ تو اللہ تعالٰی کے درست شرعی احکامات ہیں جن سے اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے سے اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا ، تاکہ لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں میں سے نور کی طرف نکالیں اور انہیں سیدھے راستے پر گامزن ہونے کی راہنمائی کریں
✨💕 فتح مکّہ کے بعد ہند کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امّ القری مکّہ معظمہ کو فتح کرنے کا ارادہ لے کر لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوئے ، تاکہ مکہ معظمہ کو شرک کی آلائشوں سے پاک کر دیں ۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اہل ایمان کا لشکر مکّہ معظمہ کی گھاٹیوں میں پہنچا تو ابو سفیان ، سیدنا عباس بن عبد المطلب اور دیگر چند قریشی سرداروں کے ہمراہ چلا آرہا تھا ، جب اس نے لشکر اسلام کو دیکھا تو اس نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا : تیرے بھائی کا فرزند آج تو بادشاہ دیکھائی دیتا ہے ۔ سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے کہا:
"یہ اس کے سچے نبی ہونے کی علامت ہے" ۔
ابو سفیان نے کہا : کیا خیال ہے ، ہمیں اس موقع پر کیا کرنا چاہیے ؟
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : میری رائے یہ ہے کہ آپ جلدی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیں ، اسی میں آپ کی بہتری اور نجات ہے ۔
عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فتح مکّہ کے موقع پر عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ابو سفیان کو لے کر مرّالظہران مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اس ملاقات میں ابو سفیان نے اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کر لی ۔
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ابو سفیان اپنے لیے کوئی اعزاز پسند کرتا ہے ، آپ اس کے لیے کچھ ارشاد فرما دیں تو مناسب ہوگا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" ہاں ! آج جو بھی ابو سفیان کے گھر داخل ہو جائے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا ، وہ امن میں ہو گا اور جو آج اپنے گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لے گا اسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا وہ بھی امن میں ہوگا ۔ "
لشکر اسلام کے مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے پہلے ابو سفیان اپنی قوم کے پاس پہنچ کر کہنے لگا : اے میری قوم ! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے ، تم بھی اسلام قبول کر لو ، کیونکہ میں نے مشاہدہ کر لیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر جرار کے ساتھ تمہاری ہی طرف آرہے ہیں ، جس کا تم مقابلہ نہ کر سکو گے ، تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم مسلمان ہونے کا اعلان کر دو ۔
ہند نے جب اپنے خاوند ابو سفیان کی بات سنی تو اس کے ہوش اڑ گئے ۔ وہ ابوسفیان کو کہنے لگی : ارے یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟ کیا تم ہوش میں ہو ؟ کیا تمہارے حواس ٹھیک ہیں ؟ تم اپنی قوم کے بدترین سربراہ ثابت ہوئے ہو ! مکہ والوں---اس غدار کو قتل کر دو ، یہ قوم کا بدترین سربراہ ثابت ہوا ہے ۔ اس نے قوم کی ناک کٹوا دی ۔ یہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ اسے قوم کا سربراہ تسلیم کیا جائے ۔
ابو سفیان نے کہا : میری قوم ! کہیں اس عورت کی باتوں سے دھوکا نہ کھا جانا ۔ میں تمہیں اپنے تجربے کی بنیاد پر اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہوں کہ تم آج لشکر اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکو گے ، اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ اسلام کے آگے سر نگوں ہو جاؤ
ابو سفیان کو ایسا ہی کرنا چاہیے تھا ۔ وہ جہاں دیدہ شخص تھا ۔ تاریخ پر اس کی گہری نظر تھی ، اس نے دو ٹوک انداز میں قوم کو خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ لشکر اسلام کا کسی بھی صورت مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ اس نے بھی اس حوالے سے ارادہ کیا تھا کہ مسلمانوں کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کی جائے لیکن اس نے اپنے تجربے کی روشنی میں یہ بھانپ لیا کہ لشکر اسلام کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا ممکن نہیں ، ابو سفیان نے اس حقیقت کو جان لیا جو ہند نہیں جان سکی ۔
سیدنا عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر اسلام کی قیادت کرتے ہوئے مرّالظہران مقام پر پہنچے تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ بات کہی کہ اگر آج قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کی خدمت میں پہنچ کر امان طلب نہ کی تو وہ تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہو کر نکلا ، میں دیکھ رہا تھا کہ کوئی اپنے کسی کام کے لیے مکہ جانے والا ہو تو کہ وہ اہل مکّہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتا دیں ، تاکہ وہ آپ کی خدمت میں پہنچ کر امان طلب کر لیں ۔
میں چلا جا رہا تھا کہ میں نے ابوسفیان اور بدیل بن ورقہ کو آپس میں بات کرتے ہوئے سن لیا ۔ میں نے کہا :
ارے ابو حنظلہ! تم یہاں؟ ابو سفیان نے میری آواز کو پہچان لیا اور کہا : ابوالفضل ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ! اس نے کہا : میرے ماں باپ صدقے ، آپ یہاں کیسے ؟
میں نے کہا : یہ دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لاؤ لشکر لے کر یہاں پہنچ گئے ہیں ۔ اس نے کہا : اب کیا کرنا چاہیے؟ کوئی حیلہ بتاؤ ، یہ کہتے ہی وہ میرے پیچھے سوار ہو گیا اور اس کا ساتھی بدیل بن ورقہ واپس چلا گیا ۔
جب صبح ہوئی تو میں ابو سفیان کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا ۔
میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سفیان کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے ، اس کے لیے کچھ ارشاد فرما دیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" آج جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اسے امن حاصل ہوگا ، جو اپنے گھر میں داخل ہو کر دروازہ بند کر لے گا اسے امن حاصل ہوگا اور جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے گا ، اسے بھی امن حاصل ہوگا ( یعنی انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ) ۔"
ہند نے اللہ کی عطا کی ہوئی ذہانت و بصیرت کی بنا پر اس حقیقت کا ادراک کر لیا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ قریش کا باطل زوال پذیر ہوا اور جو حق محمد صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے ہیں وہ باقی رہے ۔
وہ اپنے خاوند کے پاس آکر کہنے لگیں : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلیں ، میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ معبود بر حق کی عبادت کر رہے ہیں وہ عبادت میں اس قدر منہمک تھے کہ مجھے بہت بھلے معلوم ہوئے ۔
مجھے یہ محسوس ہوا کہ کہ واقعی اس کے سوا کوئی اس لائق نہیں ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے میں دلی رغبت رکھتی ہوں ۔
ابو سفیان اپنی بیوی ہند کی بات سن کر بہت خوش ہوا ۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن اسے جنگ احد میں ہند کا وہ طرز عمل یاد آ گیا جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا ، انھوں نے سوچا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پتہ چلے گا کہ یہ میری بیوی ہے تو آپ کو ناگواری محسوس ہوگی ، لہٰذا انہوں نے اپنی بیوی کو یہ تجویز دی کہ آپ کسی اور کے ساتھ جائیں، میرا جانا مناسب نہیں ۔
ہند نے چند خواتین کو اکھٹا کیا اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں اور ان سے کہا : کیا آپ ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلیں گے ، ہم اسلام قبول کرنا چاہتی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا ارادہ ہے ۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیوں نہیں ! میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان خواتین کو اپنے ساتھ لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔
ہند نے نقاب اوڑھ رکھا تھا کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہچان کر غمزدہ نہ ہو جائیں ، کیونکہ میں جنگ احد میں ان کے چچا کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہ کیا تھا ۔
جب ہند سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے کہا : میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں جس نے اپنے پسندیدہ دین کو غالب کر دیا ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! اللہ آپ پر اپنی رحمت نچھاور کرے ، میں اللہ پر ایمان لے آئی ہوں اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتی ہوں ، یہ کہتے ہی اس نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا اور کہا : میں ہند بنت عتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہند کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش ہوئے اور آپ کو اس کے حق و ایمان کے راستے پر گامزن ہونے کی دلی مسرت ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خوش آمدید کہا ، پھر ہند اور دیگر ساری خواتین سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لے لی ۔
اسلام کتنا عظیم مذہب ہے کہ جس نے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرنے والی عورت کو معاف کرنے پر آمادہ کیا ، کیوں کہ ہند نے جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی لاش کے ساتھ بہت برا سلوک کیا تھا لیکن کلمہ توحید نے ہند کے جرم کو معاف کر دیا ۔
سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایات کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد دینی احکامات پر بڑی دلی جمعی سے عمل کیا ۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت سیدہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھیں ، جلد ہی قضائے الہی سے وفات پا گئیں ۔ اللہ تعالٰی ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور اپنی خوشنودی سے نوازے ۔۔۔آمین
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد ۔۔
تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments