حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ
*جو مال تو نے راہ خدا میں خرچ کیا اس میں اللہ تعالٰی برکت عطا کرے اور جو مال اپنے پاس رکھا اس میں بھی برکت عنایت کرے..*
*( دعا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم)*
آپ ان آٹھ خوش نصیب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں جنہیں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا.
ان دس جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں جنہیں دنیا میں جنت کی بشارت دی گئی.
ان چھ ذیشان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک ہیں جنہیں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے لئے مقرر کیا گیا.
ان جید علماء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک جسے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ میں فتوی جاری کرنے کی اجازت تھی.
زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبد عمرو تھا، جب اسلام قبول کیا تو رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نام عبد الرحمن رکھا. جو بعد میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہوئے.
اللہ تعالٰی ان سے راضی اور یہ اپنے اللہ سے راضی.
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے دار ارقم میں بیٹھ کر تعلیم و تربیت کا آغاز کرنے سے پہلے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے دو روز بعد اسلام قبول کر لیا تھا. اسلام کی راہ میں تمام مصیبتیں برداشت کیں جو صف اول کے مسلمانوں نے جھیلی تھیں، لیکن آپ نے کمال صبر و تحمل سے کام لیا.. آپ راہ حق و صداقت میں ثابت قدم رہے.
آپ نے دین کی حفاظت کے لئے صف اول کے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کا سفر اختیار کیا.
جب کفار کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کی کوئی انتہا نہ رہی، تو اللہ تعالٰی نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مدینہ منورہ ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی تو یہ ان کی عالی مقام مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سر فہرست تھے، جو سوئے مدینہ دیوانہ وار چلے، جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارے کی فضا قائم کی، تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے مابین رشتہ اخوت قائم ہوا.
حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنے دینی بھائی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا :
اے بھائی جان.! میں اہل مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، میرے دو باغ ہیں اور دو بیویاں. ان میں سے جو باغ آپ کو پسند ہے میں اسے آپ کے نام کر دیتا ہوں اور ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں تاکہ آپ اس سے شادی کر کے اپنا گھر بسا لیں.
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ تعالٰی آپ کے اہل و عیال اور مال میں برکت عطا فرمائے. آپ مجھے منڈی کا پتہ بتادیں، میں وہاں محنت کر کے کماؤں گا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ کی منڈی میں تجارت کا پیشہ اپنایا، اور اس کاروبار میں اللہ تعالٰی نے اتنی عطا فرمائی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اچھی خاصی رقم جمع ہو گئی
ایک روز رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ سے عطر کی مہک آرہی تھی.
رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے خوش طبعی سے فرمایا : عبدالرحمن.! یہ کیا؟
با ادب بولے : حضور.! میں نے شادی کرلی ہے.
آپ نے پوچھا : بیوی کو کتنا مہر دیا ہے.؟
عرض کی : سونے کی ایک ڈلی.
آپ نے فرمایا : ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ذبح کرو، اللہ تعالٰی آپ کے مال و دولت میں برکت عطا فرمائے.
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : دنیا مجھ پر فریفتہ ہے، میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا ہوں تو اس کے نیچے سے سونا اور چاندی ہاتھ لگتا ہے.
میدان بدر میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرتے ہوئے مقابلے میں آنے والے دشمن دین عمیر بن عثمان بن کعب کا سر تن سے جدا کر دیا.
غزوہ احد میں یہ اس وقت ثابت قدم رہے جب عام مجاہدین کے قدم ڈگمگا گئے تھے، اور یہ اس وقت چٹان کی طرح جمے رہے جب کہ شکست خوردہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے. جب آپ اس جہاد سے فارغ ہوئے تو جسم پر بیس سے زائد گہرے زخم آ چکے تھے اور ان میں سے بعض اتنے گہرے کہ ان میں پورا ہاتھ داخل ہو سکتا تھا.
اگر جانی اور مالی جہاد کا موازنہ کیا جائے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جانی کی بجائے مالی جہاد میں وہ دو قدم آگے نظر آتے ہیں.
ایک دفعہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے لشکر ترتیب دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہ اعلان کیا.
*" جہاد فنڈ میں چندہ دو، میں دشمن کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کرنا چاہتا ہوں "*
یہ اعلان سنتے ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جلدی سے اپنے گھر گئے اور اسی وقت واپس لوٹ آئے اور عرض کی :
یا رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم.! گھر میں چار ہزار دینار تھے، دو ہزار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور دو ہزار اپنے اہل و عیال کے لئے گھر چھوڑ آیا ہوں.
رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا : جو تونے اللہ کی راہ میں پیش کئے، انہیں اللہ تعالٰی قبول فرمائے اور جو اہل و عیال کے لئے باقی رکھے ان میں برکت عطا فرمائے.
رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ تبوک کا ارادہ کیا. یہ وہ آخری جنگ ہے جو آپ نے لڑی، اس میں مردان جنگ کی طرح مال و دولت کی بھی شدید ضرورت تھی، کیونکہ رومی لشکر بہت بڑا تھا، اس کے پاس مال ومتاع کی بھی ریل پیل تھی، سفر بڑا طویل اور دشوار گزار تھا، سواری کے لئے اونٹ اور گھوڑے بہت تھوڑی تعداد میں دستیاب تھے.
یہ منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ چند اہل ایمان نے جہاد میں شرکت کے لئے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کی اور آپ نے ان کی درخواست محض اس لئے مسترد کردی کہ ان کے لئے سواری کا کوئی انتظام نہیں. زاروقطار روتے ہوئے واپس لوٹے اور یہ کہتے جا رہے تھے
کاش.! آج ہمارے پاس زاد راہ ہوتا، سواری کا انتظام ہوتا تو آج اس عظیم شرف سے محروم نہ ہوتے، غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہونے والے لشکر کو جیش العسرۃ یعنی لشکر تنگ حال کا نام دیا گیا
اس اہم ترین موقع پر رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور یہ ترغیب دلائی کہ اس کا اجر اللہ تعالٰی کے یہاں بہت ملے گا.
مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے صدقہ و خیرات جمع کرانے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھے، اس دفعہ بھی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا پایہ بھاری رہا اور جہاد کے لئے بے دریغ چندہ جمع کرایا، ان کا یہ انداز دیکھ کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : یوں لگتا ہے کہ آج عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گھر والوں کے لئے کچھ باقی نہیں رہنے دیا، سارا مال حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں لاکر ڈھیر کردیا ہے، رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا :
عبدالرحمن! کیا تم کچھ مال گھر والوں کے لئے بھی چھوڑ آئے ہو.
عرض کی : ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم.! جتنا آج آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اس سے زیادہ اور عمدہ مال اہل خانہ کے لئے چھوڑ آیا ہوں.
آپ نے پوچھا کتنا.؟
عرض کی : کیا اللہ تعالٰی نے اس کی راہ میں خرچ کرنے پر رزق کی فراوانی، خیرو برکت اور اجر و ثواب کا وعدہ نہیں کیا؟
لشکر اسلام تبوک کی طرف روانہ ہوگیا، اس سفر میں اللہ تعالٰی نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو وہ شرف عطا کیا جو اس سے پہلے کسی کو حاصل نہ ہوا، وہ اس طرح کہ نماز کا وقت ہو گیا. رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما نہ تھے، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امامت کے فرائض انجام دیئے پہلی رکعت ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لے آئے اور جماعت میں شامل ہو گئے، آپ نے یہ نماز حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں پڑھی.
یہ ہے نصیب کی بات : یہ کتنا بڑا شرف ہے کہ سید المرسلین، رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین اپنے جاں نثار صحابی کی امامت میں نماز ادا کر رہے ہیں.
رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ امہات المومنین، ازواج مطہرات کے گھریلو اخراجات کا خیال رکھتے. جب انہیں سفر پر جانا ہوتا تو خدمت کے لئے ساتھ ہو لیتے، جب سفر حج کا ارادہ کرتیں تو آپ ان کے لئے سواری کا انتظام کرتے، ہودج پر سبز رنگ کا نہایت ہی عمدہ کپڑا ڈلوا دیتے، دوران سفر جو جگہ بھی انہیں پسند آتی، وہیں پڑاؤ کرنے کا فوری انتظام کرتے، بلاشبہ یہ بہت بڑا شرف ہے جو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا، امہات المومنین کو ان پر بہت اعتماد تھا جس پر یہ اللہ تعالٰی کا ہر دم شکر ادا کرتے رہتے.
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا عام مسلمانوں اور خاص طور پر امہات المومنین کے ساتھ حسن سلوک کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنی زمین چالیس ہزار دینار میں فروخت کی اور یہ ساری رقم رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ ماجدہ کے خاندان بنی زہرہ اور اہل اسلام میں سے فقراء و مساکین اور ازواج مطہرات میں بانٹ دی،
جب ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ان کا حصہ پیش کیا گیا تو آپ نے پوچھا :
یہ مال کس نے بھیجا ہے، آپ کو بتایا گیا. حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے.
آپ نے فرمایا : ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیویوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا تھا : *میرے بعد صرف وہی لوگ تمہاری خدمت بجا لائیں گے جو صابر و شاکر ہوں گے*
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائے خیر و برکت پوری زندگی ان پر سایہ فگن رہی، یہاں تک کہ آپ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ مالدار اور صاحب ثروت ہو گئے، آپ کی تجارت مسلسل نفع بخش ہوتی چلی گئی ۔ آپ کے تجارتی قافلے مدینہ منورہ آتے تو باشندگان مدینہ کے لئے گندم، گھی، کپڑے، برتن، خوشبو اور دیگر ضروریات کی چیزیں اپنے ساتھ لاتے اور جو اشیاء بچ جاتیں انھیں دوسری منڈی میں منتقل کر دیتے۔
ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا سات سو اونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوا، سب اونٹنیاں ساز وسامان سے لدی ہوئی تھیں، جب یہ قافلہ وہاں پہنچا تو زمین تھر تھرانے لگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا آج یہ تھرتھراہٹ کیسی ہے۔ آپ کو بتایا گیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا سات سو اونٹنیوں پر مشتمل تجارتی قافلہ آرہا ہے۔
یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں اور بارگاہ الہی میں دعا کی ۔
الہی! یہ جو کچھ تو نے انھیں دنیا میں دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور آخرت میں اس سے بڑھ کر اجروثواب سے نوازنا۔
پھر کہنے لگیں کہ میں نے رسول اقدس صل اللہ علیہ و سلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: "حضرت عبدالرحمن بن عوف جنت میں خوشی سے اچھلتے ہوئے داخل ہوگا" ۔
اس سے پہلے کہ تجارتی قافلہ پڑاو کرتاایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی، جب آپ نے یہ بشارت سنی تو خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ دوڑتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور عرض کی: اماں جان! کیا آپ نےمیرے لیے جنت کی بشارت کے کلمات رسول اقدس صل اللہ علیہ و سلم کی زبان سے خود سنے ہیں۔
فرمایا: ہاں۔ یہ سن کر کچھ نہ پوچھیے انکی خوشی کا کیا عالم تھا۔ فرمانے لگے: اماں جان! گواہ رھنا میں اس خوشی میں سات سو اونٹنیوں پر مشتمل اپنا تجارتی قافلہ مع ساز وسامان کے اللہ کی راہ میں پیش کرتا ہوں
جس دن سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت ملی اس دن سے اور زیادہ حوصلہ کے ساتھ اللہ کی راہ میں دونوں ہاتھوں سے بے دریغ دائیں بائیں، خفیہ و اعلانیہ خرچ کرنے لگے، یہاں تک کہ چالیس ہزار دینار اللہ کی راہ صرف کر دیئے ۔
ایک دفعہ مجاہدین اسلام کے لیے پانچ سو تربیت یافتہ جنگی گھوڑے اور ایک دوسرے موقع پر ایک ہزار پانچ سو عربی النسل اصیل گھوڑے مجاہدین کے لئے خریدے.
وفات سے چند روز پہلے تمام غلام آزاد کر دیے، اور یہ نصیحت بھی لکھوائی کہ اھل بدر میں سے جو صحابہ بھی زندہ ہوں ان میں سے پر ایک کو چار سو دینار میرے مال میں سے دے دیئے جائیں ۔
جن بدری صحابہ نے وصیت کے مطابق یہ رقم وصول کی ان کی تعداد تقریبا ایک سو تھی۔
وصیت میں یہ بھی لکھوایا کہ امہات المومنین میں سے ہر ایک کو میری جائیداد میں سے وافر حصہ دیا جائے ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اکثر انکے حق میں یہ دعا کرتیں ۔
"الہی! عبدالرحمن بن عوف کو جنت کے ٹھنڈے میٹھے چشمے سلسبیل سے پانی پلانا۔"
وصیت کے مطابق مال تقسیم کرنے کے بعد بھی ورثاء کے لئے بہت سا مال بچ گیا، انھوں نے ورثہ میں ایک ہزار اونٹ، چار سو گھوڑے، تین ہزار بکریاں اور سوگواروں میں چار بیویاں چھوڑیں۔
ان میں سے ہر ایک کے حصہ میں اسی اسی ہزار دینار آئے، ورثاء میں سونا اور چاندی تقسیم کرنے کے لئے سونے اور چاندی کی ڈلیوں کو کلہاڑی سے کاٹنا پڑا، جس سے کاٹنے والوں کے ہاتھ زخمی ہوگئے ۔
یہ سب رسول اقدس صل اللہ علیہ و سلم کی اس دعا کا اثر تھا جو آپ نے ان کے مال و متاع میں خیر وبرکت کے لئے کی تھی۔
وافر مقدار میں مال و دولت سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نہ کسی دنیاوی فتنہ میں مبتلا ہوئے اور نہ انکی ظاہری حالت میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی، جب لوگ انھیں اپنے خدام اور غلاموں کے درمیان دیکھتے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے ۔
ایک روز آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، آپ کا روزہ تھا، افطار کا وقت قریب تھا۔ آپ نے پر تکلف کھانے کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: حضرت وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور مجھ سے کہیں بہتر تھے۔ ہمارے پاس کفن کے لئے اتنا کپڑا تھا کہ اگر ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانکتے تو سر ننگا ہو جاتا، پھر اللہ تعالٰی نے ہمارے لئے دنیاوی مال و متاع کی فراوانی کر دی، مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں دنیا ہی میں ھمیں نمٹا نہ دیا ہو۔
اس کے بعد آپ نے زار وقطار رونا شروع کردیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر ہزار رشک قربان، آپ کو صادق و مصدق سید المرسلین، شفیع المذنبین، رسول اقدس صل اللہ علیہ و سلم نے زندگی میں جنت کی بشارت دی۔
آپکے جسد خاکی کو رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے ماموں حضرت سعد ابن وقاص رضی اللہ عنہ نے لحد میں اتارا۔
آپکی نماز جنازہ حضرت ذو النورین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ۔
جنازے کے پیچھے چلتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: "اے عبدالرحمن تو نے کھرے سکے حاصل کئے اور کھوٹے سکے مسترد کر دئیے" ۔ اور جنت کے خالص و پاکیزہ ماحول کو پا لیا۔ اللہ آپ پر رحم فرمائے ۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں:-
1۔ صفتةالصفوه 257/2
2. حلیةا ولیاء 98/1
3۔تاريخ الخمیس 257/2
4۔ البدء والتاريخ 86/5
5۔ الریاض النضرة 241/2
6۔ الجمع بین رجال الصحیحین 241
7۔ الاصابةالمترجم 5171
8۔ السیرةالنبویةلابن ھشام فھرست دیکھیں۔
9۔ حیاةالصحابه 163/6
10۔ البدایةوالنہایة 340/2
11۔ الطبقات الکبرى 340/2
12۔ تھذیب التھذیب 162/6
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد ۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments