حضرت اسماءرضی اللہ عنہا

حضرت اسماءرضی اللہ عنہا





بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


حضرت اسماءرضی اللہ عنہا


حضرت اسماءرضی اللہ عنہا نے سو سال کی عمر پائی نہ کوئی دانت گرا اور نہ داڑھ اور نہ ہی عقل و خرد میں کوئی خلل پیدا ہوا۔ (مورخین)

  


اس صحابیہ رضی اللہ عنہا نے تمام اطراف سے مجد وشرف جمع کر لیا ۔وہ اس طرح کہ: اس کا باپ صحابی ،اس کا دادا صحابی،اس کی بہن صحابیہ،اس کا خاوند صحابی اور اس کا بیٹا صحابی ۔


بلاشبہ یہ مجدوشرف ان کے لئے باعث فخر ہے ۔


اس کاباپ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھا جنہیں زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیل اور وصال کے بعد ان کا خلیفہ بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ 


اس کا دادا ابو قحافہ رضی اللہ عنہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد تھے ۔

اس کی بہن ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا تھی۔

اس کا خاوند حواری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ تھے ۔


اس کا بیٹا حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھا۔

یہ سب اللہ تعالی کی پسندیدہ ہستیاں تھیں اور مختصر یہ ہیں حضرت اسماء بن ابی بکر اور بس ۔۔۔۔۔۔۔۔


حضرت اسماءان خوش نصیب خواتین میں سے ہیں جنہیں سب سی پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ان سے پہلے صرف سترہ مرد اور عورتیں مشرف باسلام ہوئے۔


انہیں ذات النطاقین کا لقب دیا گیا، وہ اس لئے کہ جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ابا جان ہجرت کے لئے تیار ہوئے تو حضرت اسماء نے ان کے لئے زاد راہ تیار کیا،پانی کے لئے ایک مشکیزہ تیار کیا اور جب انہیں زاد راہ اور مشکیزہ باندھنے کے لئے کوئی رسی نہ ملی ، تو انہوں نے ازار بند کے دو حصے کیئے ایک کے ساتھ زاد راہ کا تھیلا باندھا اور دوسرے کے ساتھ مشکیزے کا منہ کس دیا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے برکت کی دعا کی اور فرمایا تجھے اللہ تعالی اس کے بدلے جنت میں دو نطاق عطا فرمائے،جن سے ان لقب ذات النطاقین پڑ گیا

 حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ جب ان سے شادی کی اس وقت اس کی حالت بہت کمزور تھی نہ تو ان کے پاس کوئی خادم تھا اور نہ ہی ایک گھوڑے کے علاوہ کوئی مال تھا۔ یہ ان کے لئے بڑی نیک اور خدمت گزار بیوی ثابت ہوئیں ان کا بھی خیال رکھتیں اور ان کے گھوڑے کے لئے بھی چارے کا بندوبست کرتیں، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے رزق کے دروازے کھول دیے اور یہ صحابہ میں بہت مآلدار بن گئے ۔


جب حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی فرصت ملی، اس وقت یہ حاملہ تھیں، وضع حمل کے دن بالکل قریب تھے، لیکن یہ کیفیت دشوار گزار اور طویل سفر اختیار کرنے میں رکاوٹ ثابت نہ ہوئی۔ جب یہ وادی قباء میں پہنچیں تو انہوں نے اپنے بچے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو جنم دیا ۔


 مسلمانوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ولادت پر خوشی کا اظہارکیا۔


اس لئے کہ یہ مدینہ منورہ میں مہاجرین کے ہاں یہ پہلا بچہ ہے جس نے جنم لیا ہے۔والدہ اس نو مولود کو گود میں اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپﷺ نے اسے اپنی گود میں لیا، اپنے مبارک لعب دہن کی بچے کو گھٹی دی ،اور اس کے لئے خیر و برکت کی دعا کی۔


 اسلئے سب سے پہلے جو چیز اس کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن تھا ۔


اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا میں بے شمار خوبیاں ایک ساتھ جمع ہو گئی تھیں ۔ وہ شاذونادر ہی کسی میں جمع ہوتی ہیں ۔


سخی اتنی تھیں کہ ان کی سخاوت کی مثال دی جاتی تھی۔ ان کے بیٹے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے اپنی خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور اپنی ماں اسماء رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی عورت کو سخاوت کرتے نہیں دیکھا لیکن ان دونوں کی سخاوت کا انداز مختلف تھا خالہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اشیاء جمع کرتی رہتیں اور جب بہت سی اشیاء ہو جاتی تو پھر انہیں غرباء ومساکین میں تقسیم کر دیتیں۔


لیکن میری امی کے ہاتھ جب بھی کوئی چیز آتی وہ کسی نہ کسی مستحق کو فورا دے دیتیں۔ کل کے لئے کسی چیز کو اپنے پاس نہ رکھتیں ۔



حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بڑی زیرک اور دانشمند خاتون ،تنگ وترش حالات میں نہایت عقلمندی سے تصرف کیا کرتی تھیں۔


 جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کے لئے نکلے تو آپ نے ساتھ اپنا سارا مال لے لیا جو تقریبا چھ ہزار درہم تھے اپے اہل و عیال کے لئے کچھ بھی نہ چھوڑا جب ان کے بوڑھے باپ کو کوچ کر جا نے کا علم ہوا ( وہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ) وہ ا ن کے گھر آئے اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا: 

بخدا میرے بیٹے نے تمہارا مالی نقصان بھی اسی طرح کیا ہے ۔جس طرح اپنا جسمانی نقصان کیا ہے ۔


حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فورا بولیں


  نہیں ابا جان :وہ تو ہمارے لئے بہت سا مال چھوڑ کر گئے ہیں ۔پھر کنکریاں ان کے طماقچے رکھیں جس صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مال رکھا کرتے تھے ۔اس پر ایک کپڑا ڈال دیا اور پھر اپنے نابینا دادا کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے گئیں اور کہا دادا جان! یہ ہاتھ لگائیے ،ابا جان ہمارے لئے بہت سا مال چھوڑ کر گئے ہیں انہوں نے اپنا ہاتھ لگایا اور فرمایا :

خوب اگر اتنا مال چھوڑ کر گئے ہیں تو پھر کوئی پرواہ نہیں ۔اس نے بہت اچھا کیا ۔ 

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے چاہا کہ دادا کو تسلی ہو جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ کہیں دادا جان ترس کھا کر اپنا مال مجھے عطا نہ کر دیں میں ان کا مال لینا نہیں چاہتی تھی کیونکہ وہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور میں کسی بھی غیر مسلم کا مال لینا نہیں چاہتی تھی،اگرچہ وہ میرے دادا جان ہی کیوں ہوں۔


اگرچہ تاریخ نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے بیشتر واقعات کو بھلا دیا،لیکن ان دانشمندی ،محتاط طبیعت اور ایمانی قوت کا مظاہرہ کبھی نہیں بھلا سکتی جب انہوں نے اپنے بیٹے سے آخری ملاقات کی تھی ۔


ہوا یوں کہ یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔حجاز،مصر،عراق،خراسان اور ملک شام کے اکثر و بیشتر علاقے ان کی زیر قیادت آ گئے۔

لیکن بنو امیہ تھوڑے ہی عرصے بعد حجاج بن یوسف کی قیادت میں ایک لشکر جرار لے کر مقابلے کے لئے روانہ ہوئے دونوں گروہوں میں زبردست معرکہ آرائی ہوئی اور بیشتر موقعے پر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ایک بہادر شاہ سوآر کی طرح حملہ آور ہوئے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے لیکن ان کے ساتھی آہستہ آہستہ انہیں چھوڑ کر لشکر سے الگ ہونے لگے ۔بالآخر آپ لاچار ہو کر بیت المقدس میں پناہ گزین ہوئے اور چند ایک ساتھی بھی امن کی تلاش میں کعبہ اللہ میں داخل ہوئے۔


 شہادت سے پہلے اپنی بوڑھی والدہ کے پاس آئے ،انتہائی بڑھاپے کی وجہ سے ان کی بینائی بھی ختم ہو چکی تھی ۔


والدہ کی خدمت اقدس میں سلام عرض کیا:


ماں نے اپنے لخت جگر کے سلام کا محبت بھرے انداز میں جواب دیا اور پوچھا:بیٹا میری جان صدقے!اس نازک موقع پر میرے پاس کیسے آنا ہوا ۔حجاج تیرے لشکر پر توپ کے گولے جس انداز سے پھینک رہا ہے ،اس سے مکہ کے در و دیوار لرز رہے ہیں۔


بیٹے نے عرض کیا:اماں جان میں آپ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔

پوچھا بیٹے کس سلسلے میں مشورہ مطلوب ہے ۔

عرض کیا:

لوگوں نے مجھے رسوا کیا کچھ لوگ حجاج بن یوسف سے خوفزدہ ہو کر اور کچھ مراعات کے لالچ میں آ کر مجھے چھوڑ گئے۔ یہاں تک کہ میرے بیٹے بھی مجھ سے الگ ہو گئے۔


 اب میرے ساتھ چند ساتھی ہی رہ گئے ہیں اور وہ بھی دو گھنٹے سے زیادہ میدان میں نہیں ٹھہر سکیں گے ،اس نازک گھڑی میں بنو امیہ کی جانب سے قاصد میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ پیشکش کی کہ جو کچھ بھی مال و دولت لینا چاہتے ہو لے لو لیکن ہتھیار ڈال دو اور عندالملک بن مروان کے ہاتھ پر بیعت کر لو ۔


اماں جی آپکی کیا رائے ہے؟ 


والدہ نے گرجدار آواز میں کہا :


بیٹے عبداللہ! تم اپنے بارے میں خوب اچھی طرح جانتے ہو ،جو جی میں آئے کرو ،لیکن میری بات غور سے سنو! اگر تم اپنے آپکو حق پر سمجھتے ہو اور لوگوں کو حق کی طرف دعوت دیتے ہو تو اسی طرح صبر سے کام لو جس طرح تیرے جھنڈے کے نیچےساتھیوں نےصبر و تحمل کا پیکر بن کر جام شہادت نوش کر لیا ۔

اگر تم نے دنیا کو اپنا مقصد بنا لیا تو تم بہت برے انسان ثابت ہو گے اور تباہ و برباد ہو جاو گے ۔


بیٹے نے کہا اماں جی آج مجھے لازم قتل کر دیا جائے گا ۔

والدہ نے ارشاد فرمایا:حجاج بن یوسف کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ تو جام شہادت نوش کر لے ،ورنہ بنو امیہ کے لونڈے تجھے کھلونا سمجھ کر اپنا دل بھلائیں گے ۔


عرض کیا:


اما ں جان میں مرنے سے تو نہیں ڈرتا،البتہ اگر مجھے خوف ہے تو یہ ہے کہ وہ میری لاش کا حلیہ بگاڑ دیں گے۔


والدہ نے ارشاد فرمایا:


قتل ہو جانے کے بعد بھلا کس چیز کا ڈر باقی رہ جاتا ہے ۔بکری جب ذبح ہو جاتی ہے،تو اس کے گوشت کو سلاخوں میں لگا کر آگ میں رکھا جائے تو اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ۔


ماں کی یہ جرآت مندانہ گفتگو سن کر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور فرمایا:


اماں جی آپ بہت عظیم ہو ، تیری عظمتوں کو میں سلام کرتا ہوں، میں اس نازک موقع پر یہی جرآت مندانہ اور حوصلہ افزا باتیں سننے آیا تھا ۔میں نے جو کچھ سنا مجھے یہی توقع تھی اللہ جانتا ہے میں بزدل نہیں ہوں اور نہ ہی میرے قوی مضحمل ہوئے ہیں،اللہ گواہ ہے ! مجھے دنیا اور اس کی زیب و زینت سےکوئی سروکار نہیں اماں جان اب میں اسی راہ پر جا رہا ہوں جو تیری پسندیدہ راہ ہے۔

       

اماں جان!جب میں قتل ہو جاؤں تو غم نہ کرنا اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا ۔

والدہ نے ارشاد فرمایا:


مجھے غم تو اس صورت میں لاحق ہوتا اگر تم راہ باطل میں قتل کر دیئے جاتے۔


عرض کیا:


اماں جان! آپ یقین کریں آپ کے بیٹے نے کبھی برائی کا ارادہ نہیں کیا،کبھی بے حیائی کا ارتکاب نہیں کیا ،کبھی عہد وپیمان میں بے وفائی نہیں کی ،کبھی کسی مسلمان پر ظلم و ستم کا قصد نہیں کیا اور آپ کے بیٹے کو اللہ کی رضا سے بڑھ کر کوئی چیز مطلوب نہیں۔ اللہ تعالی جانتا ہے میں یہ باتیں خود ستائی کے لئے نہیں کر رہا ۔میں یہ باتیں اس لئے کر رہا ہوں تاکہ آپ کو میرے متعلق تسلی ہو جائے ۔



ماں نے اپنے بیٹے کی باتیں سن کر خوشی سے کہا ۔سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے تجھے اپنی اور میری پسند کے مطابق بنایا ۔



بیٹا ذرا میرے قریب آؤ تاکہ میں تیری خوشبو سونگھ سکوں اور تیرے جسم پر پیار بھرے ہاتھ پھیر سکوں۔



حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی اماں کے ہاتھوں اور پاؤں کو چوما ، ماں نے اپنے بیٹے کے سر گردن اور چہرے کو چوما ۔جسم پر پیار سے ہاتھ پھیرے تو انہیں جسم پر پہنی ہوئی کوئی سخت چیز محسوس ہوئی تو پوچھا بیٹے یہ کیا پہن رکھا ہے؟

 بتایا: اماں جان یہ ذرع پہن رکھی ہے ۔


فرمایا: بیٹے جسے شہادت مطلوب ہوتی ہے وہ یہ ذرع نہیں پہنا کرتے ۔


عرض کیا میں نے یہ تیری خوشی کی خاطر پہنی ہے ۔



فرمایا: بیٹے اسے اتار دو اس کی جگہ لمبا کرتا زیب تن کر لو تاکہ جب تم شہید ہو کر گرو تو برہنہ نہ ہو سکو

       

 حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے فورا ذرع اتار دی ایک لمبا کرتا زیب تن کیا اور لڑائی کے لئے حرم کی طرف چل پڑے اور عرض کی: اماں جان میرے لئے دعا کرنا۔


والدہ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی :


الہی رات کے اندھیرے میں میرے بیٹے کی عبادت کو قبول فرما ۔


 الہی! مدینہ اور مکہ کی چلملاتی دھوپ میں رکھے جانے والے روزوں کو قبول فرما ۔الہی میرے بیٹے نے اپنے والدین سے جو حسن سلوک کیا اسے شرف قبولیت سے ذیادہ نواز۔


الہی! میں اپنے لخت جگر کو تیرے سپرد کرتی ہوں۔اور جو تو نے اس کے متعلق فیصلہ کیا ہے ۔ میں اس پر دل وجان سے راضی ہوں۔


الہی مجھے اب صبر کرنے والوں کا ساتھ شامل فرما ۔


اس دن غروب آفتاب سے پہلے ہی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جام شہادت نوش کرکے اپنے اللہ کو پیارے ہو گئے۔


شہادت سے تقریبا دس روز بعد ان کی والدہ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں۔انہوں نے سو سال کی عمر پائی،نہ تو کوئی دانت گرا اور نہ ہی داڑھ اور نہ ہی عقل وخرد میں کوئی اضمحلال پیدا ۔


حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔


1۔ اصابہ مترجم۔ 46


2۔اسد الغابہ۔ 392/5


3۔الاستیعاب۔ 704/2


4۔تھزیب التھذیب ۔ 397/12


5۔صفتہ الصفوہ۔ 32۔31/12


6۔شذرات الذھب۔ 80/1


7۔تاریخ الاسلام علامہ ذھبی۔ 133/3


8۔البدایہ والنابہ۔ 346/8


9۔اعلام النساء۔ 36/1


10۔سیر اعلام النبلاء۔208/2


11۔قلائد الجمان۔ 149


12۔النجوم الزھرہ۔ 189/1


13۔المحبر۔ 22۔54۔100



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد

   

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی 

Post a Comment

0 Comments