حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ

حضرت عبداللہ بن سلام  رضی اللہ عنہ





بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ


" جو کوئی کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ عبداللہ بن سلام کو دیکھ لے"




حصین بن سلام یثرب میں ایک معروف یہودی عالم تھے۔ مدینہ کے تمام باشندے دینی اور قومی اختلافات کے باوجود ان کی دلی قدر کیا کرتے تھے۔


تقوی، نیکی ، استقامت اور صداقت جیسی وقیع خوبیوں سے متصف تھے۔


حیصن بڑی خوشگوار اور پر امن زندگی بسر کر رہے تھے، لیکن ان کی زندگی دوسروں کے لئے مفید بھی تھی۔ انہوں نے اپنے وقت کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔


ایک حصہ گرجے میں وعظ و نصیحت اور عبادت لئے مخصوص کر رکھا تھا ۔


دوسرا حصہ اپنے باغ کی دیکھ بھال اور کھجوروں کی پیوند کاری کے لئے مخصوص تھا۔


اور تیسرا حصہ تفقہ فی الدین کے لئے، تورات پر غور و تدبر کے لئے مخصوص تھا۔


جب بھی حصین بن سلام تورات کی تلاوت کرتے تو ان آیات پر آ کر رک جاتے جن میں نبی آخر الزمانﷺ کی خوشخبری دی گئی تھی، یہ نبی منتظر کے اوصاف کو غور سے پڑھتے اور یہ دیکھ کر خوشی سے جھوم جاتے کہ وہ ان کے شہر یثرب میں ہجرت کر کے آئیں گے اور پھر یہیں مستقل رہائش اختیار کریں گے ۔  


جب بھی یہ آیتیں پڑھتے تو دعا کرتے ،الہی! میری عمر دراز فرما تاکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم منتظر کو بچشم خود دیکھ سکوں ، آپ ﷺ کی ملاقات کا شرف حاصل کر سکوں اور سب سے پہلے آپﷺ پر ایمان لانے والوں میں سے ہو سکوں۔



اللہ جل شانہ نے حصین بن سلام کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ آپ کی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا ۔ آپﷺ سے ملاقات مصاحبت اور آپﷺ پر اتاری گئی شریعت پر ایمان لانا ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا۔



جناب حصین بن سلام کے اسلام قبول کرنے کی داستان انہیں کی زبانی سماعت فرمائیں چونکہ یہ اپنی آپ بیتی زیادہ عمدہ انداز میں بیان کر سکتے ہیں:



حصین بن سلام فرماتے ہیں:

میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے متعلق سنا تو میں نے آپﷺ کے نام ، حسب و نسب، صفات، ظہور ہونے کے جگہ اور وقت کا جائزہ لیا تو آپﷺ کو بالکل اس لے مطابق پایا جو تورات میں لکھا ہوا تھا۔ 



میں فورا آپﷺ کی نبوت پر یقین لے آیا لیکن میں نے اپنی اس کیفیت کو یہودیوں سے چھپائے رکھا اور اس موضوع پر بات کرنے سے اپنی زبان کو اس وقت تک روکا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ مکہ سے سوئے مدینہ ہجرت کے ارادہ سے روانہ ہوئے



جب آپ یثرب پہنچے وادی قبا میں جلوہ افروز ہوئے- ایک شخص نے آپ کی تشریف آوری کی اطلاع دیتے ہوئے لوگوں میں منادی کرتا ہوا ہمارے پاس آیا میں اس وقت کھجور کے درخت کی چوٹی پر کھجوریں اتارنے میں مصروف تھا ،میری پھوپھو خالدہ بنت حارث درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔جب میں نے یہ منادی سنی تو درخت پر بیٹھا ہی بلند آواز نعرہ زن ہوا ۔



اللہ اکبر اللہ اکبر 


جب میری پھوپھو نے یہ نعرہ سنا تو بولی خدا غارت کرے تجھے۔



بخدا ! اگر تو موسی بن عمران علیہ السلام کی آمد کے متعلق سنتا،تو اس سے زیادہ خوشی کا اظہار نہ کرتا۔  



میں نے کہا پھوپھی جان! اللہ کی قسم ! یہ موسی بن عمران علیہ السلام کے بھائی ہیں اور انہی کے دین پر گامزن ہیں۔یہ وہی شرہعت دے کر کے بھیجے گئے ہیں جو حضرت موسی علیہ السلام کو دی گئی تھی ۔ وہ یہ باتیں سن کر خاموش ہو گئی اور پھر بولی: کیا یہ وہی نبی ہے جس کے بارے میں تم ہمیں بتایا کرتے تھے کہ پہلے انبیاء کرام کی تصدیق کرنے والا ہو گا اور اپنے رب کے پیغامات کو مکمل طور پر پہچانے والا ہو گا ۔


میں نے کہا ہاں ۔


وہ کہنے لگی : تو پھر ٹھیک ہے

میں اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچا۔ آپﷺ کے دروازے پر لوگوں کا اژدھام تھا۔ میں لوگوں کو ہٹاتا ہوا آگے بڑھا حتی کہ آپﷺ کے قریب پہنچا۔ سب سے پہلے میں نے آپﷺ کی زبان مبارک سے یہ باتیں سنی :


لوگو! سلام پھیلاؤ۔


رات کے وقت جب سب لوگ سوئے ہوں تو تم نماز پڑھا کرو،


اس طرح تم جنت میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہو سکو گے۔


میں آپﷺ کے چہرہ انور کو بڑے غور سے ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہا تھا۔


مجھے یقین ہو گیا کہ یہ پرانوار چہرہ کسی جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں ہو سکتا پھر میں اور قریب ہوا اور پکار اٹھا:


لا اله الا الله محمد رسول الله


اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔


کلمہ سن کر آپﷺ نے میری طرف توجہ کی اور مجھ سے دریافت فرمایا: 


آپ کا نام کیا ہے؟


میں نے کہا حصین بن سلام۔

 

آپﷺ نے ارشاد فرمایا:


آج سے آپ کا نام عبداللہ بن سلام ہے۔


میں نے ادب سے نگاہیں جھکا لیں۔


اور عرض کی: اللہ کی قسم! آج کے بعد میں اس کے علاوہ اپنے لئے کوئی دوسرے نام کو پسند نہیں کروں گا۔


پھر میں رسول اللہ ﷺ کی محفل سے اٹھا اور سیدھا اپنے گھر پہنچا۔ میں نے اپنی بیوی، اولاد اور دیگر اہل خانہ کو سلام کی دعوت دی ۔ الحمد للہ سب مسلمان یو گئے اور میری پھوھی خالدہ بھی مسلمان ہو گئی اور وہ ان دنوں بہت عمر رسیدہ تھی۔



میں نے اپنے اہل خانہ سے کہا :


میرے اور اپ کے سلام لانے کو یہودیوں سے اس وقت تک چھپائے رکھو جب تک میں تمہیں اظہار کی اجازت نہ دے دوں ۔


پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچا اور عرض کی:


یا رسول اللہ ﷺ! یہودی بہت بڑی افترا پرداز اور جوٹھی قوم ہے، میری رائے ہے کہ آپﷺ ان کے سرداروں کے سامنے دعوت پیش کریں۔



مجھے اپنے کسی حجرے میں چھپا لیں اور ان سے میرے متعلق دریافت فرمائیں کہ میرا ان میں کیا مرتبہ ہے؟ 

میرے اسلام قبول کرنے کا ابھی انہیں نہ بتائیں، اگر پہلے انہیں بتا دیا گیا کہ میں مسلمان ہوں تو وہ مجھ پر بہتان تراشی کی انتہا کر دیں گے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک حجرے میں چھپا دیا۔


پھر یہودی سرداروں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں اسلام قبول کرنے کی ترغیب دینے لگے:


اور اپنے بارے میں تورات کے حوالے سے یاد دہانی کرانے لگے


وہ آپﷺ سے جھگڑنے لگے اور اسلام کو باطل مذہب ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے۔


میں حجرے میں بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا، جب آپﷺ ان کی طرف سے مایوس ہو گئے تو آپﷺ نے دریافت فرمایا: حصین بن سلام کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے؟ 

سب نے بیک زبان کہا: وہ ہمارے آقا ہیں۔ اس کا باپ بھی ہمارا آقا تھا۔ یہ بہت بڑے عالم ہیں۔ ان کا باپ بھی بہت بڑا عالم تھا۔


یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا: تمھارا کیا خیال ہے اگر وہ اسلام قبول کر لے کیا تم بھی مسلمان ہو جاؤ گے؟


انہوں نے کہا یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اسلام قبول کر لے، اللہ اسے اپنی پناہ میں رکھے، بھلا وہ کیوں اسلام قبول کرے گا؟ 


یہ کلمات سنتے ہی میں حجرے سے باہر ان کے سامنے آ گیا اور میں نے کہا: اے یہودیو! اللہ سے ڈر جاؤ اور جو حضرت محمد ﷺ تمھارے پاس لے کر آئے ہیں اسے قبول کر لو، اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ یہ اللہ کے سچے رسول ہیں، تم نے تورات میں ان کا نام اور صفات دیکھی نہیں؟


  سن لو میں گواہی دیتا ہوں یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں ان پر ایمان لاتا ہوں، ان کی تصدیق کرتا ہوں اور انہیں خوب اچھی طرح پہچانتا ہوں۔


 میری یہ باتیں سن کر سب نے بیک زبان کہا:

تو جھوٹ بولتا ہے، خدا کی قسم! تو شریر ہے ۔ تیرا باپ بھی بہت بڑا شریر اور فریبی تھا، تو خود بھی جاہل اور باپ بھی پرلے درجے کا جاہل تھا۔ کوئی عیب نہ چھوڑا ۔ جو انہوں نے مجھ میں نہ نکالا۔


میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ! کہ یہ قوم بڑی افترا پرداز اور بہتان تراش ہے۔ یہ بڑے بے وفا بےحیا لوگ ہیں۔


حضرت عبداللہ بن سلام اسلام کی طرف یوں لپکے جیسے پیاسا پانی کے گھاٹ کی طرف لپکتا ہے۔


قرآن مجید کی محبت ان کے دل میں گھر کر گئی۔ ان کی زبان پر ہمیشہ آیات قرآنی کا ورد رہتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سائے کی رہنے لگے۔ انہوں نے خود کو دین کے حصول کے لئے وقف کر دیا۔ یہاں تک کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بشارت دی جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ میں بہت مشہور ہوئی۔


 

اس بشارت کی داستان حضرت قیس بن عبادہ بیان کرتے ہیں، میں ایک روز مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس حلقے میں ایک شیخ صاحب تشریف فرما تھے جن کی طرف دل کھینچا جا رہا تھا اور طبیعت ان سے مانوس ہر رہی تھی ۔ وہ لوگوں سے بہت پیارے انداز میں باتیں کر رہے تھے،جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا:


جو کوئی چاہتا ہے کسی جنتی کو دیکھے تو اس شخص کو دیکھ لے۔ 


میں نے پوچھا یہ کون ہے؟


انہوں نے بتایا: یہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ہے۔


میں نے اپنے دل میں کہا اللہ کی قسم! میں ضرور اس کے پیچھے جاؤں گا اور پھر میں آپ کے پیچھے لگ گیا، وہ چلتے رہے قریب تھا کہ مدینہ سے باہر نکل جائیں۔ پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ میں نے ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، تو انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔


انہوں نے دریافت فرمایا: 


فرمائیے! کیسے آنا ہوا؟


میں نے عرض کی،جب آپ مسجد سے نکل رہے تھے تو میں نے قوم کو آپ کے متعلق یہ بات کہتے ہوئے سنا کہ جسے جنتی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے، یہ سن کر اپ کے پیچھے پیچھے چلا آیا تاکہ معلوم کروں کہ لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ آپ جنتی ہیں؟


آپ نے فرمایا: بیٹے اہل جنت کے بارے مین اللہ بہتر جانتا ہے۔ 


میں نے کہا یہ تو درست ہے، لیکن لوگوں نے آپ کے متعلق جو رائے قائم کی ہے اس کی ضرور کوئی وجہ ہے۔ وہ کہنے لگے میں تمہیں اس کا سبب بتاتا ہوں۔


میں نے عرض کی ضرور بتایئے، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔


وہ فرمانے لگے:


رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں ایک رات سویا ہوا تھا، میرے پاس ایک شخص آیا، اس نے مجھے کہا کھڑے ہو جاؤ میں کھڑا ہو گیا۔ اس نے میرا باتھ پکڑ لیا۔ میری بائیں جانب ایک راستہ تھا جب میں نے اس پر چلنے کا ارادہ کیا، تو اس نے مجھے کہا:


اس راستے کو چھوڑئیے، یہ آپ کے لئے نہیں پھر میں نے دیکھا کہ میری دائیں طرف ایک واضح راستہ ہے

اس راستے کو چھوڑیں ، یہ آپ کے لئے نہیں پھر بھی میں نے دیکھا کہ میری دائیں طرف ایک واضح راستہ ہے اس نے مجھ سے کہا ۔اس راستے پر چلو میں نے اس راستے پر چلنا شروع کر دیا یہاں تک کہ میں ایک بہت سر سبز و شاداب باغ میں پہنچ گیا ۔اس باغ کے وسط میں لوہے کا ایک ستون تھا ۔جس کی جڑیں زمین میں پیوست تھیں اور آخری سرا آسمان سے باتیں کر رہا تھا اس کے اوپر ایک سونے کا حلقہ بنا ہوا تھا ۔


اس شخص نے مجھ سے کہا اس پر چڑھیے ۔میں نے کہا میں اس پر نہیں چڑھ سکتا ایک خادم میرے آیا اس نے مجھے اٹھا کر بلند کیا، میں چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ میں ستون کی بلندی پر پہنچ گیا ،میں نے سونے کے حلقے کو مضبوطی سے پکڑلیا میں اس کے ساتھ چمٹا رہا۔یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ 


جب صبح اٹھا تو سیدھا رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچا اور آپ کو خواب سنایا۔


آپﷺ نے خواب سن کر ارشاد فرمایا: جو تم نے اپنی بائیں طرف راستہ دیکھا تھا وہ اہل نار کا راستہ تھا اور تم نے دائیں طرف جو راستہ دیکھا وہ اہل جنت کا راستہ تھا اور جو تم سر سبز و شاداب باغ دیکھا تھا وہ اسلام ہے اور جو اس کے وسط میں ستون دیکھا وہ دین ہے اور ستون کے اوپر سنہری حلقہ تھا وہ عروہ وثقی ہے تم مرتے دم تک اس مضبوط کڑی کے ساتھ منسلک رہو گے ۔


حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔


1۔ الاصابہ : 4/80-81


2- اسد الغابہ : 3/176-177


3۔ الاستیعاب :1/383-384


4۔ الجراح و التعدیل : 2/62-63


5۔ تجرید اسماء الصحابہ : 1/338-339


6۔ صفہ الصفوہ :1/301-303


7۔ تاریخ خلیفہ بن خیاط : 8


8۔ العبر : 1/51


9۔ شذرات الذھب : 1/53


10۔ تاریخ اسلام علامہ ذھبی : 2/230-231 


11۔تاریخ دمشق ابن عساکر: 7/443-448


12۔ تذکرہ الحفاظ : 1/22-23


13۔ البدایہ و النھایہ : 3/211-212


14۔الصحابہ : چوتھی جلد کی تفسیر 



🌴بارک اللہ فیکم🌴



============>ختم شد 

 

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ---- لقمان قاسمی 

Post a Comment

0 Comments