حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ







 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه 


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*



 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ





*یہ ایک منجها ہوا فصیح البیان صاحب عقل و دانش نوجون ہے.*


*(فاروق اعظم رضی اللہ عنہ)*








ایک جلیل القدر صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بهائی، علم دین کے بحر بیکراں، تقوٰی و طہارت کے پیکر، دن کو روزہ رات کو عبادت گزار، بوقت سحر مغفرت کے طلبگار، خشیت الہی سے یوں زاروقطار رونے والے کہ آنسوؤں کی جهڑی لگ جاتی، یہ امت محمدیہ میں کتاب الہی کے رموز و اسرار کا سب سے زیادہ ادراک رکهنے والے مفسر قرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ! .



حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ہجرت سے تین سال پہلے پیدا ہوئے، جب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا، اس وقت ان کی عمر صرف تیرہ برس تهی، اتنی چهوٹی سی عمر میں ایک ہزار چھ سو ساٹھ احادیث زبانی یاد تهیں. جنہیں امام بخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے.



جب یہ پیدا ہوئے تو والدہ ماجدہ گود میں لے کر رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپ نے اپنے لعاب دہن سے گهٹی دی، اس طرح ان کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز اتری وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاب مبارک تها اور اس کے ساتھ ہی تقوٰی و طہارت، حکمت و دانش، فصاحت و بلاغت جیسے اوصاف حمیدہ ان کے رگ و ریش میں رچ بس گئے، اللہ تعالٰی کا یہ فرمان برحق ہے.


*((ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا))*


(سورہ بقرہ.)


*"جس کو حکمت و دانش عطا کی گئی ہو اسے خیر کثیر سے نوازا گیا"*



ابهی اس ہاشمی نو نہال نے ہوش سنبھالا ہی تها کہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے انہیں وقف کر دیا گیا، سفر و حضر میں آپ کے ساتھ رہتے، جب آپ وضو کا ارادہ کرتے تو فوراً پانی لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوتے، جب آپ نماز شروع کرتے تو یہ بهی آپ کے پہلو میں ہاتھ باندھ کر کهڑے ہو جاتے، دوران سفر کئی مرتبہ انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچهے سواری پر بیٹهنے کا شرف حاصل ہوا، غرض یہ کہ ہر دم آپ کہ خدمت کے لئے کمر بستہ رہتے، انہیں اللہ تعالٰی نے حساس دل، پاکیزہ ذہن اور قوی حافظہ عطا کیا تها عصر حاضر کے جدید ترین ریکارڈنگ کے آلات بهی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اپنے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا ارادہ کیا تو میں نے فوراً آپ کی خدمت میں پانی پیش کر دیا، آپ میری خدمت گزاری پر بہت خوش ہوئے، جب آپ نماز ادا کرنے کے لئے کهڑے ہوئے تو مجهے بهی اپنے ساتھ نماز پڑهنے کا اشارہ کیا، میں آپ کے پہلو کی بجائے پیچهے کهڑا ہوگیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا: عبدالله!  تم میرے ساتھ کیوں نہیں کهڑے ہوئے، میں نے عرض کی حضور! آپ کی عزت و احترام اور عظمت و جلال کی بنا پر آپ کے پہلو میں کهڑا ہونے کی تاب نہ لا سکا، آپ نے میری بات سن کر آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کئے اور دعا کی.



*الہی ! عبداللہ کو حکمت و دانائی عطا فرما*



اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرف قبولیت بخشا، اور اس ہاشمی نوجوان کو ایسی حکمت و دانش عطا فرمائی جس کی بنا پر آپ بڑے بڑے حکما اور دانشوروں پر فوقیت حاصل کر گئے.



ہر قاری کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا کہ کوئی ایسا واقعہ معلوم ہو جو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حکمت و دانش کا ثبوت بہم پہنچاتا ہو.. لیجئے ایک دلچسپ واقعہ انہیں کی زبانی پیش خدمت ہے.



حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے باہمی اختلافات میں جب بہت سے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ چهوڑ گئے تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا.:



*امیر المومنین : مجهے ان لوگوں سے بات کرنے دیں جنہوں نے آپ سے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے*



آپ نے فرمایا: مجهے خطرہ ہے کہیں یہ لوگ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں، میں نے کہا:  


آپ مطمئن رہیں ، انشاءاللہ یہ ایسی کوئی حرکت نہیں کریں گے. پهر میں ان کے پاس گیا، وہ لوگ عبادت میں مصروف تهے، ان لوگوں نے مجهے دیکهتے ہی اشتیاق بهرے انداز میں خوش آمدید کہا اور میری آمد کا مقصد پوچها، میں نے کہا:


آج میں آپ سے ایک ضروری بات کرنے آیا ہوں، ان میں سے چند ایک نے کوئی دلچسپی نہ لی، لیکن اکثریت نے پوری توجہ سے میری بات سننے کا اشتیاق ظاہر کیا، میں نے ان سے دریافت کیا مجهے بتاؤ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی، جگر گوشئہ رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے شوہر اور اسلام قبول کرنے میں سبقت لے جانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ لوگوں کو کیا شکوہ ہے؟



انہوں نے جواب دیا: ہمیں ان کے خلاف تین بنیادی اعتراضات ہیں.!



پوچها کون کون سے؟



انہوں نے کہا:


ہمارا پہلا اعتراض یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین میں انسانوں کو حاکم بنادیا ہے،



ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جنگ کی، لیکن نہ تو مال غنیمت لوٹا اور نہ انہیں قیدی بنایا.



ہمارا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لقب ہٹادیا، حالانکہ مسلمانوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہیں اپنا امیر بنا دیا


فرمایا : میں نے ان کے اعتراضات سننے کے بعد ان سے کہا، اگر میں قرآن و سنت کی روشنی میں ان اعتراضات کا حل پیش کروں تو کیا آپ تسلیم کر لیں گے؟ سب نے بیک زباں کہا بالکل ہم بخوشی تسلیم کرلیں گے.



میں نے جواب دیتے ہوئے کہا: تمہارا پہلا اعتراض یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے دین میں انسانوں کو حاکم بنایا ہے: کیا آپ لوگوں کی نظر سے قرآن مجید کی یہ آیت گزری ہے، جس میں فرمایا گیا ہے؛



*((یا ایها اللذین امنوا لا تقتلوا الصید و انتم حرم ومن قتلہ منکم متعمدا فجزاءہ مثل ما قتل من النعم یحکم بہ ذوا عدل منکم))*



*("اے لوگوں جو ایمان لائے ہو احرام کی حالت میں شکار نہ مارو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو، اس کے ہم پلہ ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا، جس کا فیصلہ تم میں وہ عادل آدمی کریں گے")*




میں اللہ تعالٰی کو گواہ بناکر تم سے پوچهتا ہوں کہ انسان کی جان و مال کی حفاظت کے لئے انسان کو حاکم بنانا زیادہ بہتر ہے یا ایک خرگوش کی جان بچانے کے لئے انسان کو حاکم بنانا بہتر ہے، یہ دلیل سن کر سب نے کہا: بلاشبہ بنی نوع انسان کی اصلاح اور جان و مال کی حفاظت کے لئے کسی انسان کو حاکم مقرر کرنا ازبس ضروری ہے.



آپ نے پوچها اس دلیل کے تناظر میں کیا تم اپنے پہلے اعتراض سے دستبرداہ ہونے کے لئے تیار ہو؟



سب نے کہا: بالکل ، ہمارا پہلا اعتراض ختم، ہم اجتماعی طور پر اس سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں.



تمہارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جنگ کی، لیکن نہ مال لوٹا اور نہ انہیں قیدی بنایا،



مجهے یہ بتاو کیا تم اپنی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو قیدی بنانا پسند کرو گے؟ اگر تم ہاں میں جواب دو گے تو کفر کے مرتکب ہو گے. اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ماں ہونے کا انکار کرو گے تو پهر کفر کے مرتکب ہوگے کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے.



*((النبی اولی بالمؤمنين من انفسهم و ازواجہ امهاتهم))*



*(" بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اہل ایمان کے لئے ان کی اپنی ذات پر مقدم ہے، اور نبی کی بیویاں ان کی مائیںہیں.")*



اب تم اپنے لئے جو چاہو پسند کر لو، یہ سن کر انہوں نے اپنی نگاہیں جهکالیں.



میں نے پوچها کیا تم اپنے دوسرے اعتراض سے دستبردار ہونے کے لئے دلی طور پر آمادہ ہو.؟



سب نے یک زبان ہوکر کہا : جی ہاں.، ہم دوسرے اعتراض سے بهی دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں.



میں نے کہا رہا تمہارا یہ اعتراض کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام سے پہلے امیر المومنین کا لقب مٹا دیا ہے، آپ سب لوگوں کو یاد ہوگا کہ صلح حدیبیہ میں جب صلح نامہ تیار ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نیچے یہ لکھ دیا جائے کہ اس دستاویز پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاق کا اظہار کیا ہے، مشرکین نے کہا اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کر لیتے تو آج بیت اللہ میں داخلے سے نہ روکتے، یہی تو آپ سے ہمارا بنیادی اختلاف ہے. آپ اپنا نام محمد بن عبد اللہ لکهیں، مشرکین کا مطالبہ مانتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا:



بخدا، میں اللہ کا رسول ہوں ، تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے الفاظ مٹا دئے.



یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد میں نے حاضرین سے ہوچها: مجهے آپ یہ بتائیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے الفاظ مٹادئے تهے تو اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لقب ہٹادیا تو شرعاً کیا مضائقہ ہے.؟



یہ دلیل سن کر حاضرین نے تسلیم و رضا سے اپنے سر جهکالئے، میں نے یہ منظر دیکھ کر کہا ، معلوم ہوتا ہے آپ لوگ اس اعتراض سے بهی دستبردار ہو چکے ہو.



سب نے یک زبان کہا ہاں، ہم اس اعتراض سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں.



حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ ملاقات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نہایت مفید ثابت ہوئی، آپ کی مدلل گفتگو سے متاثر ہو کر بیس ہزار افراد دوبارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں شامل ہو گئے


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے حصول علم کے لئے بہت محنت کی، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے چشمئہ علم سے جی  بهر کر سیراب ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حصول علم کے لئے علماء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف رجوع کیا..



عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب مجهے یہ اطلاع ملتی کہ فلاں صحابی کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہے، تو میں بلا تاخیر اس کے گهر پہنچتا دہلیز پر چادر بچها کر بیٹھ جاتا، ہوا سے مٹی اڑ اڑ کر مجھ پر پڑتی رہتی، لیکن میں صاحب علم کے احترام کو ملحوظ خاطر رکهتے ہوئے ان کے آرام میں مخل ہونا مناسب نہ سمجهتا، جب وہ از خود اپنے گهر سے باہر آتے اور مجهے اپنی دہلیز پر بیٹها ہوا دیکهتے تو بے ساختہ پکار اٹهتے عبداللہ،  آج آپ یہاں کیسے؟ آپ نے مجهے پیغام بهیج دیا ہوتا، میں خود آپ کے پاس آجاتا.



میں جواب میں کہتا : آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ پیاسا چشمے کے پاس آتا ہے نہ کہ چشمہ پیاسے کے پاس.



حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اپنے اساتذہ کی بہت عزت کیا کرتے تهے، کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بهی آپ کے ساتھ بہت شفقت و محبت سے پیش آتے، جیسا کہ کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ جنہیں قضاء ، قصہ، قرأة اور علم وراثت میں عبور حاصل تها، جب کہیں جانے کے لئے اپنی سواری پر بیٹهنے کا ارادہ کرتے تو یہ ہاشمی نوجوان حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ان کے سامنے ادب و احترام کی تصویر بن کر یوں کهڑا ہو جاتا جیسے کوئی غلام اپنے آقا کے سامنے با ادب کهڑا ہوجاتا ہے، نہایت ادب کے ساتھ آپ کے گهوڑے کی لگام پکڑتے، یہ انداز دیکھ کر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے، عبداللہ،  ایسے نہ کیا کرو: آپ فرماتے ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے اساتذہ کی عزت کریں.




یہ سن کر حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ذرا اپنا ہاتھ مجهے دکهائیں، آپ نے ہاتھ ان کی طرف بڑهایا تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اسے چوم لیا اور ارشاد فرمایا کہ ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے کہ اہل بیت کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، اور محبت کریں.



حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ میدان علم کے ایسے بلند مقام پر فائز ہوئے جسے دیکھ کر کبار علماء صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ششدرہ رہ گئے.



حضرت مسروق بن اجدع جنہیں تابعین میں بہت بلند مقام حاصل ہے ان کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں.



جب میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکهتا تو بے ساختہ پکار اٹهتا کہ آپ سب لوگوں سے زیادہ حسین ہیں، جب آپ کی گفتگو سنتا تو یہ کہنے پر مجبور ہوتا کہ آپ سب سے بڑھ فصیح و بلیغ ہیں.



اور جب آپ کوئی حدیث بیان کرتے تو آپ کی عالمانہ گفتگو سن کر یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوجاتا کہ آپ اس دور کے سب سے بڑے عالم ہے 


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حصول علم کی منزلیں طئے کر لینے کے بعد لوگوں کو تعلیم دینے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے، آپ کا گهرانہ عوام کے لئے ایک بہت بڑی جامعہ کا درجہ اختیار کر گیا تها، البتہ جامعہ ابن عباس اور موجودہ دور کی جامعات میں یہ فرق ہے کہ آج کے دور کے جامعات میں سیکڑوں اساتذہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں. جبکہ جامعہ ابن عباس کا دارومدار صرف صرف ایک استاد پر تها اور وہ مفسر قرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ !.




ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو علم کے جس بلند مقام پر فائز دیکها، اگر قریش اس پر فخر کریں تو بلاشبہ ان کے لئے یہ باعث فخر ہے.





میں نے ایک روز دیکها کہ بہت سے لوگ آپ کے گهر کی طرف جارہے ہیں، لوگ اتنے زیادہ تهے کہ راستے مسدود ہوگئے، میں نے آپ کو اس صورتحال سے آگاہ کیا تو میری بات سن کر ارشاد فرمایا : پانی لاو ، میں نے پانی آپ کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے وضو کیا اور مجھ سے کہا کہ مجمع میں اعلان کر دو کہ جو لوگ قرآن مجید کے الفاظ و حروف کے متعلق سوال کرنا چاہتے ہیں سب سے پہلے وہ اندر تشریف لائیں، میں نے باہر جاکر یہ اعلان کیا تو مجمع میں سے کچھ لوگ اندر داخل ہوئے جس سے گهر کا صحن بهر گیا، آپ نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا، جب وہ مطمئن ہوگئے تو آپ نے فرمایا : اب اپنے دوسرے بهائیوں کے لئے جگہ بنادو، وہ باہر آگئے، پهر آپ نے مجهے حکم دیا کہ اب یہ اعلان کرو کہ جو حضرات قرآن مجید کی تفسیر کے متعلق سوال کرنا چاہتے ہیں اندر تشریف لے آئیں، میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے باہر اعلان کر دیا، کچھ اور لوگ اندر آئے جس سے صحن بهر گیا. آپ نے ان کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا، جب وہ مطمئن ہوگئے، تو آپ نے فرمایا : کہ اپنے دوسرے بهائیوں کے لئے راستہ بنادو، وہ اٹھ کر باہر چلے گئے اور مجھے حکم دیا کہ اب اعلان کر دو کہ جو لوگ حلال و حرام کے متعلق کچھ پوچهنا چاہتے ہیں، وہ اندر تشریف لے آئیں، یہ اعلان سن کر کچھ لوگ اندر آئے جس سے کمرہ اور صحن بهر گیا اور آپ نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا، جب وہ مطمئن ہو گئے تو آپ نے فرمایا اب اپنے بهائیوں کے لئے جگہ خالی کردو، وہ اٹھ کر باہر نکل گئے، پهر مجهے حکم دیا کہ اب اعلان کرو کہ جو لوگ وراثت کے متعلق کچھ پوچهنا چاہتے ہیں وہ اندر آجائیں، میرا یہ اعلان سن کر اتنے لوگ اندرآئے کہ گهر کا صحن کهچاکهچ بهر گیا. آپ نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا، جب وہ مطمئن ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ اب اپنے دوسرے بهائیوں کے لئے موقع دو، وہ باہر آگئے اور مجهے یہ حکم دیا کہ اب یہ اعلان کرو کہ جو لوگ عربی زبان، اشعار اور کلام عرب کے غریب الفاظ کے متعلق دریافت کرنا چاہتے ہیں وہ اندر آجائیں، میں نے تعمیل ارشاد کی، اعلان سن کر اتنے لوگ اندر آئے کہ صحن بهر گیا، آپ نے ہر ایک کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا، میدان علم میں یہ ایک محیر العقول واقعہ ہے کہ خاندان قریش حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس عالمانہ شان پر جتنا بهی فخر کرے کم ہے


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے جب یہ دیکها کہ لوگوں میں علم حاصل کرنے کی بہت تڑپ ہے تو ان کے لئے باقاعدہ ایسا پروگرام ترتیب دیا جس سے آپ کے دروازے پر لوگوں کا زیادہ ہجوم بهی نہ ہو اور انہیں دینی علوم سے فیضیاب بهی کیا جائے، لہذا آپ نے ہفتے میں ایک دن صرف تفسیر قرآن کے لئے، ایک دن صرف فقہ کے لئے، ایک دن مغازی کے لئے، ایک دن شعر و شاعری کے لئے اور ایک دن تاریخ عرب کی تدلیس کے لئے مخصوص کردیا. آپ کی مجلس میں اگر کوئی عالم آکر بیٹهتا تو آپ اس کے ساتھ انتہائی انکسار و تواضع سے پیش آتے، اگر کوئی سائل سوال کرتا تو اسے تسلی بخش جواب دیتے .




حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی عالمانہ حیثیت اور بے شمار خوبیوں کی بنا پر باوجود اپنی چهوٹی عمر کے خلفاء راشدین کا مشیر خاص ہونے کا شرف حاصل تها.




حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اگر کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تو آپ اسے حل کرنے کے لئے جہاں کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مدعو کرتے، وہاں ان کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بهی دعوت دیتے، جب آپ تشریف لاتے تو انہیں اپنے قریب بٹهاتے اور پیار بهرے الفاظ میں اظہار خیال کرتے کہ آج ہمیں ایک مشکل مسئلہ پیش آیا ہے، میرے خیال میں آپ ہی اس مشکل مسئلے کو حل کر سکتے ہیں.




ایک مجلس میں تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس رویے پر اعتراض بهی کیا گیا کہ کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مجودگی میں ایک کم عمر صحابی کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے.



آپ نے اعتراض کے جواب میں صراحتاً ارشاد فرمایا : یہ ایک منجها ہوا فصیح البیان اور صاحب عقل و دانش نوجوان ہے.




حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جب کبهی لوگوں کی تعلیم و تربیت کی طرف متوجہ ہوتے تو عوام کو نظر انداز نہ کرتے بلکہ ان کی تربیت کے لئے بهی وعظ و ارشاد کی محفل منعقد کرتے.



آپ کسی گناہ کرنے والے کو مخاطب کرکے یوں ارشاد فرماتے.



⚛ اے گناہ کے مرتکب، گناہ کرتے وقت تیرا خوش ہونا اس گناہ سے کہیں بڑا جرم ہے.



⚛ گناہ کا ارتکاب کرتے وقت تو لوگوں سے تو خوفزدہ ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالی کے خوف سے تیرا دل خالی ہوتا ہے، گناہ کرنے میں کامیاب ہوجائے تو خوش ہوتا ہے، اگر ناکام رہے تو کف افسوس ملتا ہے، یاد رکھو یہ ایک خطرناک اخلاقی بیماری ہے.



⚛ اے گناہ کا ارتکاب کرنے والے،  کیا تو جانتا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو جسمانی و مالی اذیت میں کیوں مبتلا کیا گیا،؟ وہ صرف اس لئے کہ ایک غریب و مسکین شخص نے اپیل کی تهی کہ مجهے ظالموں کے چنگل سے آزاد کر دیا جائےاور آپ نے اس کی مدد نہیں کی تهی


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے قول و فعل میں کامل یکسوئی پائی جاتی تھی، جو کہتے اس کے مطابق ان کا عمل بهہ ہوتا، لوگوں کو منکرات سے روکتے اور خود منکرات سے اجتناب کرتے، اکثر و بیشتر دن کو روزہ رکهتے اور رات کو عبادت میں مصروف رہتے.




حضرت عبداللہ بن ابی ملکیہ بیان کرتے ہیں.




ایک دفعہ مجهے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا جب ہم کسی جگہ پڑاو کرتے تو آپ آدهی رات تک عبادت میں مشغول رہتے جبکہ دوسرے ہم سفر تهکاوٹ سے چور ہوکر نیند کی آغوش میں محو استراحت ہوتے. میں نے ایک رات دیکها کہ آپ بار بار یہ آیت پڑھ رہے ہیں اور زار و قطار رو رہے ہیں.




*((" وجاءت سکرة الموت بالحق ذالک ما کنت منہ تحید "))*


*("ق -19")*



*(" وہ موت کی جان کئی حق لے کر آ پہنچی یہ وہی چیز ہے جس سے تو بهاگتا تها. ")*



آپ مسلسل یہی آیت طلوع فجر تک پڑهتے رہے.




حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ علم و تقوٰی کے معیار پر پورے اترنے کے ساتھ ساتھ حسن و جمال کے پیکر تهے، خشیت الہی سے رات بهر روتے رہتے، آپ کے صاف شفاف رخساروں پر لگاتار آنسو اس طرح بہتے جیسے موتیوں کی لڑی ہو.




بلاشبہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ علم و تقوٰی کے اعلی و ارفع مقام پر فائز تهے، ایک دفعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ حج کے لئے تشریف لائے، اور اتفاقاً اسی سال حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بهی حج کے لئے تشریف لے گئے تهے، حالانکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفئہ وقت تهے، آپ کے ہمراہ حکومت کے کارندے بهی تهے، لیکن عوام کا ہجوم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اردگرد ہوتا، یہ شان و عظمت آپ کو علمی مقام کی وجہ سے حاصل ہوئی.



حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ عمر بهر لوگوں کو علم و دانش اور تقوٰی و طہارت کا درس دیتے رہے. یہاں تک کہ آپ اللہ کو پیارے ہوگئے، وصال کے وقت آپ کی عمر اکہتر 71 سال تهی، حضرت محمد بن حنفیہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑهائی، جس میں جلیل القدر صحابہ کرام اور تابعین عظام نے شرکت کی، جب آپ کو لحد میں اتارا جا رہا تها تو غیب سے آواز آرہی تهی.



*((" یا ایتها النفس المطمئنة ہ ارجعی الی ربک راضیة مرضیة ہ فادخلی فی عبادی ہ وادخلی جنتی ہ "))*



حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.



1. جامع الاصول.         جلد 10 باب فضائل صحابہ 



2. الاصابہ مترجم          478



3. الاستیعاب              350/2



4. اسد الغابہ.             192/3



5. صفحة الصفوة.        746/1



6. حیاتہ الصحابہ.              جلد چہارم کی فہرست دیکهئے.



7. الاعلام و مراجعہ.




 

🌴بارک اللہ فیکم🌴



============>مکمل۔۔۔

 


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر 

  

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments