سَیِّدَہ رَفِیْدَہ أَنْصَارِیَہ رَضِیَ اللہُ عَنْهَا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
سَیِّدَہ رَفِیْدَہ أَنْصَارِیَہ رَضِیَ اللہُ عَنْهَا
✨💕بیعت کرنے والی انصاری خاتون:
سیدہ رفیدہ انصاریہ کو رفیدہ اسلمیہ بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ انصار کی ایک عالم فاضل عورت تھیں۔ انصار کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انصار میرے جان و جگر ہیں عنقریب لوگ زیادہ ہوں گےاور یہ تعداد میں کم ہوں گے ۔ ۔ان میں سے نیک کی نیکی کو قبول کرنا اور خطاکار سے درگزر کرنا"۔
سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی اور یہ ان خوش بخت خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی اور اللہ تعالی اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے معاہدے پر کی ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
🌷یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ○
{١٢:٦٠}
اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی چوری نہ کریں گی زنا کاری نہ کریں گی اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالٰی بخشنے اور معاف کرنے والا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین پر ایک شرط یہ بھی عائد کی کہ تم اپنے خاوند کو دھوکا نہ دینا ۔ سیدہ سلمی بنت قیس رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ لگتی تھیں۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہے ۔اور وہ بنی عدی بن نجار قبیلہ کی خواتین سے تھیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین پر ایک شرط یہ بھی عائد کی کہ تم اپنے خاوند کو دھوکا نہ دینا ۔
سیدہ سلمی بنت قیس رضی اللہ عنہا رشتے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ لگتی تھیں، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو قبلوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہے ۔ وہ بنی عدی بن نجار قبیلہ کی خواتین میں سے تھیں۔
وہ فرماتی ہیں کہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ، میں نے انصار کی خواتین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر یہ شرائط عائد کیں کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں، نہ ہم چوری کریں، نہ ہم زنا کریں، نہ ہم اپنی اولاد کو قتل کریں، نہ ہم کسی پر بہتان لگائیں، نہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی معروف کام میں نافرمانی کریں اور ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا "تم اپنے خاوندوں کو دھوکا نہ دینا ۔
سیدہ سلمی کہتی ہیں کہ ہم نے بیعت کی اور واپس آ گئیں۔ میں نے ان خواتین میں سے ایک سے کہا کہ آپ واپس جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں کہ ہماری طرف سے خاوندوں کو دھوکا نہ دینے سے کیا مراد ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اگر کوئی عورت اپنے خاوند کا مال کسی دوسرے کو دے کر فخر کا اظہار کرتی ہے تو یہ اس کی طرف سے اپنے خاوند کو دھوکا دینے کے مترادف ہے"۔
✨💕تیمار داری کرنے والی مجاہدہ:
جب سیدہ رفیدہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا شرف حاصل کر لیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا تو اپنے لئے ایک نہایت عمدہ کام کا انتخاب کیا ۔انہوں نے اپنے آپ کو زخمی مجاہدین کی خدمت اور ان کی تیمارداری کے لئے وقف کر دیا ۔
ایک ایسا شخص جو زخموں سے چور ہو کر اپنے آپ کو سنبھالنے سے عاجز آچکا ہے ، یا کوئی ایسا زخمی شخص جس نے اللہ تعالی کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے اس کی راہ میں اپنا خون بہایا ہو ، اس کی تیمارداری اور معاونت سے بڑھ کر کوئی خدمت ہو سکتی ہے بلا شبہ یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔ لیکن اس کی توفیق نصیب والوں کو ہی ملتی ہے
جو شخص زخموں سے چور درد و الم کی وجہ سے کراہ رہا ہو اور وہ اپنے آپ کو موت کے قریب محسوس کر رہا ہو ، اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہمدردی کا کوئی بول سنے اور اس کے درد والم کو کم کرنے کا باعث بنے اور اس کے دل میں شفا کی امید پیدا کرے ۔
وہ پھر سے پوری ہمت اور توانائی سے سابقہ عملی زندگی کی طرف لوٹ آئے اور اپنے اہل خانہ اور رشتے داروں کی خدمت کا فریضہ سر انجام دے سکے اور اپنے دینی فرائص کو پوری دل جمعی کے ساتھ سر انجام دے سکے ۔
سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے ہر زخمی مجاہد کی دیکھ بھال اور تیمارداری میں رحم دلی اور خدمت گزاری کے حوالے سے ایک مثالی کردار ادا کیا ۔
✨💕غزوہ خندق :
سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے غزوہ خندق کے دوران انسانی خدمت کے حوالے سے قابل قدر مثالی کردار ادا کیا۔
غزوہ خندق کے موقع پر قریش نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے اور اسلامی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے کئے عرب قبائل کو بھاری تعداد میں اکٹھا کر لیا تھا ۔لیکن اللہ سبحانہ و تعالی نے مسلمانوں کے ساتھ اپنی مدد کا وعدہ کیا تھا اور اللہ تعالی نے حسب وعدہ اپنے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کی ۔
یاد رہے کہ رب العزت کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔
غزوہ خندق میں جو صورت حال پیش آئی قرآن مجید میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
{سورہ الاحزاب آیت }
🌷یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾
اے ایمان والوں! اللہ تعالٰی نے جو احسان تم پر کیا اسے یاد کرو جبکہ تمہارے مقابلے کو فوجوں پر فوجیں آئیں پھر ہم نے ان پر تیز تند آندھی اور ایسے لشکر بھیجے جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالٰی سب کچھ دیکھتا ہے ۔
🌷اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَ مِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَا ﴿۱۰﴾
جب کہ ( دشمن ) تمہارے پاس اوپر سے اور نیچے سے چڑھ آئے اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے اور تم اللہ تعالٰی کی نسبت طرح طرح کےگمان کرنے لگے ۔
🌷ہُنَالِکَ ابۡتُلِیَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ زُلۡزِلُوۡا زِلۡزَالًا شَدِیۡدًا ﴿۱۱﴾
یہیں مومن آزمائے گئے اور پوری طرح وہ جھنجھوڑ دیئے گئے
آندھی بھی تو اللہ تعالی کا ایک لشکر ہے جسے اللہ تعالی نے مشرکین قریش اور ان کے حلیف قبائل پر چلایا اور اس آندھی نے انہیں جنجھوڑ کر رکھ دیا ان کی دیگیں الٹا دیں ان کے چولہوں کی آگ بجھا دی ، ان کے خیمے اکھاڑ دیئے ، انہوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم گئے، انہیں گھیرے میں لے لیا گیا ، ان کی ہوائیاں اڑنے لگیں،انہیں کچھ بھی سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اب وہ کیا کریں ۔
انہوں نے تو یہ اندازہ لگا رکھا تھا کہ اب ہم روئے زمین کے تمام باشندوں کا مقابلہ کر سکیں گے، لیکن آسمانی لشکر کے مقابلے میں وہ ٹھس ہو گئے ۔
ایک جلیل القدر صحابی سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کی روداد کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
ایک کوفے کے نوجوان نے سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے کہا اے ابو عبداللہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور ان کی صحبت اختیار کی ؟
انہوں نے جواب دیا: ہاں، میرے بھائی کے بیٹے! ہمیں یہ شرف حاصل ہوا ۔
اس نے پوچھا کہ تم کیا کرتے تھے ؟
تمہارا طرز عمل کیسا تھا ؟
انہوں نے کہا: کہ ہم سب بڑی سر توڑ محنت کیا کرتے تھے ۔
کوفی نوجوان نے کہا: اللہ کی قسم ! اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر نہ چلنے دیتے، ہم انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اے میرے بھتیجے ! اللہ کی قسم! غزوہ خندق کے دوران میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت نماز پڑھ رہے ہیں، پھر ہماری طرف جھانکا اور فرمایا:
"آپ میں سے کون یہ خدمت سر انجام دے گا کہ وہ دشمن کے طرز عمل کامشاہدہ کرکے ہمیں اس سے آگاہ کرے-"
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کارنامہ سر انجام دینے والے شخص پر یہ شرط عائد کی وہ واپس ہمارے پاس آئے ۔یہ کارنامہ سر انجام دینے والے کو اللہ جنت میں داخل کرے گا ، لیکن ہم میں سے کوئی بھی شخص یہ خدمت سر انجام دینے کے لئے کھڑا نہ ہوا ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ادائیگی میں مشغول ہو گئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا:
"آج کون یہ کارنامہ سر انجام دے گا کہ وہ دشمن کی صفوں میں چپکے سے جائےاور ان کی حرکات و سکنات سے ہمیں آگاہ کرے ۔شرط یہ ہے کہ وہ جاسوسی کے فرائض نہایت محتاط انداز میں ادا کرتا ہوا واپس ہمارے پاس پہنچ جائے۔میں اس کے بارے اللہ تعالی سے سوال کروں گا کہ اللہ تعالی اس جنت میں میرا رفیق بنا دے
خوف و ہراس ،بھوک اور سخت سردی کی بنا پر قوم میں سے کوئی شخص بھی یہ خدمت سر انجام دینے کے لئے تیار
نہ ہوا ۔جب کوئی بھی اس خدمت کے لئے تیار نہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، اب میرے لئے سوائے کھڑا ہونے کے کوئی چارہ نہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "اے حذیفہ! تم جاؤ دشمن قوم میں چپکے سے شامل ہو جاؤ۔ کسی کوکان و کان خبر نہ ہونے پائے ۔ غور سے دیکھنا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات کیا ہیں اور وہ اس وقت کیا گل کھلا رہے ہیں۔دیکھنا ہمارے پاس پہچنے تک تمہاری طرف سے کوئی کاروائی نہ ہو ۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گیا اور چپکے سے دشمنوں کی صفوں میں چپکے سے شامل ہو گیا ،کچھ نہ پوچھیے بڑی تیز آندھی چل رہی تھی، اللہ ان کے لشکر کی ہر چیز کو تہس نہس کر رہا تھا، سالن کی ہنڈیاں لڑھک رہی تھیں، چولہوں کی آگ بکھر رہی تھی اور خیمے تتر بتر ہو رہے تھے ۔ایسے ہولناک سمے میں ابوسفیان کھڑا ہوا اور لشکر سے مخاطب ہو کر کہنے لگا :اے خاندان قریش! اب تم یہاں نہیں ٹھہر سکو گے ، دیکھو ہماری سواریاں تباہ ہو گئی ہیں۔ بنو قریظہ ہمارے مخالف ہو گئے ہیں۔ ہماری حالت ناگفتہ بہ ہے اس آندھی نے ہمارا برا حال کر دیا ہے ۔
اللہ کی قسم !ہماری دیگیں الٹ گئیں، ہمارے چولہوں کی آگ بکھر گئی اور ہمارے خیمے اکھڑ گئے ۔میرا مشورہ ہے کہ تم یہاں سے کوچ کر جاؤ ،میں بھی جا رہا ہوں۔
یہ کہا اور پھر وہ اپنے اونٹ پر سوار ہو گیا اسے چلنے کے لئے چھڑی ماری لیکن اونٹ تین دفعہ بدک کر وہیں کھڑا رہا ۔اونٹ اپنی جگہ سے نہ ہلا ۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو سفیان میرے نشانے کی زد میں تھا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا وعدہ میرے آڑے نہ آتا کہ تم نے کچھ بھی نہیں کرنا ۔ تو میں اپنے تیر سے ابو سفیان کو قتل کر دیتا
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت نماز پڑھ رہے تھے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا ایک کنارہ میری طرف پھینک دیا تاکہ میں اسے اوڑھ کر سردی سے بچ سکوں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لشکر قریش کی صورت حال سے آگاہ کیا ۔ بنو غطفان نے قریش کے ساتھ پیش آنے والی بپتا کو سن لیا ، وہ تیزی سے اپنے شہروں کو واپس چل پڑے ۔۔
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
🌷وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا ؕ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا ﴿ۚ۲۵﴾
اور اللہ تعالٰی نے کافروں کو غصے میں بھرے ہوئے ہی ( نامراد ) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا اور اس جنگ میں اللہ تعالٰی خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا اللہ تعالٰی بڑی قوتوں والا اور غالب ہے ۔
🌷وَ اَنۡزَلَ الَّذِیۡنَ ظَاہَرُوۡہُمۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ صَیَاصِیۡہِمۡ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ فَرِیۡقًا تَقۡتُلُوۡنَ وَ تَاۡسِرُوۡنَ فَرِیۡقًا ﴿ۚ۲۶﴾
اور جن اہل کتاب نے ان سے سازباز کر لی تھی انہیں ( بھی ) اللہ تعالٰی نے ان کے قلعوں سے نکال دیا اور ان کے دلوں میں ( بھی ) رعب بھر دیا کہ تم ان کے ایک گروہ کو قتل کر رہے ہو اور ایک گروہ کو قیدی بنا رہے ہو ۔
🌷وَ اَوۡرَثَکُمۡ اَرۡضَہُمۡ وَ دِیَارَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ وَ اَرۡضًا لَّمۡ تَطَئُوۡہَا ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرًا ﴿۲۷﴾٪
اور اس نے تمہیں ان کی زمینوں کا اور ان کے گھر با ر کا اور ان کے مال کا وارث کر دیا اور اس زمین کا بھی جس کو تمہارے قدموں نے روندا نہیں اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔
(٣٣: ٢٥،٢٦،٢٧)
سیدہ رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے خندق کے قریب اپنا خیمہ نصب کر لیا تھا ۔ غزوہ خندق میں ابن عرقہ نامی ایک قریشی نے سیدنا سعد بن معاذ پر تیر پھینکا، جس سے ان کے بازو کی رگ کٹ گئی ۔ وہ شدید زخمی ہو گئے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ کے لئے مسجد نبوی میں ایک خیمہ نصب کروا دیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بآسانی ان کی تیمارداری کر سکیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہو کر واپس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہتھیار اتارے اور غسل فرمایا تو جبریل علیہ السلام تشریف لائے وہ اپنے سر سے گرد جھاڑ رہے تھے۔
انہوں نے فرمایا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ نے ہتھیار اتار کر رکھ دیے ؟اللہ کی قسم ہم نے تو ابھی بھی ہتھیار نہیں اتارے جبریل علیہ السلام نے کہا اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلیے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کس کی طرف ؟ تو جبریل علیہ السلام نے اشارہ کیا کہ بنو قریظہ کی طرف ۔۔
بنو قریظہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی بنیاد پر نیچے اتر آئے ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلے کا رخ سعد بن معاذ کی طرف موڑ دیا
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا کہ بنو قریظہ کے جنگجو افراد کو قتل کر دیا جائے ،ان کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار اور ان کے مال و دولت کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:آپ نے اللہ سبحانہ و تعالی کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔؛
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ و برکاتہ نے ایک مفصل روایت علقمہ بن وقاص کے حوالے سے نقل کی ہے ؛
وہ کہتے ہیں کہ مجھے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتایا، وہ فرماتی ہیں کہ میں غزوہ خندق کے دن لوگوں کے نشانات قدم پر چلی جا رہی تھی کہ مجھے زمین کی دھمک سنائی دی ۔ میں نے غور سے دیکھا ، سعد بن معاذ اور ان کے بھائی کا بیٹا حارث بن اوس چلے جا رہے تھے ، حارث نے اپنی ڈھال اٹھائی ہوئی تھی ، میں زمین پر بیٹھ گئی، میرے پاس سے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ گزرے انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی ۔ زرہ تنگ ہونے کی وجہ سے ان کے بازو باہر دکھائی دے رہے تھے ،مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں سعد کے ہاتھوں کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے ۔ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا جسم فربہ اور لمبا تھا ۔جب وہ میرے پاس سے گزرے تو وہ یہ شعر بلند آواز پڑھتے جارہے تھے:
💕 ليست قليلا يدرك الهيجا جمل
ما احمن الموت اذا حانا الاجل
میں وہاں سے اٹھی اور ایک باغیچے میں داخل ہو گئی ، وہاں چند مسلمان بھی موجود تھے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ان میں ایک شخص ایسا بھی تھا کہ جس نے خود زرہ پہن رکھی تھی ۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا:
آپ یہاں کیسے تشریف لائیں؟
اللہ کی قسم آپ بہت دلیر ہیں لیکن صورتحال بڑی گھمبیر ہے، آپ کا اس صورتحال میں یہاں رہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ مسلسل اسی نوعیت کی باتیں کیے جا رہے تھے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کاش زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔
اتنے میں اس شخص نے اپنے چہرے سے زرہ ہٹائی تو وہ طلحہ بن عبیدہ تھے ۔
انہوں نے کہا ؛ اے عمر بڑے افسوس کی بات ہے ،آج یہاں سے فرار ہو کر اللہ تعالی کے سوا کہاں جانا ہے۔
مشرکین قریش میں سےایک ابن عرقہ نامی شخص نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو تیر مارا۔جس سے اس کے ہاتھ کی رگ کٹ گئی اور اس ناہجار نے کہا یہ ابن عرقہ کا وار ہے اس کو برداشت کرو ۔
سعد بن معاذرضی اللہ عنہ نےاللہ سبحانہ و تعالی یہ دعا کی:
💕 (الهم لا تمتنى حتى تقر عينى مت قريظه)
ترجمہ ۔۔
الہی مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک بنو قریظہ کی جانب سے میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہو جائیں
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بنو قریظہ زمانہ جاہلیت میں سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کےحلیف تھے۔ان کی دعا کے کلمات عرش الہی تک پہنچ گئےاوران کے زخموں میں قدرے آرام و سکون پیدا ہو گیا ۔
اللہ تعالی نے مشرکین پر تیز آندھی کے جھکڑ چلا دیئے اہل ایمان کو سہارا ملا۔ بے شک اللہ تعالی بڑا طاقتور اورغالب ہے ،اس آندھی سے گھبرا کر ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ کی طرف نکل گئے ۔عینیہ بن بدر اور اس کے ساتھی جان بچا کر نجد کی طرف بھاگ گئے ۔بنو قریظہ میدان جنگ سے بھاگ کر اپنے قلعوں میں بند ہو گئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ سے گھر واپس آئے اور اپنے ہتھیار اتاردیئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےحکم دیا کہ مسجد نبوی کے صحن میں چمڑے کا خیمہ نصب کر دیا جائےاور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اس میں ٹھرایا جائے ۔سیدہ رفیداسلمیہ رضی اللہ عنہا نے ان کے علاج معالجے کی ذمہ داری نبھائی ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جبریل علیہ السلا م تشریف لائے ان پر گرد و غبار پڑی ہوئی تھی ، انہوں نے آتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ،آپ نے ہتھیار اتار دیئے، اللہ تعالی کی قسم فرشتوں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے۔ آپ بنو قریظہ کی طرف جائیں اور ان سے جنگ کریں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی ہتھیار زیب تن کیے اور لوگوں کو بنو قریظہ کی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا اور منادی کرنے والے کو حکم دیا کہ یہ اعلان کر دے ،جو مسلمان بھی یہ اعلان سن رہا ہے وہ اس پر عمل کرتے ہوئے عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں جا کر ادا کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیار بند ہو کر روانہ ہوئے۔آپ کا گزر بنو غنم کے پاس سے ہوا وہ مسجد کے پڑوسی تھے۔
انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے کون گزرا تھا ۔انہوں نے کہا وحیہ کلبی گزرے تھے ۔جبریل علیہ السلام وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں نمودار ہوا کرتے تھے وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ بڑے حسین و جمیل تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کا پچپن دن تک محاصرہ کئے رکھا ۔جب محاصرہ شدت اختیار کر گیا اور بنو قریظہ کی آزمائش میں شدت پیدا ہو گئی اوربنو قریظہ کو یہ پیشکش کی:
تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اپنے قلعوں سے باہر نکل آؤ۔
بنو قریظہ نے اپنے پرانے حلیف ابو البابہ بن عبدل المنزر رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا کہا ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟
ہمیں قلعوں سے باہر آنے کی پیشکش کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی فیصلہ کریں ماننا پڑ گا ۔
اس نے کہا میرے خیال میں تمہاری گردنیں اڑا دی جائیں گی، میرے قیافے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تمہارے بارے میں یہی فیصلہ ہو گا ۔
یہ بات سن کر انہوں نے کہا کہ ہم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو قبول کر لیں گے ، اس معاہدے پر ہم اپنے قلعوں سے باہر آنے کے لئے تیار ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ٹھیک ہے بنو قریظہ کے بارے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو فیصلہ کریں گے اس ہی نافذ کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
💕(انزلوا على حكم سعد بن معاز)
اے بنو قریظہ تم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی شرط پر اپنے قلعوں سے نیچے اتر آؤ۔
بنو قریظہ یہ اعلان سن کر اپنے قلعوں سے نیچے اتر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف ان کی قوم کے چند افراد کو بھیجا کہ انہیں رفیدہ الاسلمیہ کے خیمے سے لے آئیں۔انہیں زخمی حالت میں گدھے پر سوار کرکے لایا گیا ۔
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی قوم نے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا اور کہنے لگے ابو عمرو یہ تمہارے حلیف اور بھائی ہیں ۔، انکا خیال رکھیے اور جس قدر ممکن ہو ان سے تعاون کیجئے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے نہ ان کی کسی بات کا جواب دیا اور نہ ہی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا۔
جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بنو قریظہ کے گھروں کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے اپنی قوم کی طرف دیکھا اور فرمایا: آج میرا یہ فرض بنتا ہے کہ اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق فیصلہ کروں اور اس سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کروں۔
جب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا:
💕(قومو ا إلى سيدكم فانزلوه)
تم اپنے سردار کے لئے اٹھو اور اس کو سواری سے اتارو ۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ نے کہا:
ہمارا آقا تو اللہ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا سعد کو سواری سے نیچے اتارو!
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آگے بڑھ کر بڑے عزت و احترام سے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو سواری سے نیچے اتارا۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ بنو قریظہ کے بارے میں فیصلہ سنائیے تو سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرا بن قریظہ کے بارے میں یہ فیصلہ ہے کہ ان کے جنگجو افراد کی گردنیں اڑا دی جائیں، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا جائے اور ان کے مال و دولت کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔
یہ فیصلہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
💕(لقد حكمت فيهم بحكم الله وحكم رسوله)
تم نے تو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے مطابق بنو قریظہ کے بارے میں فیصلہ صادر کیا ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
💕(يا سعد! والزى نفس محمد بيده لقد حكمت فيهم بحكم الله من فوق سبعة ارقعة)
اے سعد مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے آپ نے بنو قریظہ کے بارے وہی فیصلہ کیا جو اللہ سبحانہ و تعالی نے سات آسمان پر کیا
ارقعة یہ رقيع کی جمع ہے اور رقیع آسمان کو کہتے ہیں۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سعد بن معاذ نے یہ دعا کی:
الہی!اگر تو نے اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کافروں کے ساتھ ابھی جنگ کو باقی رکھا ہے تو مجھے اس جنگ میں حصہ لینے کے لئے باقی رکھنا اور اگر کافروں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین جنگ کو ختم کر دیا تو پھر مجھے اپنے قبضے میں لے لے ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس دعا کے بعد سعد رضی اللہ عنہ کا جو زخم مندمل ہو چکا تھا وہ پھٹ گیا حالانکہ وہ زخم بال کی مقدار میں دھبے کی صورت میں باقی رہ گیا تھا ،لیکن وہ زخم اچانک ہرا ہوا اور پھٹ گیا ۔
سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اپنے اس خیمے میں واپس چلے گئے جو ان کے لئے مسجد نبوی میں نصب کیا گیا تھا ۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی پہنچ گئے۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے !میں نے اپنے حجرے میں سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی ۔۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی تعلقات کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ ارشاد فرمایا ہے:
🌷مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚ ۖ ۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ ۟ ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٤٨ : ٢٩}
محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے ، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے
سیدہ رفیدہ رضی اللہ عنہا اپنے اس عمل کے سلسلے میں کسی سے تعریف سننے کی خواہاں تھیں اور نہ ہی ان کے دل میں یہ خواہش تھی کہ کوئی اس کا شکریہ ادا کرے ۔
انہیں اس بات کا یقین تھا کہ اللہ تعالی اس کے عمل کے اجر و ٹواب کو ضائع نہیں کرتا جو خالصتا اس کی رضا کے لئے عمل کرتا ہے ۔
سیدہ رفیدہ رضی اللہ عنہا مجاہدین کی مرہم پٹی اور ان کے علاج میں صرف اپنے دل میں یہ تمنا رکھتیں تھیں کہ مجاہدین کے زخم ٹھیک ہو جائیں اور ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جائے اور وہ درد و الم سے نجآت پا جائیں۔
بخاری شریف میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت منقول ہے کہ غزوہ خندق میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہو گئے، ان کے ہاتھ کی رگ کٹ گئی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے خیمہ نصب کروا دیا ، تاکہ آپ قریب سے ان کی تیمار داری کر سکیں ۔ مسجد میں بنو غفار نے بھی خیمہ۔نصب کر رکھا تھا ، ان کی طرف خون بہہ کر گیا تو انہوں نے کہا اے خیمے والو!تمھاری جانب سے یہ کیا ہماری طرف آرہا ہے ؟ یہ خون دراصل سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے زخم کا خون تھا جو بہتا ہوا ان کے خیمے تک جا پہنچا ، اس زخم کی تاب نہ لاتے ہوئے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ وفات پا گئے ۔
اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ، ان پر اپنا فضل و احسان کرے اور ان کو جنت الفردوس میں بہتر جگہ عطا فرمائے ۔آمین ثمہ آمین ۔۔
سیدہ رفیدہ رضی اللہ عنہا زندگی بھر یہ خدمت سر انجام دیتی رہیں ، یہاں تک کہ وہ قضائے الہی سے وفات پا گئیں ۔اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت نچھاور کرے اور انہیں اپنی خوشنودی سے نوازے ۔
آمین یا رب العالمین !
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>تمت باذن اللہ تعالی
تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments