حضرت ربیع بن زیاد اسلمی رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت ربیع بن زیاد اسلمی رضی اللہ عنہ
"جب سے میں مسند خلافت پر متمکن ہوا ہوں کسی نے مجھ سے اس طرح سچ نہیں بولاجس طرح ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ نے"
یہ مدینہ الرسولﷺ ہے ، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات حسرت آیات پر ہر کوئی غم و اندوہ سے نڈھال نظر آ رہا ہے۔
مختلف اطراف سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دست حق پر بیعت کرنے کے لئے وفود ہر روز ذوق و شوق سے جوق در جوق آ رہے ہیں۔
ایک روز بحرین سے ایک ایک وفد ورود ہوا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہر وفد کی بات بڑے غور اور دلچسپی سے سنتے شاید ان کی باتوں میں کوئی دلاویز نصیحت، یا کوئی نفح بخش فکر و تدبر مل جائے ۔
حاضرین میں سے اکثر نے کوئی قابل ذکر بات نہ کی، تو اپ ایک ایسے شخص کی طرف متوجہ ہوئے جس کے چہرے پر خیر و برکت کے آثار نمایاں نظر آ رہے تھے ۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ کرتے یوئے فرمایا :
آپ بھی کچھ ارشاد فرمائے ۔
اس شخص نے پہلے اللہ سبحانہ و تعالی کی تعریف کی اور پھر ارشاد فرمایا :
اے امیر المومینین! اللہ نے تجھے اس امت کا والی بنا کر امتحان لیا ہے۔
کاروبار حکومت میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ، اگر فرات کے کنارے پر ایک بکری بھی راستے سے بھٹک گئی، تو قیامت کے دن اپ سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔
یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ زارو قطار رونے لگے۔ اور فرمایا :
جب سے میں خلیفہ بنایا گیا ہوں کسی نے مجھ سے اس طرح کھری کھری باتیں نہیں کیں جس طرح آپ نے کی ہیں۔
تم کون ہو؟
اس نے کہا: میں ربیع بن زیاد ہوں۔
آپ نے پوچھا: کیا تم مہاجر بن زیاد کے بھائی ہو؟
کہا: ہاں
جب مجلس ختم ہو گئ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا:
ربیع بن زیاد کا اچھی طرح جائزہ لو اگر وہ واقعی سچائی کا خوگر تو اس میں بہت خیر و بھلائی پائی جاتی ہے۔ یہ ہمارے لئے بہت مفید رہے گا۔
اسے کوئی ذمہ داری سونپو اور مجھے بتاؤ کہ یہ اس ذمہ داری کو کس طرح نبھاتا ہے۔
ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ امیر المومینین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حکم پر ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے سر زمین اہواز میں واقع مناذر شہر کو فتح کرنے کے لئے ایک لشکر تیار کیا اور اس لشکر میں ربیع بن زیاد اور ان کے بھائی مہاجر بن زیاد کو بھی شامل کر لیا۔
سپہ سالار لشکر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے مناذر شہر کا محاصرہ کر لیا اور وہاں کے باشندوں سے ایسی زوردار لڑائی کی جس کی نظیر جنگی تاریخ میں نہیں ملتی، مشرکین نے اپنی طاقت کا اس طرح کھل کر مظاہرہ کیا، جس کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اس معرکہ میں کثیر تعداد میں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
مسلمان اس حالت میں لڑائی لڑ رہے تھے کہ انہوں نے رمضان کے روزے رکھے ہوئے تھے۔
جب ربیع بن زیاد کے بھائی مہاجر بن زیاد نے دیکھا کہ مسلمان کثرت سے شہید ہو رہے ہیں، انہوں نے راہ اللہ میں جان قربان کر دینے کا عزم کر لیا۔ بدن کو خوشبو لگائی اور کفن پہن کر اپنے بھائی کو وصیت لکھوائی ، یہ منظر دیکھ کر ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ میرے بھائی مہاجر نے روزے کی حالت میں راہ اللہ میں اپنی جان پیش کرنے کا عزم کر رکھا ہے اور وہ اس کے لئے بالکل تیار ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے مجاہدین بھی روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ لڑائی کی شدت اور روزے سے ان کے جسمانی قوی مضمحل ہو چکے تھے۔ اس نازک صورتحال میں بھی وہ روزہ افطار کرنے سے انکاری ہیں ۔
اب آپ کوئی ایسی تدبیر سوچیں جو مجاہدین کے لئے مفید ہو۔ یہ سن کر اب موسی اشعری رضی اللہ عنہ اٹھے اور انتہائی ولولہ انگیز انداز میں یہ اعلان کیا:
اے اسلام کے سپاہیو!
میں ہر روزے دار پر قسم ڈالتا ہوں یا تو وہ روزہ افطار کر دے یا وہ لڑائی میں حصہ نہ لے، دیکھو سب سے پہلے میں افطار کرتا ہوں ۔ یہ کہہ کر لوٹا اٹھایا اور سب کے سامنے پانی پینا شروع کر دیا تاکہ انہیں دیکھ کر دوسرے روزہ دار مجاہد بھی پانی پی لیں ۔
جب مہاجر بن زیاد رضی اللہ عنہ نے سپہ سالار کی بات سنی تو فورا پانی کا گھونٹ لیا اور ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم ! میں نے پانی پیاس کی وجہ سے نہیں پیا بلکہ میں نے آج اپنے امیر کی قسم کی لاج رکھی ہے اور ان کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا ہے۔
پھر انہوں نے اپنی تلوار سونتی اور بڑی دلیری اور بہادری سے دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے مد مقابل لوگوں کو پچھاڑتے ہوئے مسلسل آگے بڑھنے لگے ۔ بالاخر دشمن کے نرغے میں آ گئے اور انہوں نے چاروں طرف سے ان پر تلواروں کا وار کیا تو آپ جام شہادت نوش فرماتے ہوئے زمین بوس ہو گئے۔ دشمن نے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا اور نیزے کی انی مین پرو کر میدان کا زار میں آویزاں کر دیا۔
حضرت ربیع بن زیاد نے جب اپنے بھائی کس سر دیکھا تو بھرائی آواز میں فرمایا : او میری ماں کے جائے! تیری خیر ہو ۔ تیرے انجام پر ہم رشک کناں ہیں۔ تیرا سر نیزے کی انی پر نہیں بلکہ تخت فردوس کے مخملیں تکیوں پر محو استراحت ہے، میرے لاڈلے بھائی! اپنے اس انجام پر خوش ہو جاؤ.
اور پھر فرمایا: اللہ کی قسم میں تیرا اور شہداء کا ان ناہنجاز دشمنوں سے انتقام لے کر رہوں گا۔
جب سپہ سالار لشکر اسلام حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کو اپنے بھائی کی شہادت کی وجہ سے دشمنوں پر غضب ناک دیکھا اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم راسخ کیا تو لشکر اسلام کی قیادت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے خود سر زمین "سوس" فتح کرنے کے لئے روانہ ہو گئے
حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ہمراہ دشمنوں پر برق تپاں بن کر گرے اور سیل رواں بن کر انہیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے گئے۔ اللہ تعالی نے سر زمین "مناذر" حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح کرایا۔ آپ نے دشمن کے شہسواروں کو قتل کیا اود ان کی اولاد کو قیدی بنایا۔ ان کی املاک کو مال غنیمت کے طور پر قبضے میں لے لیا۔
جنگ مناذر کے بعد حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کا ستارا جگمگایا اور ان کا نام زبان زد عام ہو گیا اور ان کا شمار ان جرنیلوں میں ہونے لگا جنہیں لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ جب مسلمانوں نے سر زمین سجستان کو فتح کرنے کا عزم کیاتو لشکر اسلام کی قیادت حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کے سپرد اس امید پر کی کہ اس معرکے میں بھی فتح و نصرت کا اعزاز حاصل کر کے واپس لوٹیں گے۔
حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ فی سبیل اللہ اپنا لشکر لے کر سجستان کی طرف نکل پڑے ۔راستے میں ایک طویل جنگل کو عبور کیا جس کی لمبائی تقریبا دو سو پچاس میل تھی۔ یہ جنگل اس قدر دشوار گزار تھا کہ صحرا میں رہنے والے وحشی جانور اس کو عبور کرنے سے عاجز آ جائیں ۔ اس راہ میں سب سے پہلے رستاق زالق ایک بہت بڑا شہر آیا، یہ سر زمین سجستان کی سرحد پر واقع تھا اور یہ شہر بڑے بڑے محلات اور عالیشان قلعوں پر مشتمل تھا۔اس شہر میں مال و دولت کی ریل پیل اور پھلوں کی کثرت تھی۔
شہر میں داخل ہونے سے پہلے دانشمند قائد نے اپنے جاسوس بھیجے تاکہ وہ صورت حال کا جائزہ لے کر اپنے قائد کو مطلع کر سکیں ۔
انہیں پتہ چلا کہ "رستاں زالق" کے باشندے عنقریب ایک سالانہ تقریب منعقد کر رہے ہیں، جس میں ہر باشندہ انتہائی ذوق سے لازما حصہ لیتا ہے۔
آپ نے اس موقع کا انتظار کیا ، جب دیکھا کہ تمام شہری تقریب میں شریک رنگ رلیوں میں مصروف ہیں۔
تو آپ نے لشکر اسلام کو منظم کر کے اچانک ان پر حملہ کر دیا۔ جس سے وہ حواس باختہ ہو گئے اور وہ سنبھل نہ سکے۔
مسلمان مجاہدین نے جی بھر کر انہیں تہہ تیغ کیا۔ بیس ہزار افراد کو گرفتار کیا۔ گرفتا ہونے والوں میں سے ایک گورنر بھی تھا۔
قیدیوں میں گورنر کے غلام بھی تھے۔ جنہوں نے تین لاکھ درہم اکھٹے کر کے اپنے آقا کی خدمت میں پیش کئے۔
یہ خطیر رقم دیکھ کر حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ مال کہاں سے آیا ہے؟
انہوں نے بتایا ہمارے آقا کی ایک ایک بستی سے یہ مال اکٹھا ہوا یے۔
اپ نے دریافت کیا اس بستی سے سالانہ اتنا مال اس کے ہاتھ لگتا ہے؟
بتایا : ہاں!
آپ نے فرمایا؛: یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
غلام نے کہا: ہمارے کلہاڑوں، درانتیوں اور پیسنوں کی کمائی سے یہ مال اکٹھا ہوتا ہے۔
جب لڑائی کا زور ٹوٹا تو سردار لڑکھڑاتے ہویے قدموں سے سپہ سالار اسلام ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنی ذات اور اہل خانہ کی طرف فدئیے کی پیش کش کی۔
آپ نے فرمایا: اگر مسلمانوں کے لئے وافر مقدار میں فدیہ دینے کے لئے تیار ہو تو غور ہو سکتا ہے۔
سردار نے پوچھا اپ کتنا فدیہ چاہتے ہیں؟
آپ نے فرمایا: میں یہ نیزہ زمین میں گاڑتا ہوں اپ اس کے اردگرد اتنا سونا چاندی اکٹھا کر دیں جس سے یہ نیزہ چھپ جائے اس نے کہا مجھے منظور ہے۔
اس نے اپنے خزانوں سے سونا چاندی نکال کر وہاں ڈھیر لگا دیا جس سے یہ نیزہ چھپ گیا
حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ اپنے کامیاب لشکر کو لے کر سرزمین سجستان میں داخل ہوئے۔
پے در پے لشکر اسلام کے گھوڑوں کے سموں کی ٹھاپ سن کر آپ کے قدموں میں یوں گرنے لگے جیسے موسم خزاں میں تیز آندھی سے درختوں کے پتے گرتے ہیں۔
امن کی متلاشی شہروں اور بستیوں کے باشندے سرنگوں ہو کر آپ کا استقبال کرنے لگے کہ کہیں ان کے چہرے تلواروں کی زد میں نہ آ جائیں۔
اسی طرح علاقے فتح کرتے ہوئے آپ سجستان کے دارالحکومت "زرنج" شہر تک پہنچ گئے۔
یہاں دشمن نے لشکر اسلام کے مقابلے کے لئے بہت تیاری کر رکھی تھی۔ لڑائی کے لئے لشکر جرار ترتیب دے رکھا تھا، مقابلے کے لئے منتخب شہہ سواروں کو مقدمتہ الجیش میں رکھا، دشمن نے اس بات کا پورا اہتمام کیا ہوا تھا کہ دارالحکومت کو مسلمانوں کی یلغار سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کا بھرپور دفاع کیا جائے گا اور سجستان پر مسلمانوں کے حملے کو پسپا کر دیا جائے گا۔ خواہ اس کے لئے کتنی ہی قیمتی جانیں کیوں نہ قربان کرنی پڑیں۔
پھر حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ اور اس کے دشمنوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا اور دونوں طرف تہہ تیغ ہونے والوں کے کشتوں کے پشتے لگ گئے۔
جب مسلمانوں کی فتح کے آثار ظاہر ہونے تو قوم کا سردار پرویز ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ سے صلح کرنے کے لئے کوشاں ہوا۔ اس کی ہر ممکن یہ کوشش تھی کہ اس علاقے کی حکمرانی اس کے ہاتھ سے نہ چلی جائے اور وہ اپنی قوم کے لئے بہتر شرائط پر صلح کرنے کے لئے کامیاب ہو سکے۔
اپنی طرف سے حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کے پاس ایک قاصد بیجھا تاکہ وہ اس ملاقات کے لئے وقت لے سکے اور اس ملاقات میں اسے صلح کے لئے آمادہ کر سکے۔ اپ نے اس کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے ملاقات کے لئے آمادگی کا اظہار کر دیا۔
حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ پرویز کے استقبال کا اہتمام اس طرح کیاجائے کہ اس کے راستے میں دونوں طرف لڑائی میں مارے جانے والے دشمن کی لاشوں کو بکھیر دیا جائے
اور جہاں بیٹھ کر ہم گفتگو کریں گے۔وہاں مجلس کے قریب دشمن کے شہہ سواروں کی لاشوں کا ڈھیر لگا دیا جائے ۔حضرت ربیع رضی اللہ عنہ دراز قد اونچے شملے والے،گندمی رنگت اور گندھے ہوئے جسم کے مالک تھے ،اور چہرہ اس قدر پر ہیبت کہ دیکھنے والا خوف زدہ ہو جاتا ۔
جب پرویز آپ کے پاس آیا تو دیکھتے ہی اس کے جسم میں کپکپاہٹ طاری ہو گئی ۔اپنے قریب لاشوں کا ڈھیر دیکھ کر مارے خوف کے اس کا دل بیٹھنے لگا۔
حضرت ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس آنے کی اس میں ہمت نہ رہی اور وہ اتنا خوف زدہ ہو گیا کہ وہ مصافحہ کرنے کے لئے ایک قدم آگے نہ بڑھ سکا اور چند قدم دور ہی سے ہکلاتی ہوئی زبان سے یوں گویا ہوا: کہ عا عا عالی ج ج ج ناب(عالی جناب)میں آپ کی خدمت میں صلح کے لئے حاضر ہوا ہوں اور اس موقع ایک ہزار غلام اس طرح پیش کرتا ہوں کہ ہر غلام کے سر پر ایک سونے کا پیالہ ہو گا۔
حضرت ربیع رضی اللہ عنہ نے اس کی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے اس سے مصالحت کر لی۔
دوسرے حضرت ربیع رضی اللہ عنہ اپنے لشکر جرار کے ساتھ تکبیر و تہلیل کا دلآویز ترانہ الاپتے ہوئے شہانہ انداز شہر میں داخل ہوئے۔ یہ دن مسلمانوں کے لئے بڑا با برکت دن تھا۔
حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ایک شمشیر برآں تھے جس کے ذریعے مسلمان دشمنان خدا کو تہہ تیغ کرتے ہوئے حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے لئے بے شمار شہر فتح کئے۔ بہت سی ریاستوں کو سرنگوں کیا۔
جب حکومت بنو امیہ کے پاس آئی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابو سفیان نے ان کو خراسان کا گورنر بنایا ۔آپ نے یہ منصب بامر مجبوری قبول کر لیا ۔آپ کا دل خوش نہیں تھا ۔اس وقت ان کے دل میں اور زیادہ انقباض پیدا ہوا جبکہ حکومت بنو امیہ کے ایک بہت بڑے ستون نے انہیں ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر تھا:
امیر المومینین معاویہ بن ابو سفیان کا حکم ہے کہ مال غنیمت میں سے سونا چاندی بیت المال کے لئے رکھ لیں اور باقی اشیاء مجاہدین میں تقسیم کر دیں ۔
آپ نے اس کے جواب خط لکھا جس یہ تحریر تھا:
میں نے اللہ کی کتاب میں بالکل اس کے بر عکس حکم دیکھا ہے جو آپ نے امیر المومینین کی جانب سے مجھے دیاہے ،لہذا امیر المومینین کے حکم پر عمل نہیں ہو سکتا پھر آپ نے مجاہدین میں منادی کرا دی کہ آؤ اپنے حصے کا مال لے جاؤ اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کے لئے دمشق روانہ کر دیا
جمعرات کے روز حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کو یہ خط ملا اور دوسرے روز آپ سفید اجلے کپڑوں میں جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے نکلے، خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا:
تم سب آمین کہنا۔
پھر آپ نے یہ دعا کی:
الہی! اگر تو مجھ سے خیر و بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے تو مجھے جلدی اپنے پاس بلا لے تیری عزت کا واسطہ دیر نہ کرنا۔
سب لوگوں نے آمین کہا۔
اس دن کا سورج غروب نہیں ہوا تھا کہ حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ اپنے خالق سے جا ملے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
حضرت ربیع بن زیاد رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
1۔ اسد الغابہ : 206/2
2۔ تاریخ الطبری : 185،226/5291، 286
3۔ الاصابہ : 405/1
4- الکامل فی التاریخ :فہرست دیکھئے
5۔ جمھرہ الاساب : 391
6۔ تھذیب التھذیب : 244/3
7۔ حیات صحابہ: 268،168/2
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments