حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ

 حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ 








بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ


" اے سراقہ جب تم شاہ ایران کے کنگن پہنو گے تو تمھارا کیا حال ہوگا؟"

                               (فرمان نبوی ﷺ)





ایک روز صبح کے وقت قریش انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں نیند سے بیدار ہوئے، مکہ کے گلی کوچوں میں یہ خبر عام پھیل چکی تھی کہ رات کی تاریکی میں چھپتے ہوئے، حضرت محمدﷺ مکہ چھوڑ کر کہیں جا چکے ہیں- سرداراں قریش نے پہلے تو اس کو سچ نہیں مانا وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہاشم کے گھروں میں تلاش کرنے لگےاور آپ کے ساتھیوں کے گھروں میں تلاش کرتے ہوئے حصرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے گھر پہنچے ،دستک دی تو آپ کی بیٹی اسماء گھر سے باہر نکلی- 



ابو جہل نے ان سے پوچھا۔


بیٹی تمہارا ابو کہاں ہے؟


اس نے کہا:


میں نہیں جانتی کہ اب وہ کہاں ہے؟


ابو جہل نے اس کے منہ پر اتنے زور کا تھپڑ مارا کہ اس کے کان کی بالی گر گئی۔ 


جب سرداراں قریش کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ محمدﷺ مکہ کو چھوڑ گئے ہیں ،تو وہ بہت غضبناک ہو گئے ۔کھوجیوں کو اپنے ساتھ لیااور آپکی تلاش میں نکل پڑے ۔



جب تلاش کرتے کرتے وہ غار ثور پر پہنچے تو کھوجیوں نے کہا:


خدا کی قسم! آپ کے مطلوب شخص کا کھرا اس سے آگے نہیں جاتے۔وہ اپنے اندازے میں غلط نہ تھے۔حقیقت یہی تھی جس کا انہوں نے قریش کے سامنے اظہار کر دیا تھا۔ حضرت محمد ﷺ اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ اسی غار میں تھے۔ قریش غار کے منہ پر کھڑے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بچشم خود غار کے باہر قوم کے قدموں کی حرکت دیکھی، تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ کی طرف محبت و شفقت بھری نگاہوں سے دیکھا، تو صدیق اکبر رضی اللہ تسلی دیتے ہوئے عرض کی:



اللہ کی قسم! میں اپنے لئے نہیں روتا۔


یا رسول اللہ ﷺ: مجھے خطرہ ہے کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔



رسول اللہ ﷺ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ اے ابوبکر! گھبرائے نہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے



اللہ تعالی نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دل پر تسکین نازل فرمائی، قوم کے قدموں کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر عرض کی:



یا رسول اللہ ﷺ! اگر ان میں سے کوئی بھی اپنے نقوش قدم کی طرف دیکھ لے، تو وہ ہمیں بھی دیکھ لے گا۔ اس وقت ہم ان کی نظروں کی زد میں ہیں۔



اے ابوبکر! ان دو اشخاص کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہیں جن کا تیسرا خدا ہو؟ اس وقت آپ دونوں نے یہ بات بھی سنی کہ ایک قریشی اپنی قوم سے کہہ رہا تھا آؤ غار کے اندر جا کر دیکھتے ہیں۔ امیہ بن خلف نے اسے مذاق کرتے ہوئے کہا: ارے اندھے تم یہ مکڑی کا جالا نہیں دیکھ رہے جو اس غار کے منہ پر بن رکھا ہے؟!!



اللہ کی قسم! مجھے یہ جالے تو محمد(ﷺ) کی پیدائش سے بھی پہلے کا لگتا ہے۔


البتہ ابو جہل نے کہا:  


لات و عزی کی قسم! مجھے تو یوں لگتا ہے کہ وہ ہمارے بالکل کہیں قریب ہی ہیں لیکن اس نے ہمارے آنکھوں پر جادو کر دیا ہے۔



قریش ہر صورت حضرت محمد ﷺ کو قابو کرنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے ان سب قبائل میں اعلان کروا دیا جو مکہ اور مدینہ کے راستے کے دونوں طرف رہائش پذیر تھے کہ جو بھی حضرت محمد ﷺ کو زندہ یا مردہ حالت میں ہمارے پاس لائے گا ہم اس کو عمدہ نسل کے سو اونٹ بطور انعام دیں گے۔



سراقہ بن مالک مدلجی مکہ کے قریب قدید جگہ میں ایک مجلس میں تھا کہ قریش کا ایک قاصد ان کے پاس آیا اور انہیں قریش کی جانب سے بھاری انعام کی اطلاع دی ۔



جب انعام میں سو اونٹ ملنے کا سنا تو سراقہ کے منہ میں پانی آگیا اور لالچ نے دل کو جکڑ لیا ،لیکن اس نے اپنے اوپر بہت ضبط کیا۔ ایک بات بھی اپنے منہ سے نہ نکالی کہ کہیں بھاری بھرکم انعام کا سن کر دوسروں کے دل بھی للچانے نہ لگ جائیں۔



سراقہ ابھی مجلس سے اٹھنے والے تھے کہ ایک شخص نے آکر اطلاع دی

بخدا ابھی ابھی میرے پاس سے تین اشخاص گزرے ہیں۔ میرے خیال میں ان میں سے ایک محمدﷺ دوسرا ابوبکر صدیق رضی اللہ اور تیسرا ان کو راستہ دکھلانے والا ہے۔



سراقہ نے اس کی بات سن کر کہا:


وہ تو فلاں قبیلے کے لوگ ہیں جو اپنی گمشدہ اونٹنی تلاش کر رہے ہیں۔



اس شخص نے کہا شائد ایسے ہی ہو۔۔۔۔ 



سراقہ تھوڑی دیر مجلس میں رہا، اہل مجلس جب کسی دوسری بات میں مصروف ہو گئے ، تو چپکے سے وہاں سے کھسک گیا تاکہ اہل مجلس میں سے کسی کو پتا نہ چلے، سیدھا اپنے گھر پہنچا لونڈی سے رازدارانہ میں کہا کہ میری گھوڑی تیار کر کے لوگوں سے چھپاتے ہوئے مکہ سے باہر لے آئے۔



اپنے غلام کو حکم دیا کہ وہ ہتھیار لے کر گھروں کے پیچھے اس طرح نکلے کہ کوئی اس کو نہ دیکھ نہ لے۔۔۔ اور ہیتھار گھوڑی کے پاس رکھ جائے۔



سراقہ نے اپنی درع پہنی، ہتھیار گلے میں لٹکانے، گھوڑی پر زین باندھی اور سوار ہو کر سرپٹ دوڑا دیا تاکہ وہ سب سے پہلے محمدﷺ کو پکڑنے میں کامیاب ہو سکے اوراس طرح وہ قریش کے انعام کا مستحق بن سکے۔



سراقہ بن مالک اپنی قوم کے چند ممتاز شاہ سواروں میں سے ایک تھا۔ دراز قد، گندھے جسم، ماہر کھوجی اور راستے کی تکالیف پر صبر کرنے والا تھا اور ان صفات کے ساتھ ساتھ وہ ایک عقلمند شاعر تھا اور اس کی گھوڑی بھی بڑی اصیل تھی۔



سراقہ بڑی تیزی سے مسافت طے کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ یکدم گھوڑی لڑکھڑائی اور یہ آن واحد میں زمین پر گڑ پڑے۔ انہوں نے اسے اپنے لئے اچھا شگون نہ سمجھا اور کہنے لگے ارے یہ کیا ہو گیا؟ ارے گھوڑی تیرا بیڑا غرق ۔  



گھوڑی تیزی سے اٹھی اور سرپٹ دوڑنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد دوبارہ لڑکھڑائی ۔ اس دفعہ انہوں نے اپنے لئے اور برا شگون تصور کیا۔


اس دفعہ لوٹ جانے کا بھی ارادہ کر لیا، لیکن سو اونٹ کے لالچ نے واپس جانے ارادے سے روک دیا



جس جگہ گھوڑی لڑکھڑائی تھی، وہاں سے حضرت محمدﷺ اور اپ کے ساتھی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ صاف دکھائی رہے تھے انہیں نشانہ بنانے کے لئے کمان ہاتھ میں لی، تیر چلانے لگا تو ہاتھ شل ہو گیا۔۔۔۔ گھوڑی زمین میں دھنسنے لگی اور وہاں سے زہریلا دھواں آسمان کی طرف بلند ہو گیا جس سے اس اور گھوڑی کی آنکھیں بند ہونے لگیں ۔۔۔۔۔ گھوڑی کو ایڑی لگائی تو زمین میں دھنس گئی اور اس کے پاؤں زمین میں اس طرح پیوست ہوئے جیسا ان میں کیل ٹھونک دئیے گئے ہوں۔ اس نے رسول اللہ ﷺ اور صدیق اکبر رضی اللہ کی طرف دیکھا اور گریہ و زاری کرتے ہوئے عرض کی کہ آپ دونوں اپنے رب سے میرے لئے دعا کریں کہ میری گھوڑی کو نجات دے دے اور اس کی ٹانگوں کو زمین کی گرفت سے آزاد کر دے۔ میں آپ دونوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کا پیچھا چھوڑ دوں گا ۔



رسول اللہ ﷺ نے اس کے لئے دعا کی ، اللہ سبحانہ و تعالی نے اس کی ٹانگوں کو زمین کی گرفت سے آزاد کر دیا ۔



آزادی ملنے کے تھوڑی ہی دیر پھر دل میں لالچ پیدا ہوا اور رسول اللہ ﷺ کے تعاقب میں گھوڑی کو ایڑی لگا دی۔ اس دفعہ گھوڑی پہلے سے بھی زیادہ زمین میں دھنس گئی۔۔۔۔۔



سراقہ نے فریادی بن کر عرض کی:



میرا زاد راہ، سازوسامان اور ہتھیار لے لو۔ میں اللہ تعالی کو گواہ بنا کر آپ دونوں سے عہد کرتا ہوں کہ راستے میں آپ کے تعاقب میں جو بھی آ رہا ہو گا میں اسے واپس لوٹا دوں گا۔۔۔۔۔۔



دونوں نے ارشاد فرمایا: ہمیں تیرے زاد راہ اور سازوسامان کی کوئی ضرورت نہیں ہاں البتہ لوگوں کو واپس لوٹائیں۔



پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے دعا کی تو اس کی گھوڑی آزاد ہو گئی۔



جب سراقہ لوٹنے لگا تو دور سے آواز دی اور عرض کیا:



اجازت ہو تو میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ کی قسم! کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گا جو آپ کو ناپسند ہو۔



عرض کی: یا محمدﷺ اللہ کی قسم! آپﷺ کا دین غالب آ کر رہے گا۔ آپﷺ مجھ سے وعدہ کریں کہ جب آپ کی ریاست میں آؤں تو آپﷺ میری عزت کریں گے اور یہ وعدہ مجھے لکھ دیں۔



رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ کو حکم دیا، تو انہوں نے ایک ہڈی پر یہ عہد لکھ کر اس کے حوالے کر دیا۔۔۔۔



جب وہ واپس لوٹنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 



سراقہ! جب تم کسری کے کنگن پہنو گے تو تمہیں کیسا لگے گا؟


سراقہ نے حیران وششدر ہو کر پوچھا۔

کسری بن ہرمز کے کنگن؟


آپﷺ نے فرمایا۔


ہاں ہاں! کسری بن ہرمز کے کنگن !


سراقہ واپس لوٹا راستہ میں اسے کچھ لوگ ملے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کر رہے تھے۔سراقہ نے کہا:لوگو! واپس اپنے گھر کو چلے جاؤ میں نے زمین کا چپہ چپہ چھان مارا۔ 

پاؤں کے نقوش کے بارے میں تم میری مہارت کو بھی جانتے ہو ۔مجھے انکا کہیں کھوج نہیں ملا۔تم اپنا وقت ضائع مت کرو۔میری بات مانو،واپس چلے جاؤ.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو اور اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کو دل میں چھپائے رکھا، یہاں تک کہ اس کو یقین ہو گیا کہ اب دونوں مدینے پہنچ چکے ہوں گےاور قریشی دشمنوں کی رسائی سے باہر ہیں ،تو سراقہ نے یہ راز فاش کر دیا۔



جب ابو جہل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات اور عہد و پیمان کا پتہ چلا، تو اسے بزدلی، ذلت، کمینگی اور سنہری موقعہ ضائع کرنے کا طعنہ دیا۔


سراقہ نے ابو جہل کی ملامت کا جواب اشعار میں دیا جن کا مفہوم یہ ہے۔


ابو جہل ،اللہ کی قسم! جب میری گھوڑی کی ٹاںگیں زمین میں دھنسی تھیں تو اگر اس حالت کو دیکھ لیتے تو تمہیں یقین ہو جاتا اور اس میں کوئی شک نہ رہتا کہ محمدﷺ سچے رسول ہیں۔ بھلا ان کا کون مقابلہ کر سکتا ہے ؟



حالات نے پلٹا کھایا اور گردش ایام نے یہ موقع فراہم کر بھی دیا ۔



وہ محمد ﷺ جو رات کی تاریکی میں اپنے دشمنوں سے چھپتے ہوئے نہایت کسمپرسی کے عالم میں مکہ سے نکلے تھے،آج شاہانہ انداز کے ساتھ ہزاروں سفید تلواروں اور گندمی نیزوں کے جلو میں سردار اور فاتح کی حثیت میں مکہ میں داخل ہوئے۔



وہ سرداران قریش جنہوں نے تکبر و نخوت کے ساتھ عرب میں تہلکہ مچا رکھا تھا، آج رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں نہایت عاجزی و انکساری کے جان بخشی کی بھیک لئے عرض پرداز تھے

حضور! آپکے اخلاق حسنہ کے پیش نظر امید ہے کہ آج آپ ہم سے اچھا برتاؤ کریں گے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء علیھم السلام کی سی فیاضی برتتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں جاؤ تم آزاد ہو ۔۔۔۔۔



سراقہ بن مالک نے اپنی سواری تیار کی اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تاکہ آپ کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کرے اور دس سال پہلے جو تحریری پروانہ اس کے پاس موجود تھا وہ پیش کرکے امان حاصل کرے

سراقہ!کہتے ہیں:


میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت جہرانہ میں ایک انصاری لشکر کے جھرمٹ میں تشریف فرما تھے ۔ مجھے دیکھ کر انصاری اپنے نیزوں سے کچوکے لگانے لگے اور کہنے لگے دور ہٹ جاؤ ،تم یہاں کیا لینے آئے ہو ؟


میں صفوں کو چیرتا ہوا رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ۔ آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے میں نے تحریری پروانہ دکھاتے ہوئے عرض کی ،یا رسول اللہ ﷺ! 


میں سراقہ بن مالک ہوں۔۔۔۔۔۔

یہ آپ کا میرے ساتھ تحریری معاہدہ ہے ۔


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:


سراقہ میرے پاس آؤ جاؤ، آج عہد و پیمان کے ایفا کا دن ہے ۔ میں آگے بڑھا اور آپ کے سامنے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور آپ کے حسن اخلاق اور ایفائے عہد سے شاد کام ہوا۔



سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جوار رحمت میں بلا لیا ۔۔۔۔


آپ کے وصال سے سراقہ غم و اندوہ سے نڈھال ہو گیا اور وہ منظر ان کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا جب وہ سو اونٹ کے لالچ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ لے کر تعاقب میں نکلے تھے آج دنیا بھر کی اونٹنیاں رسول اللہ ﷺ کے ناخن کے ایک ذرے برابر بھی حثیت نہیں رکھتیں۔



اور اپنے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ بار بار دھراتا ہے۔ سراقہ جب تم شاہ ایران کے کنگن پہنوں گے تو تمہیں کیسا لگے گا ؟


اب انہیں یقین ہو گیا تھا کہ شاہ ایران کے کنگن یہ ضرور پہنیں گے


وقت تیزی کے ساتھ گزرتا گیا ، یہاں تک کہ سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا۔ مسلمان ان کے دور حکومت میں ایران کی طرف تیز ہوا کے جھونکے کی طرح لپکے ۔


قلعوں کو فتح کرتے، لشکروں کو سکشت فاش دیتے، شاہی تختوں کو پامال کرتے اور مال غنیمت سمیٹتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ پورا ایران فتح کر لیا۔



ایک روز سپہ سالار لشکر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے قاصد ایران پر فتح کی خوش خبری لے کر سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے ساتھ بیت المال کے لئے غنیمت کا پانچواں حصہ بھی تھا ، جو ایران کے مجاہدین اسلام کے ہاتھ لگا تھا۔



جب مال غنیمت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھا گیا ۔آپ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس میں شاہ ایران کا وہ تاج بھی موجود تھا جس میں قیمتی موتی جڑے ہوئے تھے۔ شاہ ایران کا وہ لباس بھی موجود تھا جو سونے کی تاروں سے بنا ہوا تھا اور وہ قیمتی پیٹی بھی تھی جس پر لعل و جواہر جڑے ہوئے تھے اور سونے کے دو کنگن بھی موجود تھے اس جیسے خوب صورت،دیدہ ذیب کنگن پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے اس کے علاوہ بے شمار نفیس دیدہ زیب اشیاء مال غنیمت میں موجود تھیں۔


سیدنا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس بیش بہا خزانے کو اپنی چھڑی سے الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے۔


پھر آپ نے حاضرین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔


جو لوگ یہ مال غنیمت لے کر آئے ہیں، بلا شبہ سب کے سب امین ہیں۔ 


حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی وہاں موجود تھے کہنے لگے امیر المومینین! آپ پاک دامن رہے ، تو آپکی رعیت بھی پاک دامن رہی ۔

اگر آپ مال غنیمت کھاتے تو آج یہ ہڑپ کر جاتے



اس موقع پر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سراقہ بن مالک کو اپنے پاس بلایا۔ شاہ ایران کا لباس انہیں پہنایا،کمر پر پیٹی باندھی، سر پر تاج رکھا اور ہاتھوں میں کنگن پہنائے، یہ منظر دیکھ کر مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔



سید نا حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر خوشی سے جھومتے ہوئے فرمایا:واہ! واہ!



ارے بنو مدلج کا ایک بدوی اس کے سر پر شاہ ایران کا تاج اور ہاتھوں میں کنگن، اس شان خسروان کے کیا کہنے! پھر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور یوں گویا ہوئے:  



الہی! تو نے یہ مال و دولت اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیا اور وہ تجھے مجھ سے ذیادہ محبوب اور عزیز تھے۔



الہی! تو نے یہ مال و دولت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نہ دیا حالانکہ وہ تجھے مجھ سے زیادہ محبوب اور عزیز تھے۔



پھر یہ سب کچھ مجھے عطا کر دیا۔ میں تیری بارگاہ میں پناہ مانگتا ہوں کہ کہیں یہ مال تو نے مجھے سزا کے لئے عطا نہ کیا ہو۔ پھر اسی وقت یہ مال مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔


حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔



1 ۔ اسد الغابہ 232/2


2 ۔ الاصابه 18/2


3 ۔ثمار القلوب 93


4 ۔طبقات ابن سعد 188/1


5 ۔سیرت ابن ھشام 135/2


6 ۔حیاة الصحابہ فہرست ملاحظہ کریں 


7 ۔ تاج العروس 83/6




🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد 

 

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی



Post a Comment

0 Comments