یوم عاشوراء کی اہمیت اور شہادت حسین
یوم عاشوراء کی اہمیت اور شہادت حسین
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (البقرہ: ۱۵۴)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے راستہ میں کام آجائیں ، انھیں مردہ نہ کہو ؛ بلکہ (وہ) زندہ ہیں ؛ لیکن تم (اس کو) محسوس نہیں کرسکتے۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "افضل الصيام بعد شهر رمضان شهر الله المحرم. (ابوداؤد: ۲۴۲۹)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ماہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے محرم کے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے۔
والذي نفسي بيده لولا ان رجالا من المؤمنين لا تطيب انفسهم بان يتخلفوا عني، ولا اجد ما احملهم عليه، ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله، والذي نفسي بيده لَوَدِدْتُ اَنْ اُقْتَلَ فِي سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیٰی ثُمَّ اُقْتَل".(نسائی: ۳۱۵۴)
ترجمہ: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر بہت سے مسلمانوں کے لیے یہ بات ناگواری اور تکلیف کی نہ ہوتی کہ وہ ہم سے پیچھے رہیں، (ہمارا ان کا ساتھ چھوٹ جائے) اور ہمارے ساتھ یہ دقت بھی نہ ہوتی کہ ہمارے پاس سواریاں نہیں ہیں جن پر ہم انہیں سوار کرا کے لے جائیں تو میں اللہ کے راستے میں جنگ کرنے کے لیے نکلنے والے کسی بھی فوجی دستہ سے پیچھے نہ رہتا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مجھے پسند ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں“۔
ماہ محرم کی فضیلت
اسلامی سالِ نو کا آغاز ماہِ محرم الحرام سے ہوتا ہے ، ماہِ محرم نہایت ہی فضائل وبرکات کا حامل مہینہ ہے ، یہ مہینہ اپنے خصوصیات اور امتیازات کی وجہ سے دیگر ماہ وشہور سے علاحدہ شناخت رکھتا ہے ، اس ماہِ حرام کی حرمت اور تعظیم زمانۂ جاہلیت سے چلی آرہی تھی، لوگ اس ماہِ مقدس میں اپنی لڑائیاں موقوف کردیا کرتے تھے،اور جنگ وجدال سے باز آتے تھے، گویا یہ ماہِ مقدس نہ صرف اسلام میں برکت وفضائل کاحامل قرار پایا ؛ بلکہ اس کا تقدس واحترام اور اس کی قدر وعظمت زمانہ جاہلیت سے بھی چلی آرہی تھی ، اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں اس ماہ کی عظمت وحرمت کا اعلان کیا ہے:إنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰهِ يوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَا أرْبَعَةٌ حُرُمٍ ذٰلِکَ الدِّينُ الْقَيمُ فَلاَ تَظْلِمُوْا فِيهِنَّ أنْفُسَکُمْ(سورۃ التوبۃ:۳۶) ’’بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جس دن سے اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے ان میں سے چار عزت والے ہیں‘‘جو ذولقعدۃ ، ذوالحجہ ، محرم اور رجب ہیں جس کا تذکرہ حدیث میں آیا ہے۔
اسلام کی آمد کے بعد بھی اس ماہ کی حرمت وعظمت کو اس کی سابقہ حالت میں برقرار رکھا گیا کہ یہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہ السلام کے باقیات میں سے تھے جس کو لوگ اپناتے آرہے تھے، چنانچہ قرآن وحدیث میں اس ماہ کو ’’شہر الحرام‘‘ (حرمت کا مہینہ) اور شہر اللہ( اللہ کا مہینہ) قرار دیا گیا ہے ،چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’سب سے زیادہ فضیلت والے روزے رمضان کے روزوں کے بعد اللہ کے مہینہ محرم الحرم کے روزے ہیں ‘‘ (مسلم: باب فضل صوم المحرم ، حدیث:۲۸۱۳) امام نووی فرماتے ہیں کہ : اس روایت میں نبی کریم ﷺ نے ماہ محرم کو اللہ عزوجل کا مہینہ قرار دیا ہے جو اس کی عظمت اور تقدس کو بتلانے کے لئے کافی ہے؛ چونکہ اللہ عزوجل اپنی نسبت صرف اپنی خصوصی مخلوقات کے ساتھ ہی فرماتے ہیں (شرح النووی علی مسلم:۸؍۵۵)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ بات از خود سمجھ آجاتی ہے کہ ماہِ محرم کی حرمت و تعظیم کا حضرت حسین کے واقعہ شہادت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں جو اس مہینے کی حرمت کی کڑیاں واقعہ کربلا اور شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے ملاتے ہیں، اس لیے کہ ماہِ محرم کی حرمت تو اس دن سے قائم ہے جس دن سے یہ کائنات بنی ہے، جیسا کہ سورہ توبہ کی گذشتہ آیت: ﴿يوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ...﴾ سے واضح ہے۔
سانحہ کربلاء اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ نبی کریمﷺ کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے ۵۰ سال کے بعد پیش آیا، اور شریعت مطہرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل ہوچکی تھی،جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: اَلْيوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِيتُ لَکُمُ الإسْلَامَ دِينًا( المائدة:۲)
معلوم ہوا کہ یہ تصور جہالت ولاعلمی پر مبنی ہے کہ ماہِ محرم کا ادب و احترام شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کا مرہونِ منت سمجھا جائے بلکہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے پہلے اسی ماہ کی یکم تاریخ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آچکا تھا، مگر اس وقت سے آج تک کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ شہادت اس انداز سے پیش نہیں کیا گیا۔
حالانکہ اگر کسی بڑے آدمی کی موت یا شہادت کسی مہینے کے ادب و احترام کی علامت ہوتی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایسے صحابی ٴرسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علمی، دینی، روحانی اور خلیفہ ثانی ہونے کے حوالے سے اس بات کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی زیادہ مستحق ہوتے کہ ان کی شہادت پر وہ سب کچھ کیا جاتا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پرکیا جاتا ہے، مزید برآں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر و جلیل القدر صحابہ کرام کی شہادتیں بدرجہ اولیٰ یہ استحقاق رکھتی ہیں مگر اہل ِسنت ان تمام شہادتوں پر نوحہ وماتم اور مجالس عزا وغیرہ کا اہتمام اس لئے نہیں کرتے کہ اسلام ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا اور جو ایسا کرتا ہے اس کا دین و ایمان خطرے میں ہے اور اسلام کا نوحہ وماتم سے کوئی تعلق نہیں۔
عاشوراء کا روزہ
اس ماہِ مبارک میں مطلقاً کسی بھی دن روزہ رکھنا رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ شمار ہوتا ہے، نیز نو اور دس محرم یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا اور بھی زیادہ فضیلت کی چیز ہے؛ چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں واردہے :
”افضل الصّیام بعد رمضان، شہر اللہ المحرم، وافضل الصّلاة بعد الفریضة صلوة اللیل“ (صحیح مسلم،کتاب الصوم، باب فضل صوم المحرم، رقم الحدیث: ۲۰۲)
ترجمہ:رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل اللہ کے نزدیک محرم کے روزے ہیں ،اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز(تہجد)ہے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش بھی زمانہٴ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے،
”عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا قالت: کانت قریش تصوم عاشوراء في الجاہلیة، وکان رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم یصومہ، فلما ھاجر إلی المدینة صامہ وأمر بصیامہ، فلما فرض شھر رمضان، قال: من شاء صامہ، ومن شاء ترکہ“ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صوم عاشوراء، رقم الحدیث:۱۱۲۵، ۲/۷۹۲، دارالکتب العلمیة)
ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزہ رکھتے تھے، جب آپ علیہ الصلاة والسلام نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی، تو وہاں بھی عاشوراء کاروزہ رکھا اورحضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کوبھی روزہ رکھنے کاحکم فرمایا، پھر جب ماہ ِرمضان میں روزہ رکھنے کی فرضیت کاحکم آیا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اختیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”جوچاہے عاشوراء کاروزہ رکھے، جوچاہے نہ رکھے “۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہواکہ ہجرت سے قبل بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی عادت شریفہ روزہ رکھنے کی تھی اورہجرت کے بعد دوسروں کوبھی تاکید فرمائی تھی۔
سیدنا موسی علیہ السلام نے اس روز بطور شکر الہی کے روزہ رکھا تھا کہ جب اللہ تعالی نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو آپ علیہ السلام نے بطور شکر الہی روزہ رکھا، اور ان کے بعد بھی یہود یہ روزہ رکھتے رہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو دریافت فرمایا: یہ کونسا روزہ ہے جو تم رکھتے ہو؟ کہا: یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو عزت بخشی اور فرعون اور اس کی قوم کو ذلیل کیا، اس شکرانے پر سیدنا موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تو ہم بھی رکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ‘‘ (ہم تم سے زیادہ سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے حقدار ہیں)۔یا فرمایا:’’نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ‘‘(ہم سیدنا موسی علیہ السلام کے تم سے زیادہ قریب ہیں)۔ (مسلم : باب صوم یوم عاشوراء، حدیث: ۲۷۱۲)
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور امت کو بھی اس روزے کا حکم دیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
”حین صام رسول اللّہ صلى الله عليه وسلم یوم عاشوراء، وأمر بصیامہ، قالوا: یا رسول اللّٰہ! إنہ یوم تُعظِّمہ الیہود والنصاری؟ فقال رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم: ”فإذا کان العام المقبل إن شاء اللّٰہ صُمنا الیوم التاسع، قال: فلم یأت العام المقبل، حتی توفی رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم “ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: أيّ یوم یصام في عاشوراء؟، رقم الحدیث: ۱۱۳۴، ۲/۷۹۷، دارالکتب العلمیة)
ّّّّ ترجمہ:جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن خود روزہ رکھا، اورحضرات صحابہ کوروزہ رکھنے کاحکم فرمایا؛ تواِس پرحضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اس دن کی تویہود ونصاری بھی تعظیم کرتے ہیں؟ (غالباً یہ عرض کرنا مقصود ہو گا کہ روزہ رکھ کر تو ہم نے بھی اس دن کی تعظیم کی ، گویا ہم ایک عمل میں ان کی مشابہت اختیار کرنے لگے)، تواِس پرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر اللہ نے چاہا تو اگلے سال ہم نویں تاریخ کوبھی روزہ رکھیں گے“۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں: لیکن اگلے سال عاشوراء کا دن آنے سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کی نوبت نہیں ملی، لیکن چوں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرما دی تھی، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عاشوراء کے روزے میں اس بات کا اہتمام کیا اور ۹؍محرم یا ۱۱؍ محرم کا ایک روزہ رکھا اور اس کو مستحب قرار دیا اور تنہا عاشوراء کے روزہ رکھنے کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی روشنی میں مکروہ تنزیہی اور خلاف اولیٰ قرار دیا، یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشوراء کا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا بلکہ اس کو عاشوراء کے دن روزہ کا ثواب ملے گا لیکن چوں کہ آپ کی خواہش دو روزے رکھنے کی تھی، اس لیے خواہش کی تکمیل میں بہتر یہ ہے کہ ایک روزہ ملا کر دو روزے رکھے جائیں ۔
عبادت میں بھی مشا بہت نہ کریں
رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد میں ہمیں ایک سبق اور ملتا ہے، وہ یہ کہ غیر مسلموں کے ساتھ ادنیٰ مشا بہت بھی حضور اقدس ﷺ نے پسند نہیں فرمائی، حالاں کہ وہ مشا بہت کسی برے اور ناجائز کام میں نہیں تھی، بلکہ ایک عبادت میں مشابہت تھی کہ اس دن جو عبادت وہ کر رہے ہیں ، ہم بھی اس دن وہی عبادت کر رہے ہیں ، لیکن آپ ؐ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا، کیوں ؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو دین عطا فرمایا ہے، وہ سارے ادیان سے ممتاز ہے اور ان پر فوقیت رکھتا ہے، لہٰذا ایک مسلمان کا ظاہر و باطن بھی غیر مسلم سے ممتاز ہونا چاہیے ، اس کا طرز عمل، اس کی چال ڈھال، اس کی وضع قطع، اس کا سراپا، اس کے اعمال، اس کے اخلاق، اس کی عبادتیں و غیرہ ہر چیز غیر مسلموں سے ممتاز ہونی چاہیے۔ چنانچہ احادیث میں یہ احکام جابجا ملیں گے جس میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ غیر مسلموں سے الگ طریقہ اختیار کرو۔
مشابہت اختیار کرنے والا انہی میں سے ہے
جب عبادت کے اندر بندگی اور نیکی کے کام میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مشابہت پسند نہیں فرمائی تو دوسرے کاموں میں اگر مسلمان ان کی مشا بہت اختیار کریں تو یہ کتنی بری بات ہوگی، اگر یہ مشابہت جان بوجھ کر اس مقصد سے اختیار کی جائے تاکہ میں ان جیسا نظر آئوں گا، تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:مَنْ تشبہ بقوم فھو منھم ( ابودائود)
جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ اسی قوم کے اندر داخل ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص انگریزوں کا طریقہ اس لیے اختیار کرے تاکہ میں دیکھنے میں انگریز نظر آئوں تو یہ گناہ کبیرہ ہے، لیکن اگر دل میں یہ نیت نہیں ہے کہ میں ان جیسا نظر آئوں بلکہ ویسے ہی مثا بہت اختیار کر لی تو یہ مکروہ ضرور ہے۔
ماہِ محرم سے متعلق دو موضوع احادیث
روافض اور اہل بدعت کی طرف سے اس ماہِ مبارک میں کچھ موضوع اور من گھڑت روایات بھی علی الاعلان بیان کی جاتیں ہیں اور ان کا خوب چرچا کیا جاتا ہے؛ حالانکہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی، بہت بڑا جرم ہے، ایسے شخص کے لیے جہنم کی وعید ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”من کذب عليّ متعمدًا فلیتبوء مقعدہ من النار“(المقاصد الحسنة في بیان کثیر من الاحادیث المشتہرة علی الألسنة، باب: تغلیظ الکذب علی رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم ، رقم الحدیث:۳، ۱/۱۰، دارالکتب العلمیة)
ترجمہ: ”جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے“۔
اس لیے اس ”جرم“ کے ارتکاب سے باز رہنابہت ضروری ہے، ان من گھڑت روایات میں سے ایک یہ ہے:
”ما من عبد یبکي یوم قتل الحسین، إلا کان یوم القیامة مع أولی العزم من الرسل“(عمل الیوم واللیلة لابن السني، ص: ۵۹۶، رقم الحدیث:۶۴۱، مکتبة الشیخ،کراتشي)
ترجمہ: ”جو شخص بھی شہادت حسین کے دن (ان کے غم میں )روئے گا، قیامت کے دن وہ اولو العزم رسولوں کے ساتھ ہو گا“۔
اورایک دوسری روایت یہ ہے :
”من صام تسعة أیام من أول المحرم بنی اللّٰہ لہ قبة في الھواء میلا في میل لھا أربعة أبواب“(عمل الیوم واللیلة لابن السني، ص: ۵۹۶، رقم الحدیث: ۶۴۱، مکتبة الشیخ،کراتشي)
ترجمہ: ”جس نے پہلی محرم سے نو دن کے روزے رکھے،اللہ اس کے لیے ہوا میں ایک خیمہ بنائیں گے، جو ایک میل چوڑا اور ایک میل لمبا ہوگااور اس کے چار دروازے ہوں گے“۔
واضح رہے کہ ان جیسی بے بنیاد اور جھوٹی روایات کو بیان کرنا یا ان پر یقین کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اس لیے ان جیسی بہت سی روا یات اور افسانوی باتیں جو محرم الحرام کے آتے ہی عام کی جاتی ہیں جن کی کوئی فنی شہادت اور ثبوت نہیں ہوتا، ان سے پورے اہتمام سے نہ صرف بچاجائے؛ بلکہ ان کے بیان کرنے والے کے اس بیان کو رد کرنے کی بھی از حد ضرورت ہے۔
محرم الحرام میں سوگ کرنے کا حکم
ایک اور چیز جس کا رواج عام طور پر بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ یہ مہینہ غم کا مہینہ ہے، اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟! اس لیے کہ اس مہینے میں نواسہٴ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بیدردی سے شہید کر دیا گیا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہنمائی ملتی ہے؟
اس بارے میں سب سے پہلے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کا ایک قول ملاحظہ کرتے ہیں :
ہر مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ غمگین کر دے؛ اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور اہلِ علم صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے، آپ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے افضل لختِ جگر کے بیٹے، یعنی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے، آپ عبادت کرنے والے، بڑے بہادر اور بہت زیادہ سخی تھے؛ لیکن آپ کی شہادت پر جس انداز سے رنج وغم کا اظہار کیا جاتا ہے، وہ کسی صورت میں مناسب نہیں ہے، آپ کے والد(حضرت علی کرم اللہ وجہہ) آپ سے زیادہ افضل تھے، اُن کو چالیس ہجری، سترہ رمضان، جمعہ کے دن ، جب کہ وہ اپنے گھر سے نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، شہید کر دیا گیا؛ ان کی شہادت کے دن کو اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن ماتم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے افضل ہیں، جنھیں چھیالیس ہجری ، عید الاضحی کے دن انہی کے گھر میں شہید کر دیا گیا؛ لیکن ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح بطور سوگ نہیں منایا جاتا جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن کو۔، اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان دونوں حضرات (حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما) سے افضل ہیں، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ وہ قراء ت کر رہے تھے، شہید کر دیا گیا؛ لیکن کوئی بھی ان کے قتل کے دن اور مہینے کو ان کی شہادت کی وجہ سےغم کا مہینہ قرار نہیں دیتا جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن اور مہینے کو قرار دیا جاتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو دنیا وآخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں ، ان کی وفات کے دن بھی یہ لوگ اس طرح ماتم نہیں کرتے، جس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن کرتے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ ۱۱/۵۷۹)
”شہادت “کا مرتبہ خوشی کا ہے یا غم اور سوگ کا ؟تعلیماتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہاء سعادت کی بات ہے۔
نبی کریمﷺ کا شوق شہادت
شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاوٴں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاوٴں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اورپھر شہید کر دیا جاوٴں“۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب: فضل الجھاد والخروج في سبیل اللہ، رقم الحدیث: ۴۹۶۷)
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت
یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے، (صحیح البخاری، کتاب فضائل مدینہ، باب کراہیۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم أن تعری المدینۃ، رقم الحدیث: ۱۸۹۰، ۳/۲۳، دارطوق النجاۃ)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنھیں بارگاہِ رسالت سے ”سیف اللہ“ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے؛ لیکن اللہ کی شان انھیں شہادت نہ مل سکی، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔ (البدایہ والنھایہ، سن احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین: ۷/۱۱۴، مکتبۃالمعارف، بیروت)
الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے توپھر ہمیں بتلایا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا دن ہے جس میں کسی نہ کسی صحابیِ رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے، ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی، جس کا مقتضی یہ ہے کہ اس دن کو اظہارِ غم اور افسوس بنایا جائے، نیز! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی؛ لیکن کیا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی شہادت کے دن کو بطور یادگار کے منایا؟ نہیں ؛بالکل نہیں، تو پھر کیا ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں؟
خدا را ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی رسومات وبدعات سے بچنے کی مکمل کوشش کریں۔
شرعاًسوگ کرنے کا حکم
شرعاً سوگ کرنے کی صرف چند صورتیں ہیں اور وہ بھی عورتوں کے لیے: (۱)مطلقہ بائنہ کے لیے صرف زمانہ عدت میں، (۲)جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں، (۳)کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن۔ اس کے علاوہ کسی بھی موقع پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے ، اور سوگ کا مطلب یا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناوٴ سنگھار نہ کرے، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوشبو لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے خوشنما کپڑے پہننا وغیرہ، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا مثلا: اظہارِ غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ وبکا اور سیاہ لباس وغیرہ پہنناجائز نہیں۔ نیز! مرد وں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے ۔
محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم
اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس ماہِ مبارک میں سوگ کرنا بالکلیہ بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے، لہٰذا جب سوگ جائز نہیں تو پھر شرعاً اس مہینے میں شادی کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہوگی؛ بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ امیر الموٴمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی، (ملاحظہ ہو: تاریخ مدینۃ الدمشق لابن عساکر)
، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاة والسلام وأزواجہ: ۳/۱۲۸، دار الفکر،، تاریخ الرسل والملوک للطبري، ذکر ما کان من الأمور في السنة الثانیة، غزوة ذات العشیرة، ۲/۴۱۰، دار المعارف بمصر)
اس مہینے میں شادی نہ ہونے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس مہینے میں نحوست ہے جب کہ شرعاً یہ بات بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے؛ بلکہ یہ عقیدہ یا ذہن رکھنا ہی گناہ ہے، اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی دن یا زمانے میں کسی قسم کی نحوست نہیں رکھی گئی۔ اکابرین مفتیانِ عظام کے فتاوی میں اس کی تصریحات موجود ہیں، ذیل میں فتاوی رحیمیہ سے اسی مسئلے کا جواب نقل کیا جاتا ہے:
(الجواب): ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”لا یحل لامرأة توٴمن باللہ والیوم الآخر أن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعة أشھر وعشراً“
ترجمہ: ”جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے؛ مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے“۔
(بخاري، باب: تحد المتوفی عنھا أربعة أشھر وعشراً إلخ، ص: ۸۰۳، ج:۲، پ:۲۲)، (صحیح مسلم، باب: وجوب الإحداد في عدة الوفات، إلخ، ص: ۴۹۶، ج:۱)، (مشکوٰة، باب العدة، الفصل الأول، ص: ۲۸۸)
ماہ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنا نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے، اسلام نے جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا ہو، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے۔
ماہ مبارک میں شادی وغیرہ کے بارے میں اہلسنت والجماعت کے تمام مکاتب فکرمتفق ہیں۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا فتویٰ پڑھیے:
(سوال) بعض سنی جماعت عشرئہ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے۔ ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے، اس کا کیا حکم ہے؟
(الجواب) تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ (احکام شریعت، ص: ۹۰، ج:۱) فقط واللہ اعلم بالصواب (فتاوی رحیمیہ، کتاب البدعۃ والسنۃ، ماہ محرم میں شادی کرے یا نہیں؟۲/۱۱۵، دارالاشاعت، کراچی )
تنبیہ؛ جس طرح ایک طبقے نے محرم الحرام کو غم اور سوگ کا مہینہ قرار دیتے ہوئے اس میں خوشی کو حرام قرار دیاہے تو دوسرے طبقے نے پہلے طبقے کے رد میں اس مہینے میں خوشی کرنے کو اپنا شعار بنایا ہے، یہ دونوں انتہائیں اور افراط و تفریط ہیں، اعتدال کی راہ یہی ہے کہ خوشی اور غمی دونوں حوالوں سے یہ مہینہ عام مہینوں کی طرح ہے، کسی ایک جانب میلان اعتدال سے خروج اور حد سے تجاوز ہوگا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے منکرات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے، آمین !
(ماہِ محرم احکام ومسائل، از: مفتی محمد راشدڈسکوی)
ہم ماتم کیوں نہیں کرتے؟
جگرہ گوشۂ بتول نواسۂ رسول، جوانانِ جنت کے سردارحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کربلا کی بنیاد پر ہر سال ماتمی ٹولہ جس طرح مجلس ماتم بپا کرتا ہے اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے: ‘‘سیاہ کپڑے پہننا، سینہ کوبی کرنا، زنجیروں اور چھریوں سے اپنے سینوں کو لہو لہان کرنا، (اور جوان زخموں کی تاب نہ لا کر مرجائے اس کو شہید قرار دینا) تابوت، تعزیہ اور دُلدل، (ذوالجناح)کا جلوس نکالنا وغیرہ۔
یہ مروجہ ماتم قرآن پاک، احادیث اور روایات شیعہ کی رو سے قطعا حرام ہے، قرآن مجید میں کتنی ہی آیات ایسی ہیں جن میں ایمان والوں کو صبر کا حکم دیا گیا ہے اور صبر کرنے والوں و جنت کی بشارت دی گئی ہے۔مثلاً: یاایھا الذین اٰمنوا استعینوا بالصبر والصلوة ان اللہ مع الصابرین۔(سورة بقرہ)
اے ایمان والو! مدد حاصل کرو تم ساتھ صبر اور نماز کے بے شک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔
والصابرین فی البأساء والضراء وحین الباس اولئک الذین صدقوا واولئک ھم المتقون۔(البقرہ)
اور مسلمان وہ ہیں جو سختی تکلیف اور لڑائی میں صبر کرنے والے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔
اس آیت سے ثابت ہوا کہ صبر کرنے والے سچے اور متقی ہیں، یہ کسی جگہ نہیں فرمایا کہ صبر چھوڑنے والے اور سینہ کوبی کرنے والے سچے اور جنتی ہیں یا اللہ ماتم کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
والذین صبرو ابتغاء وجہِ ربھم واقامو الصلٰوة وانفقوا مما رزقنٰھم سرّا وعلانیة ویدرء ون بالحسنة السیّئة اولئک لھم عقبی الدار۔(الرعد)
اور جن لوگوں نے اپنے رب کی رضامندی حاص کرنے کے لیے صبر کیا اور نماز قائم کی اور ہم نے جو ان کو رزق دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کیا اور وہ بھلائی سے برائی کو ہٹاتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے آخرت کا گھر اور بہشت ہے۔
اس آیت میں نماز پڑھنے والوں اور صبر کرنے والوں کو جنت کی خوش خبری سنائی گئی ہے نہ کہ ماتم کرنے والوں کو۔
یہ تو قرآن پاک کی آیات ہیں جو بالکل واضح اور صریح ہیں اور پکار پکار کر مؤمنوں کو صبر کا حکم دے رہی ہیں اور بےصبری و ماتم سے منع کررہی ہیں نیز صبر کرنے والے مؤمنوں کو عظیم بشارتیں اور خوشخبریاں سنا رہی ہیں۔
ماتم کی ممانعت پر شیعی روایات
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم عند وفاتہ لفاطمة لا تخمشی علی وجھا ولا ترخی علی شعراولا تنادی بالویل والعویل ولا تقیمی علی نائحة۔(فروع کافی جلد ٢صفحہ٢١٤)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی وفات کے وقت حضرت فاطمہ کوکہ میری وفات پر منہ نہ پیٹنااور بال نہ کھولنا اور ویل عویل سے نہ چیخنا چلانا اور نوحہ کرنے والیوں کو نہ قائم کرنا۔
ابن بابویہ نے بسند معتبر امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت وفات جناب سیدہ سے کہا: اے فاطمہ!جب میں مرجاؤ اس وقت تو اپنے بال میری مفارقت سے نہ نوچنا۔ اور اپنے گیسو پریشان نہ کرنا اور واویلا نہ کہانا اور مجھ پر نوحہ نہ کرنا۔ اور نوحہ کرنے والیوں کو نہ بلانا۔ (جلاء العیون مترجم اردو حصہ اول صفحہ ٦٧مطبوعہ لکھنؤ)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس جمیع اہلبیت میرے اور بیبیاں میری بحسبِ مراتب اشارہ اور سلام مجھ پر کریں جو حق اشارہ اور سلام کرنے کا ہے۔ اور آزار بصدائے نالہ ونوحہ نہ پہنچائیں۔(جلاء العیون صفحہ٢)
اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نالہ اور نوحہ کرنے سے دکھ ہوتا ہے لیکن یار لوگوں نے اسی کو عبادت، جنت کا نشان سمجھا ہوا ہے۔
اور شیخ طوسی وغیرہ نے بسندہاء معتبر حضرت جعفر صادق س روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب کوئی مصیبت پیش آئے تو مصیبت رسولِ خدا یاد کرو کہ ایسی مصیبت ہر گز کسی پر نہ ہوئی ہے اور نہ ہوگی۔ (ایضا جلاء العیون صفحہ٦٩)
تو جب رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی مصیبت شہادت حسین وغیرہ سب مصیبتوں سے بڑی مصیبت ہے۔ اور ایسی مصیبت عظمیٰ پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ازواج اہل بیت کو عموماً اور حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو خصوصاً نوحہ کرنے اور منہ پیٹنے سے منع فرمادیا ہے تو پھر سانحہ کربلا کی یاد میں بھی یہ افعال گناہ ہوں گے نہ کہ عبادت اور اس قسم کی مجالس ماتم بپا کرنے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت لازم آئے گی نہ کہ اطاعت۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی آخری وصیت: جناب سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ نے کربلائے معلیٰ میں اپنی ہمشیرہ حضرت زینب علیہا السلام کو فرمایا کہ: اے بہن! جو میرا حق تم پر ہے اسی کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ: میری مصیبت مفارقت پر صبر کرو۔ پس جب میں مارا جاؤں تو ہر گز منہ نہ پیٹنااور بال نہ نوچنا اور گریبان چاک نہ کرنا کہ تم فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہو جیسا انہوں نے پیغمبر خدا کی مصیبت میں صبر فرمایا تھا تم بھی میری مصیبت میں صبر کرنا۔(جلاء العیون مترجم باب قضایائے کربلا صفحہ٣٨٢)
افسوس کہ جس بے ہودہ عمل سے خود امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اپنی آخری وصیت میں اپنی دختر عفیفہ کو منع فرما کر گئے ہیں، شیعہ حضرات اسی عمل کا سڑکوں پر عظیم الشان مظاہرہ کرکے ان کی اتباع و پیروکاری کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن!
(ہم ماتم کیوں نہیں کرتے، رسالہ: حضرت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ)
مختصر سیرت حضرت سیّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ
نام و نسب: حسین رضی اللہ عنہ بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، کنیت ابو عبداللہ، لقب سید شباب اہل الجنۃ اور ریحانۃ النبی، والدہ سیدہ فاطمہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا۔
پیدائش
ولادت باسعادت کی خبر سن کر آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمانے لگے بچے کو دکھاؤ، اور نومولود بچہ کو جگا کر اس کے کانوں میں اذان دی، اس طرح گویا پہلی مرتبہ لسان وحی نے اس بچے کے کانوں میں توحید الٰہی کا پیغام پہنچایا، پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو عقیقہ کرنے اور بچہ کے بالوں کے ہموزن چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا۔
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ کا نام ”حرب“ رکھا تھا لیکن آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے یہ نام بدل کر حسین رضی اللہ عنہ رکھا۔
عہد نبوی: حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچپن میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ان کے ساتھ پیار و محبت کے بیشمار واقعات ملتے ہیں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم تقریباً روزانہ دونوں بھائیوں کو دیکھنے کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور دونوں کو بلاکر پیار کرتے اور کھلاتے۔ یہ دونوں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم سے بے حد مانوس اور شوخ تھے آپ ان کی شوخیاں دیکھ کر خوش ہوتے تھے، آپ صلّی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے دوش مبارک پر سوار کرکے برآمد ہوتے تھے، حسنین کریمین کبھی نماز کی حالت میں آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر چڑھ کر بیٹھ جاتے، غرض کہ طرح طرح کی شوخیاں کرتے، آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نہایت پیار اور محبت سے ان کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے۔
ابھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ صرف سات سال کے تھے کہ ہادی دوجہاں صلّی اللہ علیہ وسلم کا سایۂ شفقت سر سے اٹھ گیا، اس لیے انہیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے اتنا فیض حاصل کرنے کا موقعہ نہ ملا جتنا ان کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملا تھا، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو صغرسنی کے باعث احادیث حفظ کرنے کے کم مواقع ملے اس لیے براہ راست آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی مرویات کی تعداد کل آٹھ ہے، جو آپ کی کمسنی کو دیکھتے ہوئے کم نہیں کہی جاسکتیں، البتہ بالواسطہ روایات کی تعداد کافی ہے۔
حضرت حسینؓ کے متعلق نبی کریمﷺ کا فرمان:
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بہت محبت کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”الحسن والحسین سیدا شباب اہل الجنۃ“ یعنی حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، ایک مرتبہ آقا صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ان الحسن والحسین ہما ریحانی من الدنیا“ یعنی بے شک حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں میرے دنیا میں پھول ہیں۔
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کس طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار فرماتے تھے۔
عہد صدیقی: حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ذات سے صحابہ کرام بھی بہت زیادہ محبت کرتے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں آپ تقریباً ۸،۹ برس کے تھے، آپ سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بہت زیادہ ادب و محبت سے پیش آتے تھے اور آپ کو اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے۔
عہد فاروقی: حضرت عمر فارق رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دور میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے ۵۰۰۰ پانچ ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا، م اور جو جنگ بدر میں شامل صحابہ کے فرزند تھے ان کے لیے دو ہزار مقرر کیے تھے، اس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
عہد عثمانی: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلافت کے دور میں آپ پورے جوان ہوچکے تھے، چنانچہ سب سے اول اسی عہد میں میدان جہاد میں قدم رکھا اور سنہ ۳۰ ھجری میں طبرستان کی فوج کشی میں مجاہدانہ طور پر شریک ہوئے، پھر جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت برپا ہوئی اور باغیوں نے قصر خلافت کا محاصرہ کرلیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں بھائیوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت پر مامور کیا کہ باغی اندر گھسنے نہ پائیں، چنانچہ حفاظت کرنے والوں کے ساتھ ان دونوں نے بھی نہایت بہادری کے ساتھ باغیوں کو اندر گھسنے سے روکے رکھا، جب باغی محل پر چڑھ کر اندر اتر گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ہوئی تو انہوں نے دونوں بھائیوں سے سخت باز پرس کی۔
حضرت علی کی شہادت: اس کے بعد سنہ ۴۰ ھجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، زخم بہت بھاری تھا، تو اس وقت حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا کر نصیحت کی، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے علم میں کمال حاصل کیا تھا اور تفسیر و حدیث کا علم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے حاصل کیا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قضا و افتا میں بڑا مقام تھا۔
فضائل
ارباب سیر لکھتے ہیں کہ: ”کان الحسین رضی اللہ عنہ کثیر الصلوٰۃ والصوم والحج والصدقۃ افعال الخیر جمیعا۔“ یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ بڑے نمازی، روزہ دار، بہت حج کرنے والے بڑے صدقہ دینے والے اور تمام اعمال حسنہ کو کثرت سے کرنے والے تھے۔
شہادت حضرت حسین رضی اللہ عنہ
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی یزید نے مدینہ کے گورنر کو خط لکھا اس میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات اور حضرت حسین ، ابن عمر ، ابن عباس، ابن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت کی تجدید کے لئے لکھا ابن عمر اور ابن عباس رضوان اللہ علہم نے تو تجدید بیعت کردی البتہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں چھپ کر بیعت نہیں کروں گا مجھے وقت دیا جائے تو گورنر نے ۳ دن دے دیے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ سوچنے کا وقت لے کر مکہ چلے گئے، اس کے بعد حضرت حسینؓ بھی مکہ تشریف لے گئے۔
کوفیوں کے خطوط
حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ ہی میں تھے کہ آپ کو کوفیوں کے خطوط ملنا شروع ہوئے یہاں تک کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ۱۲۰۰ کے بیچ خطوط اپ کو لکھے گئے تھے اور کوفہ کے سرکردہ سرداروں نے آپ کو خطوط لکھے تھے، پھر آپ نے کوفہ کے لوگوں کو جواب دینے کا فیصلہ کیا حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا وہ کوفہ پہنچے اور ان لوگوں سے ملے لوگوں نے مسجد میں آکر امام حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کا وعدہ کیا اور حضرت مسلم بن عقیل نے آپ کو لکھا کہ جلدی آجائیں کوفہ آپ کے لیے تیار ہے۔
آپ کی کوفہ روانگی
حضرت مسلم بن عقیل کا خط ملتے ہی آپ کوفہ روانہ ہونے کے لیے تیار ہوئے اور اپنا خاندان ساتھ لیا، ابن عباس ، ابن عمر ، ابن عمروبن العاص، ابن علی الحنفیہ ، ابن جعفر رضوان اللہ علیھم اجمعین اور دوسرے لوگوں نے آپ کو منع کیا کہ کوفہ نا جائیں، لیکن آپ نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں جانے کا عزم کرچکا ہوں۔
کوفہ کے حالات میں تبدیلی
یزید سے کہا گیا کہ ابن زیاد کو وہاں گورنر بنایا جائے، وہ حالات ٹھیک کردے گا، ابن زیاد نے ٓاتے ہی کوفہ میں سختی کرنا شروع کردی اور فوج کو متحرک کردیا کوفیوں نے یزید کی بیعت کرلی اور حضرت مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا ان کے ساتھ چند ساتھی رہ گئے اور انھیں ان ساتھیوں سمیت ابن زیاد نے بربریت سے شہید کروادیا، حالات کی اس تبدیلی کا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو علم نہیں تھا آپ مسلم بن عقیل کے خط ملنے کے بعد ہی نکلے تھے جس مین انھوں نے آپ کی بیعت کے بارے میں لکھا تھا۔
حضرت حسینؓ کو حالات کا معلوم ہونا
حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب عراق کی سرحد پر پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل شہید ہوچکے ہیں آپ نے ان کے لیے دعا کی اور اپنے ساتھیوں کو واپس جانے کو کہا روایات میں آتا ہے کہ آپ نے یہاں رک کر واپسی کا ارادہ کیا تھا لیکن پھر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔
حربن یزید کی آمد
حربن یزید ایک لشکر لے کر آپ کو آملا اس نے آپ کو کہا کہ آپ کوفہ نہیں جاسکتے مجھے آپ کو روکنے کا حکم ہے باقی آپ جہاں چاہیں چلے جائیں، حر نے کہا: کوئی ایسی بات کریں کہ نہ آپ کے لیے نقصان کار ہو نہ ہمارے لیے، پھر آپ نے کربلا جانے کا ارادہ کیا حر بھی آپ کے ساتھ چلتا رہا ۔
کوفی لشکر اور آپ کا ان سے مکالمہ
کربلا مین ہی کوفیوں کا لشکر آپہنچا انھوں نے آپ سے کہا یا تو بیعت کرلیں یا جنگ آپ نے کہا بیعت نہیں کروں گا، پھر آپ نے ان کے سامنے تین باتیں رکھیں:
۱: مجھے مکہ جانے دیا جائے۔
۲: یا پھر مجھے چھوڑ دو میں جاکر جہاد کروں مسلمانوں کے ساتھ۔
۳: یا پھر چھور دو کہ میں خود یزید کے پاس جا کر اپنے معاملے میں بات کروں گا۔
آپ کی اس بات کو قبول نہ کیا گیا۔
حضرت حسین کو امان نہ ملنا
یہ امت مسلمہ کی بدقسمتی ہے کہ نااہل لوگوں کی وجہ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بہترین شرائط ماننے سے انکار کیا گیا اور یہ بھی بد قسمتی ہے نااہلوں کی وجہ سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جگر گوشہ کو امان نہیں ملی اور یہ شہادت کا عظیم واقعہ پیش آگیا۔
بالاٰخرحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ۱۰ محرم الحرام بروز جمع بعد زوال سن ۶۱ ھجری میں ۵۸ برس کی عمر میں مقام کربلا میں اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ حالت نماز میں شہید کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مرقد مبارک پر ہزارہا رحمتیں نازل فرمائے۔
بلا شبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جنت کے سرادر ہیں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے خاتون جنت رضی اللہ عنہا اور شیر خدا علی المرتضی کے فرزند ہیں آپ کے مناقب بہت ہیں، آپ دلیر تھے شجاع تھے حق گو تھے اور نہ جھکنے والے تھے آپ کو مظلوم شہید کردیا گیا، خلیفہ دوم حضرت عمرؓ اور مظلوم مدینہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد آپ کی شہادت، امت مسلمہ پر یہ حادثے بہت ہی گراں تھے۔
احادیث مذکورہ کی تحقیق
بقلم الشیخ محمد طلحه بلال احمد منیار حفظه اللہ
عاشوراء کے دن وسعت علی العیال
یوم عاشوراء میں اہل وعیال پر کھانے پینے میں وسعت وفراخی کرنے کی بابت جو حدیث بیان کی جاتی ہے ، کیا وہ ثابت ہے ؟
الجواب : عاشوراء کے دن وسعت علی العیال والی حدیث : ۵ صحابہکرام رضی اللہ عنھم سے مرفوعا ، اور حضرت عمر سے موقوفا ، اور ایک تابعی کی روایت سے مرسلامنقول ہے ،جن صحابہ کرام سے مرفوعا وارد ہے ، وہ یہ ہیں :
۞ حضرت جابر [شعب الإيمان 3512]
۞ حضرت ابن مسعود [شعب الإيمان 3513]
۞ حضرت ابو سعيد خدری [شعب الإيمان 3514]
۞ حضرت ابو هريرہ [شعب الإيمان 3515]
۞ حضرت ابن عمر [التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 10،12)]
۞ حضرت عمر پرموقوف روایت [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 13) ] میں
۞ اور ابن المنتشر تابعی کا بلاغ [شعب الإيمان 3516] میں مروی ہے ۔
بعض علماء حدیث اس حدیث کی تمام اسانید وطرق پر جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یہ حدیث مرفوعا ثابت نہیں ہے ، اور بعض صراحتا من گھڑت ہونے کا حکم لگاتے ہیں ۔ [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 13) ، مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (6/ 363) ]
جبکہ ان کے مقابلہ میں بعض محدثین نے ان کو قبول کیا ہے ، اور بعض اسانید کو صحیح یا حسن کا مرتبہ دیا ہے ،ان میں بالخصوص امام بیھقی ، ابن القطان ، عراقی ، ابو زرعہ بن العراقی ، ابن حجر عسقلانی ، سیوطی رحمھم اللہ ہیں، ان کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
۱۔ امام بیہقی : " هَذِهِ الْأَسَانِيدُ وَإِنْ كَانَتْ ضَعِيفَةً فَهِيَ إِذَا ضُمَّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ أَخَذَتْ قُوَّةً " [ شعب الإيمان (5/ 333) ]
۲۔ ابن ناصر الدین : قال العراقي في أماليه : " لحديث أبي هريرة طرقٌ، صحح بعضَها ابن ناصر الحافظ " [ المقاصد الحسنة (ص: 674) ]
۳۔ ابو الفضل عراقی : قال العراقي في أماليه : " لحديث أبي هريرة طرق ، صحح بعضها ابن ناصر الحافظ، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات من طريق سليمان بن أبي عبد اللَّه عنه، وقال: سليمان مجهول. وسليمان ذكره ابن حبان في الثقات، فالحديث حسن على رأيه، قال: وله طريق عن جابر على شرط مسلم، أخرجها ابن عبد البر في "الاستذكار" من رواية أبي الزبير عنه ، وهي أصح طرقه ، ورواه هو والدارقطني في "الأفراد" بسند جيد ، عن عمر موقوفا عليه " [ المقاصد الحسنة (ص: 674) ]
۴۔ ابوزرعہ عراقی : " هَذَا مَا وَقَعَ لَنَا مِنَ الأَحَادِيثِ الْمَرْفُوعَةِ فِي الْبَابِ، وَأَصَحُّهَا حَدِيثُ جَابِرٍ مِنَ الطَّرِيقِ الأَوَّلِ، وَفِي بَعْضِ طُرُقِهِ الْمُتَقَدِّمَةِ مَا يَصْلُحُ أَنْ يَكُونَ شَاهِدًا لَهُ " [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 12) ] ، وقال عن رواية ابي الزبير عن جابر : " وَأَقَلُّ أَحْوَالِ هَذَا الطَّرِيقِ أَنْ يَكُونَ حَسَنًا ، وَحُكْمُهُ حُكْمُ الصَّحِيحِ فِي الاحْتِجَاجِ بِهِ." [ التوسعة على العيال لأبي زرعة (ص: 2) ]
۵۔ ابن حجر عسقلانی : قال ابن حجر عن رواية أبي سعيد : ولولا الرجل المبهم لكان إسناده جيداً ، لكنه يقوى بالذي قبله ، وله شواهد عن جماعة من الصحابة غير أبي سعيد [ الأمالي المطلقة (ص: 28) ]
۶۔ سیوطی : (حديث) "مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ" قال الدارقطني : لا يثبت ، إنما هو من كلام محمد بن المنتشر. قلت: كلا بل هو ثابت صحيح [ الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 186) ]
۷۔ ابو الفیض احمد الغماری : حدیث صحیح [ هدية الصغراء بتصحيح حديث التوسعة يوم عاشوراء ص 39 ]
۞ ۞ ۞
اور مذاہب اربعہ کی کتابوں میں بھی اس پر عمل کرنے کی گنجائش لکھی ہے ، اور یہ کہ سال بھر کی برکت کے بارے میں یہ عمل مجرب اور پائے ثبوت کو پہنچا ہوائے ہے ۔
حنفیہ کےبعض فتاوی ملاحظہ فرمائیں :
۞ وسعت علی العیال کی روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے؛ لیکن مختلف طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے فضائل میں قابل استدلال ہے؛ لیکن اس روایت سے کھچڑے اور حلیم پکانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ کھچڑا آج کل اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے اور یہ لوگ روزہ رکھنے کے بجائے دن بھر کھچڑا کھاتے کھلاتے رہتے ہیں، جو منشأ نبوی کے بالکل خلاف ہے، نیز اس میں التزام مالا یلزم کے معنی بھی پائے جاتے ہیں؛ کیوں کہ وسعت پر عمل کھچڑا پکانے پر ہی منحصر نہیں؛ بلکہ کسی بھی طرح دستر خوان وسیع کرنے سے یہ فضیلت حاصل ہوسکتی ہے۔ (کتاب النوازل ج۱۷ ص ۱۸۸)۔
۞ عاشوراء کے روز شام کو وسعت دسترخوان ناجائز نہیں ہے ،بلکہ جائز اور باعث خیرو برکت ہے۔(فتاوی قاسمیہ ج۲ص۴۳۲)۔
۞ عاشوراء کے دن اہل وعیال کو اچھا اور خوب کھلانا حدیث و کتب فقہ سے ثابت ہے ، حدیث اگرچہ ضعیف بھی ہو پھر بھی فضائلِ اعمال میں اس پر عمل کرنے میں ثواب ہے ، نیز فقھاء نے بھی اس حدیث کو قابلِ عمل فرمایا ہے۔واللہ اعلم۔(فتاوی دار العلوم زکریا ج۱ص۴۱۹)۔
۞ عاشورا کے دن اہل وعیال پر فراوانی کی حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔(نجم الفتاوی ج۱ص۲۹۶) ۔
۞ خلاصہ بحث ۞
وسعت علی العیال کی حدیث کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اوراس پر عمل بھی جائز و مستحسن ہے ۔
رہی بات دیگر رسوم کی جیسے : سرمہ لگانا ، خضاب لگانا ،غسل کرنا ، رشتہ داروں سے ملاقات کرنا ،خاص قسم کا کھانا پکانے کا اہتمام کرنا،تو یہ سب بدعت ہے اور ان باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے۔
عاشوراء کے دن کی طرف منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت
ذخیرہ احادیث میں ۵حضرات صحابہ کی روایات اس سلسلہ میں ملتی ہے :
۱۔ حضرت ابن عباس ۲۔ حضرت ابوہریرہ ۳۔ حضرت سعید الشامی ۴۔ حضرت انس ۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
اورتابعین میں سے : 6۔ حضرت قتادہ ۷۔ حضرت وہب بن منبہ ۸۔حضرت زید العمی رحمہم اللہ سے مرسل روایات منقول ہیں۔
۞ ان روایات میں وقائع دو طرح کے ہیں :
۱۔ ایک وہ جن کا تعلق خداکی تخلیق سے ہے ، یعنی اللہ تعالی نے فلانی فلانی چیز عاشوراء کے دن پیدا کی ، جیسے زمین آسمان عرش کرسی لوح وقلم وغیرہ وغیرہ ، ان امور سے ابھی یہاں تعرض نہیں کیا جائے گا ، اگرچہ یہ امور ثابت نہیں ہیں ۔
۲۔دوسرے وہ واقعات جو انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف منسوب ہیں ، وہ مختلف روایات جمع کرنے سے تقریبا ۱۴ انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کئے گئےہیں ، بعض انبیاء کی طرف متعدد باتیں منسوب کی گئیں ، جن کی یہ فہرست ہے :
۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش ، اور اس دن ان کی توبہ قبول ہونا۔
۲۔ حضرت نوح علیہ السلام کی نجات ، اور کشتی کا جودی پہاڑ پر جاکرٹھیرنا۔
۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش، اور آگ سے نجات۔
۴۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دنبہ کے ذریعہ فداء۔
۵۔ حضرت موسی علیہ السلام کی پیدائش ،تورات کا نزول ،بنی اسرائیل کی نجات ، دریا پار کرنا، اور فرعون کا غرق۔
۶۔ حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نکلنا ، اور ان کی قوم کی توبہ قبول ہونا ۔
۷۔ حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالینا۔
۸۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا شفایاب ہونا۔
۹۔ حضرت داود علیہ السلام کی فیصلہ والی غلطی معاف ہونا۔
۱۰۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کاحکومت وسلطنت پر فائز ہونا۔
۱۱۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا قید خانہ سے نکلنا۔
۱۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس لوٹنا۔
۱۳۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش، اور آسمان پر اٹھالینا۔
۱۴۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ، اور اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی بشارت ۔
۞ ان واقعات میں سے پایۂ ثبوت تک پہنچ نے والا صرف حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون سےنجات کا واقعہ ہے ، جوبروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، کتب احادیث میں صحیح سند سے مروی ہے۔
۞ اس کے علاوہ چار واقعات اسانید ضعیفہ سے وارد ہوئے ہیں ، ضعف سند کے ساتھ ان کا کچھ اعتبا ر کرسکتے ہیں ، وہ ہیں :
۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہونا
۲۔ حضرت نوح علیہ السلام کی طوفان سے نجات۔
۳۔ فرعون کے جادوگروں کی توبہ قبول ہونا۔
۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ۔
بقیہ جتنے بھی واقعات ہیں جو عاشوراء کی طرف منسوب کئے گئے ، اسی طرح عاشوراء کے فضائل ، وہ سب غیر مستند ، جھوٹے اور من گھڑت ہیں ۔
۞ اب اسانید ومرویات کا حال معلوم کرتے ہیں :
۱۔ حضرت ابن عباس کی روایت : ان سے مختصر روایت جس میں حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی فرعون سے نجات کا واقعہ جو مروی ہے ، وہ صحیح ہے ۔ دیکھئے : صحیح البخاری رقم(2004) ( 3397) ،مسلم(1130)۔
جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مطول روایت جس میں مختلف انبیاء علیہم السلام کے واقعات مذکور ہیں ، وہ روایت من گھڑت ہے ، اس کی سند میں حبیب بن ابی حبیب جھوٹا راوی ہے ۔
اس روایت کوبیہقی نے فضائل الاوقات (ص: 430,440)میں ذکر کرنے کے بعد کہا :
هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ بِمَرَّةٍ ،وَأَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ مِنْ عُهْدَتِهِ، وَفِي مَتْنِهِ مَا لَا يَسْتَقِيمُ وَهُوَ مَا رُوِيَ فِيهِ مِنْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرَضِينَ وَالْجِبَالِ كُلِّهَا فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ ،وَاللَّهُ تَعَالَى يَقُولُ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وَمِنَ الْمُحَالِ أَنْ تَكُونَ السَّنَةُ كُلُّهَا فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ ،فَدَلَّ ذَلک عَلَى ضَعْفِ هَذَا الْخَبَرِ۔
ابن الجوزی الموضوعات (2/199)میں لکھتے ہیں : هَذَا حَدِيث مَوْضُوع بِلَا شكّ.
قَالَ أَحْمَد بْن حَنْبَل: كَانَ حَبِيب بْن أَبِي حَبِيب يكذب.وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ.وَقَالَ أَبُو حَاتِم ابن حِبَّانَ: هَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ لَا أَصْلَ لَهُ.قَالَ : وَكَانَ حَبِيبٌ مِنْ أَهْلِ مرو يضع الحَدِيث على الثقات، لَا يَحِلُّ كَتْبُ حَدِيثِهِ إِلا على سَبِيل الْقدح فِيهِ.
وانظر:اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة(2/92)،وتنزيه الشريعة(2/149) ،والفوائد المجموعة (ص: 96)۔
۲۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت : ان سے مختصر روایت مسند احمد (14/335)وغیرہ میں مروی ہے ، جس کا خلاصہ ہےکہ :
اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا، اور فرعون کو غرق فرمایا تھا ،اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر جا کر رکی تھی۔ تو حضرت نوح اور موسیٰ علیہم السلام نے اللہ کا شکراداکرنے کے لئے روزہ رکھا تھا۔
احمد کی سند میں عبد الصمد بن حبيب ضعیف ہے ، اور اس کے والد مجہول الحال ہیں ۔لیکن اخبار کے باب میں اس قسم کا ضعف چل سکتاہے، تو کشتی کا واقعہ قابل قبول ہوسکتاہے ، حضرت قتادہ کی مرسل روایت میں بھی یہ مذکور ہے ۔
البتہ حضرت ابوہریرہ کی طویل روایت تو موضوعات میں شمار کی گئی ، ابن الجوزی نے الموضوعات (2/199)میں ذکر کرکے کہا :
هَذَا حَدِيث لَا يشك عَاقل فِي وَضعه وَلَقَد أبدع من وَضعه وكشف القناع وَلم يستحي وأتى فِيهِ بالمستحيل وَهُوَ قَوْله: وَأول يَوْم خَلَقَ اللَّهُ يَوْم عَاشُورَاءَ، وَهَذَا تغفيل من وَاضعه لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُسمى يَوْم عَاشُورَاءَ إِذَا سبقه تِسْعَة.
شوکانی الفوائد المجموعہ (ص: 96)میں لکھتے ہیں :
ساقه في "اللآلىء" (2/92) مُطَوَّلا وَفِيهِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى الله وعلى رسوله ، ما يَقشَعِر لَهُ الْجِلْدُ ، فَلَعَنَ اللَّهُ الْكَذَّابِينَ ، وهو موضوع بلا شك.
۳۔ حضرت سعید شامی کی روایت : یہ روایت کتابوں میں عبد الغفور بن عبد العزیز بن سعیدالواسطی، عن ابیہ عبد العزیز ، عن ابیہ سعید ، کی سند سے منقول ہوتی ہے ، جس سے عثمان بن مطر شیبانی روایت کرتاہے ، عبد الغفور پر وضع حدیث کا حکم لگایا گیا ہے ،اور عثمان بن مطر متروک الروایت ہے، اس لئے اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
عبد الغفور کی روایت طبرانی کی المعجم الكبير (6/69) تفسير طبری (15/355)اور ترتيب الأمالی الخميسیہ (2/127)میں ہے۔کتابوں میں اس راوی کا نام مقلوب آتاہے :عبد العزیز بن عبد الغفور، جو غلط ہے۔
دیکھئے :عبد الغفور کے لئے :میزان الاعتدال (2/641) لسان المیزان (5/229)السلسلہ الضعیفہ (11/691)۔ عثمان بن مطر کے لئے :میزان (3/53)تہذیب الکمال(19/494)۔
۴۔ حضرت انس کی روایت : ابویعلی نے مسند(7/133)میں مختصرا روایت کی ہے ، اس میں بنی اسرائیل کے لئے دریا کا پھٹنا مذکور ہے ، سند میں ضعف ہے لیکن شواہد صحیحہ کی وجہ سے تحسین کے قابل ہے۔
۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت فضیلت صوم عاشوراء کے سلسلہ میں ترمذی (741)میں وارد ہے کہ: محرم کے روزے رکھا کرو کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی ،اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا۔
سند عبدالرحمن بن اسحاق واسطی کی وجہ سے ضعیف ہے ۔اس میں ایک قوم کی توبہ قبول ہونے کا مبہم تذکرہ ہے ، بعض شراح اس سے قوم یونس کی توبہ مراد لیتے ہیں [التنوير شرح الجامع الصغير (4/ 246)]اور بعض فرعون کے جادوگروں کی توبہ ، کیونکہ تفسیر کی بعض کتابوں میں (یوم الزینہ ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے نقل کیا گیا کہ وہ عاشوراء کا دن تھا [تفسير ابن كثير (5/ 289)]۔
۶۔ حضرت قتادہ کی مرسل روایت میں صرف حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا جودی پہاڑ پررکنا مذکور ہے [تفسير الطبري (15/ 336)] اس کی تقویت حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ممکن ہے [مسند احمد (14/335)]۔
۷۔ حضرت وہب بن منبہ کی روایت طویل ہے ، اور مختلف وقائع اور فضائل عاشوراء پر مشتمل ہے [ترتيب الأمالی الخميسيہ للشجری (1/245)]لیکن سند میں عبد المنعم بن ادریس کذاب ہے [میزان الاعتدال 2/668]۔
۸۔ حضرت زید بن الحواری العمی کی مرسل روایت :مستدرک حاکم میں (2/638))وارد ہے ، اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی عاشوراء کے دن پیدائش کی بات ہے ۔ذہبی نے تلخیص المستدرک میں کہا : سند واہ۔
۞ علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ[الآثار المرفوعہ في الأخبار الموضوعہ (ص: 95)]میں مذکورہ بالا واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قلت : الَّذِي ثَبت بالأحاديث الصَّحِيحَة المروية فِي الصِّحَاح السِّتَّة وَغَيرهَا أَن الله تَعَالَى نجى مُوسَى على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام من يَد فِرْعَوْن وَجُنُوده وغرَّق فِرْعَوْن وَمن مَعَه يَوْمَ عَاشُورَاء .وَمِن ثَمَّ كَانَت الْيَهُودُ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاء ويتَّخذونه عيدا . وَقد صَامَ النَّبِي حِين دَخل الْمَدِينَة وَرَأى الْيَهُود يصومونه وَأمر أَصْحَابه بصيامه وَقَالَ : نَحن أَحَق بمُوسَى مِنْكُم، وَنهى عَن اتِّخَاذه عيدا وَأمر بِصَوْم يَوْم قبله أَو بعده حذرا من مُوَافقَة الْيَهُود والتشبه بهم فِي إِفْرَاد صَوْم عَاشُورَاء.
وَثَبت بروايات أخر فِي "لطائف المعارف" لِابْنِ رَجَب وَغَيره :أَن الله قبل تَوْبَة آدم على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام . وَثَبت بِرِوَايَة أُخْرَى أَن نوحًا على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام اسْتَوَت سفينتُه على الجُودي يَوْم عَاشُورَاء كَمَا فِي "الدّرّ المنثور" وَغَيره معزوّا إِلَى أَحْمد وَأبي الشَّيْخ وَابْن مرْدَوَيْه وَابْن جرير والأصبهاني وَغَيرهم .وَفِي رِوَايَة للأصبهاني فِي كتاب "التَّرْغِيب والترهيب" أَن يَوْم ولادَة عِيسَى يَوْم عَاشُورَاء كَمَا فِي "الدّرّ المنثور" أَيْضا .
وَأما هَذِه الْأَحَادِيث الطوَال الَّتِي ذُكر فِيهَا كثير من الوقائع الْعَظِيمَة الْمَاضِيَة والمستقبَلة أَنَّهَا فِي يَوْم عَاشُورَاء فَلَا أصل لَهَا ،وَإِن ذكرهَا كثير من أَرْبَاب السلوك والتاريخ فِي تواليفهم، وَمِنْهُم الْفَقِيه أَبُو اللَّيْث ذكر فِي" تَنْبِيه الغافلين" حَدِيثا طَويلا فِي ذَلِكَ ،وَكَذَا ذكر فِي "بستانه" فَلَا تغتر بِذكر هَؤُلَاءِ ،فَإِن الْعبْرَة فِي هَذَا الْبَاب لنقد الرِّجَال لَا لمُجَرّد ذكر الرِّجَال۔
0 Comments