حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ

حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ




 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه 


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*



 حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ




*اسید ! وہ تو فرشتے تهے جو تیری تلاوت سن رہے تهے.* 

*(فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم)*




حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جب پہلے تبلیغی مشن پر یثرب پہنچے تو آپ نے قبیلہ خزرج کے ایک سردار اسعد بن زرارہ کے ہاں قیام کیا. اس نے اپنے گهر میں سے ایک کمرہ ان کے قیام کے لئے مخصوص کر دیا، جسے وہ تبلیغی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شیریں کلامی، صاف گوئی، خوش اخلاقی اور نور ایمانی کی بدولت باشندگان یثرب تیزی سے ان کے گرویدہ ہونے لگے، سب سے بڑھ کر جس خوبی نے لوگوں کو متاثر کیا، وہ ان کا نہایت سریلی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کا دلکش انداز تها، جس سے پتهر جیسے دل نرم ہوجاتے، سننے والوں کی آنکهوں سے آنسو جاری ہو جاتے، آپ کی ہر مجلس میں کچھ افراد وعظ و نصیحت سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتے.



ایک دن اسعد بن زرارہ اپنے معزز مہمان حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ گهر سے باہر نکلے تاکہ قبیلہ بنو عبد الاسل کے چند افراد سے ملاقات کریں، اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کریں، دونوں ایک باغ میں داخل ہوئے اور میٹهے پانی کے ایک چشمے کے پاس بیٹھ گئے، دیکهتے ہی دیکهتے وہ لوگ ارد گرد جمع ہو گئے جو ابهی نئے نئے مسلمان ہوئے تهے، اور چند غیر مسلم بهی آپ کی باتیں سننے کے لئے قریب آکر بیٹھ گئے، آپ نے نہایت پیارے انداز میں ان کے سامنے اسلام کی سچی دعوت پیش کرنی شروع کی، سبهی خاموش اور توجہ سے سننے اور آپ کی جادو بیانی سے متاثر ہونے لگے.



ایک روز اہل یثرب میں ایک شخص نے اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ کو اطلاع دی، (یہ دونوں قبیلہ اوس کے سردار تهے) کہ ایک مکی نوجوان ان کے گهر کے قریب سکونت پذیر ہے، لوگوں کو اپنے دین کی طرف دعوت دینے میں دن رات مصروف ہے اور اسعد بن زرارہ نے اسے اپنے گهر ٹهہرایا ہوا ہے، یہ خبر سن کر سعد بن معاذ نے اسید بن حضیر سے کہا، تیرا کچھ نہ رہے، فوراً جاو، اس مکی نوجوان کی خبر لو جس نے ہمارے گهروں کا رخ کررکها ہے ، وہ چاہتا ہے کہ ہمارے کمزور دل لوگوں کو ورغلائے اور ہمارے خداؤں کی توہین کرے، اسے روکو اور تنبیہ کردو کہ آج کے بعد ہمارے علاقے میں قدم نہ رکهے، پهر افسردہ ہو کر کہنے لگا، اگر یہ میری خالہ کے بیٹے اسعد بن زرارہ کے ہاں مہمان نہ ہوتا تو میں خود اس کی خبر لیتا اور اسے فوراً یہاں سے بهاگ جانے پر مجبور کر دیتا.



سعد بن معاذ کی باتیں سن کر اسید بن حضیر نے نیزا پکڑا اور سیدها باغ کی طرف چل دیا، اسعد بن زرارہ نے جب دور سے اسے باغ کی طرف آتے  ہوئے دیکها تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے کان میں کہا وہ دیکهو قبیلہ کا سردار اسید بن حضیر آرہا ہے، بہت سے کمالات کی بنا پر اسے قبیلے میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اگر یہ مسلمان ہو جائے تو اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اسلام قبول کر لیں گے. ازراہ کرم اس کے سامنے اللہ کا پیغام عمدہ اور دلنشین انداز میں پیش کریں

دیکهتے ہی دیکهتے اسید بن حضیر طمطراق اور رعب و دبدبہ کے ساتھ مجمعے کے سامنے آکهڑا ہوا، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا، مجهے یہ بتاؤ کہ تمہیں ہمارے گهروں کی طرف رخ کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ ہمارے کمزور دل لوگوں کو پهسلانے اور ورغلانے کے لئے تمہیں کس نے اجازت دی. کان کهول کر میری بات سنو، اگر تمہیں اپنی جان کی ضرورت ہے تو اسی وقت ہماری بستی سے نکل جاؤ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے نور ایمان سے چمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ اسید بن حضیر کی طرف دیکها اور نہایت نرم لہجے اور میٹهے انداز میں ارشاد فرمایا:



"میرے بهائی! کیا تمہیں خیر اور بهلائی مطلوب ہے؟"



اس نے بڑی بے نیازی سے جواب دیا "خیر اور بهلائی کیا ہوتی ہے؟"



آپ نے فرمایا:



آپ ہمارے پاس چند لمحے بیٹهیں، میری باتیں سنیں، اگر آپ کو یہ پسند آئیں تو قبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئیں ہمارا آپ سے وعدہ رہا کہ ہم یہاں سے چلے جائیں گے اور دوبارہ کبهی اس طرف کا رخ نہیں کریں گے، یہ سن کر اسید بن حضیر نے کہا: بات تو آپ نے دل لگتی کہی ہے. ساتھ ہی اپنا نیزہ زمین میں گاڑا اور آرام سے بیٹھ گیا، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ دلنشین انداز میں اس کے سامنے اسلام کی خوبیاں اور فضائل بیان کرنے اور دل پذیر لہجے میں آیات قرآنی کی تلاوت کرنے لگے، جس سے اس کے چہرے سے دهیرے دهیرے انقباض دور ہونے لگا. بلآخر وہ جذب و کیف کے عالم میں پکار اٹها، آپ کی باتیں کیا خوب ہیں ؟ کس قدر دلنشین اور دلگزار ہیں ؟ جس کلام کی آپ تلاوت کرتے ہیں وہ بہت عظیم کلام ہے، پهر اس نے جهکی ہوئی نظروں سے با ادب انداز میں پوچها اسلام میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے؟  حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: پہلے غسل کرو، پاکیزہ لباس پہنو اور پهر یہ کلمہ پڑهو:



*لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ*


*"اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں"*



اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کرو، یہ سن کر وہ مجلس سے اٹها، قریبی کنویں پر گیا، غسل کیا کپڑے دهوئے کملہ طیبہ پڑها، دو رکعت نماز ادا کی اور سر زمین عرب کا ایک عظیم سپوت، ماہر شہسوار، دانشور اور قبیلہ اوس کا ہر دلعزیز سردار دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا. 



ذاتی کمالات کی بنا پر قبیلے کے افراد سے کامل کے لقب سے پکارا کرتے تهے، یہ بیک وقت سیف و قلم، شہسواری و تیر اندازی، نجابت و شرافت، عقل و دانش اور فن کتابت میں خاص مقام رکهتے تهے، بعد میں یہی حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا باعث بنے، پهر ان دونوں کے ذریعے قبیلہ اوس کے اکثر افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، اس کے بعد مدینہ طیبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقام ہجرت، جائے پناہ اور دارالحکومت بننے کا شرف حاصل ہوا


جب حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تلاوت سنی تهی تو ان کے دل میں قرآن مجید کی والہانہ محبت پیدا ہوگئی تهی، آپ قرآن مجید کی طرف اس طرح متوجہ ہوئے جیسے کوئی پیاسا گرم ترین دن میں بیٹهے اور ٹهنڈے چشمے کی طرف ٹپکتا ہے، بلآخر یہ قرآن مجید ہی کے ہو کر رہ گئے، اس کے بعد انہیں یا تو غازی مجاہد کے روپ میں اور یا پهر قرآن مجید کی تلاوت میں منہمک دیکها گیا، آپ کو قدرت کی جانب سے شیریں کلامی، خوش ذوقی اور سریلی آواز کا وافر حصہ ملا تها، جب رات کا سناٹا چها جاتا، لوگ نیند کی آغوش میں لوریاں لینے لگتے تو آپ خوش الحانی سے قرآن مجید پڑهنا شروع کر دیتے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کی تلاوت سننے کے منتظر رہتے، خوش نصیب ہے وہ انسان جسے حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے تلاوت قرآن سننے کا اتفاق ہوا، آپ ہو بہو اسی طرح قرآن مجید پڑهتے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تها.



انسان تو کجا فرشتے بهی آپ کی تلاوت سن کر لطف اندوز ہوتے، ایک رات کا واقعہ ہے کہ حضرت اسید بن حضیر اپنے گهر کے صحن میں لیٹے ہوئے تهے، آپ کا بیٹا یحییٰ صحن کی ایک جانب سویا ہوا تها اور پاس ہی وہ گهوڑا بندها ہوا تها جسے آپ نے جہاد کے لئے تیار کیاتها، رات پر سکون تهی، آسمان صاف و شفاف تها، چشم فلک پیار بهرے انداز میں پر سکوں زمین کو دیکھ رہی تهی، حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کے دل میں آیا کہ پر نم فضا کو قرآنی مہک سے معطر کیا جائے انہوں نے دلگزار آواز سے ان آیات کی تلاوت شروع کردی.



*("الم ہ ذالک الکتاب لا ریب فیہ هدی للمتقین ہ الذین یومنون بالغیب و یقیمون الصلوة و مما رزقنا هم ینفقون ہ و الذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک و بلآخرة هم یوقنون ہ")*


*(( سورہ بقرہ ))*



*"الف ، لام ، میم. یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے ان پر ہیز گار لوگوں کے لئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے ( یعنی قرآن ) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تهیں، ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکهتے ہیں."*



جب گهوڑے نے آپ کی دل سوز آواز سنی تو تیزی سے ایک چکر لگایا، خطرہ تها کہ رسی ٹوٹ جائے، یہ منظر دیکھ کر آپ نے تلاوت روک دی، گهوڑا بهی سکون سے کهڑا ہو گیا، اب آپ نے پهر شروع کیا.



*("أولئك على هدی من ربهم و اولئك هم المفلحون")*


*((ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں))*




گهوڑے نے پهر اچهلنا شروع کر دیا، آپ خاموش ہوئے تو گهوڑا بهی سکون سے کهڑا ہو گیا، آپ نے وقفے وقفے سے تلاوت کی، جونہی آپ تلاوت شروع کر دیتے گهوڑا بدکنے اور اچهلنے لگتا، جب آپ خاموش ہو جاتے وہ بهی آرام سے کهڑا ہو جاتا آپ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ گهوڑا مستی میں آکر میرے بیٹے یحییٰ کو روند نہ ڈالے. آپ بیٹے کو جگانے کے لئے اس کی طرف گئے. کیا دیکهتے ہیںکہ آسمان پر ایک چهتری نما بادل کا ٹکڑا ہے اور اس کے ساتھ چراغ نما روشن قندیلیں لٹک رہی ہیں، جن کی ضیا پاشیوں نے چاروں طرف روشنی اور چمک دمک پهیلا رکهی ہے، آپ کے دیکهتے ہی یہ بادل کا ٹکڑا اوپر چڑهنا شروع ہوا، یہاں تک کہ آنکهوں سے اوجهل ہو گیا، صبح ہوئی تو حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضری دی اور رات کا یہ عجیب و غریب واقعہ بیان کیا، آپ نے ماجرا سن کر ارشاد فرمایا.



اسید ! یہ تو فرشتے تهے جو تیری تلاوت سن رہے تهے. اگر تم اپنی تلاوت کو مسلسل جاری رکهتے تو یہ بالکل قریب آجاتے اور لوگ انہیں بچشم خود دیکھ سکتے

جس طرح حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید کے ساتھ محبت تهی، اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ الفت تهی.



یہ اپنے بارے میں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ جب میں قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں تو میرا دل ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے، دل پر نورانی تجلیات کا ورود ہونے لگتا ہے اور بعینہ میرے دل کی یہ کیفیت اس وقت ہوتی ہے جب میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چهرہ انور کو اپنی نگاہوں سے دیکهتا ہوں. فرماتے ہیں کہ میری دلی تمنا تهی کہ مجهے موقع ملے تو آپ کے جسم اطہر و اقدس کو چوم لوں، ایک دن میری دلی تمنا بهی پوری ہو گئی، ہوا اس طرح کہ ایک روز میں مجلس میں بیٹها لوگوں کو نصیحت آموز کہانیاں سنا رہا تها، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنظر استحسان دیکهتے ہوئے میرے بغل میں چٹکی لی، میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مجهے تکلیف ہوئی، رحمت للعالمین نے ارشاد فرمایا:



اسید ! اگر تمہیں تکلیف ہوئی ہے تو مجھ سے بدلہ لو، میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے بدن پر تو قمیص ہے، لیکن میرے بدن پر قمیص نہیں. یہ سن کر آپ نے بدلہ دینے کے لئے قمیص اتار دی تو میں آپ سے لپٹ گیا اور آپ کے جسم اطہر و اقدس کو چومنے لگا، اور ساتھ ہی میں نے اپنی اس تمنا کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب سے میں آپ پر ایمان لایا ہوں، اسی دن سے میری یہ دلی تمنا تهی کہ آپ کے جسم اطہر کو چوموں، اللہ تعالٰی کا شکر ہے آج میری یہ تمنا پوری ہوئی.



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بهی حضرت اسید رضی اللہ عنہ سے بہت پیار کرتے تهے، اسلام قبول کرنے میں ان کی سبقت کو قدر کی نگاہ سے دیکهتے، غزوہ احد میں جس انداز سے انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جوانمردی اور بہادری سے دفاع کیا، وہ بلا شبہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے، جدهر سے آپ کی طرف کوئی تیر آتا فوراً آگے بڑهتے اور تیر سیدها ان کے جسم میں پیوست ہوجاتا، اس طرح غزوہ احد میں سات مہلک تیر انہوں نے اپنے بدن پر جهیل کر رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت کا حق ادا کر دیا، کوئی تیر بهی آپ تک نہ پہنچنے دیا، اپنے قبیلے کے کسی فرد کی سفارش کرتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے بخوشی قبول کر لیتے.



حضرت اسید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ایک انصاری گهرانے کی مفلوک الحالی کا تذکرہ کیا، حقیقتاً یہ گهرانہ تنگ دستی اور بے سرو سامانی کی حالت میں بسر کر رہا تها، میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ مالی تعاون کے مستحق ہیں ، آپ نے ارشاد فرمایا: اسید ! تم اس وقت آئے جب ہم سب کچھ راہ خدا میں خرچ کر چکے ہیں، آئندہ جب بهی ہمارے پاس کہیں سے مال آئے تو مجهے یاد دلانا، انشاءاللہ ان کی پوری مدد کی جائے گی. کچھ ہی عرصہ بعد خیبر سے وافر مقدار میں مال آگیا، آپ نے مستحق مسلمانوں میں اسے تقسیم کیا اور خاص کر اس گهرانے کی دل کهول کر مدد کی جس کی نشاندہی حضرت اسید رضی اللہ عنہ نے کی تهی


حضرت اسید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اس گهرانے کی آسودہ حالی دیکهی تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی، بے ساختہ میری زبان سے نکلا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!  اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ نے جواباً ارشاد فرمایا اے خاندان انصار ! تمہیں بهی اللہ جزائے خیر عطا فرمائے، جب سے میرا آپ لوگوں سے تعارف ہوا ہے، میں نے تمہیں پاکدامن اور بہت زیادہ صبر و تحمل کرنے والا پایا ہے، لیکن تم میرے بعد دیکهوگے کہ انصار کی بنسبت دیگر لوگوں سے اچها سلوک برتا جائے گا، لیکن تم میری ملاقات تک صبر کرنا، یہ ملاقات انشاءاللہ حوض کوثر پر ہوگی.



حضرت اسید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے، تو آپ نے مسلمانوں میں مال و متاع تقسیم کیا، میرے حصے میں ایک چوغہ آیا جو میری نگاہ میں ایک معمولی سا تها، میں ابهی مسجد میں ہی بیٹها تها کہ میرے پاس سے ایک قریشی نوجوان گزرا جس نے بہت قیمتی اور عمدہ لباس زیب تن کر رکها تها یہ لباس امیر المومنین نے اسے بیت المال سے عنایت کیا تها اور یہ اتنا لمبا تها کہ زمین پر گهسٹتا ہوا جا رہا تها،  یہ منظر دیکھ کر مجهے وہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم یاد آگیا جو آپ نے انصار کے متعلق ارشاد فرمایا تها کہ میرے بعد انصار سے زیادہ دوسرے لوگوں کو ترجیح دی جائے گی، اور یہ فرمان بنوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے پاس بیٹهے ہوئے ایک ساتهی کو بهی سنایا، وہ شخص میری بات سنتے ہی اٹها اور امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ کو وہ سب کچھ بتادیا جو میں نے اس کے سامنے کہا تها، حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ بات سنتے ہی میرے پاس پہنچے، میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا، آپ نے گرجدار آواز میں کہا اسید، جلدی نماز پڑھو، جب میں نے نماز پوری کر لی تو آپ میری طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے.



بهلا میرے متعلق تم نے کیا کہا ہے؟



میں نے حرف بحرف سب کچھ بتادیا.



حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:



اسید ! اللہ آپ کو معاف فرمائے، یہ لباس میں نے اس شخص کو دیا تها جسے انصاری ہونے کے ساتھ ساتھ بیعت عقبہ، غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہونے کا شرف بهی حاصل ہے، واقعہ دراصل یہ ہے کہ لباس اس قریشی نوجوان نے ان سے خرید لیا، اب بتائے اس میں میرا کیا قصور ہے ؟



تمہارا کیا خیال ہے کہ جس صورت حال کی خبر رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دی تهی، وہ میرے دور حکومت میں ظہور پذیر ہوگی.



یہ سن کر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ فوراً بولے: امیر المومنین!  اللہ جانتا ہے میرا بهی یہی خیال ہے کہ آپ کے دور حکومت میں ایسا نہیں ہو سکتا.



حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اس کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہ رہے، اللہ تعالٰی نے عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت ہی میں ان کو اپنے جوار رحمت میں بلا لیا، جب آپ اللہ کو پیارے ہوگئے تو پتہ چلا چار ہزار درہم کے مقروض ہیں، آپ کے وارثوں نے سوچا، قرض ادا کر نے کے لئے ان کی زرعی زمین بیچ دیا جائے، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو آپ نے فوراً قرض خواہوں سے رابطہ قائم کیا اور انہیں سالانہ ایک ہزار درہم کا اناج لینے پر راضی کر لیا، اس طرح چار سال کے عرصے میں قرض ادا ہو گیا اور زمین اولاد کی ملکیت رہی.



حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.



1. بخاری - مسلم.       باب فضائل صحابہ.


2. جامع الاصول.        378/9


3. طبقات ابن سعد.       603/3


4. تهذیب التهذیب.         347/1


5. اسد الغابہ.             92/1


6. حیاتہ الصحابہ.      جلد چہارم کی  فہرست دیکهئے 


7. الاعلام و مراجعہ.



 

🌴بارک اللہ فیکم🌴



============>مکمل۔۔۔

 


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر 

  

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments