سَیّدَہ أُمِ کجہ انصاریہ رَضِیَ اللہُ عَنْهَا
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
سَیّدَہ أُمِ کجہ انصاریہ رَضِیَ اللہُ عَنْهَا
💕✨مسلمان بیوی :
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا انصار کی ایک عالم فاضل خاتون تھیں ۔ ان کی شادی اوس بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی ، جو بنی عدی بن عمرو بن مالک قبیلے کا چشم و چراغ تھا ۔ ان کا خاندانی تعلق مدینہ منورہ میں مشہور و معروف قبیلے بنو نجار تک پہنچتا ہے ۔
اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے عقبہ ثانی میں اپنی قوم کے معززین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا شرف حاصل کیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ استقبال کرنے والوں میں بھی شامل تھے اور انہوں نے مسجد نبوی کی تعمیر میں بھی حصہ لیا ۔
ام کجہ اور ان کے خاوند اوس کے درمیان مکمل اتفاق اور ہم آہنگی پائی جاتی تھی اور دونوں اسلام کے ساتھ یکساں طور پر وابستہ رہے ۔ عورت اپنے خاوند کی مطیع ہوتی ہے ، اس کے حقوق کا خیال رکھتی ہے ، خاوند کے مال اور اپنی ذات کی حفاظت کرتی ہے ۔
خاوند اپنی بیوی کے حقوق کو پہچانتا ہے اور اس کی خوب قدر کرتا ہے ۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے بہترین رفیق حیات ہوتے ہیں ۔ ایک دوسرے کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں اور مل کر ایک مضبوط گھرانے کی بنیاد رکھتے ہیں ۔
دونوں اس گھرانے کو اسلامی روایات کا گہوارہ اور نور ایمان کا قلعہ بناتے ہیں ۔
سیدہ ام کجہ خواتین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں شریک ہوا کرتی تھیں ۔ تاکہ وہ پردے میں رہ کر احادیث رسول سے بہرہ ور ہوں ۔ سیدنا اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں با قاعدگی سے شریک ہوا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے ۔
زمانہ جاہلیت میں ان دونوں کے یہاں ایک بچی نے جنم لیا ۔ اوس نے ام کجہ کے ساتھ مکمل اتفاق کرتے ہوئے اس بچی کے پرورش کا سامان مہیا کیا ۔ اس بچی کو زندہ در گور کرنے کا قصد اور ارادہ نہ کیا ، حالانکہ اس وقت ان کی قوم میں یہ رواج تھا جو بچی بھی پیدا ہوتی اسے زندہ در گور کر دیا جاتا تھا ۔
ام کجہ کا یہ معمول تھا جب وہ نماز ، اپنے خاوند کی خدمت کے فرائض اور اور اپنی ننھی سی بچی کی دیکھ بھال سے فارغ ہوتیں تو چمڑے کے ان ٹکڑوں اور کھجور کی کھال کی طرف متوجہ ہوتیں جس پر ان کا خاوند قرآنی آیات لکھا کرتا تھا ، تاکہ وہ حسب استطاعت ان قرآنی آیات کو زبانی یاد کر سکیں
♦️حق کا باطل پر غلبہ :
جنگ بدر تاریخ اسلامی کی ایک اہم جنگ تھی ۔ اس جنگ میں مشرکین کے بڑے بڑے سرداروں کا خاتمہ ہو گیا ، ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور اللہ تعالٰی کی مدد سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ، اگر چہ وہ دشمنوں کی کثیر تعداد کے مقابلے میں بہت تھوڑے تھے ۔
میدان جنگ سے سیدنا اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ نے دین کے دشمنوں کے خلاف ڈٹ کر جہاد کیا ۔
---اس دوران میں ام کجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی دوسری بچی کو جنم دیا---
جنگ بدر کفر اور ایمان کے درمیان ایک اہم جنگ تھی ۔ اس میں اللہ کی ذات اور انسانیت کے دشمنوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی ۔
اللہ تعالٰی اپنے نور کو پورا کرنا چاہتا تھا ، اگرچہ کافر اس کو ناپسند ہی کیوں نہ کرتے ہوں ۔ سرکش سرنگوں ہو گئے ۔
جن لوگوں نے اللہ کی مخلوق کے ساتھ مکر و فریب کیا وہ زمین برد ہوگئے ، ان کے پیروکاروں پر طرح طرح کے عذاب نازل ہوئے ۔
ابو جہل ، عتبہ ، شیبہ ، ولید بن عتبہ ، امیہ بن خلف ، عقبہ بن معیط اور تمام احمق اور گمراہ لوگ میدان بدر میں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیے گئے ۔ پھر ان سب کو بدر کے قلیب نامی کنویں میں پھینک دیا گیا ۔
اللہ تعالٰی نے حسب وعدہ اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔
لشکر اسلام کی کامیابی کی خبریں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئیں ۔ اہل مدینہ کامیابی حاصل کرنے والے لشکر اسلام کےاستقبال کے لیے والہانہ انداز میں اپنے گھر سے باہر نکلے ، استقبال کے لئے عورتیں بھی اپنے گھروں سے باہر آئیں ، کوئی عورت اپنے باپ کو دیکھنے کا دلی ارمان رکھتی تھی اور کوئی اپنے بھائی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی اور کوئی اپنے بیٹے کی واپسی کو بچشم خود دیکھنے کا ارادہ رکھتی تھی
♦️بہادر مجاہد کی واپسی:
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ کی واپسی کی دلی رغبت رکھتی تھیں ، تاکہ وہ اپنی خوبصورت بچی کو دیکھ لیں کہ جسے اس نے اس کی خاوند کی غیر حاضری میں جنم دیا ہے ۔
کیا بھلا ایسا ہی ہوگا کہ وہ صحیح سالم واپس لوٹ آئیں گے؟ صورت حال یہ تھی کہ فتح کے بعد میدان جنگ کے بہادر بعض جتھوں کی صورت میں اور بعض اکیلے اکیلے مدینہ منورہ پہنچ رہے تھے ۔
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا واپس آنے والوں کو غور سے دیکھ رہیں تھیں ۔ لیکن اسے اپنا بہادر شہسوار دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ اسے دھڑکا لگا ہوا تھا ، وسوسے پے در پے آرہے تھے ، اسے یہ اندیشہ لاحق تھا کہ اگر اس کی دو بچیوں کا باپ زندگی کی بازی ہار گیا تو ان بچیوں کا مستقبل کیا ہوگا ۔
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا کے قلب و ذہن پر افکار و اوہام کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے ، پھر وہ بادل جلد ہی موسم گرما میں بکھر جانے والے بادلوں کی طرح چھٹ گئے ۔ وہ کیا دیکھتی ہے کہ اس کا خاوند اوس بن ثابت رضی اللہ خراماں خراماں اس کی جانب قدم بڑا رہا ہے ۔ جوانمرد اور بہادر اپنی دونوں بچیوں اور بیوی کو شفقت سے شاد کام کرنے واپس لوٹ آیا ہے ۔
سیدنا اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ کی دلی تمنا یہ تھی کہ بیٹا ہو ، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے ، یہ تو اللہ کی عطا ہے ۔ انسان کو چائیے کہ اللہ تعالٰی جو بھی عطا کردے اسے دل کی خوشی کے ساتھ قبول کر لے ۔ وہ غالب عطا کرنے والا ہے ۔ جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے بارے میں پوچھا نہیں جا سکتا ہے ، یہ تو لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔
سیدنا اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے خاندان سے آ ملے ۔ انہوں نے اپنی دونوں بچیوں کو سینے سے لگایا اور ان کے منہ چومے ۔ سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا اللہ کے حضور دعائیں کرنے اور مسلمانوں اور اپنے خاوند کے فتح یاب ہو کر صحیح سالم لوٹنے پر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنے لگیں ۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد سیدنا اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنی بیوی ام کجہ رضی اللہ عنہا کو جنگی مشاہدات سے آگاہ کرنے اور میدان جنگ میں جو اس کے ساتھیوں نے کارنامے سر انجام دئے تھے ان سے روشناس کرانے اور صنادین قریش اور کافر سرداروں کے برے انجام کی کہانی سنانے لگا کہ کہ ان کو کس طرح اہل ایمان کے ہاتھوں ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا
♦️غزوہ احد :
قریش نے جب اپنا ناقابل تلافی نقصان اور اندوہ ناک انجام دیکھا تو ان کی ہوائیاں اڑنے لگیں ۔ وہ اسلام کے خلاف عرب قبائل کو جمع کرنے لگے ، تاکہ وہ بھی کہیں اس مصیبت سے دوچار نہ ہوں جس کا ہم مزا چکھ چکے ہیں ۔ انہوں نے تین ہزار جنگ جو اکھٹا کر لیے ، ان میں دو سو تجربہ کار شہسوار بھی تھے ، جن کی قیادت خالد بن ولید کے سپرد تھی ۔ جب یہ خبر مدینہ منورہ میں مسلمانوں تک پہنچی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ہلچل مچ گئی ۔
" سنن دارمی " میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں ایک مضبوط زرہ میں ہوں اور میرے سامنے ایک گائے کو ذبح کیا جارہا ہے ۔ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ زرہ سے مراد مدینہ منورہ ہے یعنی کہ میں مدینہ منورہ میں ہوں اور گائے سے مراد لوگوں کی جماعت ہے یعنی دشمن جماعت کے میرے روبرو گلے کاٹے جا رہے ہیں ۔
اللہ خیر کرے! یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا دشمن مدینہ منورہ میں ہم پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کئے ہوئے ہے ، اگر ہم مدینہ منورہ میں مقیم رہیں اور دشمن ہم پر حملہ کر دے تو ہم اس سے لڑیں گے ۔ "
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! زمانہ جاہلیت میں تو کسی کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ ہمارے گھروں پر حملہ آور ہوں ، کیا اب جب کہ ہم دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے ہیں تو ہمیں یہ منظر دیکھنا پڑے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: " تمہاری مرضی ، تم جس طرح بھی تم دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو تمہیں اختیار ہے ۔"
انصار نے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے کہا : ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو مسترد کیا ہے ، یہ اچھا نہیں ہوا ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے : اے اللہ کے رسول! ہم ویسے ہی کریں گے جو آپ کا حکم ہوگا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اب دشمن سے مقابلہ ہوگا ، نبی جب اپنا جنگی لباس زیب تن کر لیتا ہے تو دشمن سے مقابلہ کئے بغیر اس کو نہیں اتارتا ۔"
رسول صلی اللہ علیہ وسلم میدان احد کی طرف ایک ہزار جنگ جو لے کر روانہ ہوئے ، لیکن رئیس المنافقين عبد اللہ بن ابی تین سو منافقین کو راستے سے ہی واپس لے آیا ۔ یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات سو جنگ جو رہ گئے
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد کی طرف روانہ ہوئے تو کچھ لوگ راستے سے واپس پلٹ گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے والے دو حصوں میں بٹ گئے ، ایک گروہ کا نظریہ یہ تھا کہ ہم دشمن سے لڑیں گے ، دوسرے گروہ کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ ہم دشمن کے ساتھ نہیں لڑیں گے ۔
اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی :
🌷فَمَا لَکُمۡ فِی الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِئَتَیۡنِ وَ اللّٰہُ اَرۡکَسَہُمۡ بِمَا کَسَبُوۡا ؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَہۡدُوۡا مَنۡ اَضَلَّ اللّٰہُ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا ﴿۸۸﴾
🌷وَدُّوۡا لَوۡ تَکۡفُرُوۡنَ کَمَا کَفَرُوۡا فَتَکُوۡنُوۡنَ سَوَآءً فَلَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ اَوۡلِیَآءَ حَتّٰی یُہَاجِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَخُذُوۡہُمۡ وَ اقۡتُلُوۡہُمۡ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ ۪ وَ لَا تَتَّخِذُوۡا مِنۡہُمۡ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا ﴿ۙ۸۹﴾
🌷اِلَّا الَّذِیۡنَ یَصِلُوۡنَ اِلٰی قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ اَوۡ جَآءُوۡکُمۡ حَصِرَتۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَنۡ یُّقَاتِلُوۡکُمۡ اَوۡ یُقَاتِلُوۡا قَوۡمَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمۡ عَلَیۡکُمۡ فَلَقٰتَلُوۡکُمۡ ۚ فَاِنِ اعۡتَزَلُوۡکُمۡ فَلَمۡ یُقَاتِلُوۡکُمۡ وَ اَلۡقَوۡا اِلَیۡکُمُ السَّلَمَ ۙ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ سَبِیۡلًا ﴿۹۰﴾
( النساء ٤ / ٩٠ -٨٨ )
" پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں تم دو گروہ ہو گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث ان ( کی عقل اور سوچ ) کو اوندھا کر دیا ہے ۔ کیا تم اس شخص کو راہِ راست پر لانا چاہتے ہو جسے اللہ نے گمراہ ٹھہرا دیا ہے ، اور ( اے مخاطب! ) جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے ہرگز کوئی راہِ ( ہدایت ) نہیں پاسکتا . وہ ( منافق تو ) یہ تمنا کرتے ہیں کہ تم بھی کفر کروجیسے انہوں نے کفر کیا تاکہ تم سب برابر ہو جاؤ ۔ سو تم ان میں سے ( کسی کو ) دوست نہ بناؤ یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت ( کر کے اپنا ایمان اور اخلاص ثابت ) کریں ، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو انہیں پکڑ لو اور جہاں بھی پاؤ انہیں قتل کر ڈالو اور ان میں سے ( کسی کو ) دوست نہ بناؤ اور نہ مددگار . مگر ان لوگوں کو ( قتل نہ کرو ) جو ایسی قوم سے جا ملے ہوں کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدۂ ( امان ہوچکا ) ہو یا وہ ( حوصلہ ہار کر ) تمہارے پاس اس حال میں آجائیں کہ ان کے سینے ( اس بات سے ) تنگ آچکے ہوں کہ وہ تم سے لڑیں یا اپنی قوم سے لڑیں ، اور اگر اللہ چاہتا تو ( ان کے دلوں کو ہمت دیتے ہوئے ) یقینا انہیں تم پر غالب کر دیتا تو وہ تم سے ضرور لڑتے ، پس اگر وہ تم سے کنارہ کشی کر لیں اور تمہارے ساتھ جنگ نہ کریں اور تمہاری طرف صلح ( کا پیغام ) بھیجیں تو اللہ نے تمہارے لئے ( بھی صلح جوئی کی صورت میں ) ان پر ( دست درازی کی ) کوئی راہ نہیں بنائی ."
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
🌺( إِنَّھَا طِیْبَةٌ تَنْفِی الذُّنُوْبَ کَمَا تَنْفِی النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ )
" یہ مدینہ گناہوں اس طرح ملیا میٹ کر دیتا ہے جس طرح آگ چاندی کے میل کچیل کو ختم کر دیتی ہے
اس مرتبہ سیدنا اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنی بیوی سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا کو میدان احد کی طرف جانے سے نہ روک سکے ۔ اس کی دونوں بیٹیوں کو اس کی والدہ کے پاس چھوڑ دیا ۔
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا اگرچہ لڑائی میں مہارت نہیں رکھتی تھیں ، البتہ وہ زخمیوں کے علاج و معالجے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں ، اسی طرح وہ پیاسے مجاہدین کو پانی پلانے کی خدمت بھی سر انجام دے سکتی تھیں ۔
سیدہ ام کجہ جہاد کے جانب دیوانہ وار آگے بڑھیں ، وہ اپنے خاوند سیدنا اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شانہ بشانہ جہاد میں بھر پور حصہ لینے کی اپنی دلی آرزو پورا کرنا چاہتی تھیں ۔
جب منافقین اپنے قائد عبد اللہ بن ابی کی سازش کا شکار ہوکر لشکر اسلام کھسک گئے تو جابر بن عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ سے ملے ۔ آپ نے ان سے کہا میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتے ہوئے کہتا ہوں کہ تم اپنی قوم اور اپنے نبی کی رسوائی کا باعث نہ بنو ، کچھ تو ہوش کے ناخن کو ، تمہارا یہ کردار مناسب نہیں ہے ۔
وہ کہنے لگے کہ اگر ہمیں پتا ہوتا تم ضرور لڑو گے تو ہم تمہیں کبھی نہ چھوڑتے ، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں لڑائی وڑائی نہیں ہوگی ۔
جب سیدنا جابر بن عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ انہیں اپنے ارادے سے باز رکھنے سے مایوس ہو گئے تو آپ نے تنگ آکر ان سے کہا : دفع ہو جاؤ، اللہ تم پر لعنت بھیجے! تم اللہ اور دین کے دشمن ہو ، تمہارا ستیاناس ہو جائے ، تمہارا کچھ نہ رہے ، اللہ اپنے رسول اور اس کی صدق دل سے پیروی کرنے والے اہل ایمان کو تم سے بے نیاز کر دے ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے منافقین کے رسوا کن اور مکارانہ کردار کو کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے :
🌷وَ لِیَعۡلَمَ الَّذِیۡنَ نَافَقُوۡا ۚ ۖ وَ قِیۡلَ لَہُمۡ تَعَالَوۡا قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَوِ ادۡفَعُوۡا ؕ قَالُوۡا لَوۡ نَعۡلَمُ قِتَالًا لَّا تَّبَعۡنٰکُمۡ ؕ ہُمۡ لِلۡکُفۡرِ یَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡہُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یَکۡتُمُوۡنَ ﴿۱۶۷﴾ۚ
🌷اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ وَ قَعَدُوۡا لَوۡ اَطَاعُوۡنَا مَا قُتِلُوۡا ؕ قُلۡ فَادۡرَءُوۡا عَنۡ اَنۡفُسِکُمُ الۡمَوۡتَ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۶۸﴾
( آل عمران: ٣ ١٦٧ / ١٦٨ )
اور ایسے لوگوں کی بھی پہچان کرا دے جو منافق ہیں ، اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا ( دشمن کے حملے کا ) دفاع کرو ، تو کہنے لگے: اگر ہم جانتے کہ ( واقعۃً کسی ڈھب کی ) لڑائی ہوگی ( یا ہم اسے اللہ کی راہ میں جنگ جانتے ) تو ضرور تمہاری پیروی کرتے ، اس دن وہ ( ظاہری ) ایمان کی نسبت کھلے کفر سے زیادہ قریب تھے ، وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں ، اور اللہ ( ان باتوں ) کو خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں ۔ ( یہ ) وہی لوگ ہیں جنہوں نے باوجود اس کے کہ خود ( گھروں میں ) بیٹھے رہے اپنے بھائیوں کی نسبت کہا کہ اگر وہ ہمارا کہا مانتے تو نہ مارے جاتے ، فرما دیں: تم اپنے آپ کو موت سے بچا لینا اگر تم سچے ہو
باوجود یہ کہ جنگ احد میں مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی اور ان کے مقابلے میں مشرکین کا لشکر تین ہزار افراد پر مشتمل تھا ، پھر بھی لڑائی کے شروع میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا ، لیکن مسلمان تیر اندازوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ دیا ۔
خالد بن ولید نے موقع کو غنیمت جان کر دو سو شہسواروں کی قیادت کرتے ہوئے پیچھے سے لشکر اسلام پر حملہ کر دیا اور لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے ۔ تیر اندازوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کی جس کی پاداش میں لشکر اسلام کو اندوہ ناک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ۔
♦️✨سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا کے خاوند کی شہادت :
بہت سے مجاہدین جام شہادت نوش کر گئے ۔ شہادت پانے والوں میں سیدنا حمزہ بن عبد المطلب ، سیدنا سعد بن ربیع ، عبد اللہ بن عمرو بن حرام ، سیدنا حنظلہ غسیل الملائكة ، سیدنا عمرو بن جموح اور سیدنا انس بن نضر رضی اللہ عنھم جیسی عظیم ہستیاں تھیں ۔
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا نے لڑائی کے شروع میں اپنے خاوند اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ مشرکین کے مقابلے میں بڑی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں ۔
وہ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کے ہجوم میں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ، اس کے بعد اسے دیکھائی نہ دیا ۔
جب لڑائی کی تھرتھراہٹ ختم ہوئی تو انصار کی خواتین شہداء کی لاشوں کو دیکھنے لگیں ، سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا کی نگاہ اپنے شہسوار خاوند کی لاش پر پڑی اس کا جسم خون سے لت پت تھا ۔
وہ لاش کو دیکھ کر " انا للہ و انا الیہ راجعون " کہنے لگیں اور استغفار کرنے لگیں ۔ ان کے دل میں بیک وقت حزن و ملال اور مسرت و شادمانی کی کشمکش ہونے لگی ۔ حزن و ملال تو اپنی دو بیٹیوں کی وجہ سے تھا کہ ان کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا لیکن خوشی اس بات کی تھی کہ اس کا خاوند شہادت کے اعلی اور ارفع درجے پر فائز ہو گیا ۔
♦️✨سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا کے سبب سے قرآنی آیات نازل ہوتی ہے :
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا اپنے عظیم المرتبت خاوند کے شہید ہو جانے کی بناء پر اس کے جدائی کے غم میں مبتلا تھیں ۔ اوپر سے ان کے خاوند اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ کے چچا کا بیٹا آدھمکا ، اس نے سیدنا اوس کے سارے مال پر قبضہ کر لیا ۔ سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا اور اس کی دونوں بیٹیوں کے لیے کوئی چیز نہ چھوڑی ، اس طرح ان کی معاشی زندگی میں بحران پیدا ہو گیا ۔ اس نے زمانہ جاہلیت کا طور طریقہ اپناتے ہوئے سارا مال ہڑپ کر لیا ۔
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کرے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس کے چچا زاد بھائی کو بلایا اور اس سے مال کے بارے میں پوچھا ۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول اس کا کوئی بیٹا نہیں جو گھوڑے پر سوار ہو ، جو خاندان کا بوجھ اٹھائے اور دشمن سے لڑے ، زمانہ جاہلیت کے نظام کے مطابق جب کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس کے مال میں سے عورت کو اور چھوٹے بچوں کو کچھ نہیں دیا جاتا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جاؤ میں انتظار کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ان عورتوں کے بارے میں کیا حکم نازل فرماتا ہے ۔"
سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا اپنی بیٹی کے ساتھ وہیں انتظار کرنے لگیں کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی کیا حکم نازل فرماتے ہیں ۔ اسے یہ دلی اطمینان تھا کہ اللہ تعالٰی عدل و انصاف پر مبنی حکم نازل فرمائے گا ، کیونکہ عدل و انصاف اس کے اسمائے حسنی میں سے ہے ۔
اس موقع پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل کیں : ارشاد باری تعالٰی ہے:
🌷لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا ﴿۷﴾
🌷 وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ﴿۸﴾
🌷 وَ لۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿۹﴾
🌷 اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ؕ وَ سَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا ﴿۱۰﴾
🌷یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۱﴾
( النساء:٤ / ٧ - ١١ )
" مردوں کے لئے اس ( مال ) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے ( بھی ) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے ۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ ( اللہ کا ) مقرر کردہ حصہ ہے . اور اگر تقسیمِ ( وراثت ) کے موقع پر ( غیر وارث ) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو . اور ( یتیموں سے معاملہ کرنے والے ) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو ( مرتے وقت ) ان بچوں کے حال پر ( کتنے ) خوفزدہ ( اور فکر مند ) ہوتے ، سو انہیں ( یتیموں کے بارے میں ) اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور ( ان سے ) سیدھی بات کہنی چاہئے . بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں ، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے . اللہ تمہیں تمہاری اولاد ( کی وراثت ) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے ، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں ( دو یا ) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے ، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے ، اور مُورِث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ ( ملے گا ) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو ، پھر اگر اس میت ( مُورِث ) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے ( اور باقی سب باپ کا حصہ ہے ) ، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے ( یہ تقسیم ) اس وصیت ( کے پورا کرنے ) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض ( کی ادائیگی ) کے بعد ( ہو گی ) ، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے ، یہ ( تقسیم ) اللہ کی طرف سے فریضہ ( یعنی مقرر ) ہے ، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے .
یہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا ، اس کی دونوں بیٹیوں اور ان کے باپ کے چچا زاد بھائی کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ترکے میں سے اس کی بیٹیوں کو دو ثلث دیں ، ان کی والدہ کو مال کا آٹھواں حصہ دیں ، جو مال باقی بچے وہ تیرا ہے ۔
آسمان سے عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ نازل ہونے کے بعد بھی بات کرنے کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ ہر گز نہیں!
اللہ سبحانہ و تعالٰی نے سیدہ ام کجہ رضی اللہ عنہا پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور انہیں اپنی خوشنودی سے نوازے ۔آمین یارب العالمین!
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============> تمت باذن اللہ تعالی
تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments