حضرت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت جعفر ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
*میں نے جعفر کو جنت میں یوں دیکھا کہ اسکے دونوں بازو اور پاؤں خون میں لت پت تھے* (فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم)
بنو عبد مناف میں پانچ اشخاص ایسے تھے جن کی شکل و صورت رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے ملتی جلتی تھی۔ ایسی مشابہت تھی کہ کمزور نظر والا اکثر و بیشتر دھوکا کھا جاتا، بلا شبہ آپ اب پانچ اشخاص کے نام جاننا چاہیں گے جو رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حد درجہ مشابہت رکھتے تھے ۔
لیجیے ہم آپ کو انکا تعارف کرائے دیتے ہیں۔
1۔ حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی تھے
2۔ حضرت قثم بن عباس بن عبدالمطلب یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے ۔
3۔ حضرت سائب بن عبید بن عبد یزید بن ھاشم یہ امام شافعی کے جد امجد تھے ۔
4۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے نواسے ان کی رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت تھی۔
5۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یہ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے ۔
اب ان کی زندگی کے چند اہم واقعات اور نمایاں پہلو پیش خدمت ہیں ۔
ان کے والد ابو طالب اپنی قوم قریش میں اعلی مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود مالی اعتبار سے نہایت کمزور اور کثیر العیال تھے۔ قریش ایک مرتبہ قحط سالی کا شکار ہو گئے، کھیتی باڑی تباہ ہو گئی، مویشی ہلاک ہو گئے نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ ہڈیاں پیس کر کھانے لگے۔ ان دنوں بنو ھاشم میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ خوش حال تھے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عباس سے کہا: چچا جان آپکا بھائی ابو طالب کثیر العیال ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ قحط سالی کی بنا پر فاقہ کشی پر مجبور ہیں، فقر اور افلاس حد سے بڑھ چکا ہے۔ اس نازک صورتحال میں ہمیں انکی بھرپور مدد کرنی چاہیے، آئیے انکے پاس چلیں انکی ڈھارس بندھائیں، ایک بیٹے کی کفالت میں اپنے ذمہ لیتا ہوں ایک کی کفالت کا ذمہ آپ اٹھائیں۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے۔
آپ نے بہت اچھی تجویز دی ہے، ایک نیک اور اہم کام کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اس کے بعد دونوں ابو طالب کے پاس گئے، دونوں نے بیک زبان کہا ہم آپ کا کچھ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا چاھتے ہیں تاکہ اس خشک سالی و بدحالی کے پر آشوب دور میں آپ کے لیے کچھ آسانی پیدا ہو سکےاور آپ اس آفت سے بچ سکیں جس نے عام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ابو طالب نے جواب دیا : بیٹے عقیل کے علاوہ میری اولاد میں سے جسے بھی آپ اپنی کفالت میں لینا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کو اپنے ساتھ ملا لیا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو دین حق اور رشد ہدایت کا پیامبر بنا کر بھیجا تو حضرت علی بچپن ہی میں آپ پر ایمان لے آئے
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس پہلے مرحلے میں ہی مسلمانوں کے اس قافلے میں شامل ہوگئے تھے، دونوں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اس وقت مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ ابھی رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم تعلیم و تربیت کے لئے دات ارقم میں تشریف فرما نہیں ہوئے تھے، یہ ہاشمی جوان اور ان کی جواں سال بیوی اسلام قبول کرنے کی پاداش میں قریش کی اذیتوں کا نشانہ بنے، لیکن دونوں نے کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، کیونکہ دونوں یہ بات جانتے تھے کہ جنت کا راستہ خاردار اور نہایت ہی دوشوار گزار ہے، لیکن جو چیز ان کے دل پر سب سے زیادہ گراں گزرتی وہ یہ تھی کہ قریش اسلامی تعلیمات پہ عمل پیرا ہونے، لذت عبادت سے شاد کام ہونے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے، قریش نے ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا.
اس تکلیف دہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے سر زمین حبشہ کی جانب ہجرت کر جانے کی اجازت طلب کی. آپ نے انہیں بادل نخواستہ اجازت دے دی. ان کے ہمراہ بیوی اور دیگر چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے، رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ بات بہت گراں گزر رہی تھی کہ پاکیزہ نفوس ہستیوں کو آج اپنے وہ گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو ان کے بچپن کی آماجگاہ اور عہد شباب کی جولا نگاہ تھے، ان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے بر سر عام یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہمارا رب فقط اللہ ہے، آپ کو اس وقت یہ قوت حاصل نہ تھی کہ اپنے ان مظلوم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بزور بازو دفاع کر سکیں اور قریش کی اذیت سے انہیں بچا سکیں.
مہاجرین مکہ کا یہ پہلا قافلہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حبشہ کی طرف روانہ ہوا، وہاں جاکر حبشہ کے عادل اور نیک دل بادشاہ نجاشی کی پناہ میں رہائش پذیر ہوگئے، جب سے انہوں نے اسلام قبول کیا تھا، یہاں پہنچ کر پہلی مرتبہ امن و سکون کا سانس لیا اور عبات الہی کی لذت و حلاوت سے شاد کام ہوئے. یہاں ان کی عبادت گزاری اور سعادت مندی کے پر امن ماحول کو مکدر کرنے والا کوئی نہیں تھا.
جب قریش کو یہ علم ہوا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت سر زمین حبشہ میں آباد ہو چکی ہے اور انہیں وہاں اپنے دین پر عمل کرنے اور عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی ہے، قریش نے آپس میں مشورہ کیا کہ کسی بہانے ان مسلمانوں کو واپس بلایا جائے اور یہاں پہنچتے ہی یا تو انہیں قتل کردیا جائے یا پھر دردناک سزا دی جائے، یہ عجیب داستان ہم آپ کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سناتے ہیں، کیونکہ اس واقعہ کی عینی شاہد ہیں.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، جب ہم حبشہ میں فروکش ہوئے تو ہمیں یہاں پر امن ماحول میسر آیا. ہم یہاں بے خوف و خطر اپنے دین پر عمل پیرا تھے اور اللہ تعالٰی کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے، اب ہمیں یہاں نہ کوئی ایذاء پہنچانے والا تھا اور نہ ہی کوئی برا بھلا کہنے والا تھا، جب قریش کو ہمارے اطمینان اور خوشحالی کا علم ہوا تو وہ آگ بگولا ہوگئے اور آپس میں مشورہ کرکے اپنے میں سے دو نہایت چوکس، چالاک اور جفاکش نمائندے نجاشی کے پاس بھیجے، ان میں سے ایک عمرو بن عاص تھا اور دوسرا عبداللہ بن ابی ربیعہ تھا، حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو متاثر کرنے کے لئے بہت سے قیمتی تحائف ان کے ہاتھ بھیجے. قریش نے ان دونوں کو یہ ہدایت کی کہ شاہ حبشہ کی ملاقات سے پہلے اس کی کابینہ کے ارکان سے مل لینا اور ہر ایک کی خدمت میں تحفہ بھی پیش کرنا
جب وہ دونوں حبشہ پہنچے تو پارلیمنٹ کے ہر ممبر سے ملاقات کی اور انہیں تحائف پیش کئے. ان میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہا جسے تحفہ نہ دیا گیا ہو.
ہر درباری کو تحفہ پیش کرنے کے بعد اسے کہتے کہ آپ کے ملک میں ہمارے خاندان کے چند ایک دیوانے وارد ہوئے ہیں، جنہوں نے اپنے آبا و اجداد کا دین ترک کر دیا ہے اور اپنی قوم میں تفریق پیدا کردی ہے، ہماری گزارش یہ ہے کہ جب ہم اس موضوع پر بادشاہ سے بات کریں تو آپ ہماری تائید کریں، اور بادشاہ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ انہیں ہمارے سپرد کردے، ہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بادشاہ سلامت ان کے دین کے متعلق ان میں سے کسی سے بھی سوال نہ کرے، کیونکہ ہم ان کے متعلق زیادہ بہتر جانتے ہیں.
سب نے کہا : بالکل درست، ہم بادشاہ کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ انہیں غیر مشروط طور پر آپ کے سپرد کردے.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
عمرو بن عاص اور اس کے ساتھی کو سب سے زیادہ یہی خطرہ تھا کہ نجاشی کہیں ہم میں سے کسی مسلمان کو اپنے پاس بلا کر حقیقت حال دریافت نہ کرلے.
قریش کے دونوں نمائندے نجاشی کے دربار پہنچے اور قیمتی تحائف اس کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد عرض کی.
بادشاہ سلامت.! ہم ملک عرب کے رہنے والے ہیں اور ایک درخواست لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، امید ہے آپ اسے شرف قبولیت بخشیں گے، عرض یہ ہے کہ ہماری قوم کے چند شر پسند عناصر راہ فرار اختیار کرتے ہوئے آپ کی سلطنت میں آکر آباد ہوئے ہیں. وہ ایک ایسے دین کے علمبردار ہیں جسے نہ آپ جانتے ہیں اور نہ ہی ہم، ہمارے دین سے وہ منحرف ہوگئے اور آپ کے دین کو بھی قبول نہیں کیا.
ہمیں آپ کے پاس سرداران قریش نے بھیجا ہے، اور یہ بھی قریش کے خاندان سے ہیں، ہمیں بھیجنے والوں میں ان کے باپ، چچا اور خاندان کے دیگر افراد بھی شامل ہیں، ان سب کا مطالبہ ہے. کہ از راہ کرم ان سب کو ہمارے حوالے کردیں، وہ خوب جانتے ہیں جو انہوں نے فتنہ برپا کر رکھا ہے.
ان کی پوری بات نہایت اطمینان کے ساتھ سن کر نجاشی نے اپنے وزراء کی طرف دیکھا اور ان سے رائے طلب کی، سب نے بیک زباں یہ کہا، بادشاہ سلامت ہماری رائے کے مطابق یہ دونوں سچ کہتے ہیں، ان کی قوم زیادہ بہتر جانتی ہے وہ ان کی کاروائیوں سے بخوبی واقف ہیں، بہتر یہی ہے انہیں لوٹا دیا جائے، وہ خود ہی ان سے نپٹ لیں گے. بادشاہ وزراء کی بات سن کر آگ بگولا ہوگیا، اور گرجدار آواز میں کہا :
بخدا.! میں اس وقت تک انہیں کسی کے سپرد نہیں کروں گا جب تک انہیں پاس بلا کر صحیح صورت حال معلوم نہیں کر لیتا، اگر صورت حال ایسی ہی ہوئی جو یہ بیان کرتے ہیں، تو میں اسی وقت انہیں ان کے سپرد کردوں گا، اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا تو میں ان کی بھرپور مدد کروں گا، جب تک وہ یہاں رہنا چاہیں گے، انہیں مکمل آزادی حاصل ہوگی، اور میری طرف سے ہر قسم کی سہولت مہیا کی جائے گی
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، نجاشی نے ہمیں دربار میں طلب کیا، ہم نے اس کے پاس جانے سے پہلے باہمی مشورہ کیا، بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ بادشاہ ملاقات کے دوران ہمارے دین کے متعلق ضرور پوچھے گا. اگر وہ یہ پوچھے تو ہمیں اپنے ایمان کے مطابق صحیح جواب دینا چاہیے، اور دوسرا فیصلہ ہم نے یہ کیا کہ ہماری طرف سے صرف جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بادشاہ سے بات کریں گے.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
ہم نجاشی کے پاس پہنچے تو وہاں بہت سے علماء جبہ و دستار پہنے مذہبی کتابیں کھولے بادشاہ کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے دیکھا، وہاں قریش کے دونوں نمائندے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ موجود ہیں، جب محفل جم گئی تو نجاشی نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا،
یہ کون سا دین ہے جسے تم نے اختیار کر رکھا ہے، اور اس کی وجہ سے اپنے آبائی دین کو آپ لوگوں نے ترک کر دیا ہے، نہ ہی تم نے میرا دین قبول کیا اور نہ ہی دیگر اقوام کے دین کو تسلیم کیا؟
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دو قدم آگے بڑھے اور فرمایا :
بادشاہ سلامت، ہم جاہل تھے، بتوں کے پجاری تھے، مردار کھاتے، بے حیائی کا ارتکاب کرتے، ظلم و تشدد سے کام لیتے، ہمسایہ سے بدسلوکی سے پیش آتے، ہم میں سے طاقتور کمزور کو ہڑپ کر جاتا، ہم ان جرائم میں ملوث زندگی بسر کر رہے تھے کہ اللہ تعالٰی نے ہمارے پاس ایک رسول بھیجا جس کے حسب و نسب، صداقت و امانت اور پاکدامنی کو ہم جانتے تھے.
اس نے ہمیں ایک اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اس کی توحید کا اقرار کریں، اسی کی عبادت کریں، بتوں کی عبادت سے کنارہ کشی اختیار کر لیں، نیز اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، صلہ رحمی سے پیش آنے اور ہمسایوں سے حسن سلوک کا حکم دیا، اور ساتھ ہی بے حیائی، کذب بیانی، یتیموں کا مال کھانے اور جملہ حرام چیزوں سے مکمل طور پر اجتناب کرنے کا حکم دیا.
پاکدامن عورتوں پہ تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں.
ہمیں نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا. ہم نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت کا اعتراف کیا، آپ پر ایمان لائے، اور جو حکم بھی آپ نے دیا، ہم نے سر تسلیم خم کیا، جو آپ نے ہمارے لئے حلال قرار دیا، ہم نے اسے حلال سمجھا اور جسے حرام قرار دیا اسے ہم نے حرام سمجھا.
بادشاہ سلامت.! ہماری اطاعت و شعاری کا منظر دیکھ کر ہماری قوم کے افراد ہمارے دشمن بن گئے، ہمیں اذیت ناک سزائیں دی گئیں تاکہ ہم توحید سے برگشتہ ہوکر دوبارہ شرک کی دلدل میں پھنس جائیں، جب انہوں نے ظلم و ستم کی انتہا کردی، ہم پہ عرصہ حیات تنگ کردیا تو ہم عافیت کی تلاش میں آپ کے اس ملک کی طرف نکل آئے، یہاں آکر اطمینان کا سانس لیا، ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ کے ہوتے ہوئے ہم پہ کوئی ظلم و ستم نہیں ہوگا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
نجاشی حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کیا آپ کے پاس کوئی ایسا پیغام ہے جو اللہ تعالٰی نے رسول مقدس صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیا ہو.؟
کہا : ہاں.! اس نے مطالبہ کیا مجھے وہ کلام پڑھ کر سناؤ.
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی :
*== کھیعص ہ ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا ہ اذ نادی ربہ نداءا خفیا ہ قال رب انی وھن العظم منی واشتعل الراس شیبا ولم اکن بدائک رب شقیا ہ ==*
*(سورہ مریم 1 سے 4)*
*" ک، ھ، ع، ص ذکر ہے اس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی، جبکہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا، اس نے عرض کیا : اے پروردگار میری ہڈیاں تک کھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے چمک اٹھا ہے، اے پروردگار میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا. "*
*(سورہ مریم آیات 1 سے 4)*
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات انتہائی سوز و گداز سے پڑھیں، نجاشی پر ان آیات کا اتنا اثر ہوا کہ وہ زار و قطار رونے لگے ان کے آگے کھلی ہوئی کتابیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں.
مجلس میں سناٹا سا چھا گیا، نجاشی کے آنسو خشک ہوئے تو بولا، یہ پیغام جو رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم لے کر آئے ہیں اور جو پیغام حضرت عیسی علیہ السلام نے سنایا تھا، بالکل اس روشنی کی مانند ہے جو ایک طاقچے سے پھوٹ رہی ہو.
پھر قریش کے دونوں نمائندوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا، تم میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ، اللہ کی قسم.! میں قطعاً انہیں تمہارے سپرد نہیں کروں گا، جب تک یہاں چاہیں میری ملک کی آزاد فضاؤں میں زندگی بسر کریں، میں ان کی ہر ممکن خدمت بجا لاؤں گا
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
جب ہم کامیاب و کامران ہو کر نجاشی کے دربار سے نکلے، تو عمرو بن عاص ہمیں مرعوب کرنے کے لئے دھمکی کے انداز میں کہنے لگا، کل میں نجاشی کے پاس آؤں گا اور ان مسلمانوں کے متعلق اسے ایسی بات بتاؤں گا جس سے اس کے غیظ و غضب کی کوئی انتہا نہ رہے گی، اور دیکھنا کہ وہ انہیں یہاں سے کس طرح بھگاتا ہے.
اس کے ساتھی عبداللہ بن ابی ربیعہ نے کہا ایسے نہ کرنا، یہ ہمارے رشتہ دار ہیں، کیا ہوا اگر آج انہوں نے ہماری مخالفت کی.
عمرو نے کہا : رہنے دیجئے ان سے اتنی ہمدردی کو..
بخدا.! میں نجاشی کو ان کے متعلق ایسی ایسی باتیں بتاؤں گا کہ وہ انہیں شام سے پہلے ہی اپنے ملک سے نکل جانے کا حکم صادر کر دے گا، بخدا، میں اسے بتاؤں گا کہ یہ لوگ عیسی بن مریم علیہ السلام کو انسان سمجھتے ہیں.
جب دوسرا دن ہوا، تو عمرو بن عاص نجاشی کے دربار میں حاضر ہو کر کہنے لگا.
بادشاہ سلامت.! یہ لوگ جنہیں آپ نے یہاں پناہ دے رکھی ہے، عیسی علیہ السلام کے متعلق عجیب و غریب نظریہ رکھتے ہیں، ان کو بلائیں اور پوچھیں کہ عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق ان کا کیا نظریہ ہے
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.
دوسرے روز جب ہمیں بلایا گیا تو ہم گھبرا گئے، آپس میں مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسی علیہ السلام کے متعلق ہم سے سوال کیا تو کیا جواب دیں گے، ہم سب نے یہ فیصلہ کیا، کہ ہم اس سلسلہ میں وہی کچھ کہیں گے، جو اس کے متعلق اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے، اور موقف سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوں گے جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کیا ہے.
اس حق گوئی کی بنا پر ہم پر جو افتاد بھی پڑتی ہے پڑے، کوئی پروا نہیں، اس بار بھی جب ہم نجاشی کے پاس پہنچے تو درباری علماء پہلے کی طرح اس کے دائیں بائیں با ادب انداز میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں قریش کے دونوں نمائندے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ بھی موجود تھے.
نجاشی نے ہمیں دیکھتے ہی فوراً یہ سوال کیا، مجھے بتاؤ عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے..؟
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا، ہماری عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق وہ رائے ہے جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بتائی ہے.
نجاشی نے پوچھا وہ کیا ہے..؟
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے بتایا :
انہوں نے ہمیں بتایا ہے، کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، روح اللہ اور خدا تعالٰی کا وہ کلمہ ہیں جو پاکدامن مریم کی طرف القاء کیا گیا، نجاشی نے جب حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی مکمل بات سنی تو خوشی سے زمین پر ہاتھ مار کر کہنے لگا.
اللہ کی قسم..! بالکل عیسی علیہ السلام وہی کچھ ہیں، جو آپ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمایا :
درباری علماء نے جب یہ صورت حال دیکھی تو حیران و ششدر رہ گئے، اور پشیمانی کے عالم میں اپنی ناک کھجلانے لگے، نجاشی نے ان کی خفت و پشیمانی کو بھانپ کر کہا، سن لو یہ میرا فیصلہ ہے، یہ مسلمان بالکل سچے ہیں، آج سے میرے یہ قابل قدر مہمان ہیں.
پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا.
آج سے تم ہمارے سرکاری مسلمان ہو جو تمہیں گالی دے گا نقصان اٹھائے گا، جو تمہیں کوئی گزند پہنچائے گا اسے سخت ترین سزا دی جائے گی.
اللہ کی قسم.! مجھے تم سونے چاندی کے خزانوں سے بھی زیادہ عزیز ہو. پھر نجاشی قریش کے دونوں نمائندوں کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا.
جاؤ میری آنکھوں سے دور ہوجاؤ.
درباریوں سے کہا ان کے تحائف واپس جر دو، ہمیں تحائف کی کوئی ضرورت نہیں ہے.
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ بڑے ذلیل و خوار اور بے آبرو ہو کر نجاشی کے دربار سے نکلے.
اور ہمیں ہر طرح کی سہولت میسر آئی، نہایت وقار اور عزت سے زندگی بسر ہونے لگی
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ سر زمین حبشہ میں بڑی عزت، وقار، اطمینان اور سکون سے دس سال گزارے.
7ھ ہجری کو دونوں نے حبشہ کو خیر باد کہا اور اپنے دیگر مسلمان ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ کا رخ کیا، جب یہ بر گزیدہ افراد پر مشتمل قافلہ وہاں پہنچا، تو رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم خیبر فتح کر کے لوٹ رہے تھے، آپ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے.
فرمانے لگے : آج معلوم نہیں دونوں میں سے زیادہ مجھے کس چیز کی خوشی ہے، فتح خیبر کی یا جعفر رضی اللہ عنہ کے آنے کی.؟
عام مسلمانوں کی خوشی بھی رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ کم نہ تھی، مساکین تو خاص طور پر بہت خوش تھے کیونکہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ان کا بہت خیال رکھا کرتے تھے، اور ان سے ہمیشہ خندہ پیشانی اور حسن سلوک سے پیش آتے، یہاں تک کہ ان کا لقب ہی ابو المساکین پڑ گیا.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
ہم جیسے مساکین کے حق حضرت جعفر بن ابی طالب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے، یہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے، کھانا کھلاتے، اگر سالن ختم ہو جاتا تو گھی کا برتن ہمارے سامنے رکھ دیتے، ہم اپنی منشاء کے مطابق کھاتے.
ابھی حضرت جعفر بن ابی طالب کو مدینہ طیبہ میں قیام پذیر ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ 7ھ ہجری کے اوائل میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے سر زمین شام میں رومیوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر مقرر کیا، اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر مقرر کیا اور ارشاد فرمایا :
اگر اس جنگ میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوجائے تو جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر مقرر کر دینا اور اگر وہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو امیر بنا لینا اور اگر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوجائیں تو جسے چاہیں اپنا امیر بنا لیں.
جب مسلمان *"موتہ"* نامی بستی میں پہنچے، یہ بستی شام کے بالائی علاقے اردن میں واقع تھی، تو مسلمان کیا دیکھتے ہیں کہ رومی ایک لاکھ فوج لے کر مقابلے کے لئے وہاں پڑاؤ کئے ہوئے ہیں، اور تقریباً ایک لاکھ سر زمین عرب کے لخم، جذام اور قضاعہ قبائل کے عیسائی ان کی مدد کے لئے میدان کار زار میں موجود ہیں.
ادھر لشکر اسلام صرف تین ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا.
جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آ ئیں، جنگ شروع ہوئی، زور کارن پڑا تو سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پہلے مرحلے میں شہید ہوکر گر پڑے، یہ صورت حال دیکھ کر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تیزی سے آگے بڑھے اور اس کی برق رفتار گھوڑی کے پاؤں اپنی تلوار سے کاٹ دیئے تاکہ دشمن اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے، جھنڈا ہاتھ میں لیا اور شمشیر زنی کرتے ہوئے رومی فوج کی صفوں میں جا گھسے انہیں تہہ تیغ کرتے ہوئے یہ شعر گنگنا رہے تھے.
*واہ واہ جنت اور اس کا قرب.*
*صاف ستھرا اور ٹھنڈا مشروب*
*رومیوں کے لئے عذاب آ چکا ہے.*
*یہ کافر حسب و نسب کے اعتبار سے دوراز شرافت.*
مجھ پر فرض ہے کہ جب ان سے ملوں تو ان کی گردنیں اڑاتا چلا جاؤں
آپ دشمن کی صفوں کو اپنی تیز دھار تلوار سے چیرتے جارہے تھے. یہاں تک کہ ایک شقی القلب دشمن کے وار سے آپ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو.. لشکر اسلام کا جھنڈا فوراً بائیں ہاتھ میں تھام لیا.
تھوڑی ہی دیر بعد آپ کا بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا، تو آپ نے جھنڈا دونوں بازوؤں میں لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد دشمن ایک کاری ضرب سے آپ کو گرانے میں کامیاب ہو گیا، تو حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا، انہوں نے بھی دشمن کے مقابلے میں اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا، بلآخر یہ بھی جام شہادت نوش فرما گئے.
رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو جب لشکر اسلام کے تینوں جفاکش سپہ سالار کے یکے بعد دیگرے شہید ہوجانے کی خبر ملی، تو بڑے افسردہ ہوئے، آپ فوراً تعزیت کے لئے اپنے چچا زاد بھائی جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر گئے، وہاں آپ نے عجیب منظر دیکھا کہ ان کی بیوی اسماء بنت عمیس اپنے خاوند کے استقبال کی تیاریاں کر رہی ہیں، کھانا تیار کیا ہوا ہے، بچوں کو نہلا دھلا کر انہیں اجلے کپڑے پہنا رکھے ہیں.
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ کا چہرہ اترا ہوا تھا، حزن و ملال کے آثار چہرے پر نمایاں تھے، آپ کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل پر خوف طاری ہو گیا، میں نے اپنے خاوند کے متعلق آپ سے پوچھا.
آپ نے فرمایا : جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کو میرے پاس لاؤ، میں نے انہیں آواز دی تو وہ دوڑے ہوئے شاداں و فرحاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی گود میں آکر بیٹھ گئے، آپ پیار سے انہیں چومنے لگے. اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.
میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ رو کیوں رہے ہیں، کیا آپ کو جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں سپہ سالار کے متعلق کوئی خبر ملی ہے.؟
فرمایا : ہاں. وہ شہید کر دئیے گئے ہیں، جب ان معصوم بچوں نے دیکھا کہ ان کی ماں زار و قطار رو رہی ہے تو ان کے چہروں سے مسکراہٹ جاتی رہی، اور بے حس و حرکت ایسے کھڑے ہو گئے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آنسو پونچھتے ہوئے تشریف لے گئے اور ہمارے لئے دعا کی :
الہی.! جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد کی مدد فرما.
الہی.! جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی نگہبانی فرما.
پھر آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ : میں نے جعفر رضی اللہ عنہ کو جنت میں اس حال میں دیکھا کہ اس کے دونوں بازو خون میں آلود ہیں اور پاؤں بھی خون سے رنگین ہو چکے ہیں.
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے مندجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.
1.. الاصابہ 237/1
2.. صفۃ الصفوۃ 205/1
3.. حلیۃ اولیاء 114/1
4.. طبقات ابن سعد 22/4
5.. معجم البلدان (واقعہ جنگ موتہ)
6.. تہذیب التہذیب 98/2
7.. البدایۃ والنہایۃ 241/4
8.. السیرۃ النبویۃ ابن ہشام 357/1
9.. الدر فی اختصار المغازی والسیر 222/50
10.. حیاۃ الصحابہ فہرست ملاحظہ فرمائیں.
11.. الکامل لابن البر 2/ 96-30
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments