حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ
*اسامہ رضی اللہ عنہ کا باپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز تھا اور اسی طرح اسامہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھ سے زیادہ عزیز تھا.*
*(فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنے بیٹے سے خطاب)*
ہجرت سے سات سال پہلے مکہ معظمہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین قریش کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں. تبلیغ میدان میں مسلسل آپ پر حزن و ملال، غم واندوہ اور مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں، اسی تلاطم خیز دور میں آپ کی حیات طیبہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے، کسی نے آپ کو خوشخبری سنائی کہ ام ایمن کے گھر اللہ نے بیٹا عطا کیا ہے، یہ خبر سن کر آپ کے روئے انور پر بے انتہائی خوشی کے آثار دکھائی دینے لگے، کیا آپ کو معلوم ہے یہ خوش بخت نو مولود کون ہے؟ جس کی ولادت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس قدر خوشی ہوئی.
"یہ نو مولود اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے"
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس بے انتہا خوشی پر تعجب نہ ہوا، کیونکہ سبھی اس نومولود کے والدین کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قریبی تعلق جانتے تھے، اسامہ کی والدہ برکت نامی ایک حبشی عورت تھی، جو ام ایمن کے نام سے مشہور ہوئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ ماجدہ کی کنیز بھی رہ چکی تھی، انہیں یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی گود میں لے لیا اور آپ کی نگہداشت کی، آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ام ایمن میری ماں کی مانند ہے، اور یہ میرے اہل بیت میں سے ہے.
یہ تو خوش نصیب نومولود کی والدہ محترمہ کا تعارف، رہا اس کا باپ تو وہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ و سلم حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہے، نزول قرآن مجید سے پہلے آپ نے اسے اپنا بیٹا قرار دیا تھا، حضر و سفر میں انہیں آپ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا. علاوہ ازیں راز دان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہونے کی سعادت بھی ان کے حصے میں آئی.
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی ولادت پر سبھی مسلمان اتنے خوش ہوئے کہ کبھی کسی کی ولادت پر اتنے خوش نہیں ہوئے تھے، اس لئے کہ جس چیز سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو خوشی حاصل ہوتی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے بھی وہ خوشی کا باعث بنتی.
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسامہ کو لقب *حب النبی* دے دیا، انہوں نے اس نومولود کو یہ لقب دینے میں کسی مبالغے سے کام نہیں لیا تھا، حقیقتاً رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو ان سے اتنا پیار تھا کہ سب مسلمان اس پہ رشک کناں تھے.
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسے حضرت حسن بن فاطمۃ الزہراء کے ہم عمر تھے، حضرت حسن رضی اللہ عنہ تو اپنے نانا صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح حسین و جمیل تھے لیکن اسامہ اپنی حبشی والدہ ام ایمن کی مانند سیاہ رنگ اور چپٹے ناک والے تھے، لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں سے یکساں پیار کرتے تھے. شفقت بھرے انداز میں اسامہ رضی اللہ عنہ کو ایک ران پر بٹھا لیتے اور حسن رضی اللہ عنہ کو دوسری ران پر، کبھی دونوں کو اپنے سینے سے لگاتے اور یہ دعا کرتے.
الہی! میں ان دونوں بچوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا لے.
غرض یہ کہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آنحضرت کو بہت پیار تھا، ایک دفعہ اسامہ رضی اللہ عنہ دروازے کی دہلیز پر لڑ کھڑا کر گر پڑے، جس سے پیشانی پر زخم آیا اور خون بہنے لگا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اشارہ کیا کہ اس کا خون صاف کر دیں، لیکن صدیقہ کائنات کسی مصروفیت کی وجہ سے اس طرف فوری توجہ نہ دے سکیں، نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنے دست مبارک سے اس خون کو صاف کیا
جس طرح بچپن میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے آپ نے پیار کیا اسی طرح جوانی میں بھی ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا.
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قریشی سردار حکیم بن حزام نے ایک قیمتی لباس رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا، جسے اس نے یمن سے پچاس دینار میں خریدا تھا اور یہ لباس شاہ یمن کے لئے بطور خاص تیار کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تحفہ لینے سے انکار کر دیا، کیونکہ حکیم بن حزام ان دنوں مشرک تھا، البتہ آپ نے اس سے وہ لباس قیمتاً خرید لیا، یہ بہترین لباس آپ نے صرف ایک مرتبہ جمعہ کے روز پہنا، پھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عطا کر دیا، اور وہ یہ لباس پہن کر صبح شام شاداں و فرحاں اپنے مہاجر و انصار نوجوان ساتھیوں کے پاس آیا کرتے تھے.
جب اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جوان ہوئے تو عمدہ عادات اور اعلی اخلاق سے منصف تھے، اس کے علاوہ حد درجہ کے ذہین، بہادر، دانشمند، پاکدامن، نرم گو اور پرہیز گار تھے، ان اوصاف حمیدہ کی بنا پر وہ لوگوں کی نگاہ میں پسندیدہ شخصیت قرار دئیے گئے، غزوہ احد میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنے ہم عمر بچوں کے ہمراہ میدان جہاد کی طرف نکلے. ان میں بعض کو تو جہاد کے لئے قبول کر لیا گیا اور بعض کو بہت چھوٹی عمر کی بنا پر شامل جہاد نہ کیا گیا. ان میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، جب یہ واپس لوٹے تو زار و قطار رو رہے تھے کیونکہ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے جھنڈے تلے راہ خدا میں جہاد کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا.
غزوہ خندق میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنے ہم عمر نوجوانوں کے ہمراہ میدان کی طرف نکلے تو اپنے پنجوں کے بل اونچے ہو کر کہنے لگے کہ کہیں آج بھی نو عمری کی بنا پر جہاد میں شریک ہونے سے محروم نہ کر دئیے جائیں، ان کی یہ حالت دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بہت خوش ہوئے اور انہیں جہاد میں شریک ہو نے کی اجازت دے دی، جب حضرت اسامہ نے راہ خدا میں جہاد کے لئے تلوار اٹھائی، اس وقت ان کی عمر صرف پندرہ برس تھی.
غزوہ حنین میں جب مسلمان شکست سے دوچار ہوئے تو اس نازک ترین موقعے پر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ، اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میدان کارزار میں ثابت قدم رہے، اس چھوٹے سے بہادر بچے کی بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے یہ آسانی پیدا ہوئی کہ اللہ نے شکست کو فتح میں بدل دیا اور بھاگنے والے مسلمانوں کو ہزیمت سے بچا لیا.
جنگ موتہ میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جہاد کیا، اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم تھی، اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کی شہادت کا منظر دیکھا، لیکن حوصلہ نہ ہارا، بلکہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کفار سے نبرد آزما رہے، یہاں تک کہ یہ سپہ سالار بھی اللہ کو پیارے ہو گئے. پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کی قیادت سنبھالی، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہ بھی شہید ہوگئے تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے جھنڈے تلے کفار سے نبرد آزمائی کا موقع آیا. انہوں نے ایسی جنگ حکمت عملی اختیار کی کہ جس سے یہ لشکر اسلام کو روم کے مضبوط آہنی پنجے سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنے شہید باپ کے جسد خاکی کو سر زمین شام میں اللہ کے سپرد کرکے ان ہی کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ طیبہ پہنچے.
11 ہجری کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے لشکر اسلام کی تیاری کا حکم صادر فرمایا اور اس لشکر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے. حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لشکر کا امیر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا. جبکہ ان کی عمر ابھی صرف بیس سال تھی، انہیں حکم دیا کہ علاقہ بلقاء اور قلعہ دار روم کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں، جوکہ بلاد روم کے غزہ نامی شہر کے قریب واقع ہے. یہ لشکر ابھی تیاری میں مصروف تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بیمار ہو گئے، جب مرض نے شدت اختیار کی تو لشکر اس صورت حال کو دیکھ کر روانہ ہوا.
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر بیماری کا شدید حملہ ہوا تو میں اور چند ساتھی تیمارداری کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، بیماری کی شدت کی بنا پر آپ بالکل خاموش تھے، آپ اپنا ہاتھ اٹھاتے پھر اسے مجھ پر رکھ دیتے، میں سمجھ گیا کہ آپ میرے حق میں دعا کر رہے ہیں.
تھوڑی ہی دیر بعد حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کو پیارے ہوگئے، اب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا. تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی. آپ نے خلیفہ منتخب ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لشکر اسلام کو اس مشن پر روانہ کیا جس کا حکم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زندگی میں دیا تھا. لیکن انصار میں سے چند صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہ رائے تھی کہ لشکر کی روانگی میں کچھ تاخیر کر دی جائے تو بہتر ہوگا، انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بات کریں اور ساتھ ہی یہ مشورہ دیا کہ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ لشکر کی فوری رونگی پر مصر ہوں تو ہماری طرف سے انہیں یہ پیغام پہنچا دیں کہ ہمارا امیر کسی ایسے شخص کو بنایا جائے جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر رسیدہ اور تجربہ کار ہو، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی انصار کا یہ پیغام سنا تو غضبناک ہوگئے اور غصے کی حالت میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
اے ابن خطاب! کتنے افسوس کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر بنایا اور تم مجھے مشورہ دیتے ہو کہ میں اسے معزول کردوں، اللہ کی قسم! یہ کبھی نہیں ہو سکتا. جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں کے پاس واپس لوٹے تو انہوں نے دریافت کیا کہ خلیفۃ المسلمین نے کیا جواب دیا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہیں تمہاری مائیں گم پائیں، جلدی سے اپنے مشن پر نکلو، میں آج تمہاری وجہ سے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ناراض کیا.
جب یہ لشکر اپنے نوجوان قائد کے زیر کمان ہوا تو خلیفہ رسول سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ انہیں الوداع کہنے کے لئے تھوڑی دور تک پیدل ساتھ چلے جب کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار تھے. حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم : بخدایا، تو آپ بھی گھوڑے پر سوار ہو جائیں ورنہ میں گھوڑے سے اترتا ہوں. صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :
بخدا! نہ تو آپ نیچے اتریں گے اور نہ میں سوار ہوں گا.
پھر فرمایا : کیا میرے لئے یہ اعزاز نہیں کہ کچھ عرصے کے لیے اپنے پاؤں اللہ کی راہ میں غبار آلود کر دوں؟
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو دعائیں دے کر جہاد پر روانہ کیا اور کہا :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہیں جو وصیت کی ہے اس کے مطابق سر گرم عمل رہنا، پھر سرگوشی کے انداز میں فرمایا :
اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو میری معاونت کے لئے میرے پاس رہنے دیں تو بہتر ہوگا.
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی رائے سے اتفاق کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وہیں رہنے دیا
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ لشکر کو لے کر چل پڑے اور اس مشن کی کامیابی کے لئے ہر وہ کوشش کی جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا، پہلے مرحلے پر لشکر اسلام نے سر زمین فلسطین میں بلقاء اور قلعہ دار روم کو فتح کیا، مسلمانوں کے دلوں سے روم کی سلطنت کا رعب و دبدبہ ختم کر دیا.
دیار شام، مصر اور شمالی افریقہ کو فتح کرکے بحر ظلمات تک اسلامی سلطنت کا جھنڈا لہرا دیا، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس مہم کو سر کرکے بڑی شان و شوکت سے اپنے والد گرامی کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے اور کثیر مقدار میں مال غنیمت کے ساتھ بخیر و عافیت لوٹے، یہاں تک کہ یہ بات لوگوں میں مشہور ہو گئی کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر سے بڑھ کر آج تک کوئی لشکر اتنی کثرت سے مال غنیمت نہیں لایا-
جوں جوں وقت گزرتا گیا مسلمانوں کے دلوں میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت بڑھتی گئی اور یہ عزت و وقار اور عظمت و شان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ وفاداری کے نتیجے میں آپ کو میسر آئی.
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لئے اپنے بیٹے سے زیادہ وظیفہ مقرر کیا تو بیٹے نے عرض کی : ابا جان.! آپ نے اسامہ کے لئے چار ہزار اور میرے لئے تین ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا ہے. حالانکہ اس کے باپ کو وہ فضیلت حاصل نہ تھی جو آپ کو حاصل ہے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو وہ مقام حاصل نہیں جو میرا ہے. بیٹے کی یہ بات سن کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :
بیٹے افسوس.، تجھے علم نہیں. سنو اس کا باپ تیرے باپ سے زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو عزیز تھا اور یہ خود بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تجھ سے زیادہ پیارا تھا.
یہ جواب سن کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے اور اسی وظیفہ پر راضی ہو گئے، جو ان کے لیے مقرر کیا گیا تھا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب بھی اسامہ رضی اللہ عنہ سے ملتے تو خوشی سے پکار اٹھتے، خوش آمدید میرا سردار آگیا، جب کوئی ان سے اس والہانہ انداز پر تعجب کرتا تو فرماتے، تمہیں معلوم نہیں ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو میرا امیر بنایا تھا.
ان قدسی نفوس پر اللہ رحمت کی برکھا برسائے، بلاشبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انسانیت کے اعلی اور افضل مقام پر فائز تھے، تاریخ نے کبھی ان جیسے قدسی انسانوں کو نہیں دیکھا.
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.
1. الاصابہ 46/1
2. الاستیعاب 1/ 34-36
3. تقریب التھذیب 53/1
4. تاریخ اسلام ذھبی 2/270-273
5. الطبقات الکبری 4/ 61-72
6. العبر 95/1
7. من ابطالنا الذین صنعوا التاریخ 33-39
8. قادۃ فتح الشام و مصر 33-51
9. الاسلام و مراجعہ 281-282
🌴بارک اللہ فیکم🌴
==========>ختم شد۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments