✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
*2.حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضي الله عنہ*
قسط 7........
میں غیر ارادی طور پر آہستہ آہستہ آپ کے قریب ہوجاتاہوں۔ یہاں تک کہ بلآخر میں سچ مچ آپ کے قریب ہو گیا۔
اللہ تعالی کو بھی شاید یہی منظور تھا کہ میں آپ کی چند باتیں سن لوں۔ چنانچہ میں نے رسول اللہﷺ سے عمدہ اور اچھی باتیں سنیں۔ اس پر دل میں خیال آیا۔
طفیل! بڑے افسوس کی بات ہے۔
تو ایک دانش مند شاعر ہے۔ حسن و قبیح کو خوب پہچانتا ہے۔ یہ شخص جو کچھ بھی کہتا ہے,اس کے سن لینے میں حرج ہی کیا ہے؟
اس نے اگر کوئ معقول بات کی تو مان لینا. بری بات کی تو دامن جھٹک کر الگ ہو جانا.
جناب طفیل (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
میں وہاں مسجد میں ہی ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ رسول اقدس ﷺ عبادت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کو چل دیئے . میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا جب آپ اپنے گھر میں داخل ہو گئے تو میں آپ کے ساتھ وہاں پہنچ گیا.
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کی قوم نے مجھ سے آپ کے بارے میں بہت سی باتیں کی ہیں. مجھے یہ مسلسل ڈراتے اور خوفزدہ کرتے رہے کہ کہیں میں آپ کی باتیں سن کر متاثر نہ ہو جاؤں. چنانچہ میں نے احتیاط کے طور پر اپنے کانوں میں روئ ٹھونس لی تاکہ آپ کی بات سن نہ سکوں. لیکن منشاء الہی یہ تھی کہ آپ کی باتیں بہر حال سنوں.
واللہ ! میں نے نہ صرف آپ کی باتیں سنیں بلکہ آپ کی ہر بات مجھے اچھی لگی. ازراہ کرم آپ مجھے اپنا پیغام سنائیں. رسول اقدس ﷺ نے دعوت پیش کرتے ہوئے سورہ اخلاص اور فلق کی تلاوت فرمائ.
بخدا! اس سے پہلے نہ تو میں نے اس سے بہتر کوئ کلام سنا تھااور نہ آپ کے پیغام سے بڑھ کر عدل و انصاف پر مبنی کوئ اور پیغام میرے کانوں میں پڑا تھا.
اس موقع پر میں نے بیعت کی غرض سے رسول اللہ ﷺ کے آگے ہاتھ پھیلا دیئے اور کلمہ پڑھ کر اس بات کی شہادت دی کہ اللہ تعالی کے سوا کوئ عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ حضرت محمدﷺ اللہ تعالی کے رسول ہیں. اس اقرار کے ساتھ میں دائرہ اسلام میں اخل ہو گیا.
جناب طفیل (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں:
کچھ عرصہ میں مکہ معظمہ ہی میں قیام پذیر رہا اور احکام اسلام کی تعلیم حاصل کرتا رہا. حتی الامکان اس عرصہ میں قرآن مجید کے کچھ اجزاء زبانی یاد کئے اور جب میں نے اپنے وطن اور قوم کی طرف لوٹنے کا عزم کیا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا.
یا رسول اللہ ﷺ! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میرا قبیلہ میری بات مانتا ہے.اب میں ان کے ہاں واپس جا رہا ہوں اور وہ بھی اسلام کا داعی بن کر. دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے کو ئ ایسی نشانی عطا کردے جب میں انہیں اللہ تعالی کی طرف بلاؤں تو وہ میری مدد گار ثابت ہو.
اس پر آپ ﷺ نے میرے لئے دعا کی.
الہی ! اس کو اس طرح کی ایک نشانی عطا کردے جو ہر وقت اس کے کام آئے جب بھی یہ خیر و خوبی کا قصد کرے.
میں جب وہاں سے اپنے وطن کی طرف چل پڑا اور اپنی بستی کے قریب ایسے مقام پر پہونچا جہاں سے قوم کے درو دیوار صاف نظر آرہے تھے تو کیا دیکھتا ہوں کہ اچانک میری پیشانی پر چراغ کی مانند ایک روشنی دمک رہی ہے. میں نے اللہ تعالی سے التجاء کی.
الہی ! اس روشنی کو میرے چہرے کی بجائے کسی اور چیز میں منتقل فرمادے مباداکہ میری قوم میرا چہرا دیکھ کر کہہ دیں کہ اپنا آبائ دین چھوڑنے کی یہ سزا ہے, روشنی نہیں.
میرا یہ کہنا تھا کہ یہ روشنی میرے چہرے سے ہٹ کر میرے نیزے کے بالائ حصہ میں مرکوز ہو گئ.
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئ قندیل نیزے میں جگمگا رہی ہے اور جب میں پہاڑ کی بلندی سے نیچے اتر کر اپنی قوم کے پاس آیا .
تو سب سے پہلے مجھے ملنے کے لئے میرا والد آیا جو بہت بوڑھا ہو چکا تھا.
میں نے کہا ابا جان! مجھ سے دور ہی رہیں میرا اور آپ کا اب کوئ رشتہ باقی نہیں رہا.
===========>جاری ہے..
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
*2.حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضي الله عنہ*
قسط 7........
میں غیر ارادی طور پر آہستہ آہستہ آپ کے قریب ہوجاتاہوں۔ یہاں تک کہ بلآخر میں سچ مچ آپ کے قریب ہو گیا۔
اللہ تعالی کو بھی شاید یہی منظور تھا کہ میں آپ کی چند باتیں سن لوں۔ چنانچہ میں نے رسول اللہﷺ سے عمدہ اور اچھی باتیں سنیں۔ اس پر دل میں خیال آیا۔
طفیل! بڑے افسوس کی بات ہے۔
تو ایک دانش مند شاعر ہے۔ حسن و قبیح کو خوب پہچانتا ہے۔ یہ شخص جو کچھ بھی کہتا ہے,اس کے سن لینے میں حرج ہی کیا ہے؟
اس نے اگر کوئ معقول بات کی تو مان لینا. بری بات کی تو دامن جھٹک کر الگ ہو جانا.
جناب طفیل (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں:
میں وہاں مسجد میں ہی ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ رسول اقدس ﷺ عبادت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کو چل دیئے . میں بھی آپ کے پیچھے چل پڑا جب آپ اپنے گھر میں داخل ہو گئے تو میں آپ کے ساتھ وہاں پہنچ گیا.
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ کی قوم نے مجھ سے آپ کے بارے میں بہت سی باتیں کی ہیں. مجھے یہ مسلسل ڈراتے اور خوفزدہ کرتے رہے کہ کہیں میں آپ کی باتیں سن کر متاثر نہ ہو جاؤں. چنانچہ میں نے احتیاط کے طور پر اپنے کانوں میں روئ ٹھونس لی تاکہ آپ کی بات سن نہ سکوں. لیکن منشاء الہی یہ تھی کہ آپ کی باتیں بہر حال سنوں.
واللہ ! میں نے نہ صرف آپ کی باتیں سنیں بلکہ آپ کی ہر بات مجھے اچھی لگی. ازراہ کرم آپ مجھے اپنا پیغام سنائیں. رسول اقدس ﷺ نے دعوت پیش کرتے ہوئے سورہ اخلاص اور فلق کی تلاوت فرمائ.
بخدا! اس سے پہلے نہ تو میں نے اس سے بہتر کوئ کلام سنا تھااور نہ آپ کے پیغام سے بڑھ کر عدل و انصاف پر مبنی کوئ اور پیغام میرے کانوں میں پڑا تھا.
اس موقع پر میں نے بیعت کی غرض سے رسول اللہ ﷺ کے آگے ہاتھ پھیلا دیئے اور کلمہ پڑھ کر اس بات کی شہادت دی کہ اللہ تعالی کے سوا کوئ عبادت کے لائق نہیں اور یہ کہ حضرت محمدﷺ اللہ تعالی کے رسول ہیں. اس اقرار کے ساتھ میں دائرہ اسلام میں اخل ہو گیا.
جناب طفیل (رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں:
کچھ عرصہ میں مکہ معظمہ ہی میں قیام پذیر رہا اور احکام اسلام کی تعلیم حاصل کرتا رہا. حتی الامکان اس عرصہ میں قرآن مجید کے کچھ اجزاء زبانی یاد کئے اور جب میں نے اپنے وطن اور قوم کی طرف لوٹنے کا عزم کیا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا.
یا رسول اللہ ﷺ! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میرا قبیلہ میری بات مانتا ہے.اب میں ان کے ہاں واپس جا رہا ہوں اور وہ بھی اسلام کا داعی بن کر. دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے کو ئ ایسی نشانی عطا کردے جب میں انہیں اللہ تعالی کی طرف بلاؤں تو وہ میری مدد گار ثابت ہو.
اس پر آپ ﷺ نے میرے لئے دعا کی.
الہی ! اس کو اس طرح کی ایک نشانی عطا کردے جو ہر وقت اس کے کام آئے جب بھی یہ خیر و خوبی کا قصد کرے.
میں جب وہاں سے اپنے وطن کی طرف چل پڑا اور اپنی بستی کے قریب ایسے مقام پر پہونچا جہاں سے قوم کے درو دیوار صاف نظر آرہے تھے تو کیا دیکھتا ہوں کہ اچانک میری پیشانی پر چراغ کی مانند ایک روشنی دمک رہی ہے. میں نے اللہ تعالی سے التجاء کی.
الہی ! اس روشنی کو میرے چہرے کی بجائے کسی اور چیز میں منتقل فرمادے مباداکہ میری قوم میرا چہرا دیکھ کر کہہ دیں کہ اپنا آبائ دین چھوڑنے کی یہ سزا ہے, روشنی نہیں.
میرا یہ کہنا تھا کہ یہ روشنی میرے چہرے سے ہٹ کر میرے نیزے کے بالائ حصہ میں مرکوز ہو گئ.
ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئ قندیل نیزے میں جگمگا رہی ہے اور جب میں پہاڑ کی بلندی سے نیچے اتر کر اپنی قوم کے پاس آیا .
تو سب سے پہلے مجھے ملنے کے لئے میرا والد آیا جو بہت بوڑھا ہو چکا تھا.
میں نے کہا ابا جان! مجھ سے دور ہی رہیں میرا اور آپ کا اب کوئ رشتہ باقی نہیں رہا.
===========>جاری ہے..
0 Comments