حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ
*ایک نا بینا شخص جس کی شان میں اللہ تعالٰی نے سولہ آیات نازل کیں. یہ آیات اس وقت تک پڑهی جائیں گی جب تک گردش لیل و نہار باقی ہے*
کاروان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں وہ کون خوش نصیب و عظیم صحابی ہے جس کی وجہ سے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو سات آسمانوں کے بهی اوپر سے متنبہ کر دیا گیا ؟
وہ کون ہے جس کی شان میں جبرئیل امین علیہ السلام اللہ تعالٰی کی جانب سے وحی لے کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے. یہ عظیم المرتبت شخصیت حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی ہے جنہیں مؤذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بهی اعزاز حاصل ہے.
حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ مکی اور قریشی ہیں. آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رشتہ دار بھی ہیں، وہ اس طرح کہ آپ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ماموں زاد بھائی تھے. ان کا باپ قیس بن زید تها اور ماں کا نام عاتکہ بنت عبد اللہ اور انہیں ام مکتوم کے نام سے اس لئے پکارا جاتا کہ ان کے ہاں حضرت عبداللہ ابن مکتوم یعنی نابینا پیدا ہوئے تهے.
حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے دل کی آنکھوں سے وادی مکہ معظمہ میں اسلام کی نورانی کرنوں کا مشاہدہ کیا. اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے اسلام کے لئے ان کے سینہ میں انشراح پیدا کر دیا. آپ بهی ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی.
تحریک اسلامی کے ابتدائی دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جن مشکلات سے دو چار ہونا پڑا، جناب عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے بهی خندہ پیشانی سے ان مشکلات کا سامنا کیا. آزمائش کے اس نازک وقت میں آپ کے پائے استقلال میں کوئ لغزش پیدا نہ ہوئ اور نہ ہی آپ کی جرأت ایمانی میں کوئ اضحلال پیدا ہوا، بلکہ اس ابتلاء کی بهٹی سے کندن بن کر نکلے. کتاب الہی ، دین اسلام اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت میں دو قدم اور آگے بڑھ گئے.
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں رہتے ہوئے قرآن حکیم کو حفظ کرنے کی طرف متوجہ ہوئے. آپ نے فرصت کے ہر لمحہ کو غنیمت جانتے ہوئے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل سے علم و حکمت کے گراں قدر جواہر پارے اپنے دامن میں سمیٹنے کی بهر پور کوشش کی. ان دنوں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی تمنا تهی کہ کسی طرح سرداران قریش حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں.
ایک مرتبہ عتبہ بن ربیعہ، عمرو بن ہشام، امیہ بن خلف، ولید بن مغیرہ، رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹهے ہوئے تهے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تهے اور دل میں یہی شوق و جذبہ موجزن تها کہ یہ لوگ دعوت اسلامی قبول کر لیں تاکہ میرے جانثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی اذیتوں سے بچ جائیں
محفل جمی ہوئی تهی، وہ ہمہ تن گوش اسلام کا پیغام سن رہے تهے، اسی دوران حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ وہاں پہنچ گئے. آتے ہی رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کی ایک آیت کا مفہوم دریافت کرنے لگے. یہ انداز دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبیدہ خاطر ہوئے، ماتهے پر تیور چڑهائ اور انہیں نظر انداز کرتے ہوئے سرداران قریش کی طرف ہی پوری طرح متوجہ رہے. دل میں یہی لگن تهی کہ یہ اسلام قبول کر لیں، دین اسلام کو غلبہ حاصل ہو اور دعوت اسلامی پروان چڑهے.
جب محفل برخاست ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابهی گهر جانے کا ارادہ ہی کیا تها کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی.
عبس و تولی ہ ان جاءہ الاعمی ہ وما یدریک لعلہ یزکی ہ او یذکر فتنفعہ الذکری ہ اما من استغنی ہ فانت لہ تصدی ہ وما علیک الا یزکی ہ واما من جاءک یسعی ہ وهو یخشی ہ فانت عنہ تلهی ہ کلا انها تذکرہ ہ فمن شاء ذکرہ ہ فی صحف مکرمہ ہ مرفوعتہ مطهرہ ہ بایدی سفرہ ہ کرام بررہ ہ
*(سورہ عبس.80 آیت 1 سے 16 تک)*
"ترش رو ہوا اور بے رخی برتی اس بات پر کہ وہ نابینا اس کے پاس آگیا. تمہیں کیا خبر شاید وہ سدهر جائے یا نصیحت پر دهیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لئے نفع ہو جو شخص بے پروائی برتتا ہے، اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو حالانکہ اگر وہ نہ سدهرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے ؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑ آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو، ہرگز نہیں، یہ تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے. یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں، بلند مرتبہ ہیں، پاکیزہ ہیں. معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں."
یہ سولہ آیات حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئیں جو آج تک پڑهی جاتی ہیں اور قیامت تک پڑهی جائیں گی.
یہ وحی نازل ہوتے ہی رسول الله صلى الله عليه وسلم کے دل میں عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی محبت گهر کر گئ. اس کے بعد ہر محفل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا خاص خیال رکهتے. جب بهی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عزت کرتے، اپنے قریب بٹهاتے، خیریت دریافت کرتے اور اگر انہیں کوئ ضرورت ہوتی تو اسے فوراً پورا کرتے
جب قریش نے اہل ایمان کو شدید اذیتیں دینا شروع کردیں تو اللہ تعالٰی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دے دیں. پہلے مرحلے پر جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہجرت کی ان میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بهی تهے. مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم اور حضرت مصعب بن عمير رضی اللہ عنہما نے لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا شروع کی اور دین اسلام کی دعوت پهیلانے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے اور ان کی دعوت سے متاثر ہو کر بہت سے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے. جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آتے ہی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مستقل مؤذن مقرر کر دیا. دن میں پانچ مرتبہ توحید کا یہ نغمہ اہلیان مدینہ کو سناتے اور انہیں کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے کی تلقین کرتے. معمول یہ تها کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دیتے اور حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے، اور بعض اوقات اس کے برعکس ہوتا، لیکن رمضان المبارک میں تو ان کی اور زیادہ شان ہوتی. مدینہ منورہ میں لوگ ایک کی اذان پر سحری کا کهانا تناول کرتے اور دوسرے کی اذان سے سحری کهانا بند کر دیتے. حضرت بلال رضی اللہ عنہ لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے اذان دیتے اور حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نماز فجر کے لئے اذان دیتے، کیونکہ آپ فجر کے وقت کا خاص خیال رکها کرتے تهے.
حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی عظمت کا آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی غیر حاضری میں تقریباً دس مرتبہ انہیں مدینہ منورہ کا نگران مقرر کیا. اور ایک مرتبہ ڈیوٹی اس وقت ان کے سپرد کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لئے روانہ ہوئے تهے.
غزوہ بدر کے بعد اللہ سبحانہ و تعالٰی نے مجاہدین بدر کی شان میں چند آیات نازل کیں اور گهر میں بیٹهے رہنے والوں پر انہیں بہت زیادہ فضیلت دی گئی تاکہ مجاہدین میدان جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، اور گهر میں بیٹهے رہنے والے اپنی عادت کو ناپسند کرتے ہوئے ترک کردیں. یہ آیات سن کر حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بڑے غمگین ہوئے اور انہیں شرکت جہاد کے اعزاز سے محرومی بڑی دشوار محسوس ہوتی. فوراً خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ اگر میں معذور نہ ہوتا تو ضرور جہاد میں شریک ہوتا. حضور ! ہم تو جہاد کی فضیلت سے محروم ہوگئے. پهر اس افسردگی کے عالم میں بے ساختہ ان کی زبان سے یہ دعائیہ کلمات نکلے.
*الہی ! میرے عذر کو پیش نظر رکهتے ہوئے اپنا حکم نازل فرما:*
*الہی ! میرے عذر کو پیش نظر رکهتے ہوئے اپنا حکم نازل فرما:*
*الہی ! میرے عذر کو پیش نظر رکهتے ہوئے اپنا حکم نازل فرما:*
اللہ تعالٰی نے آپ کے دل سے نکلی ہوئی دعا کو فوراً قبول کر لیا
کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیٹها ہوا تها. آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی اور اسی اثناء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی. تهوڑے سے عرصہ میں غنودگی کی یہ کیفیت جاتی رہی.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجهے ارشاد فرمایا. زید لکهو ! میں نے عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا لکهوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آیت لکهو.
*لا یستوی القاعدون من المؤمنین والمجاهدون فی سبیل اللہ*
*("مومنوں میں سے بیٹهے رہنے والے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے برابر نہیں ہوتے")*
حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے عرض کی: حضور جو لوگ معذور ہیں ان کے لئے کیا حکم ہے؟ ابهی گفتگو ہو رہی تهی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پهر غنودگی طاری ہوگئ. تهوڑی دیر لے بعد یہ کیفیت جاتی رہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجهے فرمایا، زید پہلے جو لکها ہے اسے پڑهو.
میں نے پڑها.
*لا یستوی القاعدون من المؤمنین*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے آگے یہ لکھ دو.
*غیر اولی الضرر*
*("محتاجوں کے علاوہ")*
یہ سن کر حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹها. وہ حکم نازل ہو گیا جس کی دل میں تمنا لئے ہوئے تهے، حالانکہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے معذور لوگوں کو جہاد سے مستغنی قرار دے دیا تها ، لیکن حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے دل میں اس خیال نے انگڑائی لی کہ کیا ہوا اگر میں معذور ہوں، کیونکہ جہاد میں شریک ہو کر اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کروں.
ہمیشہ بڑے کارنامے ہی سرانجام دیا کرتے ہیں. اس دن کے بعد ہمیشہ ان کی یہی کوشش رہی کہ کوئی غزوہ ان سے نہ چهوٹے. میدان جنگ میں انہوں نے اپنے ذمہ خود ایک کام لے لیا تها. آپ فرمایا کرتے تهے کہ میدان جنگ میں مجهے لشکر اسلام کا جهنڈا پکڑادیا کرو. چونکہ میں دیکهنے سے معذور ہوں. لہذا ایک ہی جگہ جم کر کهڑا رہوں گا اور حتی الامکان اسلامی جهنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دوں گا
14 ه ہجری میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دشمنان اسلام کو صفحئہ ہستی سے مٹانے کے لئے ایک بہت بڑی یلغار کا پروگرام ترتیب دیا. آپ نے تمام گورنروں کے کام یہ حکم نامہ جاری کیا:
تمہارے علاقہ میں جس کسی کے پاس ہتهیار، سواری یا جہاد کے سلسلہ میں کوئی تجویز ہوتو اسے فوراً اپنی نگرانی میں میرے پاس بهیج دو.
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے چاروں طرف سے مسلمان فوج در فوج مدینہ طیبہ میں پہنچنے شروع ہو گئے. ان مجاہدین میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بهی تهے. مسلمانوں کے اس لشکر جرار کی کمان ایک عظیم جرنیل حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سپرد کردی گئی اور انہیں جنگی نقطئہ نگاہ سے چند ہدایات دے کر اس مشن پر روانہ کر دیا گیا. جب یہ لشکر اسلام قادسیہ پہنچا تو جناب عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ذرع پہنے ہوئے نمودار ہوئے. میدان جنگ میں جهنڈا تهامنے کے لئے پیش کش کی اور فرمایا کہ میں آخری دم تک اسے تهامے رکهوں گا.
تین روز تک بڑی شدت سے لڑائی جاری رہی. طرفین کی جانب سے اس قدر تابڑ توپڑ حملے ہو رہے تهے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی. تیسرے روز ایک بڑے زور دار حملے کے بعد جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا. اس میدان میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا اور سر زمین شرک میں توحید کا جهنڈا لہرانے لگا، اس فتح و کامرانی کی قیمت سیکڑوں شہداء کی صورت میں ادا کرنی پڑی اور عظیم المرتبت شہداء میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ بهی شامل تهے. آپ اس حالت میں شہید ہو کر گرے کہ اسلامی جهنڈا آپ کے بازوؤں کی گرفت میں تها.
حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجیئے.
1. الاصابہ. 57_64
2. ذیل المذیل. 36
3. الطبقات الکبری. 205/4
4. حیاتہ الصحابہ. فہرست دیکهئے
5. صفتہ الصفوہ. 237/1
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>مکمل۔۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء --- لقمان قاسمی
0 Comments