۔بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ
"حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور اس کے بیٹے پر شعر گوئی ختم اور زید بن ثابت پر نکتہ آفرینی ختم۔ {فرمان حسٓان بن ثابت رضی اللہ عنہ }
سنہ 2 ھجری ہے۔ مدینہ منورہ میں چہل پہل دکھائی دے رہی ہے ۔ مجاہدین غزوہ بدر کی تیاری میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی قیادت میں جہاد کے لیے روانہ ہونے والے پہلے لشکر پر طائرانہ نگاہ ڈال رہے ہیں کہ اچانک ایک تیرہ سال کا لڑکا جس کے چہرے پر ذہانت، متانت، شرافت اور خودداری کےنقوش نمایاں نظر آ رہے تھے۔ ہاتھ میں اپنے قد سے بھی لمبی تلوار پکڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب آیا اور عرض کیا :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں آپﷺ پر قربان جاؤں، مجھے اپنے ساتھ لے لیجیے تاکہ میں آپﷺ کے جھنڈے تلے جہاد کی سعادت حاصل کر سکوں ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خوشی اور تعجب سے دیکھا اور اس کے کندھے پر محبت و شفقت بھرے انداز میں تھپکی دی ۔ اس کے دل کو خوش کیا اور کم عمری کی بناء پر اسے واپس لوٹا دیا۔
یہ نو عمر لڑکا اپنی تلوار زمین پر گھسیٹتا ہوا غم و اندوہ کی تصویر بنا ہوا واپس لوٹا، کیونکہ وہ پہلے غزوہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت حاصل کرنے سے محروم ہوگیا تھا۔ اس کے پیچھے اسکے والدہ محترمہ نوار بنت مالک غم و اندوہ سے نڈھال واپس لوٹی، کیونکہ اس کے دل کی یہ تمنا تھی کہ میرا لخت جگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جھنڈے تلے مجاہدین کے شانہ بشانہ داد شجاعت دے اور یہ منظر دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔
کاش آج اسکا باپ زندہ ہوتا تو ضرور رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں اس غزوہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کرتا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہونہار لڑکے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کچھ سورتیں سنیں تو الفاظ کے عمدہ اور درست ادائیگی اور خندہ پیشانی شیریں کلامی سے آپﷺ بہت متاثر ہوئے ۔ اس کے ہونٹوں پر قرانی الفاظ اس طرح چمکتے تھے جس طرح آسمان پر تارے چمکتے ہیں ۔ اسکی تلاوت اپنے اندر بےپناہ جاذبیت رکھتی تھی۔ تلاوت کا ٹھیراؤ اس کے تروتازہ حافظے حسن فہم و فراست پر دلالت کرتا تھا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ہونہار بردے میں خوبیاں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور آپﷺ کو زیادہ خوشی اس سے ہوئی کہ وہ عربی زبان عمدہ انداز میں لکھنا بھی جانتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف محبت بڑے انداز میں دیکھا اور ارشاد فرمایا ۔
اے زید ! میرے لیے یہود کی زبان عبرانی لکھنا بھی سیکھو ، مجھے ان پر اعتماد نہیں ۔
انہوں نے کہا : حاضر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فوراً عبرانی زبان سیکھنا شروع کر دی اور تھوڑے عرصے میں اس زبان پر مہارت پیدا کر لی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کی طرف کوئی پیغام لکھ کر بھیجنا چاہتے تو جناب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تحریر کرتے اور جب وہ کوئی خط بھیجتے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کر سناتے ۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق عبرانی کی طرح سریانی زبان بھی سیکھ لی ۔ اور یہ نوجوان زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ' رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ترجمان بن گئے اور اس طرح انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل ہوا ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت زید کی متانت ' دیانت ' امانت اور معاملہ فہمی پر مکمل اعتماد ہوگیا ' تو انہیں خدائی پیغام ضبطِ تحریر میں لانے کے لیے کاتبِ وحی کے اہم منصب پر فائز کر دیا گیا ۔ جب قرآن مجید کی کوئی آیت آپﷺ کے قلبِ مبارک پر نازل ہوتی تو حضرت زید کو بلاتے اور اسے لکھنے کا حکم دیتے ، تو وہ اسے لکھ دیتے ۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ وقتاً فوقتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنی تعلیم حاصل کرتے اور اس طرح دن بدن ان کی دینی معلومات میں اضافہ ہونے لگا ۔ اور وہ آپ کے ذہنِ مبارک سے تازہ ترین دینی احکامات سنتے ان کے اسباب نزول معلوم کرتے جن سے انکے دل میں انوار ہدایت سے چمک پیدا ہونے لگی ، اور انکی عقل اسرارِ شریعت سے منوّر ہونے لگی ۔ یہاں تک کہ یہ نوجوان قرآن کا ماہر اور وصالِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امّتِ محمّدیہ کے لیے مرجع اول بنا ۔
حضرت صدّیقِ اکبر کے دورِ خلافت میں جن صحابہ کو قرآن کریم جمع کرنے کا فرض سونپا گیا یہ ان میں سرِ فہرست تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت میں جن صحابہ کرام رضی اللہ عنم نے قرآن مجید کے متعدد نسخوں کو یکجا جمع کیا ، ان میں بھی انکی حیثیت نمایاں تھی ، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی مرتبہ ہوسکتا ہے جس کی کسی کو تمنّا ہو ؟
کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی مجدد شرف ہو سکتا ہے جس کو حاصل کرنے کی کسی کو دلی تمنّا ہو؟
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی برکت اور طویل زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی بنا پر مسلمانوں کے لیے منارہ نور اور ان کے ہادی و مرشد بن گئے ۔
خلفائے عظام مشکل ترین مسائل کو حل کرنے میں انکا مشورہ لیتے ۔ عوام النّاس فقہی مسائل میں ان سے فتوی لیتے ۔ خاص طور پر وراثت کی تقسیم کے سلسلے میں ان سے زیادہ ماہر اور کوئی نہیں تھا ۔ فتح دمشق کے موقع پر خلیفتہ المسلمین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جابیہ نامی بستی میں مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔
لوگو ! جو تم سے قرآن مجید کی معلومات حاصل کرنا چاہے وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس جائے ۔ جو تم سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھنا چاہے ، وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرے اور جس کسی کو مال چاہیئے وہ میرے پاس آئے ، کیونکہ مجھے مسلمانوں کے مال کی نگرانی اور اس کی تقسیم کا اختیار دیا گیا ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور تابعین ذی وقار میں سے علم حاصل کرنے والوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ صحیح معنوں میں قدر پہچانی اور علمی مرتبے اور فضل و شرف کی بناء پر ان کی تعظیم بجالائے ۔
وہ حیرت انگیز منظر کا مشاہدہ کرو ۔ کہ علم کا بحر بے کنار حضرت عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تعظیماّ سواری کی لگام پکڑے کھڑا ہے ۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا :
رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ! گھوڑے کی لگام چھوڑ دیجئے ، مجھے شرمندہ نہ کی کجیئے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :
ہمیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے ۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ سے کہا :
مجھے اپنا ہاتھ تو دکھلائے ۔ انہوں نے اپنا ہاتھ ان کی طرف کیا تو انہوں نے اسے پکڑ کر چوم لیا اور فرمایا ہمیں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کے ساتھ اس طرح محبت کرنے کا حکم دیا
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے رب کو پیارے ہوئے مسلمان زار و قطار روئے کہ آج علم کا خزانہ مٹی میں دفن ہو جائے گا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
آج اس امّت کا تبحّر عالم اس دنیا سے کوچ کر گیا کاش اللہ تعالی عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ کو اس کا نعم البدل بنا دے ۔
ان کی وفات پر شاعرِ رسول کریم حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مرثیہ کہا : جس کا ایک شعر یہ ہے ۔
فَمَنْ لَلقو فى بَعْدَ حَسَّان وَ ابْنِهِ
و َمَنْ لِلْمَعَانِى بَعْدَ زَيْدَ ابْنِ ثَابِتِ
" حسان بن ثابت اور اس کے بیٹے پر شعر کوئی ختم "
" زید بن ثابت پر نکتہ آفرینی و معنی آرائی ختم "
حضرت زید بن ثابت کی مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
١. اَلْأِصَابَة ( مترجم ) ٢٨٨٠
٢. اَلْأِسْتِعَاب. ١ / ٥٥١
٣. غَايَةُ النِّهَايَة. ١/ ٢٩٦
٤. صِفَةُ الصَّفْوَة. ١ / ٢٤٩
مطبوعة هندي
٥. اَسَدُ الْغَابَة. ١٨٢٤
٦. تَهْذِيْبُ التَّهْذِيْب. ٣ / ٣٩٩
٧. تَقْرِيْبُ التَّهْذِِيْبِ. ١ / ٢٧٢
٨. اَلطَّبَقَاتُ ابْنِ سَعْد. فہرست دیکھئے
٩. اَلْمَعَارِف. ٢٦٠
١٠. حَيَاةُالصَّحَابَة. فہرست دیکھئے
١١. سِيْرَتُ ابْنِ هِشَام. فہرست دیکھئے
١٢. تَارِيْخُ طِبْرِى. فہرست دیکھئے
١٣. اَخْبَارُ الْقُضَاة. ١ / ١٠٧ - ١١٠
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد۔۔
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments