بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت مجزاتہ بن ثور السدوسی رضی اللہ عنہ
*مجزاتہ بن ثور السدوسی ایک بہادر نوجوان ہے جس نے ایک مقابلے میں پورے سو مشرکوں کو موت کے گهاٹ اتار دیا اور دیگر معرکوں میں ان کی تلوار سے قتل ہونے والوں کی تعداد بے شمار ہے. ( مؤرخین )*
یہ ہیں اللہ تعالٰی کے برگزیدہ و بہادر سپاہی جو اپنے سے جنگ قادسیہ کی غبار جهاڑتے ہیں، یہ سب اللہ تعالٰی کی عطا کردہ نصرت و تائید پہ فرحاں و شاداں اپنے شہید بهائیوں کے نصیب میں آنے والے اجر و ثواب پر رشک کناں اور اس جیسے ایک دوسرے معرکہ کا شوق دل میں سمائے ہوئے جو کہ جاہ و جلال اور شان و شوکت میں معرکہ قادسیہ کی مانند ہو، وفور شوق سے اس کے انتہائی شدت سے منتظر کہ خلیفئہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ حکم جلد انہیں موصول ہوا کہ تخت کسریٰ کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لئے مسلسل جہاد کو جاری رکها جائے.
روشن چہروں والے مجاہدین کے شوق کو ابهی زیادہ دیر نہ گزری تهی کہ اتنے میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا ایلچی مدینہ طیبہ سے کوفہ پہنچ جاتا ہے اور اس کے پاس کوفے کے گورنر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے نام یہ پیغام ہے کہ اپنا لشکر لے کر ابهی روانہ ہو جائیں اور بصرہ سے آنے والے لشکر کے ساتھ مل جائیں، پهر ایک ساتھ ہرمز ان کی تلاش میں اہواز کی طرف روانہ ہوں اسے فی الفور گرفتار کر کے تستر شہر کو آزاد کرالیا جائے، جو کہ اس دور میں کسریٰ تاج کا موتی اور سر زمین فارس کا نگینہ تصور کیا جاتا ہے. شاہی فرمان میں یہ بهی لکها ہوا تها کہ بنو بکر کے سردار اور ہر دلعزیز اور بہادر شہسوار مجزاتہ بن ثور السدوسی کو اپنے ہمراہ لے لیں.
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے خلیفتہ المسلمین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنا لشکر تیار کیا اور اس کی بائیں جانب مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ کو متعین کر دیا، اور بصرہ سے آنے والے لشکر اسلام کے ساتھ مل کر راہ خدا میں جہاد کی غرض سے چل پڑے، مختلف شہروں کو آزاد کراتے ہوئے اور آبادیوں کو کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑهتے گئے اور ہرمز ان لشکر اسلام سے ڈرتا ہوا دم دبا کر بهاگ نکلا ایک جگہ سے دوسری جگہ چهپتے چهپاتے ہوئے بلآخر اس نے تستر شہر کے قلعہ میں جاکر پناہ لی
تستر شہر جس میں ہرمزان نے پناہ لی تهی، یہ بلاد فارس میں سب سے بڑھ کر خوبصورت، سر سبزو شاداب اور حفاظتی نکتہ نگاہ سے محفوظ ترین تها، یہ شہر تاریخی اعتبار سے بہت پرانا اور تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تها، اور سطح زمین پر گهوڑے کی شکل پر تعمیر کیا گیا تها . اسے ایک وسیع و عریض دریا سیراب کرتا تها. جسے دریائے دجیل کے نام سے پکارا جاتا تها. اس کے درمیان ایک جزیرہ میں شاہ سابور نے جهیل بنوائی، اور اس میں سرنگوں کے زریعہ دریا سے پانی پہچانے کا اہتمام کیا، تستر کی جهیل اور سرنگیں فن تعمیر کا نادر نمونہ تصور کی جاتی تهیں. ان کے اندرونی حصوں میں اعلٰی قسم کے پتهر جڑے گئے تهے، سرنگوں کو گرنے سے محفوظ کرنے کے لئے لوہے کے ستونوں سے سہارا دیا گیا، تستر کے ارد گرد ایک دیوار تعمیر کی گئی، جو پورے شہر پر محیط تهی، جیسا کہ گنگن کلائی کو محیط ہوتا ہے.
مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ اپنی طرز کی سب سے بڑی اور پہلی دیوار ہے، جو روئے زمین پر تعمیر کی گئی، ہرمزان نے دیوار کے ساتھ ساتھ اتنی بڑی خندق کهدوا رکهی تهی جسے عبور کرنا محال تها اور اندرونی جانب اس کی حفاظت کے لئے ایران کی بہترین فوج ہر وقت چوکس رہتی. تستر کی اس خندق پر لشکر اسلام نے مسلسل ایک سال چھ ماہ تک محاذ آرائی کی، لیکن اسلامی فوج اسے عبور نہ کرسکی، اس مدت دراز میں دشمن سے تقریباً اسی 80 خون ریز چهڑپیں ہوئیں، معرکہ آرائی کی ابتداء فریقین کے شہسواروں کے باہمی مقابلہ سے ہوئی. بلآخر یہ مقابلہ گهمسان کی لڑائی میں بدل جاتا، اس جان لیوا محاذ آرائی میں ایک موقع ایسا بهی آیا جس میں حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ نے وہ جرأت مندانہ اقدام کیا جس سے عقل دنگ رہ گئی، دوست و دشمن انگشت بدنداں ہوگئے، دیکهنے والوں کو درطئہ حیرت میں ڈال دیا، ہوا یہ کہ میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے تن تنہا دشمن کے پورے ایک سو لڑاکے تہہ تیغ کردئے، اس حیرت انگیز کارنامے کو دیکھ کر دشمن کی فوج میں لرزہ طاری ہوگیا، اور ہر ایک کے دل میں ان کے رعب و دبدبہ کی دهاک بیٹھ گئی، اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے، اس محیر العقول واقعہ کو دیکھ کر سبهی کو اس کا علم ہو گیا، کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام میں شمولیت کے لئے اس مرد مجاہد کا انتخاب کیوں کیا تها
ان اسی 80 خونریز معرکوں میں سے آخری معرکہ میں مسلمانوں نے اپنے دشمن پر ایسا زوردار حملہ کیا جس سے ایرانی فوج کے پاؤں اکهڑ گئے، اور وہ اس حملہ کی تاب نہ لا سکی، بلآخر خندق کا محاصرہ ترک کر کے ایرانی شہر کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے اور انہوں نے قلعے کے دروازے بند کر لئے.
اس تازہ ترین صورتحال میں مسلمان مزید سنگین حالات سے دوچار ہو گئے، ہوا یہ کہ ایرنیوں نے قلعہ کے برجوں سے تیروں کی بوچهار کردی اور قلعے کی بالائی جانب سے انہوں نے ایسے زنجیر نیچے پهینکے جن کے سروں پر آگ سے گرم کی گئی شعلہ نما کنڈیاں نصب کی گئی تهیں، لشکر اسلام میں سے اگر کوئی مجاہد دیوار پر چڑهنے لگتا یا اس کے قریب آتا تو وہ فوراً دہکتی ہوئی لوہے کی کنڈی اس کے جسم میں پیوست کر دیتے، اور اسے نہایت تیزی سے اوپر کهینچنا شروع کر دیتے جس سے مجاہد کے جسم کے پرخچے اڑنے لگتے اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ جاتا.
اس نازک ترین صورت حال سے مسلمانوں کے مصائب میں بے پناہ اضافہ ہوگیا تو وہ انتہائی دردناک انداز میں بارگاہ الہی میں گڑگڑا کر دعائیں مانگنے لگے الہی ! ہمیں اپنے فضل و کرم سے دشمن پر غلبہ عطا فرما:
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ حسرت و یاس کی تصویر بنے قلعے کی دیوار کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تهے، اچانک ان کے سامنے ایک تیر گرا جس کے ساتھ کچھ بندها ہوا تها. آپ نے آگے بڑھ کر تیر اٹهایا. اس کے ساتھ بندهی ہوئی چیز کو کهولا. کیا دیکهتے ہیں کہ ایک خط ہے جس میں یہ تحریر تها." اے فرزندان اسلام ! مجهے تم پر مکمل اعتماد ہے کہ تم ایفائے عہد کی پابندی کرتے ہو، میں تم سے اپنی جان، مال، اہل و عیال اور چند ایک رفقاء کے لئے پناہ طلب کرتا ہوں، اس احسان کے بدلے میں تمہیں ایک ایسا خفیہ راستہ بتاؤں گا جس کے ذریعہ تم اس شہر میں داخل ہو سکتے ہو، یہ پڑھ کر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے چہرے پر رونق کے آثار نمایا ہوئے، جان و مال کی پناہ کا پروانہ لکها اور اسی تیر کے ذریعہ قلعے کی اس سمت پهینک دیا جہاں سے تیر نیچے پهینکا گیا تها
اس نے تیر اٹهایا. خط کهول کر پڑها تو اس نے اطمینان کا سانس لیا، اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ مسلمان وعدے کے سچے ہوتے ہیں. وہ بے خطر قلعہ کی دیوار کے ساتھ سرکتا ہوا نیچے اتر آیا اور لشکر اسلام کے سپہ سالار حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی داستان غم سناتے ہوئے عرض کی، کہ میں ایران کے سربراہ خاندان سے تعلق رکهتا ہوں، ایرانی جرنیل ہرمزان نے میرے بڑے بهائی کو قتل کردیا، اس کا مال و متاع کو لوٹ کیا اور اہل و عیال کو ظلم ستم کا نشانہ بنایا، میرے متعلق بهی اس کا دل صاف نہیں، میرے خلاف وہ بڑے گهناونے منصوبے بناتا ہے، میری جان و مال کو اس سے ہر وقت خطرہ لاحق رہتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ میں اس کے ظلم و ستم کے بجائے آپ کے عدل و انصاف کو اور اس کی بد عہدی کی بجائے آپ کے ایفائے عہد کو ترجیح دیتا ہوں، میرادلی ارادہ ہے کہ میں آپ کو وہ خفیہ راستہ بتاؤں جس کے ذریعہ اسلامی افواج کے سپوت تستر شہر میں داخل ہو سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ میرے ہمراہ ایک ساتهی کو روانہ کریں جو بیک وقت جرأت و شجاعت اور ہوش و جرد میں ید طولی رکهتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تیراکی کا بهی ماہر ہو، تاکہ اسے میرے ساتھ خفیہ راستہ عبور کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے.
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ بلایا اور ان سے رازدارانہ انداز میں بات کی اور فرمایا: مجهے اپنی قوم سے ایک ایسا شخص دیں جو بیک وقت دانشمند ،محتاط اور تیراکی کا ماہر ہو حضرت مجزاتہ رضی اللہ عنہ نے کہا. مجهے یہ خدمت سونپیں. میں انشاء اللہ اسے بخوبی سرانجام دینے کی کوشش کروں گا، یہ سن کر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: اگر آپ یہ خدمت سر انجام دینا چاہتے ہیں تو بسم اللہ، بہت خوشی کی بات ہے اللہ تعالٰی برکت کرے گا، انہیں اس مشن پر روانہ کرتے وقت ارشاد فرمایا: راستہ اچهی طرح یاد کر لینا قلعے کے دروازے کی جگہ اچهی طرح نشان زد کرلینا، ہرمزان جس جگہ براجمان ہوتا ہے وہ بهی ذہن نشین کر لینا، ثابت قدمی کا ثبوت دینا اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرنا.
حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ رات کی تاریکی میں اپنے اس ایرانی بهائی کے ہمراہ یہ خطرناک مہم سر کرنے کے لئے چل پڑے، تو وہ دونوں زیر زمین ایک ایسی سرنگ میں داخل ہوئے جو دریا اور شہر کے مابین دفاعی نکتہ نگار سے کهودی گئی تھی، سرنگ کہیں سے تو چوڑی تهی جہاں پانی میں چلنا ممکن تها اور کہیں سے وہ بہت تنگ تهی تو وہاں تیرنا پڑتا اس سرنگ میں نہایت ہی محتاط طریقہ اختیار کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑهتے گئے، بلآخر وہ اس سوراخ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے جہاں سے بآسانی قلعہ کے اندر داخل ہوا جاسکتا تها، ان کے ساتهی نے وہیں سے اشارہ کیا کہ وہ دیکهو میرے بهائی کا قاتل ہرمزان بیٹها ہے، اور وہ وہیں قلعہ کا بغور جائزہ لیا، جب حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ نے ایرانی سپہ سالار ہرمزان کو سامنے بیٹها دیکها تو دل میں خیال آیا کہ اس کے سینے میں نیزہ دے ماریں، لیکن فوراً حضرت اابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی وصیت کا خیال آیا تو اپنا ارادہ ترک کردیا اور چپکے سے واپس لوٹ گئے اور طلوع فجر سے پہلے وہیں پہنچ گئے جہاں اس مہم کا آغاز کیا تها اور حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو روئیدار سفر سنائی اور اس پر خطر راستے کی صورت حال سے آگاہ کیا
اس صورت حال کو پیش نظر رکهتے ہوئے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام سے ایسے تین صد مجاہدین کو منتخب کیا جو سب سے بڑه کر شیر دل ، طاقت ور، اور سخت جان اور تیراکی کے ماہر تهے اور حضرت مجزاتہ بن ثور السدوسی رضی اللہ عنہ کو ان کا امیر مقرر کر دیا اور اس مہم پر روانہ کرتے وقت یہ خصوصی ہدایت دی کہ اگر شہر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو جاو تو نعرہ تکبیر بلند کرنا.
.حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ساتهیوں کو حکم دیا کہ جس قدر ممکن ہو ہلکا سا لباس زیب تن کریں، ہمیں زیادہ تر یہ پر خطر راستہ تیر کر عبور کرنا ہوگا، کہیں پانی سے لباس بوجهل نہ ہوجائے اور ساته ہی یہ تلقین بهی کی کہ تلوار کے علاوہ کوئی بهی چیز ساتھ نہ لیں اور تلوار قمیص کی اندرونی جانب اپنے بدن سے باندھ لیں ان مجاہدین کو رات کی تاریکیوں میں اپنے ہمراہ لیا اور اس مہم کو سر کرنے کے لئے چل پڑے.
حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ اپنے ساتهیوں کو لے کر غار میں داخل ہوئے تو پانی خوفناک انداز میں پوری تیزی سے بہہ رہا تها، یہ سب پر اسرار بندے اپنے اللہ کا نام لے کر اس میں کود گئے. اس دشوار گزار راستے کو عبور کرنے کے لئے پوری جرأت مندی کے ساتھ آگے بڑهنا شروع کیا، ہر ایک مجاہد اپنے گرد و نواح سے بے نیاز ہو کر اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے کوشاں تها، جب چند ساتهی حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سرنگ کے آخری سرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو کیا دیکهتے ہیں کہ پانی کی بے رحم موجوں نے ان کے دو صد بیس افراد کو اپنا لقمہ بنالیا اور صرف اسی 80 افراد اسے عبور کرنے میں کامیاب ہو سکے.
حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ اور ان کے ہمراہ 79 افراد نے قلعہ کے اندر قدم رکهتے ہی اپنی تلواریں فضا میں لہرائیں اور یکدم قلعہ کے محافظوں پر حملہ کر دیا اور آن واحد میں انہیں تہہ تیغ کر دیا اور قلعہ کا دروازہ کهولنے میں کامیاب ہو گئے، دروازہ کهلتے ہی نعرہ تکبیر بلند کیا، جب یہ آواز قلعے کے باہر لشکر اسلام نے سنی تو مجاہدین نے جذبئہ اسلام سے سرشار ہو کر پر زورانداز میں نعرہ تکبیر بلند کیا اور طلوع فجر کے وقت شہر پر ہلہ بول دیا، گهمسان کی جنگ چهڑگئی، جنگی تاریخ میں کم ہی اس جیسے ہولناک منظر دیکهے گئے ہوں گے جس میں لاشوں کے انبار لگ گئے
شہر کے گلی کوچوں اور قلعہ کے اندرونی میدان میں لڑائی پورے زوروں پر تهی کہ حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ نے ایرانی فوج کے سپہ سالار ہرمزان کو میدان میں بر سر پیکار دیکها تو اس کی طرف بڑهے، لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے وہ آنکهوں سے اوجهل ہوگیا، تهوڑی ہی دیر بعد جب وہ دوبارہ سامنے آیا تو آپ نے اس پر حملہ کر دیا، لیکن آپ کی تلوار کا وار خطا کیا، ہرمزان نے وار کیا جو عین نشانے پر لگا جس سے لشکر اسلام کا یہ بطل جلیل میدان جنگ میں شہید ہو کر گر پڑا، لیکن آنکهوں میں چمک اور چہرے پر سرور کے آثار نمایاں تهے، بلاشبہ یہ کیفیت اس عظیم کارنامہ کی وجہ سے تهی، جسے اللہ سبحانہ و تعالٰی نے سر انجام دینے کی انہیں سعادت نصیب فرمائی.
فتح حاصل کرنے کے بعد مجاہدین کا قافلہ ہرمزان کو اپنے ہمراہ لیکر مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوا تاکہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فتح کی خوشخبری سنائیں، ہرمزان کو امیر المومنین کے سامنے پیش کیا تو اس وقت اس نے شاہی لباس پہن رکها تها، اس کے ساتھ ساتھ فتح کی بشارت دینے والے مجاہدین ایک یہ بهی خبر لے کر آئے کہ ان کا ایک بہادر، سخت جان اور صبر و تحمل کا پیکر ساتهی مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں جام شہادت نوش کر چکا ہے.
حضرت مجزاتہ بن ثور رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.
1. تاریخ الامم و الملوک. 216/4
2. تاریخ خلیفہ بن خیاط. 117/1
3. تاریخ الاسلام علامہ ذہبی. 30/2
4. معجم البلدان علامہ یاقوت. باب تستر
5. الاصابہ في تمییز الصحابہ. 773
6. اسد الغابہ. 30/4
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>مکمل۔۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments