حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ
حضرت عمیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے یتیمی اور فقر و فاقہ کا جام اس وقت پیا جب کہ آپ نے ابھی گھٹنوں کے بل کھڑا ہونا بھی نہیں سیکھا تھا، ان کا باپ ملک عدم کو اس حالت میں کوچ کر گیا کہ اس نے اپنے پیچھے کوئی مال و متاع نہ چھوڑا جو اولاد کے کام آ سکے، لیکن ان کی والدہ نے کچھ عرصے کے بعد قبیلہ اوس کے ایک مالدار شخص جلاس بن سوید سے نکاح کر لیا، اور اس نے عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا، جلاس بن سوید کے حسن سلوک، ہمدردی اور فیاضی نے عمیر کو یہ بھلا ہی دیا کہ اس کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا.
جناب عمیر جلاس بن سوید کے ساتھ اس طرح پیش آتے جیسے کوئی فرمانبردار بیٹا اپنے باپ کے ساتھ پیش آتا ہے.
جناب جلاس بن سوید نے بھی حضرت عمیر کو اپنے دل میں اس طرح جگہ دی جیسے کوئی شفیق باپ اپنی اولاد کو دل میں بساتا ہے، جوں جوں جناب عمیر نشو ونما پاتے اور جوان ہوتے گئے، توں توں جلاس کے دل میں ان کی محبت بڑھتی چلی گئی، کیونکہ ان کی ہر ادا سے ذہانت و شرافت ٹپکتی، صداقت، دیانت ان کے ہر عمل سے نمایاں نظر آتی.
حضرت عمیر بن سعد ابھی دس سال کے نہ ہوئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور جلد ہی ان کے پاکیزہ، رفیق اور صاف و شفاف دل میں ایمان راسخ ہو گیا، اسلام ان کے دل کی زرخیز زمین میں پانی کی طرح سرایت کر گیا، انہیں نو عمری میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امامت میں نمازیں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، جب یہ نماز کے لئے مسجد نبوی آتے جاتے تو ان کی والدہ محترمہ اپنے لخت جگر کو کار خیر میں دلچسپی لیتے ہوئے دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتی. کبھی تو وہ خوشی کے اظہار میں اکیلی ہوتی اور کبھی اس کا خاوند بھی خوشی میں شریک ہوتا.
اس نوجوان صحابی عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی زندگی نہایت خوشگوار انداز میں گزر رہی تھی کہ اچانک عن شباب میں ہی ایسے سخت ترین تجربے اور کڑے امتحان سے گزرنا پڑا کہ کم ہی کسی نوجوان کو اس قسم کے حالات سے دو چار ہونا پڑا ہوگا
ہوا یہ کہ 9 ہجری کو رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے مقام تبوک پر رومیوں سے جنگ کرنے کا عزم کیا اور مسلمانوں کو جنگی تیاری کا حکم دے دیا، رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب جنگ کا منصوبہ ترتیب دیتے تو تمام تر منصوبہ بندی صیغہ راز میں رکھتے، جس سمت کو لشکر اسلام روانہ کرنا ہوتا، بظاہر اعلان کسی دوسری سمت کا کرتے، لیکن غزوہ تبوک میں آپ نے یہ پالیسی اختیار نہ کی بلکہ لوگوں کو واضح طور پر بتادیا کہ کہاں جانا ہے.
دراصل اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو منزل بہت دور تھی اور راستہ بھی نہایت دشوار گزار تھا اور مقابلے میں دشمن بھی طاقتور تھا. آپ نے اس موقع پر اس لئے ہر بات وضاحت کر دی تاکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معاملے کی نزاکت کو سمجھ جائیں اور خوب اچھی تیاری کر لیں. اس کے ساتھ ساتھ موسم گرما کا آغاز بھی ہو چکا تھا.
گرمی شدید تھی، پھل پک چکے تھے، درختوں کا سایہ بھلا معلوم ہوتا، طبیعتوں میں سستی و کسل مندی کا غلبہ نظر آنے لگا. ان تمام مشکلات کے باوجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز پر لبیک کہا اور انتہائی ذوق و شوق سے جنگی تیاری میں مصروف ہوگئے، لیکن منافقین مختلف حیلے بہانے کرنے لگے. مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اپنی نجی محفلوں میں مسلمانوں کے خلاف ہر زہ سرائی کرنے لگے.
لشکر اسلام کی روانگی سے چند روز پہلے عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں نماز ادا کرنے کے بعد گھر واپس آئے تو مسلمانوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے. آپ نے دیکھا کہ مسلمان پورے شوق سے جہاد کی تیاری میں مصروف ہیں.
مہاجرین و انصار کی معزز خواتین نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اپنے قیمتی زیورات پیش کر دئیے تاکہ آپ ان کی قیمت لشکر اسلام کی تیاری میں مصروف کریں.
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت ایک ہزار دینار پیش کر رہے ہیں.
دوسری طرف دیکھا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے کندھوں پر اشرفیوں کا تھیلا اٹھائے تیزی سے چلے آ رہے ہیں، اور یہ ساری رقم چشم زدن میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں ڈھیر کر دی، انہوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک شخص اپنا بستر بیچ رہا ہے تاکہ اس قیمت سے جہاد کے لیے تلوار خرید سکے.
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے جوش، ولولہ اور جذبہ جہاد کے منظر بار بار آتے تو آپ کی دلی خوشیوں کی کوئی انتہا نہ رہتی، لیکن وہ اس بات پر بڑا تعجب کرتے کہ جلاس بن سوید چپکے سے گھر بیٹھا ہوا ہے، جہاد کے لئے کوئی تیاری نہیں کرتا اور نہ ہی تونگری و خوشحالی کے راہ خدا میں اپنا مال خرچ کرتا ہے، حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ جلاس بن سوید کی ہمت بندھائے اور اس کے دل میں حمیت، احساس اور جذبہ جہاد پیدا کرے، تو اس نے وہ تمام مشاہدات بیان کرنے شروع کر دئیے جن کا بجشم خود نظارہ کیا تھا، اور خاص طور پر ایمان اور قدسی صفات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کیفیت بیان کی جنہوں نے جہاد کے لئے لشکر اسلام میں شمولیت کی درخواست دی، لیکن رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بنا پر درخواست مسترد کردی کہ ان کے پاس سواری نہیں اور منزل بہت دور ہے، تو وہ اپنی ناکامی اور بے بسی پر زار و قطار رو رہے تھے اور غم سے اس قدر نڈھال تھے کہ ان کی حالت دیکھی نہ جاتی، لیکن جلاس پر ان کی گفتگو کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا، بلکہ اس نے ساری روداد سننے کے بعد ایک ایسی جلی کٹی بات کہی کہ جسے سن کر نوجوان صحابی عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ حیران و ششدر رہ گئے.
جلاس نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم دعوے نبوت میں سچے ہیں تو پھر ہم گدھوں سے بھی زیادہ بد تر ہیں.
( نغوذ باللہ من ذالک.)
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ جلاس بن سوید کے منہ سے یہ بات سن کر انگشت بدنداں رہ گئے، ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جلاس جیسے ذہین و فطین و دانشمند شخص کے منہ سے اس قسم کی بری بات بھی کبھی نکل سکتی ہے، جو کہنے والے کو فوری طور پر دائرہ اسلام سے خارج کردے، اور کفر کی حدود میں بلا روک ٹوک داخل کر دے.
یہ بات سنتے ہی عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ اس سوچ میں پڑ گئے کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے، وہ سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر جلاس کی اس دل آزار بات سے پہلو تہی اختیار کی گئی اور اس پر پردہ ڈالا گیا تو یہ صریحاً اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خیانت ہوگی، اور اس خاموشی اور پردہ داری سے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور اس طرز عمل سے ان منافقوں کو تقویت ملے گی جو در پردہ اسلام کو مٹانے کے لئے آپس میں مشورے کرتے رہتے ہیں، اور اگر اس راز کو افشاء کر دیا جائے تو پھر اس شخص پہ گراں گزرے گا جیسے میں والد کا درجہ دیتا ہوں، اور اس نے اپنے حسن سلوک اور فیاضی سے مجھے یتیمی کا احساس تک نہ ہونے دیا، اور اقتصادی تعاون سے مجھے مالدار بنا دیا اور مجھے باپ کی وفات کا غم بھلا دیا. میں نے سوچا کہ اس نازک مرحلہ پر کون سی کڑوی گولی نگلی جائے. پھر یکدم میں نے جلاس کی طرف متوجہ ہو کر کہا.
بخدا.! روئے زمین پر رسول اقدس حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تھے، لیکن آج آپ نے ایک ایسی بات کہی ہے کہ اگر لوگوں کے سامنے اس کا تذکرہ کرتا ہوں تو آپ رسوا ہو جائیں گے. اگر خاموش رہتا ہوں تو امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہوں. اس طرح میں اپنے آپ کو تباہ و برباد کر بیٹھوں گا، میں تو یہ بات رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو بتانے جا رہا ہوں اب آپ اپنا انجام سوچ لیں.
یہ کہہ کر حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف چل دئیے اور کچھ جلاس بن سوید کی زبانی سنا تھا، من و عن رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو بتا دیا. یہ بات سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بٹھا لیا اور جلاس کو بلانے کے لئے ایک صحابی کو بھیجا، تھوڑی ہی دیر بعد جلاس آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا، سلام عرض کیا اور آپ کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا.
آپ نے دریافت کیا کیا عمیر رضی اللہ عنہ کے سامنے تم نے یہ بات کی ہے کہ "محمد صلی اللہ علیہ و سلم دعوئے نبوت میں سچے ہیں تو ہم پھر گدھوں سے بھی بد تر ہیں."
اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم.! میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی، یہ سراسر جھوٹ بولتا ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جلاس اور عمیر رضی اللہ عنہ کو بغور دیکھنے لگے تاکہ ان کے چہروں کے تاثرات سے اندازہ لگا سکیں کہ ان میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے، حاضرین مجلس سر گوشیاں کرنے لگے، ایک منافق کہنے لگا. دیکھو یہ نوجوان سانپ کی مانند احسان فراموش نکلا کہ جس نے اسے دودھ پلایا، اسے ہی ڈنک مارا. دوسرے ساتھی کہنے لگے، نہیں بلکہ یہ نوجوان تو نہایت ہی شریف الطبع ہے، اس کی تو نشو ونما ہی اطاعت الہی کے ماحول میں ہوئی، اس کے چہرے کے تیور ہی بتاتے ہیں کہ اپنی بات میں سچا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا کہ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا ہے اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو جاری ہیں اور بے خودی کے عالم میں بارگاہ الہی میں یہ دعا کرتا ہے.
الہی.! میری بات اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح فرمادے.
الہی.! میری بات اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر واضح فرمادے.
یہ منظر دیکھ کر جلاس غصے سے آگ بگولا ہو کر کہنے لگا : حضور میں بالکل سچا ہوں، میں حلف دینے کے لئے تیار ہوں.
میں اللہ تعالٰی کی قسم کھا کر یہ کہتا ہوں کہ عمیر رضی اللہ عنہ نے میرے متعلق جو کچھ آپ کو کہا وہ بالکل جھوٹ ہے. بخدا! میں نے کوئی ایسی گستاخانہ بات نہیں کی.
ابھی اس نے اپنا حلفیہ بیان ختم نہیں کیا تھا کہ لوگوں کی نگاہیں عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی طرف منتقل ہوگئیں اتنے میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم پر غنودگی طاری ہوگئی، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پہچان گئے کہ اب وحی نازل ہوگی، ہر ایک اپنی اپنی جگہ سہم گیا اور سب کی نگاہیں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ انور پر جم گئیں، یہ منظر دیکھ کر جلاس پر خوف و ہراس طاری ہوگیا،
اور عمیر رضی اللہ عنہ کے چہرے خوشی کے آثار نمایاں ہونے لگے اور تمام حاضرین کی کیفیت بھی یہی تھی، یہاں تک کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے وحی کا اثر زائل ہوگیا، اور آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی..
*(("" یحلفون باللہ ما قالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفر و کفروا بعد اسلامھم و ھموا بما لم ینالوا و مانقموامنھم الا ان اغناھم اللہ و رسولہ من فضلہ فان یتوبوا یک خیرا لھم و یتولوا یعذبھم اللہ عذابا الیما فی الدنیا و الآخرۃ و ما لھم فی الارض من و لی ولا نصیر .. (التوبہ... 74) ""))*
یہ لوگ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے. وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے، یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فضل سے ان کو غنی کردیا ہے. اب یہ اپنی اس روش سے باز آئیں تو انہی کے لئے بہتر ہے. اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو دردناک سزا دے گا. دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو.
جلاس یہ آیت سن کر کانپ اٹھا. گھبراہٹ سے اس کی زبان گنگی ہوگئی. رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھا اور آہ و زاری کے ساتھ عرض کی.
یا رسول اللہ.! میری توبہ.!
یا رسول اللہ.! میری توبہ.!
یا رسول اللہ.! عمیر نے سچ کہا اور میں جھوٹا ہوں.
یا رسول اللہ.! اللہ سے کہیں کہ وہ میری توبہ قبول کر لے.
یا رسول اللہ.! میں آپ پر قربان.
اس موقع پر رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے نور ایمان سے چمکتے ہوئے چہرے کو دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپک رہے ہیں.
رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے نہایت شفقت سے اپنا دست مبارک عمیر رضی اللہ عنہ کے کان پر رکھا اور فرمایا:
میرے عزیز آپ کے اس کان نے بالکل صحیح سنا، اور اللہ تعالٰی نے اس کی تصدیق کر دی، اس حادثہ کے بعد جلاس بن سوید نے صدق دل سے توبہ کرکے دائرہ اسلام میں دوبارہ داخل ہوئے، اور پھر پوری زندگی صحیح اسلامی کردار پیش کیا
ابھی میں نے ایک جلیل القدر صحابی حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے بچپن کے روح پرور حالات سے آگاہ کیا. اب میں آپ کے سامنے بڑھاپے میں پیش آنے والے واقعات کی چند جھلکیاں پیش کرتا ہوں، آپ یہ محسوس کریں گے کہ یہ واقعات اپنی عظمت و رفعت کے اعتبار سے بچپن میں پیش آنے والے واقعات سے کچھ کم نہیں.
صورتحال یہ تھی کہ علاقہ حمص کے باشندے اپنے گورنر کے خلاف بڑے زبان دراز اور شکایتی واقع ہوئے تھے. جب ان کے پاس کسی کو گورنر بنا کر بھیجا جاتا تو وہ اس پر اعتراضات کی بوچھار کردیتے اور مختلف قسم کے عیب نکالنے لگتے. بالآخر اس کے خلاف زبردست محاذ قائم کرکے خلیفۃ المسلمین سے پر زور مطالبہ کرتے کہ اسے فوری طور پر تبدیل کر دیا جائے، اور اس کی جگہ کسی بہتر شخص کو متعین کیا جائے. اس دفعہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ عزم کیا کہ اب ایسا گورنر مقرر کروں گا جس کا کردار مثالی ہو اور باشندگان حمص کو انگشت نمائی کا موقع نہ ملے، اس منصب کے لئے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی نظر انتخاب حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ پر پڑی. لیکن وہ بلاد شام میں لشکر اسلام کے سپہ سالار کی حیثیت سے شہروں کو آزاد کرتے، قلعوں کو فتح کرتے، قبائل کو زیر فرماں کرتے، اور مفتوحہ علاقوں میں مسجد بناتے ہوئے بڑی تیزی سے آگے بڑھتے جارہے تھے، اس حوصلہ افزاء پیش قدمی کے باوجود امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے انہیں حمص کا گورنر مقرر کرتے ہوئے لکھا کہ آپ میرا یہ خط ملتے ہی حمص روانہ ہوجائیں اور وہاں پہنچ کر بحیثیت گورنر اپنے فرائض سر انجام دیں.
امیر المومنین کا حکم ملتے ہی حضرت عمیر رضی اللہ عنہ حمص روانہ ہوگئے. وہاں پہنچتے ہی لوگوں کو نماز کے لئے اکھٹا کیا. نماز کے اختتام پر ان سے خطاب کیا.
حمر و ثنا اور درود و سلام کے بعد فرمایا :
لوگو.! اسلام ایک ناقابل تسخیر قلعے اور ایک مضبوط دروازے کی مانند ہے، حقیقتاً اسلام کا قلعہ عدل و انصاف اور اس کا دروازہ حق و صداقت کا پیغام ہے.
سن لو.! اسلام کا قلعہ اس وقت تک ناقابل تسخیر رہے گا جب تک تمہارا سلطان طاقتور رہے گا. بلاشبہ سلطان کی طاقت کوڑے مارنے اور قتل و غارت کرنے میں نہیں، بلکہ اس کی طاقت کا راز عدل و انصاف اور حق و صداقت اختیار کرنے میں ہے، پھر آپ اپنے مختصر خطبے میں پیش کئے ہوئے دستور العمل کو نافذ کرنے کے لئے ہمہ تن مصروف ہو گئے.
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے حمص میں گورنر کی حیثیت سے ایک سال کا عرصہ گزارا، اس عرصے میں نہ تو امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو کوئی خط لکھا اور نہ بیت المال کے لئے کوئی رقم بھیجی. اس صورتحال سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے کیونکہ آپ گورنروں کے بارے میں بہت اندیشہ تھا کہ کہیں وہ عہد و منصب اور مال و متاع کے فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں. ان کے نزدیک رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کوئی معصوم نہیں تھا. آپ نے اپنے سیکرٹری سے کہا: عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو خط لکھو کہ جونہی میرا خط ملے حمص کو خیر باد کہہ کر سیدھے میرے پاس چلے آؤ. اپنے ساتھ وہ مال بھی لیتے آتا جو اب تک بیت المال کے لئے وصول کیا ہے
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا خط ملا تو فوراً ایک تھیلا جس میں کچھ زاد راہ تھا، ایک عدد برتن وضو کے لئے، اور ہاتھ میں اپنی کلہاڑی پکڑی اور حمص کی گورنری کو خیر باد کہہ کر کشاں کشاں سوئے مدینہ چل دئیے.
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ جب مدینہ پہنچے تو ان کا رنگ سیاہی مائل، جسم نہایت لاغر و نحیف ہو چکا تھا. سر اور داڑھی کے بال کافی بڑھ چکے تھے، سفر کی مشکلات کے آثار آپ کے چہرے اور جسم پر نمایاں تھے.
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ جب امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو وہ ان کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے، پوچھا عمیر تجھے کیا ہوا؟
عرض کی : امیر المومنین مجھے کچھ نہیں ہوا. میں الحمد للہ بالکل ٹھیک ہوں. میں آج آپ کے پاس اپنی تمام دنیا اٹھا لایا ہوں.
آپ نے عرض کیا : کیا تمہارے پاس دنیاوی مال و متاع کتنا ہے؟
فاروق اعظم کا خیال تھا کہ بیت المال سے بہت سا مال و متاع اپنے ہمراہ لائے ہیں.
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے بتایا : میرے پاس ایک تھیلا ہے جس میں میرا زاد راہ ہے، ایک پیالا ہے جس میں کھانا کھاتا ہوں اور اس سے اپنا سر اور کپڑے بھی دھوتا ہوں، ایک برتن پانی پینے اور وضو کرنے کے لئے ہے، اے امیر المومنین اس سامان کے علاوہ ساری دنیا میرے لئے فضول ہے، مجھے اس دنیا سے کوئی غرض نہیں.
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیا آپ حمص سے پیدل چل کر آئے ہیں؟
عرض کی : ہاں، یا امیر المومنین.
فرمایا : اتنے بڑے اور اہم منصب کے باوجود آپ کو ایک سواری بھی نہ دی گئی، جس پر آپ سوار ہو کر یہاں آتے.
عرض کی : نہ ہی باشندگان حمص نے کوئی سواری دی اور نہ ہی میں نے ان سے طلب کی.
آپ نے دریافت فرمایا : وہ مال و متاع کہاں ہے جو اپنے ہمراہ بیت المال کے لئے لائے ہو، عرض کی : میں تو اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لایا.
آپ نے پوچھا : کیوں؟
عرض کی : اب میں حمص پہنچا تو وہاں کے باشندوں میں سے صلحاء و اتقاء کو اکھٹا کیا اور ٹیکس جمع کرنے کا کام ان کے سپرد کر دیا، جب بھی وہ کوئی مال اکھٹا کرتے تو میں ان سے مشورہ لیتا اور مناسب جگہ خرچ کرتا اور مسکین میں تقسیم کر دیتا. یہ روداد سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک سیکرٹری سے کہا کہ عمیر رضی اللہ عنہ کے لئے حمص کی گونری کی تجدید کردو تاکہ یہ وہاں جاکر دوبارہ اپنا منصب سنبھال لیں. یہ بات سن کر حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا. بالکل نہیں. میں ہر گز یہ منصب نہیں چاہتا، امیر المومنین.! مجھے معاف کیجئے، میں آج کے بعد نہ تو آپ کے کہنے پر اور نہ آپ کے بعد کسی کے بھی کہنے پر یہ سنبھالوں گا. پھر آپ نے امیر المومنین سے مدینہ منورہ کی ایک نواحی بستی میں اپنے اہل و عیال کے کے ساتھ بسیرا کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی.
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو اس بستی میں آباد ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کے حالات معلوم کرنے کے لئے اپنے قابل اعتماد ساتھی جناب حارث کو حکم دیا کہ وہ عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس مسلمان بن کر جائیں.؛ گر وہاں مال و دولت کے آثار دیکھے تو فوراً اسی حالت میں واپس آجائیں، اگر دیکھے کہ تنگ حالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو یہ دینار انہیں دے دینا، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیناروں سے بھری ہوئی ایک تھیلی اس کے سپرد کی
جناب حارث امیر المومنین کا حکم سنتے ہی روانہ ہوئے، اور حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے گاؤں پہنچ کر ان کے گھر کا پتہ معلوم کیا، ان سے ملے، سلام عرض کیا، انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے سلام کا جواب دیا اور پوچھا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں.
جناب حارث نے بتایا کہ میں مدینہ منورہ سے حاضر ہوا ہوں.
پوچھا : باشندگان مدینہ کا کیا حال ہے.؟
عرض کی : سب خیریت سے ہیں.
پوچھا : امیر المومنین کیسے ہیں؟
عرض کی : بالکل ٹھیک ہیں.
پوچھا کیا آج کل وہ شرعی حدود نافذ نہیں کرتے.
کہا : کیوں نہیں، انہوں نے تو اپنے بیٹے کو عبرت ناک سزا دی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی، یہ سن کر آپ نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور کہا :
الہی : عمر رضی اللہ عنہ کی مدد فرما :
الہی : میں جانتا ہوں اسے تیرے ساتھ اور تیرے دین کے ساتھ والہانہ محبت ہے.
جناب حارث حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں تین دن ٹھہرے، ہر روز ان کی تواضع کے لئے جو کی صرف ایک روٹی پیش کی جاتی.
جب تیسرا دن گزرا تو ایک شخص نے کہا آپ نے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اور اس کے اہل خانہ کے لئے بہت مشکل پیدا کر دی ہے، ان کے پاس تو صرف یہی روٹی ہوتی ہے جو روزانہ تجھے کھلا دیتے ہیں، اس طرح مسلسل بھوکے رہنے سے تو وہ نڈھال ہو جائیں گے، اب آپ یہاں قیام کر نے کی بجائے میرے گھر تشریف لے چلیں.
یہ بات سنتے ہی جناب حارث نے دیناروں کی تھیلی حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کی.
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کیا ہے؟
جناب حارث نے بتایا، امیر المومنین نے آپ کے لئے کچھ رقم بھیجی ہے.
آپ نے فرمایا : یہ واپس لے جائیں، امیر المومنین کو میرا سلام کہنا، اور یہ عرض کرنا کہ عمیر کو اس رقم کی کوئی ضرورت نہیں.
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کی بیوی یہ باتیں سن رہی تھی، اس نے کہا عمیر یہ رقم لے لو. اگر تمہیں ضرورت پڑی تو خرچ کر لینا ورنہ محتاجوں میں تقسیم کر دینا.
جب جناب حارث نے خاتون کی یہ بات سنی تو دیناروں کی تھیلی حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دی اور وہاں سے چل دئے.
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے وہ دینار لئے اور اسی رات تمام کے تمام حاجت مندوں اور شہداء کے بچوں میں تقسیم کر دیئے
جب جناب حارث واپس مدینہ منورہ پہنچے تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا، آپ نے وہاں کیا منظر دیکھا؟
عرض کی امیر المومنین بہت ہی تنگ دستی دیکھی.
آپ نے فرمایا : کیا تم انہیں دینار دے آئے ہو.؟
عرض کی : ہاں امیر المومنین.
آپ نے دریافت کیا : انہوں نے وہ دینار کیا کئے؟
عرض کی : مجھے علم نہیں، البتہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے ایک درہم بھی اپنی ذات کے لئے نہیں رکھا ہوگا. یہ سن کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ فوراً مدینہ پہنچو اور مجھے سے ملو.
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ خط ملتے ہی مدینہ روانہ ہو گئے، امیر المومنین کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو خوش آمدید کہا، اور نہایت احترام سے اپنے پاس بٹھایا. پھر محبت بھرے انداز میں پوچھا :
عمیر میں نے جو دینار بھیجے تھے، انہیں آپ نے کہاں صرف کیا؟
آپ نے فرمایا : امیر المومینین! آپ مجھے دینار دینے کے بعد ان کے متعلق کیوں پوچھتے ہیں؟
آپ نے فرمایا : میری دلی تمنا ہے کہ میں حقیقت حال معلوم کروں، براہ مہربانی آپ ضرور بتائیں فرمایا : میں نے وہ جمع کر لئے ہیں تاکہ اس دن کا آسکیں جس دن مال اور اولاد کام نہ آ سکیں گے. یہ سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.
اور فرمایا : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان بندگان خدا میں سے ہیں، جو ضرورت کے باوجود دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں، پھر آپ نے حکم دیا کہ ان کے لئے اناج اور کپڑوں کا جوڑا فوراً تیار کیا جائے.
آپ نے فرمایا : امیر المومنین، اناج کی تو مجھے کوئی ضرورت نہیں، میں یہاں آتے ہوئے اہل خانہ کے لیے تھوڑا چھوڑ آیا ہوں، جب یہ ختم ہوں گے، تو اللہ تعالٰی ہمیں اور رزق عطا فرمادیں گے، البتہ کپڑوں کا جوڑا میں اپنی بیوی کے لیے لے جاتا ہوں، کیونکہ اس کا لباس بہت بوسیدہ ہو چکا ہے.
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس ملاقات کو ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا، کہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو رب ذوالجلال کی طرف سے بلاوا آگیا تاکہ یہ اپنے پیارے نبی سرور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے جا ملیں اور دلی تمنا کے مطابق اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکیں، کیونکہ بڑی شدت سے انہیں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے ملنے کا اشتیاق تھا، اور وہ آخرت کے سفر پر اطمینان دل سے روانہ ہوئے، اس طرح کہ ان کے کندھوں پر دنیا کا کوئی بوجھ نہ تھا، البتہ آپ کے پاس نور و ہدایت اور تقوی و اخلاص کی دولت تھی.
جب آپ کے وصال کی خبر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ملی تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، اور آپ نے شدید حزن و ملال کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :
میری دلی تمنا ہے کہ عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ جیسے مجھے ساتھی ملیں تاکہ امور سلطنت میں ان سے مدد لے سکوں..
اللہ تعالٰی حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے راضی اور وہ اپنے اللہ سے راضی، یہ بلاشبہ یکتائے روزگار، انمول موتی، اور درس گاہ نبوت کے لائق و فائق طالب علم تھے.
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.
1. الاصابہ مترجم 6036
2. الاستیعاب 247/2
3. اسد الغابہ 293/1
4. سیر اعلام النبلاء 86/1
5. حیاۃ الصحابہ فہرست دیکھئے.
6. قادۃ فتح العراق و الجزیرۃ 53
7. الاعلام 264/5
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد ۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments