سیدہ تماضر بنت عمرو "خنساء" رضی اللہ عنہا

 سیدہ تماضر بنت عمرو "خنساء"  رضی اللہ عنہا 








بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


 سیدہ تماضر بنت عمرو "خنساء" رضی اللہ عنہا




💕 خاندانی پس منظر:-


اپ کا نام تماضر تھا، یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ ان کا رنگ بڑا سفید تھا، ان کا سلسلہ نسب قبیلہ مضر تک پہنچتا ہے۔ یہ وہ قبیلہ ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کا قلعہ قرار دیا۔


والد کا نام عمرو بن حارث تھا۔ ان کے دو بھائی تھے، ایک کا نام صخر اور دوسرے نام معاویہ تھا۔ زمانہ جاہلیت میں تماصر رضی اللہ عنہا کو اپنے بھائیوں سے والہانہ عقیدت تھی۔ جب ان دونوں کو قتل کر دیا گیا تو یہ دھاڑیں مار مار کر روئیں۔ دونوں بھائیوں کی جدائی میں جی بھر کر آنسو بہائے۔ ان کے غم میں اتنے اشعار کہے کہ ایک پورا دیوان معرض وجود میں آ گیا، جسے شعر و شاعری کے میدان میں ادب کا خزنیہ قرار دیا گیا اور علمی و ادبی دنیا میں نادر مفردات کا مرقع سمجھا گیا۔


💕 لقب :-


سیدہ تماضر رضی اللہ عنہا خنساء کے لقب سے مشہور و معروف ہوئیں۔ خنساء پست قد اور چپٹے ناک والی خاتون کو کہتے ہیں۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ تماضر رضی اللہ عنہا کو "یا خنساء" کہہ کر آواز دی تو انہوں نے اسی لقب کو اپنے لئے پسند کر لیا چونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا تھا۔ اس لیے اس نے اسی نام سے مشہور و معروف ہونے کو ترجیح دی اور اس لفظ کو اپنی شان و شوکت کی علامت سمجھا۔


💕 خاوند:-


سیدہ خنساء کے خاوند کا نام رواحہ بن عبد العزیز سلمی تھا۔ ان کے چار شیر جوان بیٹے تھے۔ چاروں جنگ قادسیہ میں ایرانی فوج سے لڑنے کے لیے روانہ ہوئے ۔


چاروں نے اپنی والدہ کی طرف واپس آنے کی بجائے رب العزت کے ساتھ ملاقات کو ترجیح دی ۔ چاروں داد شجاعت دیتے ہوئے میدان جنگ میں جام شہادت نوش کر گئے۔


سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا بہادری، دلیری، جرآت و شجاعت، فصاحت و بلاغت، وفا داری، اخلاص، انتہائی حسن و جمال اور نادر نوعیت کی ذہانت و فطانت کی پیکر تھیں۔ ان بے شمار خوبیوں کی بنا پر قوم کی مشہور و معروف شخصیات کی نگاہوں کا مرکز و محور تھیں لیکن انہوں نے اپنے لئے رواحہ بن عبد العزیز کو رفیق حیات پسند کیا۔ ان کے چاروں بیٹے زمانہ جاہلیت میں ہر دلعزیز تھے، انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان پر عرب مسلمانوں کو ناز تھا



💕 ایک بلند پایہ شاعرہ:-



سید خنساء رضی اللہ عنہا کی شخصیت کے دو پہلو نمایاں طور پر سامنے آئے ، ایک پہلو زمانہ جاہلیت میں آشکار ہوا اور وہ ان کی بلند پایہ شاعری تھی ۔ 


   جب ان کے دو بھائی صخر اور معاویہ قتل کر دئے گئے تو انہوں نے ان کے غم میں جی بھر کر آنسو بہائے ۔ 


   سید خنساء نے نہ صرف خود اشک رواں کی نہر بہائی بلکہ اپنے بھائیوں کے غم میں ڈوب کر ایسا دلدوز مرثیہ کہا کہ جس نے بھی سنا وہ زار و قطار رونے لگا ۔ ہر ایک نے مرثیہ سن کر آنسو بہائے اور اس طرح خنساء کے غم میں شریک ہونے کا اظہار کیا ۔ 


   اس مرثیہ نگاری نے خنساء رضی اللہ عنہا کو بے مثال شاعرہ ہونے کا اعزاز بخشا ۔


اس کی مرثیہ بیانی کے چند نمونے ملاحظہ کریں ، فرماتی ہیں : 


أَ عَيْنَى جُوْدًا وَلَا تَجْمُدَا 

أَلَا تَبْکِیَانِ لِصَخْرِ النَّدَی 


أَلَا تَبْکِیَانِ الْجَرِیَّ الْجَمِیْلَ

أَلَا تَبْکِیَانِ الْفَتَی السَّیِّدَا


طَوِیْلُ النَّجَادِ عَظِیْمُ الْعِمَادِ

سَادَ عَشِیْرَتُه أَمْرَدَا

               

                  ( اسد الغابہ : ٥ / ٢٦٨ )


جَمُوْعُ الضُّیُوْفُ إِلَی بَیْتِهِ

یُرَی أَفْضَلُ الْکَسْبِ أَنْ یُحْمَدَا 


وَإِنْ ذُکِرَ الْمَجْدُ الْفَیْتَه

تَازَّر بِالْمَجْدِ ثُمَّ ارْتَدَا


غَیَّاثُ الْعَشِیْرَةِ إِنْ امْحَلُوْا

یَھِیْنُ الثَّلاَد وَ یُحْیِی الْمَجْدَا


خنساء رضی اللہ عنہا نے مزید یہ مرثیہ کہا : 


قَذَی بِعَیْنَیْك أَم ْ بِالْعَیْنِ عَوَّایُ

أَمْ ذَرَفَتْ اِذْ خَلَتْ مِنْ اَھْلِھَا الْوَایُ


كَأَنَّ عَیْھِنِی لِذِکْرَاہُ إِذَا خَطَرَتْ

فَیْضَ یَسِیْلُ عَلَی الْخَدَّیْنِ مَدْرَایُ


تَبْکَیْ خُناسٌ عَلَی صَخْرٍ وَ حَقٌّ لَھَا 

إِذْ رَابَھَا الدَّھْرُ إِنَّ الدَّھْرَ ضَرَایُ


وَإِنَّ صَخْرًا لَمَوْلَانَا وَ سَيَّدَنَا

وَإِنَّ صَخْرًا إِذَا نَشَتُوْا لنَحَّارُ


وَ إِنَّ صَخْرًا لَمِقْدَامٌ إِذَا رَکِبُوْا

وَإِنَّ ضَحْدًا إِذَا جَاعُو الْعقَّارُ وَإِنَّ


صَخْرًا لَتَأَتُمُ الْھَدْلَةُ بِهِ 

كَأَنَّهُ فِیْ رَایِه نَارٌ


قَدْ کَانَ خَالِصَتِیْ مِنْ کُلِّ ذِیْ نَسَبٍ

فَقَدْ أُصِیْبُ فَمَا لِلْعِيْشَ أَوْطَارُ


💕 ایک بلند پایہ شاعرہ:-


اپنے بھائی صخر کے غم سیدہ خنساء سب سے بڑھ کر دلگداز مرثیہ یہ کہا :


یَوَرِّقُنِی التَّذَکُّرُ حِیْنَ أَمْسِی

فَأََصَحَ قَدْ یُلِیْتُ لِفَرَطِ لُکْسِی


عَلَی صَخْرٍ وَ أَیُّ فَتًی کَصَخْرٍ

لِیَوْمٍ کَرِیْھَةٍ وَ طَعَانَ خُلْسٍ


وَلَمْ أَرَ مِثْلَه رَزَأً لِجِنِّ

وَلَمْ أَرَ مِثْلَه رَزَأً لِإِنْسٍ


أَلَا یَا صَخْرَ لَا أَنْسَاكَ حَتَّی

أُفَارِقُ مُھَجَتِیْ وَ یَشُقُّ رُھْتَیْ


یَذْکُرُنِیْ طُلُوْعُ الشَّمْسِ صَخْرًا

وَ أَذْکُرَهُ لِکُلِّ غُرُوْبٍ شَمْسٍ


وَ لَوْ لَا کَثْرَةُ الْبَاکِیْنَ حَوْلِیْ

عَلَی إِخْوَانِھِمْ لَقَتَلَتْ نَفْسِیْ


وَ مَا یَبْکِیْنَ مِثْلَ أَخِیْ وَ لَکِنَّ

أُسَلِّی النَّفْسَ عَنْهُ بِالتَّأَسِّیْ


فَقَدْ وَ وَعْتُ یَوْمَ فِرَاقِ صَخْرٍ

أَبِیْ حَسَّان لِذَاتِیْ وَ أُنْسِیْ


   سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کی اپنے بھائی صخر کے ساتھ یک طرفہ محبت نہ تھی ، بلکہ ان کا بھائی بھی اپنی بہن خنساء کے ساتھ حد درجہ محبت و اپنائیت کا اظہار کرتا تھا ، پھر بھلا بہن اپنے بھائی کے ساتھ وفاداری کا ثبوت کیوں نہ دے ۔ 


   وفاداری تو سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کا ایک خاص وصف تھا ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے ایک اون کی صدری پہنی ہوئی تھی ، ام المؤمنين سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا : اے خنساء ! یہ خوبصورت صدری کیسے میسر آئی ؛ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں نے زندگی بسر کی ، آپ دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے ، میں نے آج تک اس جیسی صدری زیب تن نہیں کی ۔


   سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا نے جواب دیتے ہوئے کہا : اس صدری ک پہننے کی بھی ایک داستان ہے ۔ اون کی یہ صدری میں اپنے سے جدا نہیں کر سکتی ، یہ میرے لباس کا لازمی جزء بن چکی ہے



💕 ایک بلند پایہ شاعرہ:-


وہ داستان یہ ہے کہ میری شادی قوم کے ایک سردار کے ساتھ ہوئی ۔ میرا خاوند بڑا شاہ خرچ انسان تھا ، اس کے ہاتھ میں پیسہ ٹکتا نہیں تھا ۔ بے دریغ مال خرچ کرنا اس کی عادت کا حصہ تھا ۔ اس نے اتنی فضول خرچی کی کہ سارا مال ختم کر دیا ۔ جب ہمارے پاس خرچ کے لیے کچھ نہ بچا تو ہم اپنے بھائی صخر کے پاس آئے اور اسے اپنی حالت زار کے بارے میں بتایا ۔ 


   اس نے ہماری بپتا سنتے ہی اپنا سارا مال دو حصوں میں تقسیم کیا ، پھر اس نے ہم سے کہا کہ جو تمہیں اچھا لگتا وہ میری طرف سے قبول کرں ۔ 


   ہم وافر مقدار میں بہترین مال لے کر واپس اپنے گھر پہنچے ۔ میرے خاوند نے چند دنوں میں وہ سارا مال خرچ کر دیا ، ہم پھر خالی ہاتھ ہو گئے ۔ میرے بھائی صخر کو پتا چلا تو پھر اس نے اپنے مال کے دو حصے کیے اور مجھے کہا کہ جو مال اچھا لگتا ہے وہ تیرا ہوا ۔ 


   ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ تم کب تک اپنا مال دو حصوں میں تقسیم کر کے ان کو نوازتے رہو گے تو جواب میں میرے بھائی نے یہ شعر کہا :


وَاللہِ لَا أَفَنْحُھَا شَرَارَھَا


                 فَلَوْ ھَلَکْتُ قَدَّدَتْ خِمَارَھَا 


وَاتَّخَذَتْ مِنْ شَعْرٍ صَدْرَاھَا 


تب سے میں نے قسم کھائی ہے کہ میں زندگی میں اس صدری کو اپنے سے الگ نہیں کروں گی ۔ میرے بھائی نے دو دفعہ اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ہر دفعہ ایک ایک حصہ اپنے سپرد کیا ، اس طرح اس نے مال کے معاملے میں میرے ساتھ بڑی فیاضی کا ثبوت دیا ، کیا میں اس کی جدائی میں اپنے آنسوؤں کا نظرانہ پیش کرنے میں فیاضی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی ۔


   جب تک میری آنکھوں سے آنسو خشک نہیں ہو جاتے میں اپنے بھائی صخر کے غم میں آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتی رہوں گی


💕 ایک بلند پایہ شاعرہ:-



   سیدہ خنساء نے اپنے بھائی معاویہ کے غم میں یہ مرثیہ کہا :


أَلَا لَا أَرَی فِی النَّاسِ مِثْلَ مُعَاوِیَةَ

إِذَا طَرَقَتْ إِحْدَی اللَّیَالِی بِدَاھِیَّةَ


بِدَاھِیَّةُ یُصْغِی الْکِلَابُ حَسِیْسَھَا

وَ تَخْرُجُ مَنْ سَرَّ النَّجْنَی عَلاَنِیَّةَ


وَکَانَ لَزَّازُ الْحَرْبِ عِنْدَ شُبُوْبِھَا 

إِذَا شَعَرَتْ عَنْ سَاتِھَا وَ ھِیَ ذَاکِیَّةٌ


وَقَوَّادُ خَیْلٍ نَحْوَ أُخْرَی کَأَنَّھَا 

سُعَالٍ وَ عُقْبَانٍ عَلَیْھَا زَبَانِیَّةَ


بَلَیْنَا وَ مَا تُبْلَی تَعَارُ وَ مَا تَرَی

عَلَی حَدْثِ الْأَیَّامِ إِلَّا کَمَا ھِیَةَ


فَأَقْسَمْتُ لَا یَنْفَكُّ دَمِعَى دَعَوْلَتِیْ

عُلَیَائے بِحُزْنٍ مَا دَعَا اللہ دَاعِیَّةَ


   ایک روز سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے کی کیا وجہ ہے ؟ آپ نے فرمایا مضر قبیلے کے سرداروں کے قتل پر رونے کی وجہ سے میری آنکھوں کی یہ حالت ہوئی ہے ۔ 


   سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے خنساء ! وہ تو جہنم میں ہیں ۔ اس نے کہا : مجھے اس کا اور زیادہ صدمہ ہے پہلے تو میں اپنے بھائی صخر کی زندگی کے خاتمے پر روتی تھی اور اب میں اس کے جہنم میں ہونے پر روتی ہوں ۔ 


   جب جریر شاعر سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا شاعر کون ہے ؟ تو اس نے کہا : اگر سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا نہ ہوتیں تو میں سب سے بڑا شاعر ہوتا ۔ 


   جریر سے پوچھا گیا کہ آپ سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کو شاعری میں اتنا بلند مقام کیوں دیتے ہیں ؟


اس نے کہا سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے درج ذیل اشعار کی وجہ سے :


إِنَّ الزَّمَانَ وَ مَا یَفْنَی لَهُ عَجَبٌ 

أَبْقَی لَنَا ذَنْبًا وَاسْتُوْصِلَ ا لرَّأْسَ


إِنَّ الْجَدِیْدَیْنِ فِی طُوْلِ اخْتِلَافِھِمَا 

لَا یَفْسُدَانِ وَ لَکِنَّ یَفْسُدُ النَّاسَ 


   جریر شاعر کا سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ تبصرہ ان کے بلند پایہ شاعرہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ، کیونکہ کھرے کھوٹے سونے کی پہچان جوہری ہی کو ہوتی ہے



💕سیدہ خنساء کا مسلمان ہونا :-


   سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کا اپنے دونوں بھائیوں کے بارے میں موقف اس ماحول کے مطابق تھا جس میں اس نے تربیت پائی ، لیکن یہ ماحول ہمیشہ نہ رہا ۔ آفتاب اسلام طلوع ہوا ، اس کی کرنیں سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا تک پہنچیں تو ان کرنوں نے ان کے دل کے میل کچیل کو دھو کر صاف شفاف کر دیا ۔ جہالت کی تمام آلائشیں پاک صاف کر دیں اور سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کو ایک نئے روپ میں تبدیل کر دیا ۔



 سیدہ تماضر رضی اللہ عنہا اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرنے لگیں ، لیکن اس خاتون نے کس طرح اسلام قبول کیا ؟ کس چیز نے اس شخصیت کو بدل دیا ؟


   آئیے اس صورت حال سے آپ کو آگاہ کریں ۔ ہوا یہ کہ خنساء اپنے بیٹوں کے ہمراہ بنو سلیم کے وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے ملاقات کے لئے روانہ ہوئیں ۔ جب یہ وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا تو آپ سے متاثر ہو کر سب نے اسلام قبول کر لیا ۔ سب نے ایک اللہ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے لو لگا لی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خنساء رضی اللہ عنہا سے اشعار سنے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید اشعار سننے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :


 " اے خنساء اور شعر سناؤ "۔


   لیکن جب بنوطی قبیلے کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے آیا وہ سب دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی رغبت رکھتے تھے ، تو اس وفد میں سے عدی بن حاتم اور اس کی ہمشیرہ سفافہ بنت حاتم اور قبیلہ بنوطی کے چند افراد آگے بڑھے ، جب انھوں نے اسلام قبول کر لیا تو عدی بن حاتم نے کہا :


 اے اللہ کے رسول ! ہم میں ایک شخص سب سے بڑا شاعر ہے اور ایک سب لوگوں سے بڑھ کر سخی ہے اور ایک سب لوگوں سے بڑھ کر شہسوار ہے ۔ 


   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 


" ان کے نام لیں ۔"


 عدی بن حاتم نے کہا : لوگوں میں سب سے بڑا شاعر امرو القیس بن حجر ہے اور لوگوں میں سب سے بڑا سخی میرا باپ حاتم بن سعد الطائی ہے اور لوگوں میں سب سے بڑا شہسوار عمرو بن معدیکرب ہے ۔ 


   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :


 جس طرح تم کہتے یہ درست نہیں ۔ اور در حقیقت لوگوں میں سب سے بڑھ کر شاعرہ خنساء ہے ۔ لوگوں میں سے سب سے بڑھ کر سخاوت کرنے والا میں ہوں اور لوگوں میں سب سے بڑا شہسوار علی بن ابی طالب ہے ۔ " 


   سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا حق میں لوگوں میں سب سے بڑھ کر شاعرہ ہونے کی گواہی سید البشر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ہوئی



💕بہادر اور صابرہ و شاکرہ والدہ :-



   جنگ قادسیہ بپا ہوئی ، یہ دن سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے ایمان کی آزمائش کا دن تھا ۔ یہ مشکل ترین امتحان تھا ، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟


 کیا اس امتحان میں سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا ناکام ہوئیں یا انہوں نے امتیازی کامیابی حاصل کی ؟


 انہوں نے امتحان میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔


   جب سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا اور ان کے چاروں بیٹوں نے جنگ قادسیہ کے لیے روانگی کا اعلان سنا ، تو چاروں بیٹوں نے جلدی سے ہتھیار زیب تن کر لیے ، ان کی بہادر والدہ اپنے بیٹوں کو حوصلہ دلانے لگیں اور وہ اپنے بہادر مسلح بیٹوں کو نظر بھر کر دیکھنے لگیں ، اسے دیکھائی دے رہا تھا کہ شاید اس کا اپنے بیٹوں کے ساتھ زندگی کا آخری لمحہ ہو ، پھر انہوں نے اپنے بیٹوں سے مخاطب ہو کر کہا:

 

   " اے میرے پیارے بیٹو۔۔۔۔۔۔!! تم نے بخوشی اسلام قبول کیا اور اپنی پسند کے مطابق ہجرت اختیار کی ، اس اللہ کی قسم جس کے سوائے اور کوئی حقیقی معبود نہیں ! تم ایک آدمی کے بیٹے ہو اور ایک ماں نے تمہیں جنم دیا ہے ۔ 


   میں نے تمہارے باپ کے ساتھ کبھی خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا اور نہ تمہارے حسب و نسب میں کوئی آمیزش آنے دی ۔ تم یہ بات اچھی طرح جانتے ہو کہ مسلمانوں کے لیے کافروں کے ساتھ جنگ کرنے میں کس قدر ثواب ہے ۔ تم اس بات کو بھی خوب اچھی طرح جان لو کہ باقی رہنے والا گھر فنا ہونے والے گھر سے کہیں بہتر ہے ۔ 


اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتا ہے : 


🌷یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ۟ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿آل عمران ٣ / ۲۰۰﴾٪ 


" اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! صبر سے کام لو ، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، امید ہے تم فلاح پاؤ گے ۔"


   جب تم صحت و عافیت کے ساتھ صبح کے وقت اٹھو تو اپنے دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لیے چاق و چوبند ہو کر میدان جنگ میں اترو ۔ 


   " جب لڑائی کی آگ بھڑک اٹھے ، زور کارن پڑے تو تم پورے جوش و ولولے کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ ۔ پھر یا تو تم غازی بن کر کامیابی حاصل کرو گے اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے گے ، یا شہید ہو کر خلد بریں کے معزز مہمان بن جاؤ گے ، ہر دو صورت میں کامیابی و کامرانی تمہارے قدم بوسی کرے گی



ایک مومن ماں نے اپنے مومن بیٹوں کے دلوں میں بہادری کی رمق پیدا کر دی اور وہ اپنی والدہ کے جانب سے حوصلہ پاکر ایک اکھڑ مزاج ، ظالم دشمنوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے ۔ 


   ایک نیک دل بیٹوں نے اپنی والدہ کی وصیت کو میدان جنگ میں اترنے کے لیے زاد راہ بنا لیا۔ 


   ماں کی وصیت بیٹوں کے لیے ایک ایسا نور ثابت ہوئی جس سے میدان میں اجالا ہوگیا ، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے دشمن سے وہ کچھ حاصل کر لیا جس کی وہ امید رکھتے تھے ۔ 


   پھر نوجوان بیٹے جنگ کے کیے تیار ہو گئے اور انہوں نے اپنی والدہ سے پختہ عہد کر کیا کہ یا وہ غازی بنیں گے یا جام شہادت نوش کریں گے ۔ ان دونوں میں سے ایک اعزاز اپنے رب کے حکم ضرور حاصل کریں گے ۔ 


   جب یہ بہادر سپوت اپنی والدہ سے میدان جنگ کی طرف پلٹے تو ان کے کانوں میں ماں کی دعائیں نغمہ سرا تھیں ، جو ان کے لیے جوش ، ولولے اور جذبے کا باعث بن رہی تھیں ۔ خوف ، تردد اور بزدلی کو دور بھگا رہی تھیں ۔ 



   یہ ایسے نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور رشد و ہدایت سے آراستہ ہو چکے تھے ، وہ اپنی ماں کے فرماں بردار بیٹے تھے اور اپنے دشمن کے خلاف ان کے دل غیظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے ۔ 



   وہ قوت ایمانی سے آراستہ تھے ، خوف و ہراس ان کے قریب بھی نہ بھٹکتا تھا




ان میں سے ایک نوجوان رزمیہ اشعار پڑھتا ہوا میدان جنگ میں اترا ۔


وہ یہ کہہ رہا تھا :


یَا إِخْوَتِیْ إِنَّ الْعَجُوْزَ النَّاصِحَةَ

قَدْ نَصَحَتْنَا إِذَا دَعَتْنَا الَبَارِحَةَ 


بِعقُوْلَةٍ ذَاتَ بَیَانٍ وَاضِحَةٍ

وَ إِنَّمَا تَلْقَوْنَ عِنْدَ الصَّالِحَةِ


مِنْ آلِ سَاسَانَ کِلاَبًا نَابِحَةً

قَدْ أَیْقَنُوْا مِنْکُمْ بِوَقْعِ الْجَائِحَةِ


وَ أَنْتُمْ بَیْنَ حِیْلَةٍ صَائِحَةٍ

أَوْ مَیْتَةٍ تُوْرِثُ غُنُمًا رَابِحَةً



   یہ نوجوان انتہائی دلیری اور بہادری کے ساتھ دشمن سے پنجا آزما ہوتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا ۔



پھر دوسرا نوجوان رزمیہ اشعار کہتا ہوا میدان جنگ میں اترا :


إِنَّ الْعَجُوْزَ ذَاتَ جَزْمٍ وَ جِلًا

وَ النَّظْرُ الْأَدْفَقُ وَ الرَّأْيُ السَّنَدُ


قَدْ أَمَرَتْنَا بِالسِّدَادِ وَ الرُّشْدِ

نَصْحَةً مِنْھَا وَ بَرًا بِوَالِدِ


فَبَادَرَ وَ الْحَرْبُ حُمَاةً فِی الْعَدَدِ

إِمَّا نَعْقِدُ بَارِد عَلَی الْکَبَدِ


أَوْ مَیْتَةًٍ تُوَثَّکُمْ عَزَّ الْأَبَدَ

فِی جَنَّةِ الْفِرْدَوْسِ وَ الْعَيْشَ الرَّغَدَ


   یہ نوجوان بھی میدان جنگ میں بہادری کے جویر دکھلاتا ہوا جام شہادت نوش کر گیا ۔


پھر تیسرا نوجوان رزمیہ اشعار پڑھتا ہوا میدان جنگ میں اترا ، وہ یہ کہہ رہا تھا:


وَ للہ لَا نَعْصِی الْعَجُوْزَ حَرْفًا

قَدْ أَمَرَتْنَا حَدَبًا وَ عَطْفًا


نُصْحًا وَ بِرًّا صَادِقًا وَ لُطْفًا

فَبَادِرُوْا الْحَرْبَ الْفَرْدَوسَ زَحْفًا


حَتَّی تَکقَوْا آلِ کِسْرَی لِفًّا

أَوْ تَکْشِفُوْھُمْ عَنْ حِمَاکُمْ کَشْفًا


إِنَّا نَرَی التَّقْصِیْرَ مِنْکُمْ ضَعْفًا

وَ الْقَتْلَ فِیْکُمْ نَجْدَةً وَ زُلْفًا


   یہ بھی میدان جنگ میں بہادری و جوانمردی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا ۔


   پھر چوتھا نوجوان رزمیہ اشعار پڑھتا ہوا آگے بڑھا ، وہ یہ کہہ رہا تھا :


لِسْتُ لِخَنْسَاءَ وَ لَا لِأَحْزَمَ

وَ لَا لِعَمْرَو ذِی السُّعَادِ الْأَقْدَمَ 


إِنَّ لَمْ أَرُدَّ ذَالْخَمِیْسِ الْأَعْجَمَ

مَاضٍ عَلَی الْھَوْلِ خَضَمَ خَضْرَمَ


إِمَّا لِفَوْزِ عَاجِلٌ وَ مَغْنَمَ 

أَوْ لَوْ فَلَةٌ فِی سَبِیْلِ الْأَخْرَمَ


   یہ بھی بہادری اور جوانمردی کے جوہر دکھلاتا ہوا جام شہادت نوش کر گیا ۔



   اس طرح چاروں بھائیوں نے موت کو اس طرح ایک ساتھ گلے لگایا جس طرح انہوں نے مل جل کر ایک ساتھ زندگی بسر کی ۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی ان پر اپنے رحمت کی برکھا برسائے



   جنگ قادسیہ کے بہادر جنگجو فتح یاب ہو کر واپس آئے ، لیکن سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے چاروں فرزند واپس نہ آئے ۔


   سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئیں ، تاکہ اپنے بیٹوں کے بارے میں معلوم کریں اور ان کی خوشبو محسوس کر سکیں ۔ 



   میدان جنگ سے واپس آنے والے ایک شخص نے سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے قریب آ کر درد بھرے انداز میں بتایا کہ تیرے چاروں فرزند جام شہادت نوش کر چکے ہیں ، انھوں نے جذبہ جہاد سے سر شار ہو کر اپنے سینے پر زخم کھائے ، وہ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگے ۔ بلا شبہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ، وہاں ان کو رزق دیا جاتا ہے ۔



   سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کا ایمان خوشنما صورت میں آشکار ہوا ۔ انہوں نے نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ، اپنے چہرے کو پیٹا ، نہ اپنے کپڑے پھاڑے اور نہ اپنے سر پر مٹی ڈالی ۔ 



   اس لیے کہ ان کا جاہلیت کے ساتھ تعلق بالکل ختم ہو چکا تھا اور جس اسلام کو انہوں نے بطور نظام حیات پسند کر لیا تھا وہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا ۔ 



اس مومن خاتون نے غم و اندوہ کی گھڑی میں صورتحال کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے : 


💕(( الحمد للہ الذی شرفنی بإستشھادھم جمیعا وأرجو من ربی أن یجمعنی بھم فی مستقر رحمته ))


" شکر ہے اس اللہ کا جس نے ان تمام کو خلعت شہادت سے سرفراز کر کے مجھے عزت بخشی ۔ میں اپنے رب سے یہ امید رکھتی ہوں کہ وہ مجھے اپنی رحمت سے زیر سایہ جنت میں ان کے ساتھ ملا دے گا ۔"


   سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا زندگی کے آخری لمحہ تک نعمت ایمان سے سرفراز رہیں اور وہ ایمان ہی کی حالت میں ٢٤ ہجری کو دنیائے فانی سے کوچ کرتی ہوئی راضی خوشی اپنے رب سے جا ملیں ۔ اللہ ان پر راضی ہوا اور انہیں اپنی رحمت سے سرفراز کیا اور اللہ ان کے شہید بیٹوں پر راضی ہوا اور ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائی اور اللہ سبحانہ و تعالٰی دیگر مسلمان شہداء پر راضی ہوا ، انہیں اپنی رحمت کی نعمت سے نوازا ۔ 


   سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا قوت ایمان کی بنیاد پر امتحان میں کامیاب ہوئیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی انہیں جزائے خیر سے نوازے ۔ آمین



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد ۔۔

  

 

تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء --- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments