حضرت عدی بن حاتم  رضی اللہ عنہ

 حضرت عدی بن حاتم  رضی اللہ عنہ






بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه 
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*

   حضرت عدی بن حاتم  رضی اللہ عنہ


*یہ اس وقت ایمان لائے جب عام لوگوں نے اس کا انکار کیا۔انہوں نے حق کو پہچانا جب عام لوگوں نے انکار کیا' انہوں نے وفا شعاری کا ثبوت دیا اور یہ اس وقت دین کی طرف متوجہ ہوئے جبکہ عام لوگوں نے اس سے بے رخی اختیار کی۔ (حضرت عمر رضی اللہ عنہ )*


 عرصہ دراز تک نفرت' حقارت' بے رخی میں مبتلا رہنے کے بعد آخر 9 ہجری میں عرب کا ایک بادشاہ اسلام سے متاثر ہوا ۔ ایمان قبول کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا شوق اس کے دل میں سما یا ۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ بادشاہ کون تھا ؟

یہ جلیل القدر صحابی حضرت عدی رضی اللہ عنہ تھے ۔ جن کے والد  حاتم طائی کو سخاوت کے سلسلہ میں ضرب آلمثل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ 

قبلہ طی نے حاتم کی وفات کے بعد سلطنت کی ذمہ داری ان کے بیٹے جناب عدی رضی اللہ عنہ کو سونپ دی ' اور پورے قبیلے نے اپنی آمدن کا چوتھائی حصہ ان کے لیے مخصوص کر دیا ۔اور ان کے حکمران بننے پر خوشی کا اظہار کیا۔ 
جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانیہ اسلام کی دعوت پیش کی تو عرب جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے ۔ یہ حالات دیکھ کر حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے خطرہ محسوس کیا کہ اگر لوگ اسی طرح اسلام میں  داخل ہوتے رہے ۔ تو اس طرح ہماری سلطنت بھی جاتی رہے گی ۔

تو انہوں نے اسلام کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغض و عنا کی انتہا کر دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کا یہ سلسلہ بیس سال تک جاری رہا بالآخر اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے اسلام قبول کرنے اور ہدایت کی راہ اختیار کرنے کے لیے انہیں إنشراح صدر کی عظیم نعمت سے نوازا  
  

جناب عدی رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنے کا ناقابل فراموش واقعہ ہم آپ کو انہیں کی زبانی سناتے ہیں کیونکہ اس کا حق وہی ادا کر سکتے ہیں ۔

جناب عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سنا تو میرے دل میں ایسی نفرت پیدا ہوئی کہ شاید ہی کسی عربی کے دل میں ایسی نفرت پیدا ہوئی ہو ۔ میں اپنے علاقے کا ایک باوقار اور عزت دار شخص تھا اور میرا مذہب نصرانیت تھا اور میں بھی دوسرے بادشاہوں کی طرح اپنی رعایا سے ان کے مال کا چوتھا حصہ وصول کرتا تھا ۔
پہلے تو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی طرف نفرت کا ہی اظہار کیا اور کوئی پروا نہیں کی لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور شان میں اضافہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کو عرب کی سرزمین پر فتوحات ملنا شروع ہوئیں ۔ تو پھر میں نے اپنے دل میں خطرہ محسوس کیا اور  اپنے بکریاں چرانے والے سے کہا ۔ آج کے بعد طاقتور اونٹنیاں میرے لیے ہر دم تیار رکھو ۔ 
اور ایسی سدھائی ہوئی ہوں کہ سفر میں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہو ۔  ایک دن صبح سویرے میرا غلام دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہا کہ اگر لشکر اسلام آپ کے پاس آ جائے اور آپ کے علاقے پر یلغار کر دے تو آپ کیا کریں گے  ۔
میں نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا کہ تم کیوں دریافت کر رہے ہو ؟ 
اس نے کہا کہ میں نے آج گھروں میں جھنڈے لہراتے دیکھے ہیں مجھے پتہ چلا ہے کہ لشکر اسلام نے آج ہمارے علاقے پر یلغار کر دی ہے ۔ اور متعدد گھروں پر قبضہ کر دیا ہے
میں نے اپنی گرفتاری کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس سے کہا کہ جلدی سے وہ اونٹنیاں میرے پاس لاؤ جن کا میں تمہیں تیار رکھنے کا حکم دیا ہے اسی وقت وہ اونٹنیاں میرے پاس لائیں گئی اور میں ان پر اپنے اہل خانہ کو لے کر سوار ہوا اور ملک شام کی طرف روانہ ہو گیا ۔

تاکہ میں اپنے ہم مذہب لوگوں کے پاس سکونت اختیار کر سکوں ہوا یہ کہ میں اس جلدبازی میں اپنے تمام اہل خانہ کو لے کر نہیں جا سکا لیکن جب میں خطرناک راستوں سے گزرا تو بعض لوگ راستے میں ہی ہلاک ہو گئے ۔
اس افراتفری میں میری بہن نجد ہی میں رہ گئی اس کو اپنے ساتھ نہیں لا سکا جس کا مجھے بہت زیادہ صدمہ تھا ۔ لیکن اب میرے لیے واپس جانا ممکن نہیں تھا اور خطرناک راستوں سے گزرا ہوا میں ملک شام پہنچ گیا ۔ اور وہاں مستقل طور پر سکونت اختیار کی اور نصرانیت کا غلبہ دیکھ کر مجھے مسرت حاصل ہوئی لیکن اپنی بہن کے ساتھ نہیں لا سکتے کا افسوس بھی تھا  

مجھے یہ اطلاع ملی کہ میرے وہاں سے کوچ کر آنے کے بعد لشکر اسلام نے ہمارے گھروں پر حملہ کیا ہے ۔ اور پورے علاقے کو فتح کر کے میری بہن کو دیگر قیدیوں کے ساتھ پثرب لے گئے ہیں اور ان کو مسجد کے ایک دروازے کے ساتھ ملحقہ حوالات میں بند کر دیا ہے ۔
مجھے یہ خبر ملی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن حوالات کے پاس سے گزرے تو میری بہن بولی ۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ فوت ہو چکا ہے اور میرا نگران آنکھوں سے اوجھل ہے ۔ مجھ بیچاری پر احسان کیاجایے اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر احسان کرے گا ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا نگران کون ہے؟

میرا بھائی عدی بن حاتم ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راہ فرار اختیار کر چکا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل دیے اور میری بہن کو اسی حال میں چھوڑ دیا ۔ 
جب دوسارا دن ہوا تو میری بہن نے دوبارہ اپنے چھٹکارے کے لیے دوبارہ اپنی معروضات پیش کیں ۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حسب سابق جواب دیا   جب تیسرا دن ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو میری بہن مایوسی کی وجہ سے خاموش تھی ۔
تو پیچھے سے ایک شخص نے اشارہ کیا کہ آج رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی معروضات پیش کرو ۔ تو میری بہن کو حوصلہ ہوا تو یہ عرض پیش کی ۔

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ فوت ہو چکا ہے اور میرا نگران آنکھوں سے اوجھل ہے ۔ مجھ بیچاری پر احسان کیا جائے اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر احسان کرے گا ۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج سے تو آزاد ہے تو اس نے عرض کی ۔ میں زمین شام میں مقیم  اپنے خاندان کے پاس جانا چاہتی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جلد بازی سے کام نہ لو جب تک تجھے اپنی قوم کا کوئی ایسا قابل اعتماد  شخص نہیں ملے جو تجھے ملک شام پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرے ۔

اس وقت تک سفر اختیار نہ کرنا اور جب کوئی شخص ملے تو مجھے بتانا ۔ اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور اس نے شخص کے متعلق دریافت کیا ۔جس نے آج اسے حوصلہ دیا تھا تو اس کو بتایا گیا ' یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ٹھے ۔ پھر یہ کچھ عرصہ وہیں مقیم رہی 
چند دنوں بعد مدینہ میں ایک قافلہ آیا جس میں ایک مسافر ہمارے قبیلہ کا بھی تھا۔
اسے دیکھ کر میرے بہن بہت خوش ہوئی۔ اسی وقت رحمت عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی'یا رسول اللہ ﷺ آج مدینہ میں ایک قافلہ آیا ہے جس میں ہمارے قبیلے کا ایک با اعتماد شخص بھی ہے۔ وہ مجھے بحفاظت ملک شام میں میرے خاندان تک پنچا دے گا۔
از راہ کرم مجھے اجازت دیجئے۔ تو اپ  ﷺ نے اسے لباس' اونٹنی اور زاد راہ دے کر قافلہ کے ساتھ روانہ کر دیا۔
جناب عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اس کے بعد ہمیں مختلف خبریں پہنچتی رہیں اور ہم شدت سے اس کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
 لیکن رسول اقدس ﷺ کی جانب سے ہمشیرہ کے ساتھ حس سلوک جو خبریں پہنچ رہی تھیں دل انہیں تسلیم نہیں کرتا تھا۔
 کیونکہ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں آپ ﷺ کے ساتھ کوئی کوئی اچھا برتاؤ نہیں کیا تھا۔
بخدا ایک روز میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھا کیا دیکھتا ہوں  کہ ایک عورت اونٹنی پر بیٹھی آہستہ آہستہ ہماری طرف آ رہی ہے۔
میں پکار اٹھا یہ تو حاتم کی بیٹی معلوم ہوتی ہے اور حقیقت میں بھی وہی تھی۔
جب وہ ہمارے پاس پہنچی تو غصے سے مجھ پر برس پڑی اور مجھے لاپروا' ظالم اور بے وفا قرار دیتے ہوئے کہنے لگی کہ اپنے بیوی بچوں کو تو ساتھ لے آیا اور اپنے باپ کی آبرؤ' اپنی عزت کو وہیں چھوڑ آیا
 
اس دوران میں نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ ایک نحیف، لاچار بڑھیا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ روک لیا ۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا اس نے اپنی ایک ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کی ۔ جسے آپ نے اسی وقت پورا کر دیا میں نے دل میں کہا بخدا یہ بادشاہ نہیں ہے ۔ 


پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر تشریف لے گئے اور مجھے ایک تکیہ دیا اور کہا اس پر بیٹھ جائو ۔ میں شرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھی کو اس پر بیٹھنا ہے   

میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانتے ہوئے اس پر بیٹھ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے کیونکہ گھر میں اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی  میں نے دل میں کہا خدا کی قسم یہ کوئی بادشاہ نہیں ہو سکتا   پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نصرانیت اور لادینیت  کے مابین مزبزب تو نہیں   

میں نے عرض کی بلکل آپ کا ارشاد درست ہے ۔

میں اس پر بیٹھ گیا ۔ اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم زمینپر بیٹھ گئے، کیونکہ گهر میں اس کے علاوہ کوئی بھی اور چیز نہ تھی. میں نے اپنے دل میں کہا،  اللہ کی قسم ! یہ کسی بادشاہ کی عادت نہیں ہو سکتی. پهر آپ صلی اللہ علیہ و سلم میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم نصرانیت اور لا دینیت کے مابین مذبذب تو نہیں ؟ میں نے عرض کی بالکل آپ کا ارشاد درست ہے.
پهر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنی قوم کے مال و دولت میں سے چوتهائ حصہ نہیں لیتے جو کہ خود تیرے دین کی روشنی میں تیرے لئے حلال نہیں ہے. میں نے کہا بالکل، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درست فرمایا. اور مجهے اس بات کا یقین حاصل ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.
پهر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے مخاطب ہوئے اور ارشاد فرمایا : عدی رضی اللہ عنہ!  شاید تجهے دین اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی موجودہ حالت زار اور غربت و مفلسی روک رہی ہو. اللہ کی قسم ! عنقریب ایک دن ایسا آئے گا کہ مسلمانوں میں مال اتنا وافر ہو جائے گا کہ کوئ شخص تمہیں صدقہ قبول کرنے والا نہیں ملے گا.
اے عدی رضی اللہ عنہ ! شاید تجهے اس دین کو قبول کرنے سے مسلمانوں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کا احساس روک رہا ہو. اللہ کی قسم ! تم عنقریب سنوگے کہ پورے خطہ عرب میں اسلامی پرچم لہرائے گا اور ہر سو امن کا ایسا ماحول ہوگا کہ ایک عورت تنہا اپنی سواری پر قادسیہ سے روانہ ہوگی اور بے خطر سفر کرتی ہوئ مدینہ منورہ پہنچے گی. دوران سفر اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے دل میں کسی کا ڈر نہ ہوگا.
اے عدی رضی اللہ عنہ ! شاید تجهے اس دین کو قبول کرنے سے یہ احساس روک رہا ہو کہ آج حکومت و سلطنت غیر مسلموں کے قبضہ میں ہے. اللہ کی قسم ! تم عنقریب یہ خبر سنوگے کہ سر زمین بابل کے سفید محلات کو مسلمانوں نے فتح کر لیا اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے. میں نے تعجب سے دریافت کیا کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں پر مسلمانوں کا قبضہ؟ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!  ہاں، مسلمان کسری بن ہرمز کے خزانوں پر قابض ہو جائیں گے.
جناب عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر میں بہت زیادہ متاثر ہوا اور کملہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا
 
حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے طویل عمر پائ. آپ اکثر فرمایا کرتے تهے کہ دو نشانیاں تو پوری ہو چکی ہیں تیسری ابهی باقی ہے. اللہ کی قسم!  وہ بهی پوری ہو کر رہے گی. میں نے بچشم خود دیکها کہ ایک عورت تنہا اپنی سواری پر قادسیہ سے چلی اور بلا خوف و خطر سفر کرتی ہوئ مدینہ طیبہ تک پہنچ گئ اور میں اس لشکر میں بذات خود موجود تها جس نے کسریٰ کے خزانوں کو اپنے قبضہ میں لیا اور میں حلفیہ طور پر کہتا ہوں کہ تیسری نشانی بهی یقیناً پوری ہو کر رہے گی.
اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ کر دکهایا.
تیسری نشانی حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت میں پوری ہوئ. مسلمانوں کے پاس مال و دولت کی اس قدر فراوانی ہو گئ تهی کہ زکوۃ لینے والا کوئ محتاج و مفلس نہیں ملتا تها.
بلاشبہ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا اور جناب عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کی قسم بهی پوری ہو گئ.
حضرت عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں.
1. الاصابہ ( طبع السعادہ )  229-228/4         
2. الاستیعاب.    503-502/2
3. اسد الغابہ.    394-392/3
4. تهذیب التهذیب.  167-166/7
5. تقریب التهذیب.   16/2
6. خلاصتہ تذهیب تهذیب الکمال 264-263
7. تجرید اسماء الصحابہ 405/1
8. الجمع بین رجال الصحیحین.  398/1
9. العبر.                74/1
10. التاریخ الکبیر.     43/4
11. تاریخ الاسلام للذهبی. 48-46/3
12. شذرات الذہب.  74/1
13. المعارف.         136
14. المعرون.          46
 
🌴بارک اللہ فیکم🌴

============>مکمل۔۔۔
 
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر 
 
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی
x

Post a Comment

0 Comments