حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ
*الہی.! اگر تونے مجھے اس خیر و برکت سے محروم رکھا ہوا ہے میرے بیٹے سعید رضی اللہ عنہ کو اس خیر و برکت سے محروم نہ رکھنا.*
*(حضرت سعید کے والد کی آرزو)*
زید بن عمرو بن نفیل لوگوں سے الگ تھلگ کچھ فاصلے پر کھڑے قریش کو عید کی خوشیاں مناتے ہوئے دیکھ رہے تھے، انہوں نے دیکھا کہ قریش کے نوجوان بیش بہا قیمت ریشمی عمامے باندھے اور قیمتی یمنی لباس زیب تن کئے بڑے طمطراق سے ادھر ادھر پھر رہے ہیں، عورتوں اور بچوں نے بھی نہایت دیدہ زیب لباس پہنا ہوا ہے، انہوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ کچھ لوگ جانوروں کو نہلا دھلا کر بتوں کے حضور ذبح کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں.
وہ یہ حیران کن مناظر دیکھ کر کعبے کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر فرمانے لگے.
اے خاندان قریش.! ایک بکری جسے اللہ تعالٰی نے پیدا کیا، آسمان سے اس کے لیے بارش نازل کی، جس کا پانی پی کر وہ سیراب ہوئی، زمین میں سے اس کے لئے گھاس اگائی، جسے کھا کر اس نے اپنا پیٹ بھرا، پھر تم اس بکری کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہو، میرے خیال میں یہ بہت بڑی جہالت کی بات ہے. یہ الفاظ سنتے ہی ان کے چچا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے والد خطاب غصے سے بھر اٹھے. آؤ دیکھا نہ تاؤ، ان کے چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا، اور پھر کہا. :
تو تباہ ہو جائے، ہم کتنی دیر سے تیری یہ فضول باتیں سن رہے ہیں.؟ لیکن صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے. اور ساتھ ہی اپنی قوم کے چند سر پھروں کو بر انگیختہ کیا، انہوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ پر حملہ کر دیا اور اس قدر تکلیف پہنچائی کہ انہیں مکہ معظمہ سے نکل جانے پر مجبور کر دیا، انہوں نے حراء پہاڑ کے دامن میں جا کر پناہ لی، خطاب کے نوجوانوں کو اس کام کے لئے تیار کیا کہ زید رضی اللہ عنہ دوبارہ مکہ میں داخل نہ ہو سکے، لیکن یہ چوری چھپے کبھی کبھار مکہ معظمہ میں آ جاتے.
ایک روز قریش سے آنکھ بچا کر حضرت زید رضی اللہ عنہ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے اور وہاں ان کی ملاقات ورقہ بن نوفل، عبداللہ بن جحش، عثمان بن حارث اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب سے ہوئی، اور یہ لوگ آپس میں اس قسم کی باتیں کر رہے تھے کہ موجودہ دور میں قریش گمراہی کے اتھاہ سمندر میں غرق ہو چکے ہیں.
ان کی گفتگو سن کر زید رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا! آپ جانتے ہیں کہ آپ کی قوم گمراہ ہوچکی ہے، دین ابراہیم علیہ السلام سے منحرف ہو گئ ہے. کم از کم آپ تو صحیح دین اختیار کرنے والے بن جائیں، اسی میں آپ کی نجات ہے
ان میں سے چار یہود و نصاری کے علماء کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تاکہ دین ابراہیمی کو صحیح صورت میں حاصل کر سکیں.
ورقہ بن نوفل نے عیسائیت قبول کرلی، عبداللہ بن جحش اور عثمان بن حارث کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے، لیکن جناب زید بن عمرو بن نفیل کی عجیب داستان ہے، ہم یہ دلچسپ کہانی آپ کو ان کی ہی زبانی سناتے ہیں، حضرت زید فرماتے ہیں.
میں نے یہودیت و نصرانیت کی تحقیق شروع کردی، لیکن میں ان دونوں مذاہب سے مطمئن نہ ہو سکا، پھر میں نے دین ابراہیم علیہ السلام کی تلاش میں دنیا کا کونہ کونہ چھان مارا، بلآخر اسی جستجو میں ملک شام پہنچا، مجھے کسی نے بتایا کہ یہاں ایک راہب رہتا ہے جو بہت بڑا عالم ہے، میں اس سے ملا اور اپنی داستان سنائی.
اس نے مجھ سے کہا :
میرے خیال میں آپ دین ابراہیم علیہ السلام کی تلاش میں ہیں.
میں نے کہا، میں اسی تلاش میں ہوں.
وہ کہنے لگا، آپ ایک ایسے دین کی تلاش میں ہیں جو اپنی اصل صورت میں کہیں بھی نہیں پایا جاتا، آپ اپنے شہر مکہ معظمہ تشریف لے جائیں، وہاں اللہ تعالٰی ایک نبی مبعوث فرمائیں گے. جو دین ابراہیمی کی تجدید کرے گا، اگر وہ آپ کو مل جائے تو اس کا دامن تھام لینا.
حضرت زید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاش میں اسی وقت مکہ معظمہ واپس لوٹ آئے، زید رضی اللہ عنہ ابھی راستے ہی میں تھے اور مکہ معظمہ نہ پہنچ پائے تھے کہ ان کو راستے میں چند بدوؤں نے قتل کردیا.
اس طرح انہیں یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کا سرمہ اپنی آنکھوں میں ڈال سکیں، جب آپ زندگی کے آخری سانس لے رہے تھے، اچانک اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ دعا کہ "الہی.! اگر تونے مجھے دیدار نبی صلی اللہ علیہ و سلم جیسی نعمت سے محروم رکھا ہے تو میرے بیٹے سعید کو اس خیر و برکت سے محروم نہ رکھنا"
اللہ تعالٰی نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا، کہ آپ ان خوش نصیبوں میں سے تھے جو پہلے مرحلے میں اللہ تعالٰی کی وحدانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لائے.
یہ کوئی اچھنبھے کی بات نہ تھی، اس لئے کہ حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے ایسے گھرانے میں پرورش پائی تھی جو شروع ہی سے قریش کی جہالت اور گمراہی سے منتظر تھا اور یہ ایک ایسے باپ کی گود میں پروان چڑھے تھے جس نے اپنی پوری زندگی حق کی تلاش میں گزاردی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو اس وقت بھی حق کی تلاش میں سر گرداں تھے.
حضرت سعید تنہا مسلمان نہیں ہوئے بلکہ ان کے ساتھ ان کی بیوی فاطمہ بنت خطاب یعنی فاروق اعظم کی بہن نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا، اس قریشی نوجوان نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے خاندان کے ہاتھوں بہت تکلیفیں اٹھائیں، لیکن قریش انہیں حق سے منحرف نہ کر سکے، بلکہ میاں بیوی نے مشترکہ جدوجہد سے قریش کی بھاری بھرکم شخصیت کو ان سے چھین لیا. یعنی یہ دونوں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا باعث بنے
حضرت سعید رضی اللہ عنہ نے خدمت اسلام کے لئے اپنی جوانی کھپا دی، قبول اسلام کے وقت ان کی عمر بیس سال سے زیادہ نہ تھی، غزوۂ بدر کے علاوہ تمام معرکوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہے، غزوہ بدر سے غیر حاضر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خاص مہم پر بھیجا تھا.
کسریٰ کا تخت چھیننے اور قیصر کی سلطنت کو تہس نہس کرنے میں وہ مسلمانوں کے شریک کار رہے، اور ہر معرکے میں کارہائے نمایاں سر انجام دیئے، سب سے بڑھ کر بہادری کے جوہر غزوہ یرموک میں دکھلائے، ہم یہ حیرت انگیز واقعہ انہیں کی زبانی قارئین کو سناتے ہیں.
حضرت سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.
غزوہ یرموک میں مجاہدین کی تعداد تقریباً چوبیس ہزار تھی اور رومیوں کی فوج ایک لاکھ بیس ہزار افراد پر مشتمل تھی، وہ ہماری طرف بڑے جاہ و جلال اور طمطراق سے بڑھتے چلے آرہے تھے، یوں معلوم ہوتا جیسےکوئی پہاڑ ہماری طرف چلا آرہا ہے، لشکر کے آگے بڑے بڑے پوپ اور پادری صلیب اٹھائے بآواز بلند ورد کرتے ہوئے چل رہے تھے، پورے لشکر کی آواز بجلی کی طرح گونج رہی تھی، جب مسلمانوں نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو ان کی کثرت اور جاہ و جلال سے خوف زدہ ہو گئے.
اس نازک مرحلے پر حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جوش اور جذبے سے مسلمانوں کو جہاد کے لئے ابھارتے ہوئے ارشاد ربانی سناتے ہیں.
*(("ان تنصرو اللہ ینصرکم و یثبت اقداکم"))*
*"اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا"*
اللہ کے بندو.! صبر کرو بلاشبہ صبر ہی کفر سے نجات، رب تعالٰی کی خوشنودی اور عار و ننگ کو زائل کرنے کا باعث ہے.
سنو.! اپنے نیزے درست کر لو اور چھپائے رکھو، خاموشی اختیار کر لو، دلوں کو یاد الہی سے سر شار کرو، یہاں تک کہ میں تمہیں یکدم حملے کا حکم دوں.
حضرت سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.
مجاہدین کی صفوں میں سے شخص آگے بڑھا اور اس نے ابو عبیدہ سے کہا، میں نے عزم کیا ہے کہ میں ابھی اپنا فرض انجام دے دوں. ( اور راہ حق میں شہید ہو جاؤں)
کیا آپ کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیغام دینا چاہتے ہیں.؟
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں.! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو میرا اور تمام مسلمانوں کا سلام کہنا : اور یہ عرض کرنا.
حضرت سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.
میں نے اس شخص کی بات سنی اور اسے دیکھا کہ وہ اسی وقت اپنی تلوار نیام سے نکالتا ہے اور دشمنان خدا سے نبرد آزما ہونے کے لئے دوڑ پڑتا ہے، اس کے بعد میں نے چست لگائی، اپنا گھٹنا باندھا، نیزہ سنبھالا اور دشمن کے اس شہسوار کو نشانہ بنایا جس نے سب سے پہلے لشکر اسلام کی طرف پیش قدمی کی تھی، پھر جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر دشمن پر ٹوٹ پڑا اور اللہ تعالٰی نے میرے دل سے دشمن کا خوف بالکل نکال دیا. سب مجاہدین غم ٹھونک کر دشمن کے مقابلے میں آکھڑے ہوئے اور اس وقت تک ان سے بر سر پیکار رہے، جب تک فتح و نصرت نے مسلمانوں کے قدم نہ چوم لئے
اس کے بعد حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو فتح دمشق میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا. جب باشندگان دمشق نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے آپ کو دمشق کا گورنر بنا دیا، آپ پہلے مسلمان ہیں جنہیں دمشق کا گورنر بننے کا اعزاز حاصل ہوا.
بنو امیہ کے دور خلافت میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جو بہت مدت تک باشندگان یثرب کا موضوع گفتگو بنا رہا.
وہ واقعہ یہ تھا کہ اروی بنت اویس نے یہ الزام عائد کیا کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے اپنے اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میری کچھ زمین غصب کرکے اپنی زمین میں شامل کرلی ہے، وہ جہاں جاتی ہر شخص کے سامنے اس کا تذکرہ کرتی اور اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتی، بلآخر اس نے مدینہ طیبہ کے گورنر مروان بن حکم کی عدالت میں حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے خلاف دعوی دائر کر دیا، مروان بن حکم نے حضرت سعید رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں بات کرنے کے لئے ان کے پاس ایک وفد بھیجا. حضرت سعید رضی اللہ عنہ پر یہ بات بہت گراں گزری، آپ افسردگی کے عالم میں فرمانے لگے.
یہ سب لوگ میرے متعلق کیا خیال کرتے ہوں گے کہ میں نے اس عورت کی زمین ہٹھیا کر بہت بڑا ظلم کیا ہے.؟ میں بھلا اس گھناؤنے جرم کا کیسے ارتکاب کر سکتا ہوں، جبکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد سنا ہے.
*" جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ناجائز طور پر اپنے قبضے میں لی، قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا "*
اس کے بعد دربار الہی میں عرض پر دار ہوئے :
الہی.! تو جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں، میں نے اس عورت پر کوئی ظلم نہیں کیا.
الہی.! تو جانتا ہے کہ وہ جھوٹی ہے، اور اسے اس کے جھوٹ کی یہ سزا دے کہ اندھا کر کے کنویں میں گرا جس سے لوگوں کے سامنے یہ بات واضح ہو جائے کہ میں نے اس عورت پر کوئی ظلم نہیں کیا ہے. تھوڑے ہی عرصے بعد وادی عتیق میں زبردست سیلاب آیا، ایسا سیلاب پہلے کبھی نہ آیا تھا، اس سیلاب سے وہ حد بندی واضح ہوگئی جو دونوں کے درمیان باعث نزاع تھی، مسلمانوں پر یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت سعید رضی اللہ عنہ سچے ہیں، اس کے ایک ماہ بعد وہ عورت اندھی ہوگئی، ایک دن وہ اپنی زمین میں چل پھر رہی تھی کہ اچانک کنوئیں میں گر کر ہلاک ہوگئی.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.
ہم بچپن میں یہ بات سنا کرتے تھے کہ ایک شخص غصے کی حالت میں میں دوسرے کو کہتا.
*" تجھے اللہ اسی طرح اندھا کرے جس طرح اروی نامی عورت کو اندھا کیا تھا "*
یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے.
مظلوم کی آہ سے بچو، کیونکہ مظلوم اور اللہ تعالٰی کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا.
بھلا ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ مظلوم حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ جیسی وہ عظیم شخصیت تھی جو کہ ان خوش نصیب دس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہیں جنہیں زندگی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی.
حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.
1. طبقات ابن سعد 275/3
2. تھذیب ابن عساکر 127/6
3. صفتہ الصفوۃ 141/1
4. حلیۃ الاولیاء 95/1
5. الریاض النضرۃ 302/2
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments