حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ
"اللہ خباب پر رحم کرے، اس نے دلی رغبت سے اسلام قبول کیا، خوشی سے ہجرت کی اور بحیثیت مجاہد زندگی بسر کی"
(فرمان علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ)
ام انمارا خزاعیہ مکہ معظمہ میں غلاموں کی منڈی میں گئی' وہ چاہتی تھی کہ ایک ایسا غلام خرید لائیں جس سے وہ گھریلو خدمت بھی لے اور اسے کوئی کاروبار بھی سکھلا دے جو اس کے لئے مالی طور پر فائدہ مند اور نفع بخش ثابت ہو ' وہ ان غلاموں کو بغور دیکھنے لگی جنہیں بیچنے کے لئے منڈی میں لایا گیا تھا۔ اس کی نگاہ انتخاب ایک ایسے بچے پر پڑی جو صحت مند تھا اود ابھی وہ سن بلوغت کو نہیں پہنچا تھا ۔ اسے یہ ہونہار بچہ بہت پسند آ گیا۔ قیمت ادا کی اور اسے اپنے ساتھ لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ راستے میں ام انمارا نے بچے سے پوچھا:
ارے لڑکے! تیرا نام کیا ہے؟
بتایا: خباب
اس نے پوچھا: تیرے باپ کا نام ؟
بتایا:ارت
پوچھا : کہاں سے آئے یو؟
بتایا : نجد سے
اس نے کہا: پھر کیا تم عربی ہو؟
ہاں! میں عربی اور قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتا ہوں۔
ام انمارا نے پوچھا: یہاں مکہ میں غلاموں کے سوداگروں کے ہاتھ کیسے چڑھ گئے؟
بتایا: ہمارے محلے میں ایک عرب قبیلے نے لوٹ مار کی۔ ہمارے مویشی ہانک کر لے گئے ، عورتوں کو گرفتار کر لیا۔ بچوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ ان بچوں میں ' میں بھی تھا جو ہاتھوں ہاتھ بکتا ہوا یہاں تک پہنچا اور اب آپ کے قبضے میں ہوں۔
ام انمارا نے اس لڑکے کو ایک مشہور کاریگر کے حوالے کیا تاکہ وہ اسے تلوار بنانا سیکھا دے۔اس لڑکے نے بڑی ہی جلدی تلوار بنانے میں مہارت حاصل کر لی۔ جب خباب ایک اچھا کاریگر بن گیا تو ام انمارا نے اس کے لئے ایک دکان کرایہ پر لے لی اور اسے اس میں کام کاج کے لئے بٹھا دیا تاکہ اس فن سے مالی فوائد حاصل کرے
حضرت خباب تھوڑے ہی عرصے میں ماہر ہو گئے۔ لوگ ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی تلواریں بڑے شوق سے خریدنے لگے ۔ اس لئے کہ یہ خوش اخلاق' نرم خو' شریں گفتار ہونے کے ساتھ ساتھ تلوار بہت مضبوط' نفیس' اعلی قسم کی بناتے تھے۔
حضرت خباب نو عمری کے باوجود بڑے زیرک' معاملہ فہم اور دنشوار تھے۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوتے تو اکثر جاہلیت سے معمور عرب معاشرے کی حالت زار پر غور و خوض کیا کرتے جو پاؤں کے تلووں سے لے کر چوٹی تک شروفساد میں غرق ہو چکا تھا۔ عرب معاشرے کی جہالت' گمراہی' انارکی اور ظلم و ستم دیکھ کر ان کا دل دہل جاتا اور وہ اس احساس سے کانپ اٹھتے کہ میں بھی تو اسی معاشرے کا ایک فرد ہوں۔
وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس شب تاریک کی بالآخر سحر بھی ہو گئی اور ان کی یہ دلی تمنا تھی کہ مجھے دراز عمر ملے تاکہ میں اپنی آنکھوں سے اندھیرے کا انجام اور صبح نور کا دلاویز طلوع دیکھ سکوں۔
حضرت خباب کو زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا کہ ایک روز انہیں دلربا خبر ملی کہ بنو ہاشم کے نوجوان حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے اور وہ اپنے دین مبارک سے نورانی کلمات کے ڈریعے انسانی دلوں کو مسخر کر رہے ہیں ۔ یہ خبر سنتے ہی اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ۔ دل پذیر ' نصیحت آموز ' نورانی کلمات سنتے ہی یوں معلوم ہوا کہ آپ کے دہن مبارک سے موتیوں کی لڑیاں یا مصری کی ڈلیاں گر رہی ہیں۔ آپ ﷺ کی باتوں نے ان پر ایسا اثر کیا کہ فورا اپنا ھاتھ بڑھا آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور زبان سے پکار اٹھے:
اشھد ان لا اله الا الله و اشھد ان محمدا عبدہ ورسوله
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
اس روئے زمین پر بسنے والے انسانوں میں سے چھٹے نمبر پر مسلمان ہونے کا اعزاز حاصل کیا
حضرت خباب نے اپنے اسلام لانے کو کسی سے چھپایا نہیں، یہ خبر جب ان کی مالکہ ام انمار کو ملی تو غصے سے بھڑک اٹھی ، اپنے بھائی سباع بن عبدالعزی کو ساتھ لیا اور یہ دونوں بنو خزاعہ کے جوانوں سے ملے، انہیں صورت حال سے آگاہ کیا اور حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کی خبر دی اور ان کے خلاف نوجوانوں کو بھڑکایا ۔پھر یہ سب مل کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے،کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے کام میں منہمک ہے ام انمار کا بھائی آگے بڑھا اور کہا:
اے خباب ہمیں ایسی خبر ملی ہے کہ ہمارے دل اس کو صحیح نہیں مانتے -
خباب نے پوچھا: کون سی خبر ؟
سباع نے کہا: یہ خبر مشہور ہو چکی ہے کہ تم بے دین ہو گئے ہو اور تم نے بنو ہاشم کے لڑکے کی پیروی اختیار کر لی ہے-
حضرت خباب رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر بڑے ہی نرم لہجے میں کہا: میں بے دیں نہیں ہوا میں تو اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لایاہوں- میں نے تمہارے بتوں کو چھوڑ دیا ہے اور میں نے یہ اقرار کر لیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ سب آپ پر ٹوٹ پڑے اور گھونسوں،جوتوں،لوہے کی سلاخوں اور ہتھوڑوں سے آپ کو اتنا مارا کہ آپ بےہوش ہو کر گر پڑے اور آپ کے جسم کے مختلف حصوں سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے-
حضرت خباب رضی اللہ عنہ اور ام نمار کے مابین پیش آنے والے واقعے کی خبر مکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی-
لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی جرآت سے ورطہ حیرت میں پڑ گئے، کیونکہ انہوں نے سنا ہی نہ تھا کہ کسی نے حضرت محمدﷺ کی اتباع اختیار کی ہو اور پھر لوگوں کے سامنے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوری وضاحت سے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا ہو، قریش کے بوڑھے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے اس جرآت مندانہ اقدام پر انگشت بدنداں رہ گئے ۔ انہوں نے سوچا کیا ایک لوہار سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اعلانیہ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہے اور ہمارے آباؤ اجدادکے دین کو ہدف تنقید بنائے
انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ آج خباب رضی اللہ عنہ نے جس دلیری و شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے آگے چل کر اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ قریش کا یہ اندیشہ درست ثابت ہوا ۔
حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی جرآت مومنانہ نے بیشتر صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس بات پر برانگخیتہ کیا کہ وہ بھی اپنے اسلام لانے کا برملا اعلان کریں، لہذا یکے بعد دیگرے کلمہ حق کا ببانگ دہل اعلان کرنے لگے۔
ایک روز سردار قریش کے نزدیک اکھٹے ہوئے، ان میں ابو سفیان بن حرب، ولید بن مغیرہ اور ابوجہل بن ہشام کے علاوہ اور بھی سرکردہ سردار موجود تھے، وہ اس بات پر تبادلہ خیال کرنے لگے کہ حضرت محمد ﷺ کی دعوت دن بدن اور لحظہ بہ لحظہ پھیلتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر انہوں نے پختہ کیا کہ بیماری کو شدت اختیار کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔ انہوں نے یہ طے کیا کہ ہر قبیلہ اپنے اس فرد کو ایسی عبرت ناک سزا دے جس نے حضرت محمد ﷺ کی اتباع اختیار کی ہے۔ جس سے یاں تو وہ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ ائے یا مر جائے۔
اس فیصلے کی رو سے سباع بن عبد العزی اور اس کے قبیلے کے حصے حضرت خباب رضی اللہ عنہ ائے۔ جب دوپہر کے وقت گرمی نقطہ عروج پر ہوتی تو وہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو مکہ کے قریب چٹیل پتھریلے میدان میں لے جاتےان کے کپڑے اتار دیتے لوہے کی درع پہنا دیتے ۔ پینے کا پانی بند کر دیتے جب پیاس اور تکلیف سے نڈھال ہو جاتے تو قریب آتے اور پوچھتے کہ اب حضرت محمد ﷺ کے متعلق تیری کیا رائے ہے؟
آپ فرماتے:
وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، ہمارے پاس ہدایت و صداقت کا دین لے کر آئے ہیں تاکہ ہمیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال لائیں۔ یہ سن کر وہ بپھر جاتے اور بے تحاشا پٹائی شروع کر دیتے مار مار کر تھک جاتے تو پوچھتے لات اور عزی کے متعلق تمھاری کیا رائے ہے؟
حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرماتے : یہ دونوں گونگے بہرے بت ہیں نہ کسی کو نفع دے سکتے اور نہ ہی نقصان۔
یہ سن کر وہ آپے سے باہر ہو جاتے۔ گرم پتھر اٹھا کر لاتے اور آپ کی پیٹھ کے ساتھ لگائے رکھتے، پتھروں میں اس قدر تمازت ہوتی کہ ان کی گرمی سے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے کندھوں سے چربی اور خون بہنے لگتا۔
ام انمار سخت گیری اور پتھر دلی میں اپنے بھائی سے رتی برابر کم نہ تھی۔ اس نے ایک روز حضرت محمد ﷺ کو اپنی دکان میں کھڑے ہو کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے باتیں کرتے دیکھ لیا، تو غصے سے بپھر گئی ۔ اس کے بعد اس نے اپنا معمول بنا لیا کہ ہر دوسرے تیسرے رو آتی ۔ لوہے کی بھٹی سے گرم سلاخ نکالتی اور اس سے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے سر کو داغ دیتی ۔ جس سے آپ بے ہوش ہو جاتے اور آپ کی بان سے ام انمار اور اس کے بھائی کے لئے بد دعا نکلتی۔
جب رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مدینہ منورہ کی ہجرت کرنے کی اجازت دی تو حضرت خباب رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کے لئے تیار ہو گئے۔ لیکن وہ اس وقت تک مکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے جب تک اللہ سبحانہ و تعالی ام انمار کے خلاف کی گئی دعا کو قبول نہ فرمالیں۔
چند روز کے بعد ام انمار کے سر میں ایسا درد اٹھا کہ اس جیسا درد پہلے سننے میں نہ آیا۔ وہ شدت سے اس طرح کراہتی اور آواز نکالتی جس طرح کوئی کتا بھونکتا ہے۔ اس کے بیٹے کامل حکیم کی تلاش میں ہر جگہ پہنچنے ۔ حکماء نے اس کا یہ علاج تجویز کیا کہ اس کے سر کو کی گرم سلاخ سے داغا جائے، اس کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس طرح اس کے سر کو لوہے کی گرم سلاخ سے داغا جانے لگا۔ جب گرم سلاخ سر کو لگتی تو اس کی تکلیف دہ تمازت سے سر درد کو کچھ دیر کے لئے بھلا دیتی
حضرت خباب رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کی ضیافت میں ایسی راحت و آرام کی زندگی بسر کرنے لگے جس سے وہ ایک طویل مدت سے محروم تھے۔ نبی اقدس ﷺ کا قرب ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔
حضرت خباب رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ بدر میں شریک ہوئے اور آپﷺ کے جھنڈے تلے لڑائی کے جواہر دکھلائے اور اسی طرح آپ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ میدان احد میں جب انہوں ام انمار کی بھائی سباع بن عبدالعزی کی لاش دیکھی تو بہت خوش ہوئے آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوئی۔ سباع کو شیر خدا حمزہ رضی اللہ عنہ نے موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو طویل عمر عطا کی، یہاں تک کہ انہوں نے خلفائے اربعہ کا دور دیکھا اور ہر دور میں انہیں جلیل القدر صحابی کی حیثیت حاصل رہی۔
ایک روز آپ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے ۔ وہ اس وقت مسند خلافت پر جلوہ افروز تھے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو اپنی مسند پر بٹھایا اور فرمایا: تمام صحابہ میں آپ یا بلال رضی اللہ عنہ اس کے حقدار ہیں کہ اس مسند پر بٹھایا جائے۔ پھر آپ سے مشرکین کے ہاتھوں پہنچے والی تکالیف کی روئداد سنانے کا مطالبہ کیا تو آپ جواب دینے سے ہچکچائے۔
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اصرار کیا تو آپ نے پیٹھ سے چادر سرکا دی، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جسم پر زخموں کے نشانات دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے اور پوچھا: جسم پر یہ گہرے زخم کیسے آئے؟
حضرت خباب رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:
مشرکین لوہے کی چادر گرم کرتے جب وہ انگارا بن جاتی تو میرے کپڑے اتار کر مجھے پیٹھ کے بل اس پر گھسیٹتے جس سے میرے بدن کا گوشت پیٹھ کی ہڈیوں سے الگ ہو جاتا۔ آگ وہ خون اور پانی بجھاتا جو میرے بدن سے نکلتا
حضرت خباب رضی اللہ عنہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بہت مالدار ہو گئے تھے اور اتنے سونے چاندی کے مالک بن گئے جس کا ان کو وہم و گمان ہی نہ تھا، لیکن انہوں نے اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنے کا ایک ایسا انوکھا طریقہ اختیار کیا جو پہلے کسی نے بھی اختیار نہ کیا تھا۔ یہ درھم و دینار گھر میں ایسی جگہ رکھ دیتے، جس کا ضرورت مندوں، فقراء و مساکین کو بھی پتا تھا۔ نہ تو اس پر کسی کو نگران مقرر کرتے اور نہ تالا لگایا۔ ضرورت مند ان کے گھر آتے اور پوچھے اور اجازت طلب کئے بغیر اپنی ضرورت کے مطابق وہاں سے مال لے جاتے۔ اس کے باوجود انہیں اندیشہ تھا کہ اس مال کے متعلق قیامت کے روز میرا حساب لیا جائے گا اور مبادا مجھے اس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کر دیا جائے گا۔
آپ کے ہم نشین صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ بتایا:
ہم حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت آئے جب آپ مرض الموت میں مبتلا تھے، ہمیں دیکھ کر آپ نے ارشاد فرمایا:
اس گھر میں میرے پاس اسی ہزار درھم ہیں ۔ اللہ کی قسم ! میں نے کبھی ان کو کہیں چھپایا نہیں اور نہ ہی کسی سائل کو میں نے ان سے محروم لوٹا ہے ۔ یہ بات کہہ کر آپ نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔
ہم نے پوچھا :
آپ روتے کیوں ہیں؟
فرمایا :
میں اس لئے روتا ہوں کہ میرے بہت سے ساتھی اس دنیا سے اس حالت میں کوچ کر گئے کہ انہیں دنیاوی مال و متاع میں سے کچھ نہ ملا ۔ مجھے یہ مال مل گیا مجھے اندیشہ ہے کہ یہ مال کہیں میرے اعمال صالحہ کا بدلہ نہ ہو اور آخرت میں محروم رہ جاؤں۔
اللہ خباب رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے۔
اس نے دلی رغبت سے اسلام قبول کیا ، خوش دلی سے ہجرت کی اور مجاہد کے کے روپ میں زندگی بسر کی۔ اللہ سبحانہ و تعالی نیکی کرنے والوں کا اجر ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔
حضرت خباب بن ارت کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
1۔ الاصابه (مترجم) : 2210
2۔ اسد الغابه : 100۔98/2
3۔ الاستیعاب : 423/ 1
4۔ تھذہب التھذیب : 133/3
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments