سَیِّدَہ عَاتِکَہ بِنْتِ زَیْد رَضِیَ اللہُ عَنْهَا

 سَیِّدَہ عَاتِکَہ بِنْتِ زَیْد رَضِیَ اللہُ عَنْهَا 






بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


 سَیِّدَہ عَاتِکَہ بِنْتِ زَیْد رَضِیَ اللہُ عَنْهَا





♦️✨خاندانی پس منظر :



   نام عاتکہ ، والد کا نام زید بن عمرو بن نفیل اور والدہ کا نام أُمِّ کریز بنت حضرمی تھا ۔ ان کے بھائی سعید بن زید رضی اللہ عنہ تھے ، جو ان دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک تھے جنہیں زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی بشارت ملی اور سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ اس کے باپ کے چچا زاد بھائی تھے ۔



   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کی شادی سب سے پہلے سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنھما کے ساتھ ہوئی ، ان کی شہادت کے بعد سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کی شادی سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی ، جب وہ شہید ہو گئے تو سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں ۔ 



   ان کے بعد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں نکاح کا پیغام دیا جو انہوں نے قبول نہ کیا ۔ پھر ان کی شادی سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنھما سے ہوئی ۔ 



♦️✨مہاجرہ شاعرہ :



   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نہایت حسین و جمیل اور خوش اخلاق تھیں ۔ انہوں نے مکہ معظمہ میں اسلام قبول کیا اور دیگر مسلمان خواتین کے ساتھ بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا ۔ 



   جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تو سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی سعادت حاصل کی ، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے ہوئے ہدایت الہی کے چشمے سے سیراب ہو سکیں ۔ 



   سیدہ عاتکہ بڑی فصیح و بلیغ شاعرہ خاتون تھیں ، بلکہ انہیں عرب شعراء میں بڑا بلند مقام حاصل تھا ۔ 


   مرثیہ کہنے میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی ، ان کی ہہ خوبی اس وقت آشکار ہوئی جب انہوں نے یکے بعد دیگر اپنے فوت ہونے والے خاوندوں کے بارے میں فصاحت و بلاغت کے شاہکار مرثیے کہے ۔ 



   علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ بڑی حسین و جمیل اور عبادت گزار خاتون تھیں


عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما کی ورافتگی:


   سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما نے جب انہیں دیکھا تو ان سے نکاح کا ارادہ فرمایا اور ان کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔ جب شادی کے بعد سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما کے گھر آئیں تو وہ اکثر اوقات گھر ہی رہتے۔


 غزاوات میں حاضری بھی قدرے کم ہوگئی ۔ نماز کے اوقات میں حاضری کی بھی پہلے جیسے تیزی نہ رہی ، اس صورتحال کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بڑی شدت سے محسوس کیا ۔ 


   جب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنے بیٹے کے بارے میں یہ پتہ چلا کہ ان کا بیٹا عبد اللہ اپنی بیوی عاتکہ رضی اللہ عنہا کی محبت کی وجہ سے تساہل کا شکار ہے تو انہیں دینی لحاظ سے خطرہ محسوس ہوا ، انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ان دونوں میں جدائی کرا دی جائے ۔ 


   آپ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر مکمل طور پر اپنے دین کی طرف لوٹ آئے اور پہلے کی طرح غزوات میں دلچسپی کا مظاہرہ کرے ۔ 


   سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما کے لیے یہ بڑا ہی مشکل مرحلہ تھا ۔ ایک طرف چہیتی بیوی اور دوسری طرف عظیم المرتبت باپ کا حکم ۔ باپ کا احترام انہیں مجبور کر رہا تھا کہ ان کی پیروی اختیار کی جائے اور ان کے حکم کو بیوی کی محبت پر ترجیح دی جائے ۔ 


   لہٰذا انہوں نے اپنے معزز باپ کی دلی رغبت کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی چہیتی بیوی کع بادل ناخواستہ طلاق دے دی ۔ طلاق کے بعد دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ۔ لیکن سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے سینے سے محبت کی آگ بجھ نہ سکی ۔ آگ کا شعلہ روز بروز زیادہ ہی بڑھکتا رہا ۔


ایک دن انہوں نے اپنے دل کی کیفیت کو ان اشعار میں بیان کیا :


یقولون طلقها و خیم مکانھا 

مقیما تمنی النفس أحلام نائم


و إن فراقی اھل بیت جمیعھم

علی کرہ مني لإحدی العظائم


" لوگ کہتے ہیں کہ تو اسے طلاق دے دے اور خود اس کی جگہ خواب دیکھنے والے کی طرح سہارا دیتا ہوں ۔ ایک عظمت والی خاتون کی خاطر گھر والوں سے جدائی مجھے ناگوار گزرتی ہے


   ایک دفعہ کا واقعہ ہے جب رات کی تاریخی چھا گئی تو عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما اپنی چہیتی بیوی کی جدائی کے غم میں ڈوبے ہوئے درد بھرے انداز میں یہ اشاعر کہنے لگے :


أعاتك لا أنساك ما ذر شارق 

و ما ناح قمری الحمام المطوق


أعاتك قلبی کل یوم و لیلة

إلیك بما تخفی النفوس معلق


و لم أری مثلی طلق الیوم مثلھا

و لا مثلھا فی غیر جرم تطلق


لھا خلق جزل و رأي و منصب

و خلق سوی فی الحیاء و مصدق


" اے عاتکہ جب تک باد سبا چلتی ہے اور گلے میں پڑی گانی ( ہار ) والی فاختہ نوحہ کناں ہے ، میں تجھے نہیں بھول سکتا ۔ اے عاتکہ! جب تک جب تک مسافروں کے قافلے کوچ کا ارادہ رکھتے ہوں اور آسمان پر ستارے روشن ہوں ، میں تجھے نہیں بھول سکتا ۔ اے عاتکہ! میرا دل ہر دن ہر رات تیری طرف معلق رہتا ہے ۔ میں نے آج تک اپنے جیسا کوئی نہیں دیکھا ، جس نے اس جیسی کو طلاق دی ہو اور نہ اسی جیسے بغیر جرم کے طلاق دی گئی ہو ۔ اس کی اچھی عادت اور عمدہ رائے اور اچھی سیرت تھی ۔ وہ سچ بولنے والی تھی ۔"


   رات کے سناٹے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تہجد ادا کرنے کے لیے گھر کی چھت پر چڑھے ۔ جب انہوں نے اپنے بیٹے عبد اللہ کی زبان سے یہ اشعار سنے تو ان کے دل میں رقت پیدا ہو گئی ۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو پیار بھرے انداز میں دیکھا اور اسے اپنی بیوی سے رجوع کرنے کی اجازت دے دی ۔ جب عبد اللہ نے اپنے عظیم باپ کی بات سنی تو اسی وقت بآواز بلند پکار کر کہا : ابا جان! گواہ رہنا میں نے رجوع کر لیا ہے ۔


   انہوں نے انتہائی خوشی سے اپنے غلام ایمن کو آواز دے کر کہا : جاؤ تم میری طرف سے آزاد ہو ۔ ہھر وہ بھر پور مسرت اور شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بیوی عاتکہ رضی اللہ عنہا کو رجوع کی بشارت دینے کے لیے روانہ ہوئے اور اس موقع پر یہ اشعار کہے :


أعاتك قد طلقت فی ریبة 

و رجعت للأمر الذی ھو کائن


کذالك أمر اللہ غاد و رائح

علی الناس فیه ألفة و تباین


و ما زال قلبی للتفرق طائرا

و قلبی لما قد قرب اللہ ساکن


لیھنك أنی لا أری فیه سخطة

و أنك قد تمت علیك المحاسن


و أنك ممن زین اللہ وجھه

و لیس لوجه زانه اللہ شائن


" اے عاتکہ! تو طلاق دی گئی شک کی بنیاد پر اور تجھ سے رجوع کیا گیا ایک ایسے کام کے لیے جو لوگوں پر واقع ہونے والا ہے ۔ اس میں پیار بھی ہے اور جدائی بھی ۔ میرا دل جدائی میں ہمیشہ اڑتا ہے اور میرا دل جو اللہ نے قریب کیا ہے ٹھہر گیا ہے ۔ تیری نرم گوئی کی وجہ سے ۔ میں تجھ میں ناراضی کے آثار نہیں دیکھ پاتا ۔ تجھ پر حسن و جمال کا پرتو ہے ۔ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کے معاملات اللہ نے سلجھا دیئے اور جن کو اللہ نے آراستہ و مزین کر دیا ۔ انہیں کوئی ذلیل کرنے والا نہیں ہے ۔"


   سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے ساتھ شدید قلبی تعلق کی بناء ایک باغ ان کو اس شرط پر تحفے میں دیا کہ وہ اس کی وفات کے بعد کسی شخص سے شادی نہیں کرے گی ۔ دونوں میاں بیوی نے بڑے ہی خوشگوار انداز میں زندگی بسر کی اور دونوں نے بڑی سعادت مندی سے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو مسرت انداز میں گزارا



🍃پہلے خاوند کی شہادت:



   لیکن کسی کو بھی زندگی ہمیشہ کے لیے نہیں ملتی ، جو اس دنیا میں آیا ہے اس کا جانے کا ایک وقت مقرر ہے ، اس میں ایک لمحے کے لیے تأخیر ہو سکتی ہے اور نہ ہی تقدیم ۔


کیا خوب کسی پنجابی شاعر نے کہا ہے :


ایتھے بیٹھ کسی تئیں او رہنا 

        اے دنیا کوئی دن دی


   سیدنا عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ طائف کے لیے روانہ ہوئے ، دوران جنگ میں انہیں ایک تیر لگا ، جس سے وہ شہید ہو گئے ، اس طرح وہ خوش قسمت شہداء کے زمرے میں شامل ہوگئے ۔ جب ان کی وفات کی خبر سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کو پہنچی تو وہ جدائی کے غم میں لمبی آہیں بھر کر روئیں اور اپنے خاوند کی یاد میں یہ اشعار کہے : 


رزئت بخیر الناس بعد نبیھم

و بعد أبی بکر و ما کان قصرا


فآلیت لا تنفك عینی حزینة

علیك و لا ینفك جلدی أغبرا


فلله عینا من رأى مثله فتی

کریما و أحمی فی الھیاج و اصبرا


إذا شرعت فیه الأسنة خاضھا

إلی الموت حتی یترك الرمح أحمرا


" مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے بہترین انسان کی جدائی کا صدمہ پہنچا ہے جو کسی طرح بھی کم نہ تھے ۔ میں نے قسم کھا لی ہے کہ میری آنکھوں سے غم کے آنسو ختم نہ ہوں گے اور میرا جسم گرد آلود ہی رہے گا ۔ جب تک درختوں کے جھنڈ میں فاختہ گاتی رہے گی اور جب تک روشن صبح رات کو دکھیلتی رہے گی ۔ میری آہ زاری جاری رہے گی ۔ اللہ کی قسم! کوئی آنکھ ایسی نہیں جس نے اس جیسا کوئی جوان دیکھا ہو ۔ جب جنگ میں نیزے حرکت میں آتے ہیں تو یہ موت کی وادی میں گھس جاتا ہے ، حتی کہ نیزے کو سرخ حالت میں چھوڑتا ہے ۔"


🍃✨سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ سے شادی :


   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا عدت کے دوران میں مسلسل روتی رہیں ۔ جب انہوں نے عدت ہوری کر لی تو سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا ۔ 


   انہوں نے سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما نے انہیں باغ اس شرط پر دیا تھا کہ میں اس کے بعد کسی سے شادی نہ کروں ۔ سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم کسی سے فتوی لے لو ، جس چیز کو اللہ تعالٰی نے تیرے لیے حلال کیا ہے تم اسے اپنے لیے حرام کر رہی ہو ۔ 


   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مسئلہ دریافت کیا ، انہوں نے فرمایا کہ تم باغ عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما کے خاندان کو واپس کر دو اور پھر جس سے چاہو شادی کر لو ۔ انہوں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دیے ہوئے فتوے پر عمل کیا اور سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں اور ان کے پہلو میں زندگی بسر کرنے اور ان کے علم سے خوشہ چینی کرنے لگیں اور ان سے زہد کی تعلیم حاصل کی ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کی رفاقت سے بہت خوش تھے ، جب وہ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے جانا چاہتی تو سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کرتیں ۔ 


   سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کہتے کہ میری دلی خواہش تو یہی ہے کہ تم گھر میں رہو اور تم میری اس رغبت کو جانتی بھی ہو ۔ انہوں نے کہا میں آپ سے مسجد جانے کے لیے اجازت طلب کرتی رہوں گی ۔ سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں مسجد جانے سے نہیں روکا


جب ابو لؤلؤ مجوسی نے سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ پر اپنے زہر میں بھگوئے ہوئے خنجر سے وار کیا ، جس سے وہ وفات پا گئے ، تو سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے ان کی جدائی میں آنسو بہاتے ہوئے یہ اشعار کہے :


عین جودی بعبرة و نحیب

لا تملی علی الإمام النحیب


قل لأھل الضراء والبؤس موتوا

قد سقته المنون کأس شعوب


" اے آنکھ! آنسوؤں اور گریہ و زاری کی سخاوت کر ، شریف امام کے غم کے اظہار میں اکتاہٹ محسوس نہ کر ۔ جنگجو لوگوں سے کہو کہ تم مر جاؤ ، موت نے اسے شعوب کا پیالہ پلا دیا ۔" 


ایک دوسرے مرثیے میں سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے روتے ہوئے یہ اشعار کہے :


من لنفس عادھا أحزانھا

و لعین شفھا طول السھد


جسد لفف فی أکفانه 

رحمة اللہ علی ذالك الجسد


فیه تفجیع لمولی غارم

لم یدعه اللہ یمشی بسبد


"وہ کون ہے جس کے دل پر غم ٹوٹ پڑے اور اس کی آنکھ کو طویل بیداری نے چھوٹا کر دیا ۔ وہ جسم جسے کفن میں لپیٹ دیا گیا اللہ کی اس جسم پر رحمت ہو ۔ اس میں تکلیف پہنچی ہے ایک مقروض غلام کو ، جس کے پاس اللہ نے کچھ نہ چھوڑا ، تاکہ وہ کنگال چلے ۔"


سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کی وفات کے غم میں یہ اشعار بھی کہے :


و فجعنی فیروز لا در درہ

بأبیض تال للکتاب منیب


رؤوف علی الأدنی غلیظ علی العدی

أخی ثقة فی النائبات مجیب 


متی ما یقل لا یکذب القول فعله 

سریع ألی الخیرات غیر قطوب


" فیروز دیلمی نے مجھے دکھ درد دیا اور ایسے شخص پر کاری وار کیا جو روشن چہرے والا ، قرآن کی تلاوت کرنے والا اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا ۔ جو کمزور سے شفقت سے پیش آنے والا ، دشمن کے خلاف سخت ، مصائب میں ثابت قدم رہنے والا اور بات ماننے والا تھا ۔ جب بھی وہ کوئی بات کہتا تو اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہوتا ۔ خیرات میں جلدی کرنے والا اور ترش روئی سے پیش نہ آنے والا ۔"


سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ کی وفات کے غم میں یہ اشعار بھی کہے:


منع الرقاد عینی عید 

مما تضمن قلب المعمود


یا لیلة حبست علی نجومھا 

فسھرتھا والشامئون ھجود


قد یشھرنی جوارك صرة

فالیوم حق لعینی الشھید


أبکی امیر المؤمنين و دونه 

للزائرین صفاتح و صعید



🍃✨سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی :


   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے اپنی عدت کا عرصہ سوگ میں گزارا ۔ جب سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہو چکی ہے تو انہوں نے ان کو شادی کا پیغام دیا جسے انہوں نے قبول کر لیا اور وہ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں ۔


   سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ بڑی غصیلی طبیعت والے تھے ۔ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا جسمانی طور پر فربہ تھیں ۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ وہ مسجد نہ جایا کریں ۔


   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے کہا: " کیا میں تمہاری غصیلی طبیعت کی وجہ سے مسجد نبوی میں جاکر نماز پڑھنا چھوڑ دوں ، جو میں رسول اللہ صلی اللہ، سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنھما کے پیچھے پڑھتی رہی ۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر یہ بات ہے تو میں تجھے نہیں روکوں گا ۔


   سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نماز فجر ادا کرنے کے لیے وضو کر کے جلدی جلدی گھر سے روانہ ہوئے اور راستے میں ایسی جگہ چھپ گئے جہاں سے وہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کو جاتے ہوئے دیکھ سکتے تھے لیکن اندھیرے کی وجہ سے سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو دیکھ نہیں سکتی تھیں ، بڑا گہرا اندھیرا تھا، جب سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس سے گزریں تو انہوں نے اپنی بیوی سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کی گردن پر ہاتھ مارا اور تیزی سے مسجد کی طرف روانہ ہو گئے ۔ 


   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا " انا للہ و انا الیہ راجعون " پڑھتی ہوئی گھر واپس آ گئیں ۔ جب سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے نماز سے فارغ ہو کر اپنے گھر واپس آئے تو اپنی بیوی سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا آج آپ مسجد میں نہیں گئیں ؟ فرمانے لگیں: لوگوں میں فتنہ و فساد غالب آچکا ہے ، اور انہوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بیان کیا ، پھر فرمانے لگیں: میرا گھر میں نماز پڑھنا ہی میرے لیے بہتر ہے ۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر خوش ہو گئے کہ چلو اچھا ہوا ، ہمارے دل کی مراد پوری ہو گئی اور اس کے لیے زیادہ دشواری بھی پیش نہ آئی


   جنگ جمل میں سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف داری میں شریک ہوئے، لیکن سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ملاقات کے بعد وہ جنگ سے علیحدہ ہو گئے ۔


   وہ میدان میں ایک جگہ نماز ادا کر رہے تھے کہ ابن جرموز نے انہیں دیکھ لیا اور نماز ہی کی حالت میں انہیں قتل کر دیا ، پھر وہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف گیا ، تاکہ انہیں اپنے کارنامے سے آگاہ کرے ۔ 


   اس کا خیال تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ خبر سن کر خوش ہوں گے اور اسے انعام و اکرام سے نوازیں گے ، لیکن جب ان جرموز نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو انہوں نے فرمایا: ابن صفیہ یعنی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے قاتل کو جہنم بشارت دے دو ، پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر بن عوام ہے۔"


   ایک دوسری روایت میں زر بن جبیش سے مروی ہے کہ جب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بتایا گیا کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا قاتل دروازے پر کھڑا ہے ، تو آپ نے فرمایا: " ابن صفیہ یعنی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے قاتل کو جہنم کی بشارت سنا دو ۔ " پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : " ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر بن عوام ہے ۔" 


   ایک دوسری روایت میں عاصم زر سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا قاتل دروازے پر کھڑا ہے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابن صفیہ یعنی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا قاتل ضرور جہنم میں داخل ہوگا ۔ پھر فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ نے فرمایا :" ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر بن عوام ہے ۔"


جب ابن جرموز نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے اپنے انجام کے بارے میں سنا تو اس نے خودکشی کر لی ۔


سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے سوگ میں عدت گزارنے لگیں اور انہوں نے اپنے خاوند زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے غم میں یہ اشعار کہے:


غدر ابن جرموز بفارس بھمة

یوم اللقاء و کان خبر معرد


یا عمرو! لو نبھته لوجدته

لا طاعشا رعش الجنان و لا الید


إن الزبير لذو بلاء صادق

سمع سجیته کریم المشھد


کم عمرة قد خاضھا لم یثنه 

عنھا طرادك یا ابن فقع القردد


فاذھب فما ظفرت یداك لمثله 

فیمن مضی ممن یروح و یغتدی


✨♦️سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی:


   جب سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے عدت پوری کر لی اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نکاح کی پیش کش کی تو سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے کہا : آپ مسلمانوں کے سربراہ ہیں میں آپ کی زندگی کے لیے دعا گو ہوں ، آپ کا باقی رہنا لوگوں کے لیے مفید ہے ، میرے ساتھ جس نے شادی کی ہے وہ جلد ہی زندگی کی بازی ہار گیا ۔ سابقہ حالت سے یہی کچھ سامنے آیا ہے ۔ 


   سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کی باتیں سن کر ان کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ۔ 


   یہ بیان کیا جاتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما یہ فرمایا کرتے تھے :


(( من اراد الشھادة فلیتزوج عاتکه ))


" جس کو شہادت کی تمنا ہو وہ عاتکہ سے شادی کر لے "


   ان کا یہ مقولہ لوگوں میں عام ہوگیا لیکن سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنھما نے اس مقولے کی کوئی پروہ نہیں کی اور انہوں نے نکاح کا پیغام دے دیا ۔ اس طرح وہ سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔ 


   یہ زبان زد عام مقولہ حقیقت کا روپ دھار گیا ، سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں شہید کر دئے گئے ۔ تاریخ نے ایسا دلخراش منظر کبھی نہ دیکھا ہو گا ۔


   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے غم میں یہ اشعار کہے: 


واحسینا ولا نسیت حسینا

أقصدته أسنة الأعداء


غادروہ بکر بلاء صریعا

لا ستقی الغیث بعدہ کربلاء


   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خون میں لت پت چہرے کو زمین سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا اور اسے سینے سے لگا لیا ۔


   جب سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے عدت گزار لی تو شادی سے کلی طور پر کنارہ کشی اختیار کر لی ۔


   مروان بن الحكم نے شادی کا پیغام بھیجا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا اور پوری زندگی کسی اور سے شادی نہ کی ، یہاں تک کہ وہ قضائے الہی سے وفات پا گئیں



✨♦️شہداء کی بیوی :


   یکے بعد دیگرے چار شہداء کی بیوی سیدہ عاتکہ بنت زید رضی اللہ عنہا پر اللہ تعالٰی اپنی رحمت نچھاور کرے ۔ ان کی پہلی شادی عبد اللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوئی ، اس کے بعد سیدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور پھر حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی ہوئی ۔ اللہ تعالٰی ان تمام شہداء پر قیامت کے دن اپنی رحمت نچھاور کرے اور ان کی اپنے یہاں عمدہ انداز میں مہمانی کرے ۔


   سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے بظاہر پر مسرت انداز میں زندگی بسر کی ، لیکن حقیقت میں انہیں یکے بعد دیگرے بڑے بڑے صدموں سے دو چار ہونا پڑا ، انہیں پے در پے خاوندوں کی شہادت کا صدمہ سہنا پڑا ۔ لیکن یہ اللہ تعالٰی کی مشیت اور اس کا فیصلہ تھا جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔ ہر کسی کے لیے اللہ تعالٰی کی مشیت کو رضا و رغبت کے ساتھ تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کے فیصلے کو تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ اس کائنات میں صرف اسی کا امر و نہی کار فرما ہوتا ہے ، اس کے حکم کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں ۔ وہ حاکم ہے ، اس کے حکم کا کوئی تعاقب کرنے والا نہیں ۔


   اللہ تعالٰی کا اپنی کتاب قرآن میں یہ ارشاد ہے : 


🌷وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ تکویر :۲۹ ﴾


"اور اللہ رب العالمیـــــــــــن کے چاہے بغیر تم ( کچھ بھی ) نہیں چاہ سکتے ۔" 


   کائنات میں اللہ تعالٰی کا ہی حکم چلتا ہے ، ساری مخلوق کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہ سر مو بھی اللہ کے حکم کے خلاف نہیں چل سکتے ۔ حکم اللہ ہی کا چلے گا ، مخلوق علیم و حکیم اللہ رب العزت کے حکم کو تسلیم کرنے کی پابند ہے ۔ اللہ پاک ہے ، وہ عظیم ترین معبود حقیقی ہے اور وہ بڑا ہی معزز تدبیر کرنے والا ہے ۔


   سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدہ عاتکہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باقی ساری زندگی عبادت و ریاضت میں بسر کی ، وہ اپنے گھر سے کسی خاص ضروری کام کے بغیر باہر نہیں نکلتی تھیں ۔ وہ زندگی بھر عبادت میں مصروف رہیں اور جس نے بھی شادی کی پیش کش کی انہوں نے صاف انکار کر دیا اور دنیا اور اس کے مال و دولت اور زیب و زینت سے قطعی طور پر بے رغبتی اختیار کر لی، جب موت کا پیغام آیا تو اس پر لبیک کہا اور راضی و خوشی سفر آخرت پر اپنے خالق حقیقی سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گئیں ۔ 


اللہ ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور انہیں اپنی خوشنودی سے نوازے ۔


آمین یارب العالمیـــــــــــن!



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>تمت باذن اللہ تعالی۔۔

  

 

تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ----- لقمان قاسمی




Post a Comment

0 Comments