حضرت طفیل بن عمرو الدوسی (رضی اللہ عنہ) قسط 8

 
✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*

*2.حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضى الله عنه*


قسط8۔۔۔۔۔۔

باپ نے افسردہ ہو کر کہا: لخت جگر! یہ کیسے؟

میں نے کہا: میں مسلمان ہو گیا ہوں اور میں نے حضرت محمد ﷺ کے دین کی پیروی قبول کر لی ہے۔

باپ نے بیٹے کی بات سن کر کہا:
بیٹے! اس سے کیا ہوتا ہے؟ میں بھی وہی دین تسلیم کر لیتا ہوں  جو تیرا دین ہے۔

میں نے کہا:

اچھا'پھر غسل کر لیجئے اور اپنے کپڑے دھو کر اجلے کر لیجئے اور آئے، میں آپ کو وہی تعلیم دوں گا جو میں نے حاصل کی ہے، ابا جان نے میری بات مان لی۔ غسل کیا اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر قبول اسلام کے لیے تیار ہو گئے۔

میں نے اسلام کی دعوت دی اور وہ فورا مسلمان ہو گئے۔

اس کے بعد میری بیوی میرے پاس آئ۔

میں نے کہا: مجھ سے دور ہی رہو تو اچھا ہے۔ میرے اور تیرے درمیان اب کوئ ناتہ باقی نہیی رہا۔

اس نے چونک کر کہا: میرے ماں باپ اپ پر قربان ہو! ۔ یہ کیوں؟

میں نے کہا: ہم دونوں کے درمیان عقیدے کی دیوار حائل ہو گئ ہے۔ میں نے دین اسلام قبول کر لیا ہے اور حضرت محمد ﷺ قبول کر لی ہے۔

اس پر میری بیوی نے کہا:

اس سے کیا ہوتا ہے۔ میں بھی وہی دین اختیار کئے لیتی ہوں جو اپ نے اختیار کیا ہے۔

میں نے کہا یہ بات ہے تو جاؤ اور ذوالشری کے پانی میں غسل کر کے اؤ ذوالشری قبیلہ دوس کا ایک معروف بت تھا۔ جس کے گرد ایک گڑھے میں پہاڑ سے پانی آ کر جما ہو جاتا تھا۔

بیوی نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا آپ ذوالشری سے ڈرتے نہیں؟


میں نے کہا ہر گز نہیں، تم پراورذوالشری پر ہلاکت نازل ہو-


  میں کہتا ہوں جاؤ! وہاں لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو کر نہا دھولو- میں ضمانت دیتاہوں کہ یہ گونگا بہرا بت تیرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا- یہ حوصلہ افزاء بات سن کر وہ گئ اور غسل کر کےواپس آگئ- میں نے اس کے سامنے اسلام کی سادہ اور پر تاثیر دعوت پیش کی جس کو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کیا اور وہ مسلمان ہو گئ-

  اس کے بعد میں نے براہ راست قبیلہ دوس کو اسلام کی طرف بلایا. حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کے علاوہ ہر ایک نے اسلام قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا-

 اس گروہ میں حضرت ابو ہریرہ ( رضی اللہ عنہ) ہی تنہا ایسے سلیم الطبع شخص تھے جنہوں نے بغیر کسی تامل کے اسلام کا پیغام دل کی گہرائیوں میں اتار لیا.

  حضرت طفیل ( رضی اللہ عنہ ) بیان فرماتے ہیں!

         ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں مکہ معظمہ حاضر ہوا اور حضرت ابو ہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) بھی میرے ساتھ تھے. نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا:


طفیل ( رضی اللہ عنہ ) ! صورت حال کیا ہے؟

         میں نے عرض کی: حضور ! لوگوں کے دلوں پر پردے پڑے ہیں. کفر نےشدت اختیار کرلی ہے اور قبیلہ دوس پر فسق و فجور اور نافرمانی کا خصوصیت سے غلبہ ہے-


   یہ سننا تھا کہ رسول اللہﷺ اٹھے, وضو کیا, نماز پڑھی اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کچھ کہنا چاہا. حضرت ابو ہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ جب میں نے آپ کو اس حالت میں دیکھا تو دل ہی دل میں ڈر گیا کہ مبادا میری قوم کو بد دعا دیں اور وہ ہلاک ہو جائے.


میں نے افسردگی کے عالم میں کہا:

 ہائے میری قوم !


 لیکن رحمت دوعالم, رسول معظم ﷺ نے جو فرمایا! وہ یہ تھا:-

الہی ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے-

الہی ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے-

الہی!قبیلہ دوس کو ہدایت دے-




===========>جاری ہے..

Post a Comment

0 Comments