حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ

 حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ







بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه

*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ

*ارض و سما نے ابو ذر سے بڑهکر دل کا سچا کوئ نہ دیکها  (قال نبوی )*



ودان نامی بستی میں قبیلہ غفار رہائش پذیر تها اور اس بستی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تهی ، اس لئے عرب تاجروں کے قافلے شام یا دیگر ممالک کو جاتے ہوئے یہیں سے گزرتے تهے. قبیلہ غفار کی معیشت کا دارومدار بهی اسی آمدنی پر تها جو عرب تاجروں کے یہاں قیام کے وقت انہیں حاصل ہوتی تهی. اگر تاجر یہاں خرچ کرنے سے گریز کرتے تو قبیلہ غفار کے لوگ لوٹ مار شروع کر دیتے. جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اسے اپنے قبضہ میں کر لیتے. جندب بن جناذہ کا تعلق بهی اسی قبیلہ سے تها جن کی کنیت ابو ذر تهی. انہیں جرآت، دانش مندی اور دور اندیشی میں ایک ممتاز مقام حاصل تها، انہیں شروع سے ہی ان بتوں سے دلی نفرت تهی جنہیں ان کی قوم پوجا کرتی تهی. انہیں اس بات کا بهی شدت سے احساس تها کہ عرب اس وقت عقیدہ کی خرابی اور دینی فساد کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں. یہ ایک ایسے نئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے منتظر تهے جو لوگوں میں شعور پیدا کرے. انہیں حوصلہ دے اور پهر انہیں گمراہی کی انتهاہی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور علم و ہدایت کی روشنی کی طرف لائے.

جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو جب پتا چلا کہ مکہ معظمہ میں نئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہو چکا ہے تو انہوں نے اپنے بهایٔ انیس سے کہا. آپ ابهی مکہ معظمہ جائیں، سنا ہے وہاں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے کہ اور اس کا یہ بهی دعویٰ ہے کہ آسمان سے اس پر وحی بهی نازل ہوتی ہے. وہاں جاکر غور سے ان تمام حالات کا جائزہ لینا جو اس وقت وہاں رونما ہو چکے ہیں، بالخصوص یہ پتا کرنا کہ ان کی اصل دعوت کیا ہے؟

اپنے بهائ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جناب انیس مکہ معظمہ روانہ ہو گئے. وہاں پہنچ کر سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضری دی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹهے، غور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور وہاں کے حالات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد  واپس لوٹ آئے. جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بڑی شفقت و محبت سے انہیں خوش آمدید کہا اور بڑے اشتیاق سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوالات شروع کر دئیے.  تو جناب انیس رضی اللہ عنہ نے فرمایا.

اللہ کی قسم!  میں نے بچشم خود دیکها ہے کہ وہ تو لوگوں کو اچهے اخلاق کی طرف دعوت دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو ایسی پر تاثیر ہوتی ہے کہ سننے والا وجد میں آجاتا ہے اور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو انتہائ مربوط ہوتی ہے، لیکن اس پر شعر گوئ کا اطلاق بهی نہیں کیا جاسکتا. جناب ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اپنے بهائ سے دریافت کیا کہ نئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگوں کی کیا رائے ہے؟

تو انہوں نے بتایا کہ عام لوگ انہیں جادوگر، نجومی اور شاعر سمجهتے ہیں.

یہ باتیں سن کر جناب ابو ذر فرمانے لگے پیارے بهائ: آپ کے بیان سے دل کو تشفی نہیں ہوئ. اب آپ میرے اہل و عیال کا خیال رکهیں. اب میں خود صحیح صورت حال کا جائزہ لینے وہاں جاتا ہوں. جناب انیس رضی اللہ عنہ نے کہا ضرور جایئے، آپ کے بعد میں اہل خانہ کا خیال رکهوں گا، لیکن اہلیان مکہ سے ذرا محتاط رہنا

جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے زاد راہ اور پانی کا ایک چهوٹا سا مشکیزہ اپنے ہمراہ لیا اور دوسرے ہی دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہو گئے.

جناب ابو ذر رضی اللہ عنہ پیدل مسافت طے کرتے ہوئے مکہ معظمہ تو پہنچ گئے، لیکن وہ قریش مکہ سے خوفزدہ تهے، اس لئے کہ انہیں پہلے سے یہ بات معلوم ہو چکی تهی کہ جو بهی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں دلچسپی لیتاہے، قریش اس کے جانی دشمن بن جاتے ہیں. انہوں نےسوچا کہ اب کیا کیا جائے ؟ میں تو یہاں کسی کو جانتا نہیں! اگر کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا تو ممکن ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا دشمن ہو! اور وہ میرے لئے نقصان دہ ثابت ہو.

دن بهر انہیں خیالات میں غلطاں و پریشاں رہے. رات ہوئ تو وہیں مسجد میں لیٹ گئے. حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان پر نظر پڑی تو سوچا کہ یہ تو کوئ اجنبی مسافر معلوم ہوتا ہے. ان کے پاس آئے، گهر چلنے کی دعوت دی تو آپ رضا مند ہو گئے. گهر میں ان کی خوب خاطر تواضع کی، لیکن مکہ معظمہ میں آمد کا سبب دریافت کرنے سے عمداً گریز کیا. جناب ابو ذر رضی اللہ عنہ نے بڑے آرام سے وہاں رات بسر کی. صبح ہوئ تو اپنا سامان لے کر مسجد میں تشریف لے آئے، دوسرا دن بهی یونہی گزار دیا. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو سکا. رات ہوئ تو مسجد میں ہی لیٹ گئے. دوسری رات پهر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مسجد لیٹے ہوئے دیکها تو خیال کیا کہ اس مسافر کو آج بهی اپنی منزل نہیں ملی. اسے پهر اپنے ہمراہ گهر لے آئے. دوسری رات بهی خوب ان کی مہمان نوازی کی لیکن مکہ معظمہ میں آمد کی وجہ پوچهنے سے گریز کیا. جب تیسری رات ہوئ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مہمان سے پوچها ، کیا آپ مجهے یہ بتا سکتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں آمد کا مقصد کیا ہے؟ تو جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : کہ اگر آپ میرے ساتھ وعدہ کریں کہ آپ میری صحیح رہنمائی کریں گے، تو میں آپ کو اپنے دل کی بات بتائے دیتا ہوں. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے وعدہ کر لیا، تو انہوں نے بیان کیا: میں دور دراز سفر طے کر کے یہاں محض اس لئے آیا ہوں کہ اس عظیم ہستی کی زیارت کروں جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنوں.

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ان کی یہ بات سنی تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک اٹها اور فرمایا: اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں. اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کیں. پهر رازدارانہ انداز میں ارشاد فرمایا،  کہ کل صبح آپ میرے پیچهے پیچهے چلتے آئیں. اگر میں نے راستہ میں کسی مقام پر کوئ خطرہ محسوس کیا تو رک جاوں گا، لیکن آپ آہستہ آہستہ چلتے رہیں. جب میں کسی گهر میں داخل ہو جاوں تو آپ بهی بے دهڑک میرے پیچهے اندر آجائیں

دوسرے دن صبح کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے مہمان کو ہمراہ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گهر کی طرف روانہ ہوئے. طے شدہ پروگرام کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پہچهے پیچھے ہو لئے. نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تهے. بلآخر رسول معلم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچ گئے. جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکهتے ہی کہا.

السلامُ علیک یا رسول اللہ.

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا:

وعلیک سلام اللہ ورحمتہ و برکاتہ.

تاریخ اسلام میں جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور سلام کا یہی انداز مسلمانوں میں رائج ہو گیا.

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید سنایا. اسی مجلس میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا. یہ چوتهے یا پانچویں صحابی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی.

دیگر واقعات مختصر انداز میں اب انہیں کی زبانی بیان کئے جاتے ہیں.

جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ہی رہا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجهے اسلام کے بنیادی مسائل اچهی طرح سمجها دئیے اور قرآن مجید کے بعض اجزاء کی بهی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کر لی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت بهرے انداز میں مجهے یہ تلقین کی "ابهی یہاں اپنے مسلمان ہونے کا کسی کو نہ بتانا، مجهے اندیشہ ہے کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں، تو کہیں آپ کو اس جرم کی پاداش میں قتل نہ کردیں."

میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے، مکہ سے روانگی سے قبل ایک مرتبہ ضرور قریش کے رو برو کلمہ حق بیان کرنے کو جی چاہتا ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے جذبات کو دیکھ کر خاموش ہو گئے.

ایک روز میں مسجد میں گیا، دیکها کہ قریش آپس میں بیٹهے گفتگو کر رہے ہیں. چپکے سے ان کے درمیان میں جاکر کهڑا ہوگیا اور اچانک بآواز بلند کہا اے خاندان قریش ! میں صدق دل سے اقرار کرتا ہوں. لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں.

ابهی میرے یہ کلمات ان کے کانوں کو ٹکرائے ہی تهے کہ وہ بهڑک اٹهے اور مجهے بے دریغ مارنا شروع کر دیا، قریب تها کہ میری موت واقع ہو جاتی، اتنے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ میری حمایت میں اٹهے ، اور ان کے درمیان حائل ہو کر کہنے لگے.

عقل کے اندهو، کیا تباہی تمہارا مقدر بن چکی ہے؟ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو قبیلہ غفار سے تعلق رکهتا ہے. جب مجهے ہوش آئ تو زخموں سے نڈهال رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری ناگفتہ یہ حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے. اور فرمایا. کیا میں نے تجهے ابهی اسلام کا اعلان کرنے سے نہیں روکا تها؟

میں نے عرض کی. حضور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً مجهے روکا تها، لیکن میری دلی تمنا تهی کہ مشرکین کے نرغے میں ایک مرتبہ اسلام کا اعلان کروں. پهر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجهے حکم دیا کہ اب آپ اپنی قوم کے پاس چلے جائیں. یہاں جو آپ نے سنا اور دیکها انہیں جاکر بتائیں. انہیں اسلام کی دعوت دیں. شاید آپ کے ذریعے انہیں فائدہ ہو، ان کی کایا پلٹ جائے اور آپ کو عند اللہ اجر و ثواب حاصل ہو.

جب آپ کو یہ خبر ملے کہ مجهے اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے غلبہ حاصل ہو چکا ہے تو سیدهے میرے پاس چلے آنا

جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی قوم کے پاس آگیا. جب میں اپنی بستی میں پہنچا تو سب سے پہلے مجهے میرا بهائ ملا! اس نے پوچها کہ یہ سفر کیسا رہا اور اس میں کیا کچھ حاصل کیا ؟

میں نے اسے بتایا عزیز بهائ میں تو مسلمان ہو چکا ہوں. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئ. آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کی بنیادی تعلیمات حاصل کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کیا. میری باتوں سے متاثر ہو کر میرا بهائ بهی مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا. بهائ جان میں آپ کا دین اختیار کئے بغیر نہیں رہ سکتا. ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان کی خدمت میں اسلام کی دعوت پیش کی. تو وہ فوراً اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر فرمانے لگیں بیٹا، اب میں تمہارے دین سے بے نیاز نہیں رہ سکتی. وہ بهی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئیں. اسی روز سے مومن گهرانہ قبیلہ غفار کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلا نے میں ہمہ تن متوجہ ہوگیا. ان کی دعوت سے متاثر ہو کر قبیلہ کے بہت سے افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے. اور باقاعدہ یہاں نماز کا نظام قائم کردیا گیا.

چند افراد نے یہ کہا کہ ہم اس وقت تک اپنے آبائ دین پر قائم رہیں گے جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف نہیں لے جاتے. چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے آئے وہ سب مسلمان ہو گئے.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی قبیلہ غفار کی اللہ تعالٰی مغفرت کرے اور قبیلہ بنو اسلم کو اللہ تعالٰی سلامت رکهے.

جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنی بستی میں مقیم رہے. یہاں تک کہ بدر، احد اور خندق کے غزوات رونما ہوئے. اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہو کر رہ گئے. ہمہ وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مصروف رہنے لگے. کس قدر خوش نصیبی ہے. یہ سعادت وافر مقدار میں آپ کے حصہ میں آئ. رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بهی ہر معاملہ میں آپ کو ترجیح دیتے. آپ کے ساتھ شفقت سے پیش آتے. وقت ملاقات مصافحہ کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے.

جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیائے فانی سے رحلت فرماگئے، تو جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بے چین رہنے لگے. چونکہ مدینہ طیبہ آقا کے وجود اقدس سے خالی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک مجلس کی روشنی سے محروم ہو چکا تها، لہذا آپ وہاں سے ملک شام کی طرف کوچ کر گئے. خلافت صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما میں وہیں مقیم رہے

لیکن خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں دمشق کی طرف کوچ کر گئے. وہاں مسلمانوں کی یہ حالت زار دیکھی کہ وہ دنیاوی جاہ و جلال کے دلدادہ ہو چکے ہیں. مسلمان کی یہ حالت دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوئے. بلآخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ منورہ بلالیا. تو آپ وہاں تشریف لے آئے. یہاں آکر دیکها کہ لوگ دنیا کی طرف پوری طرح راغب ہو چکے ہیں، تو بہت کبیدہ خاطر ہوئے اور بڑی سختی سے لوگوں پر تنقید شروع کردی جس سے عام لوگ بہت تنگ آگئے. یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں ربذہ بستی میں منتقل ہو جانے کا حکم دے دیا. یہ مدینہ منورہ کے نزدیک ہی ایک چهوٹی سی بستی تهی. آپ لوگوں سے الگ تهلگ ہو کر اس بستی میں زندگی کے دن پورے کرنے لگے. یہاں آپ نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی.

ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک شخص آپ کے گهر میں داخل ہوا. چاروں طرف نظر دوڑائ تو گهر میں کوئ سامان دکهائ نہ دیا. اس نے تعجب سے پوچها، اے ابو ذر رضی اللہ عنہ آپ کا سامان کہاں ہے ؟

فرمایا، ہمارا ایک دوسری جگہ گهر ہے. اچها سامان ہم وہاں بهیج دیتے ہیں. وہ شخص آپ کی مراد سمجھ گیا اور کہنے لگا. اے ابو ذر رضی اللہ عنہ! جب تک آپ اس گهر میں ہیں یہاں رہنے کے لئے بهی تو کچھ سامان آپ کے پاس ہو نا چاہئے. تو آپ نے فرمایا. گهر کا اصل مالک ہمیں یہاں رہنے نہیں دے گا.

ایک مرتبہ شام کے گورنر نے تین سو دینار آپ کے پاس بهیجے اور یہ پیغام دیا کہ یہ رقم آپ اپنی کسی ضرورت میں استعمال کر لیں. آپ نے بڑی بے نیازی سے دینار واپس کر دئیے اور فرمایا کیا اسے اپنے علاقہ میں مجھ سے زیادہ کوئ مفلوک الحال نظر نہیں آیا.

آسمان زہد و تقویٰ کا یہ درخشندہ ستارہ 32 ھ  ہجری کو ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا. آپ کی تعریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد تاریخ کے اوراق کی زینت بن گیا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا. "ارض و سماء نے آج تک ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بڑهکر کوئ صادق دل نہ دیکها ہوگا"

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجیئے.

1. الاصابہ  (مطبوعہ السعادہ)     63-60/3

2. الاستیعاب  (مطبوعہ حیدرآباد )    646-645/2

3. تهذیب التهذیب.  420/2

4. تجرید اسماء الصحابہ.    175/2

5. تذکرہ الحفاظ.       16-15/1

6. حلیہ الاولیاء.        254-238/1

7. صفتہ الصفوہ.       245-238/1

8.  طبقات الشعرانی.            32

9.  المعارف.      111-110

 
🌴بارک اللہ فیکم🌴

============>مکمل۔۔
 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
 
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments