سیدہ ہند بنت عمرو رضی اللہ عنہا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
سیدہ ہند بنت عمرو رضی اللہ عنہا
🔸خاندانی پس منظر :-
نام ہند ، والد کا نام عمرو بن حرام ، بھائی کا نام عبد اللہ بن عمرو بن حرام ، انھوں نے جنگ احد میں شہادت پائی۔
سیدہ ہند رضی اللہ عنہا حدیث کے مشہور و معروف راوی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی ہھوپھی تھیں ۔ سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کا خاوند عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں یثرب کا سردار تھا اور اس کا شمار انصارِ مدینہ کے معززین میں ہوتا تھا ۔
🔸سیدہ ہند اور ان کے خاوند کا اسلام قبول کرنا :-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کو دینی احکام کی تعلیم دینے کے لیے مدینہ منورہ بھیجا تھا ۔ ان کی دعوت سے اسلام پھیلا ۔ انھوں نے اہلِ مدینہ کو قرآن پڑھ کر سنایا ۔ اہلِ مدینہ قرآن سن کر جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے ، سیدہ ہند رضی اللہ عنہا بھی متاثر ہو کر مسلمان ہو گئیں ۔
سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کے خاوند عمرو بن جموح نے زمانہ جاہلیت میں اپنے گھر کے ایک کمرے میں جاھل چودھریوں کی عادت کے مطابق ایک بت نصب کر رکھا تھا ۔ وہ اس کی پوجا پاٹ کیا کرتا تھا اور تقرب حاصل کرنے کے لیے اس کے نام پر جانور ذبح کیا کرتا تھا ۔ عمرو بن جموح حبشہ سے ایک بہت عمدہ لکڑی لایا اور اس نے بڑھئی کو تلقین کی کہ وہ اس لکڑی کا خاص اہتمام سے بت بنائے ۔ جب بت تیار ہو گیا اس نے اس کا نام مناة رکھا ۔ اسے عمدہ قسم کے لباس سے آراستہ کیا اور اعلی قسم کی خوشبو سے مہکایا ۔ اس کو یہ پتہ نہ تھا کہ اس کی یہ تمام محنت اکارت جائے گی اور ہوا ہچکولوں میں اڑ جائے گی ۔
جب اہلِ مدینہ کو پتا چلا کہ مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ ابو امامہ اسعد بن زرارہ کے گھر فروکش ہوئے ہیں تو لوگوں نے بھی یہ ارادہ کر لیا کہ اس گھر جاکر مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کی باتیں سنیں ۔
سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کے تین بیٹے معوذ ، معاذ اور خلاد پہلے ہی دینِ اسلام قبول کر چکے تھے ، ان کے باپ عمرو بن جموح کو اس کا علم نہ تھا ۔ سیدہ ہند رضی اللہ عنہا بھی ایمان کی نعمت سے سرفراز ہو چکی تھیں ، جس طرح سے ان کے بیٹے ایمان کی نعمت سے سرفراز ہو چکے تھے ۔ لیکن اس نے اپنے خاوند سے اپنے مسلمان ہونے کو چھپا رکھا تھا ۔ وہ کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھی کہ اس کے بیٹے اپنے مومن ہونے کا اعلان کریں
عمرو بن جموح کے بیٹے سیدنا مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کی مجالس میں بڑی پابندی کے ساتھ شریک ہوا کرتے تھے ۔ وہ اپنے گھر واپس آکر اپنی والدہ کو ان قرآنی آیات کی تعلیم دیا کرتے تھے جو انہوں نے سیدنا مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ سے سن کر زبانی یاد کی ہوئی تھیں ۔ اپنے باپ کی غیر حاضری میں جو انہوں دینی احکامات سیکھے ہوئے تھے ان احکام کے بارے میں بھی اپنی والدہ کو آگاہ کیا کرتے تھے ۔
جب مدینہ منورہ کے گھروں میں ان باتوں کا چرچا ہونے لگا جو سیدنا مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کی مجالس میں ہوا کرتی تھیں اور سیدنا مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کے مصاحبین میں اضافہ ہونے لگا تو عمرو بن جموح کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں اس کے بیٹے بھی مصعب بن عمير کی باتوں میں نہ آجائیں اور اس کے پیروکاروں میں سے نہ ہو جائیں ۔
عمرو بن جموح نے اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا کہ اے ہند ! ذرا کڑی نگاہ رکھنا کہ کہیں تیرے بیٹے مکّہ سے آنے والے آدمی سے نہ ملنے پائیں ، وہ انہیں خراب کر دے گا ۔
اگر اس کا جادو ان پر چل گیا تو یہ بیٹے ہمارے کام کے نہیں رہیں گے ۔ ہند نے کہا : آپ مطمئین رہیں ، خاطر جمع رکھیں ، آپ ان کے بارے اپنے دل میں کوئی اندیشہ نہ رکھیں ۔
سیدنا معاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھی کو باپ کے طرز عمل کے بارے میں بتا رکھا تھا ۔ انھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ معاذ بن جبل نے ان کے ہاں رات کے وقت آئے اور بت کو کسی کوڑے دان میں پھینکنے کے لیے عمرو بن جموح کی مدد کی ۔ جب عمرو بن جموح گہری نیند سو گیا تو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اس کام کو سر انجام دینے کے لیے تشریف لائے جس کے لیے عمرو بن جموح کے بیٹوں سے اتفاق ہو چکا تھا
انہوں نے رات کی تاریکی میں بت کو اٹھایا اور گندگی سے بھرے کنویں میں منہ کے بل جا پھینکا ۔ عمرو بن جموح صبح کے وقت نیند سے بیدار ہوا اور مناة بت کے کمرے کی طرف گیا ، تاکہ وہ اپنے یومیہ معمول کے مطابق اس کی پوجا پاٹ کرے ۔ اس نے اپنے بت مناة کو کمرے میں نہ پایا ، وہ چیختا چلاتا ہڑبڑ کرتا اور دھمکیاں دیتا ہوا ادھر ادھر گھومنے لگا ۔ پھر اس نے اپنی بیوی ہند اور بیٹوں کو آواز دے کر اپنے پاس بلایا اور ان سے بت کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو تو کچھ معلوم نہیں کہ وہ یہاں سے کہاں غائب ہو گیا ۔ عمرو بن جموح گھر سے اپنے بت کو تلاشنے کے لیے نکلا اور تھوڑی دیر بعد واپس آیا ۔ اس نے بت کو اٹھا رکھا تھا ۔ وہ بت اسے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں گندگی سے لت پت پڑا ملا تھا ۔ گھر میں بیٹھ کر وہ اسے صاف کرنے لگا ، اس نے اسے عطر لگایا اور اس سے وعدہ کیا کہ جس نے بھی اس پر یہ ظلم ڈھایا ہے وہ اس سے انتقام ضرور لے گا ۔ ہند اور اس کے بیٹے انگشت بدنداں رہ گئے کہ قوم کا سردار کیا بچگانہ قسم کی حرکتیں کر رہا ہے ۔ وہ ایک گونگی، بہری لکڑی کے ساتھ باتیں کر رہا ہے ۔
وہ اس سے معذرت کر رہا ہے ، حالانکہ وہ اس کی باتوں کو سننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا ۔ بعد ازاں عمرو بن جموح تلوار لایا اور اس نے وہ تلوار اپنے بت مناة کے گلے میں لٹکا کر کہا کہ اب اگر دوبارہ کوئی تجھے اٹھانے کے لیے تیرے قریب آیا تو اس تلوار کے ساتھ اس کا کریا کرم کر دینا ، یہ تلوار میں دفاع کے لئے تیرے سپرد کر رہا ہوں ، اس سے اپنے دشمن کا کام تمام کر دینا ۔
جب یہ بوڑھا شخص نیند کی آغوش میں چلا گیا تو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے ، عمرو بن جموح کے بیٹوں نے ان کا تعاون کیا اور ان سب نے مل کر بت کو اٹھایا اور اسے پھر گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا ، بازار میں ایک کتا مرا تھا ، اسے اٹھا کر بت کے ساتھ باندھ دیا اور چپکے سے واپس چلے گئے ۔
انھوں نے ایسا انداز اپنایا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ جب عمرو بن جموح دوسرے دن نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے بت مناة غائب پاکر گھبرا گئے ۔ وہ زور دار آواز میں چیخا چلایا اور پے در پے دھمکیاں دینے لگا ۔ پھر وہ گھر سے باہر نکلا ، جب اس نے دیکھا کہ اس کا مناة نامی بت گندگی کے ڈھیر پر اوندھے منہ پڑا ہے اور اس کی گردن کے ساتھ مرا ہوا کتا بھی بندھا ہوا ہے اور اس نے اپنا دفاع بالکل ہی نہیں کیا ، تو عمرو بن جموح نے سمجھ لیا کہ یہ بت اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عزت و تکریم کی جائے ، یہ تو خود اپنی تذلیل پر خوش ہے ۔
اسے وہیں گندگی میں پڑا چھوڑ کر دل گرفتہ اور کبیدہ خاطر ہو کر اپنے گھر آیا ۔ جب اس کی بیوی ہند اور اس کے بیٹوں نے اسے غمزدہ دیکھا تو اس سے ہوچھا کہ آج آپ افسردہ اور غمزدہ کیوں ہیں ؟ تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا
پھر انہوں نے لمبی آہ بھرتے ہوئے اپنی بیوی ہند سے کہا : آپ کے بیٹوں نے آپ کی مخالفت تو نہیں کی ، جس اندیشہ کا میں نے آپ سے تذکرہ کیا تھا اس کا انہوں نے خیال رکھا ہوگا ۔
ہند نے کہا : بالکل انھوں نے میری ہدایت پر عمل کیا ، البتہ معاذ نے ایک روز اس مکی مبلغ کی کچھ باتیں سن لی تھیں ۔آپ اس کو اپنے پاس بلائیں ۔ عمرو بن جموح نے اسے آواز دی ، وہ ساتھ والے کمرے میں تھا ۔ آواز سنتے ہی اس نے کہا : ابا جان ! میں حاضر ہوں ، ابھی آیا ۔ جب بیٹا اپنے باپ کے سامنے کھڑا ہوا تو انہوں نے پوچھا : کیا آپ نے مکّہ سے آنے والے عالم سے کوئی نئی بات سن کر زبانی یاد کی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ابا جان ۔
میں نے جو کچھ اس سے سنا زبانی یاد کر لیا تھا ۔ اس نے کہا بیٹا مجھے بھی کچھ سناؤ جو تم نے یاد کیا ہے ۔
تو اس نے یہ سنایا :
✨أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم
ِ ✨بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمْ
_🌺اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے حضور مردود شیطان سے.
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
" سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے ۔ نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے ۔ روزِ جزا کا مالک ہے ۔ ( اے اللہ! ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا ۔ ان لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ ( ہی ) گمراہوں کا ۔ "
سورہ فاتحہ سن کر عمرو بن جموح ہم کلامی کا انداز اختیار کرتے ہوئے کہنے لگا : یہ کلام کتنا دلکش ، دلفریب اور خوبصورت ہے ۔ پھر اس نے اپنے بیٹے سے کہا : کیا اس کی ساری باتیں ہی اسی طرح دلکش اور خوبصورت ہیں ؟
معاذ بن عمرو نے مسرت و شادمانی سے جھومتے ہوئے کہا : ابا جان ! بالکل اس کی ساری باتیں ہی نہایت عمدہ ، دلکش و دلفریب ہیں ، اس کی ساری باتیں میٹھی اور رس بھری ہیں ۔
کیا آپ خود اس کے پاس جا کر اس کی باتیں نہیں سنیں گے ، آپ ابھی جائیں اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں ، قوم کے معززین اسعد بن زرارہ ، اسید بن حضیر ، سعد بن معاذ ، سعد بن عبادہ اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم جو قبیلہ اوس و خزرج کے سردار ہیں ، وہ آپ سے سبقت لے گئے ہیں
وہ سب ان باتوں پر ایمان لا چکے ہیں جو یہ مکی مبلغ بیان کرتا ہے ۔ عمرو بن جموح کی بیوی نے حوصلہ دلاتے ہوئے اپنے خاوند سے کہا : اگر آپ اس مکی نوجوان کی باتوں کو سنیں ، اس کے پاس جائیں ، اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تو آپ کے لیے بہت بہتر ہوگا ۔
وہ کہنے لگے میں اپنے خداؤں سے اس کے بارے میں مشورہ کرتا ہوں کہ وہ کیا کہتے ہیں ۔ اس کے بیٹے معاذ نے کہا : ابا جان ! کیا آپ گونگی بہری لکڑی سے جواب کا انتظار کرتے ہیں ؟ عمرو بن جموح نے کہا : بیٹا تم یہ کیا کہہ رہے ہو ؟
اس نے کہا : ابا جان ! میں ٹھیک کہہ رہا ہوں !۔۔۔۔۔۔۔ابا جان ! جس لکڑی کو تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو یہ کچھ بھی نہیں ؟ پھر عمرو بن جموح نے خود کلامی کا انداز اپناتے ہوئے کہا : ہاں ! یہ تو درست ہے کہ لکڑی گونگی اور بہری ہے ، یہ کچھ سمجھتی ہے نہ ہی کچھ محسوس کرتی ہے ، یہ ادراک اور احساس سے بالکل محروم ہے ۔
پھر عمرو بن جموح نے اپنے اہل خانہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا : کیا تم اس نظریہ کے قائل نہیں جس کا میں قائل ہوں ؟
اس کی بیوی ہند اور اس کے بیٹوں نے ہڑ بڑا کر کہا : کیوں نہیں ، کیوں نہیں آپ ہمارے سردار ہیں ۔
عمرو بن جموح نے کہا : تم سب گواہ رہنا ، میں نے ایمان قبول کر لیا ہے اور میں تمہارے رو برو گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔
عمرو بن جموح نے جب اپنی بیوی اور بیٹوں کے سامنے کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کیا تو سارا خاندان مسرت و شادمانی سے جھوم اٹھا ۔ اس سے پہلے انہیں اس نوعیت کی سعادت کبھی میسر نہیں آئی تھی ۔
عمرو بن جموح نے سیدنا مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ ان کے گھر تشریف لائیں ۔
سیدنا مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ ان کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے ان کے گھر تشریف لائے اور اس گھر کو بتوں کی آلائش سے پاک کیا اور اسے قرآنی آیات کی خوشبو سے مہکایا ۔ سیدنا مصعب بن عمير رضی اللہ عنہ نے یہ رات خوش و خرم اس گھر میں بسر کی
🔸سیدہ ہند رضی اللہ عنہا کے بیٹوں کی جہاد کے لیے روانگی :-
عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں کچھ نقص تھا ۔ وہ لنگڑا کر چلتے تھے ۔ جب انھوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے خلاف جنگ کرنے کی غرض میدان بدر کی طرف روانہ ہونے والے ہیں تو وہ بھی جلدی سے اپنے گھر پہنچے اور جہاد کے لیے روانگی کی تیاری کرنے لگا ۔
اس کی بیوی ہند اور اس کے بیٹے اسے جنگ کے لیے جانے سے روکنے لگے اور کہا آپ معذور ہیں ، لنگڑا کر چلنے کی وجہ سے آپ کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن ان کا اصرار تھا کہ میں جنگ میں ضرور شریک ہوں گا ۔
جب بیٹوں نے اپنے والد کے اصرار کو دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : ابا جان کو سمجھائیں! ان کا گھر میں رہنا زیادی مناسب ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹوں کی دلی تمنا کا لحاظ کرتے ہوئے عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو گھر میں رہنے کی تجویز دی جو اس نے منظور کر لی ، اس طرح وہ جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے ، وہ گھر میں رہے اور ان کے بیٹے جنگ بدر میں شریک ہوئے ۔
میدان جنگ سے لشکر اسلام کے فتحیاب ہونے کی خبریں آنے لگیں ، مشرکین کے بڑے بڑے سورما میدان جنگ میں تہ تیغ کر دئے گئے ۔
عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکھا کہ اس کے بیٹے میدان جنگ سے کامیاب و کامران ہو کر واپس آئے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ۔ لیکن ان کی دلی تمنا یہ تھی کہ وہ بذات خود لڑائی میں شریک ہوتے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی انہیں شہادت کی نعمت سے سرفراز کرتا ۔
شکست کی بناء پر قریش غم سے نڈھال ہو چکے تھے ، ان کا رعب و دبدبہ خاک میں مل چکا تھا ۔ ان کے تکبر و نخوت کو ناقابل تلافی دھچکا لگ چکا تھا ، اس بناء پر انہوں نے بدلہ لینا کا پختہ عزم کر لیا اور معرکہ احد میں مسلمانوں کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی تیاری کرنے لگے
🔸سیدہ ہند کے خاوند کی جہاد کے لیے روانگی :-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب عادت میدان احد کی طرف روانگی کے سلسلے میں اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشورہ کیا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کی ، لیکن منافقین نے اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ۔ ان منافقین کا سرغنہ عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ جو جنگ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے ، وہ جنگ احد میں مشرکین کے ساتھ پوری جرأت کے ساتھ پنجہ آزمائی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ تاکہ جنگ بدر میں شریک نہ ہو کر جس خیر و بھلائی سے محروم رہ گئے تھے ، وہ جنگ احد میں حاضری دے کر حاصل کریں ۔ ان میں سیدنا عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔
جب سیدنا عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ مسرت و شادمانی سے گھر میں داخل ہوئے تو ان کی بیوی ہند اور بیٹے گھبرا گئے ، کیونکہ انھوں نے انھیں اس سے پہلے اس طرح کی روانگی کی حالت میں کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ جب انھوں نے دیکھا کہ وہ اپنا ہتھیار تھامے یوئے ہیں ۔ تو انھوں نے پوچھا :
اے ابو معاذ ! کہاں کا ارادہ ہے ؟
انھوں نے کہا میں اپنے خیالات کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا ہوں ، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان احد کی طرف روانہ ہو رہا ہوں۔
ہند نے کہا: اے ابو معاذ! آپ جہاد کی طاقت نہیں رکھتے ، اللہ تعالٰی نے آپ کو معذور قرار دیا ہے :
🌷{ لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ } ( النور ٦١ / ٦ )
" کسی اندھے ، لنگڑے اور مریض پر کوئی حرج نہیں "
آپ اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔
عمرو بن جموح نے کہا: اے ہند! اللہ کی قسم! میں لنگڑاتا ہوا جنت میں ضرور چلوں گا ۔
عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کے تینوں بیٹے انہیں جہاد پر روانہ ہونے سے روکنے لگے ۔ وہ انہیں کہنے لگے: ابا جان! اللہ نے آپ کو معذور قرار دیا ہے ۔ لیکن جب ایمان کسی کے دل میں راسخ ہو جاتا ہے تو عجیب و غریب نوعیت کے کارنامے سر انجام پانے لگتے ہیں ۔
اس دفعہ عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اپنے اہل خانہ کا شکوہ کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: اے اللہ کے رسول! میری بیوی اور میرے بیٹے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہونے سے روک رہے ہیں ، وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ معذور ہیں ، لنگڑا کر چلتے ہیں ، لڑائی میرے بس کا روگ نہیں اور میں لنگڑاتے ہوئے جنت میں داخل ہونا چاہتا ہوں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کا یہ سچا جذبہ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ خانہ سے ارشاد فرمایا :
💕(( أَلَا تَمْنَعُوْهُ لَعَلَّ اللہُ یَرْزُقُهُ الشَّھَادَةَ ))
" اسے نہ روکو ، شاید اللہ تعالٰی اسے شہادت عطا کر دے ۔"
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور یہ ارشاد فرمایا :
" اللہ تعالٰی نے تو آپ کو معذور قرار دیا ہے ۔"
عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اپنا ہتھیار تھاما اور اپنے بیٹوں کے ہمراہ میدان جنگ کی طرف اس طرح روانہ ہوا جس طرح سایک شیر چلا جا رہا ہو اور اس کے ارد گرد اس کے بچوں نے گھیرا ڈال رکھا ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ بشانہ اور دین کے دشمنوں کے خلاف پنجہ آزمائی سے بڑھ کر بھی کوئی شرف ہو سکتا ہے ۔
سیدنا ابو قتادة رضی اللہ عنہ جنگ احد میں شریک تھے ، وہ فرماتے ہیں کہ عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، انہوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! اگر میں اللہ کی راہ میں لڑتا ہوا قتل کر دیا جاؤں تو کیا میں جنت میں سیدھا چل سکوں گا؟ کیونکہ اس کی ایک ٹانگ میں لنگڑاپن تھا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ہاں! تم جنت میں سیدھا چل سکو گے ۔"
عمرو بن جموح، ان کا بھتیجا اور ان کا غلام تینوں جنگ احد جام شہادت نوش کر گئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی لاشوں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
💕(( کَأَنِّی أنْظُرُ إِلَیْكَ تَمْشِیْ بِرِجْلِكَ ھَذِهِ صَحَیْحَةٍ فِی الجَنَّةِ ))
" گویا کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم جنت میں سیدھی چال چل رہے ہو ۔ "
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔"
🍂سیدنا عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی شہادت:-
سیدنا عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ، جنگ احد میں وہ جام شہادت نوش کر گئے ، اس کے ساتھ ہند کے بھائی ابو جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ بھی جام شہادت نوش کیا تو عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی بیٹی اپنے والد کی جدائی میں رونے لگی ۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد میں میرے والد کی لاش کو لایا گیا ، اس کا مثلہ کر دیا گیا تھا یعنی اس کے ناک کان کٹے ہوئے تھے ، میں نے ان کی لاش سے کپڑا اوپر اٹھانے کا ارادہ کیا تو میری قوم کے لوگوں نے مجھے روک دیا ، میں نے پھر ارادہ کیا کہ کپڑے کو اوپر اٹھاؤں لیکن میری قوم نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کپڑا اٹھایا یا کپڑا اوپر اٹھانے کا حکم دیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاتون کے رونے ،چیخنے اور چلانے کی آواز سنی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کی بیٹی یا ہمشیرہ ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" وہ کیوں روتی ہے ؟ جبکہ فرشتے اپنے پروں کے ساتھ اس پر سایہ کیے ہوئے تھے
سیدہ ہندہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ چند خواتین شہداء کی لاشوں میں اپنے رشتہ دار شہداء کی لاشوں کو دیکھ رہی ہیں ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے ، جنگ احد کے دن صبح سحری کے وقت ایک خاتون دو لدے ہوئے اونٹوں کے درمیان آگے بڑھیں تو میں نے اس سے کہا : کیا خبر ہے ؟ ٹھیک ہے ۔
اللہ تعالٰی نے اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کا دفاع کیا ہے اور کچھ اہل ایمان کو اللہ نے شہادت سے سرفراز کیا ہے ، یہ کہتے ہی وہ خاتون رو پڑی :
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
🌷وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا ؕ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا ﴿سورة الأحزاب ٣٣ / ۚ۲۵﴾
" اللہ تعالٰی نے کفار کا منہ پھیر دیا ، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یوں ہی پلٹ گئے اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہوگیا ، اللہ تعالٰی بڑی قوت والا اور زبردست ہے ۔"
سیدہ ہند بنت عمرو رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اور اپنے بھائی ابو جابر رضی اللہ عنہ کی لاشوں کو مدینہ منورہ میں دفن کرنے کا ارادہ کیا ۔ جب انھیں یہ بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ شہداء کو اسی جگہ دفن کر دیا جائے جس جگہ انہوں نے جام شہادت نوش کیا ہے تو انہوں نے ان کی لاشوں کو وہیں ( دفن کے لیے ) چھوڑ دیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
💕(( وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدَهِ إِنَّ مِنْکُمْ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللہِ لَأَبَرَّہُ مِنْھُمْ عَمْرَو بِنِ جَمُوحٍ رَأَیْتُهُ یَطَاءَ الْجَنَّةِ بِعِرْجَتَهِ ))
" مجھے اس ذات کی قسم ، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم اسے ایسے افراد بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم ڈال دیں تو اللہ ان کی لاج رکھ لے ، ان میں سے ایک عمرو بن جموح ہیں ۔ میں نے اسے دیکھا ہے کہ وہ جنت میں لنگڑاتا ہوا چل رہا ہے۔ "
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کر دیا جائے ، وہ دونوں دنیا میں ایک ساتھ مخلصانہ محبت رکھتے تھے ۔
صبر و شکر کی پیکر اللہ تعالٰی کے ہاں ثواب کی نیت رکھنے والی سیدہ ہند رضی اللہ عنہا اپنے عزیز ترین دو شہیدوں کو میدان احد میں دفنا کر مدینہ منورہ آ گئیں ۔
وہ ساری زندگی اللہ و رسول کی خوشنودی کے خاطر کثرت کے ساتھ روزے رکھتی رہیں اور جی بھر کر عبادت میں مصروف رہیں ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔
اللہ تعالٰی ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور اپنے رضا کی نعمت سے نوازے ۔ آمین یارب العالمین!
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد۔۔
تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments