حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ

 حضرت فیروز دیلمی  رضی اللہ عنہ 





بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ


" فیروز ایک بابرکت آدمی ہے اور بابرکت گھرانے کا چشم و چراغ ہے"    

                《فرمان نبوی ﷺ》 

           



حجتہ الوداع سے فارغ ہو کر جب رسول الله صلی علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ بخار میں مبتلا ہو گئے آپ کی بیماری کی خبر جزیرہ عرب میں چاروں طرف جنگل کی آگ کی طرح پھیل گٰئی۔



 یمن میں اسود عنسی، یمامہ مسیلمہ کذاب اور بلاد بنو اسد میں طلیحہ اسدی مرتد ہو گئے، ان تینون نے نبوت کا دعوی کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ہمیں اپنی اپنی قوم کی طرف اسی نبی بنا کر بھیجا گیا ہے جس طرح محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی طرف بھیجا گیا تھا۔



اسود عنسی سخت دل، طاقتور، دیو ہیکل، شر پسند نجومی اور جادوگر تھا، اس کے ساتھ وہ ایسا فصیح البیان مقرر تھا کہ سننے والے انگشت بدنداں رہ جاتے۔ اپنی شعبدہ بازی سے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈالنا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ مال و دولت، جاہ وچشم اور قدر و منزلت کا حصول اس کی کمزوری بن چکا تھا ۔



جب بھی گھر سے باہر نکلتا اپنے چہرے پر خول چڑھا لیتا تاکہ لوگ اسے دیکھ کر ہیبت زدہ ہو جائیں ۔



ان دنوں یمن میں ایسے ایرانیوں کا اٹر و رسوخ تھا جو ایران کو خیر باد کہ کر مستقل طور پر یمن میں آباد ہو چکے تھےاور ان سرخیل صحابی رسول اللہ ﷺ حضرت فیروز دیلمی تھے، اور ان مین ایک سب سے بڑا باذان نامی شخص تھا جو ظہور اسلام کے وقت شہنشاہ ایران کی طرف یمن کا حکمران تھا۔



جب اس کے سامنے رسول اقدس صلی الله عليه وسلم کی صداقت واضح ہو گئی، تو اس نے شاہ ایران کا پھندا اپنے گلے سے اتار پھینکا اور اپنی قوم سمیت دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔



بنی کریم صلی الله عليه وسلم نے اسے بدستور یمن کا حاکم رہنے دیا اور وہ اس منصب پر آخر دم تک فائز رہا اور اس کی وفات کے چند روز بعداسود عنسی نے نبوت کا دعوی کر دیا



 سب سے پہلے اسود عنسی کی نبوت کو اس کی قوم بنو مذحج نے تسلیم کیا۔ اس نے اپنی قوم کی مدد سے صنعاء پر حملہ کر دیا اور اس کے حکمران شہر بن باذان کو قتل کر کے اس کی بیوی آذاد سے شادی رچا لی پھر یہ صنعاء سے دوسرے گردونواح کے علاقے پرحملہ آور ہوا ۔اس کی قیادت میں بڑی تیزی سے علاقے فتح ہونے لگے، یہاں تک کہ حضر موت سے طائف تک اور بحرین سے عدن تک کا علاقہ اس کی زیر حکومت آ گیا۔

 


جن اسود عنسی لوگوں کو دھوکا دینے اور اپنی وسیع تر قیادت کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس نے اپنے پیروکاروں کو بتایا کہ اس کے پاس وحی لے کر ایک فرشتہ آتا ہے جو غیب کی خبریں اسے بتاتا ہے۔



اسود عنسی اس شعبدہ بازی کو اپنے ان جاسوسوں کے زریعے چلاتا جو ہر جگہ میں پھیلے ہوئے تھے تاکہ وہ لوگوں کی خبروں کے بارے ميں واقفیت حاصل کریں ۔ان کے راز ہائے دروں، مشکلات و مصائب اور دلی تمناؤں سےآگاہی حاصل کرکے رازدارانہ طور پر اسے بتائیں۔

 


اس طرح جب بھی کوئی اس کے روبرو آتا تو یہ دیکھتے ہی فورا پکار اٹھتا تجھے فلاں ضرورت میرے پاس لائی ہے تم اس وقت فلاں فلاں مشکلات و مصائب میں مبتلا ہو، اپنے پیرو کاروں کو ایسے کرتب دکھلاتا کہ ان کی عقلیں دنگ رہ جاتیں۔



یہاں تک کہ کاروبار حکومت چلانے میں اس کے پاؤں جم گئے اور اس کی دعوت آفاق عالم اس طرح پھیلی جیسے خشک جنگل میں آگ پھیل جاتی ہے۔



 جب نبی اکرم صلی الله عليه وسلم کو اسود عنسی کے مرتد ہونے اوریمن پر حملہ آور ہو کر اسے اپنے قبضہ میں کی خبر ملی تو آپﷺ آپ نے دس صحابہ اکرام رضی الله عنھم کو یمن

میں آباد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اسود عنسی کےپیدا کردہ فتنے کا جس طرح بھی ہو سکےقلع وقمع کر دیا جائے ۔ جس صحابی کے پاس آپﷺ کا پیغام پہنچتا وہ فورا آپکی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے حکم کو نافذ کرنے کےلئے تیار ہو جاتا۔



 آپﷺ کی دعوت پر لبیک کہنے والوں میں سے سبقت لے جانے والے ہماری اس داستان کے ہیرو حضرت فیروز دیلمی ہیں ہم یہ دلربا داستان ان کی زبانی آپ کو سناتے ہیں



  حضرت فیروز فرماتے ہیں 

مجھے اور میرے ساتھیوں کو دین الہی کے برحق ہونے اور دشمن خدا اسود عنسی کے جھوٹا ہونے میں ذرا برابر بھی شک نہیں تھا ۔ ہم اس پر حملہ آور ہونے اور اس سے گلو خلاصی کرانے کی ہر دم فکر میں تھے ۔ جب ہمارے پاس اور یمن میں آباد صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے پاس رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم کے خطوط آئے تو ہمارے حوصلے بلند ہو گئے ہم میں سے ہر ایک اسود عنسی کو ٹھکانے لگانے کے لئے سر گرم ہو گیا۔ 


یمن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسود عنسی بہت مغرور ہو چکا تھا اور اپنے لشکر کے سپہ سالار قیس بن عبد یغوث کو بھی اپنے کبر و نخوت کا نشانہ بنایا۔


جس سے قیس کو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ اس موقع کو غنیمت جان کر میں اپنے چچا زاد بھائی داذویہ کے ساتھ قیس کے پاس گیا ۔ہم نے اسے رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کا پیغام سنایااور اسے اس بات پر آمادہ کیا کہ پہلے اس کے کہ وہ تمہارا کام تمام کر دے کیوں نہ اس منحوس شخص کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔



اس نے پورے انشراح صدر سے ہماری دعوت قبول کر لی اور اپنے دلی ارادے سے ہمیں آگاہ کیا اور اس ہمارے بارے ميں یہ خیال کیا کہ یہ میری مدد کرنے آسمان سے فرشتے نازل ہوئے ہیں۔

 


ہم تینوں نے یہ عہد کیا کہ ہم اس جھوٹے مکار، مرتد کا داخلی محاذ پر مقابلہ کریں گے اور دوسرے ساتھی بیرونی محاذ پر اس کا مقابلہ کریں گے ۔ ہم نے یہ بھی تہہ کیا کہ اپنے اس کام میں اپنی چچا زاد بہن ازاد کو شامل کیا جائے جس کے ساتھ اس منحوس نے اس کے شوہر شہر بن باذان کو قتل کرکے شادی رچائی تھی۔



میں اسود عنسی کے محل میں گیا اور اپنی چچا زاد بہن آزار سے ملا اور کہا میری بہن! تم جانتی ہو کہ یہ منحوس شخص ہمارے لئے آفت کا پرکالہ ثابت ہوا ہے اس کی ضرر رسانیوں سے نہ ہم محفوظ ہیں اور نہ ہی تم



 دیکھئے اس نے تمہارے خاوند کو قتل کر دیا اور ہماری قوم کی دیگر عورتوں کو رسوا کیا، بہت سے مردوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے ہاتھ سے سلطنت چھین لی۔


یہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کا خط ہمیں موصول ہواہے۔ جس میں خاص طور پر ہمیں اور عام طور پر اہل یمن کو اس فتنہ کی سرکوبی کا حکم دیا ہے۔

 


کیا آپ ہماری مدد کر سکتی ہیں؟


اس نے دریافت کیا: میں آپکی کیسے مدد کر سکتی ہوں؟

 میں نے کہا :اس کے یہاں سے دیس نکالا دینے پر ہماری مدد کیجئے ۔



اس نے کہا میں اس کے قتل کرنے پر آپ کی مدد کروں گی ۔



میں نے کہا بخدا! اس سے تو ہماری دلی مراد پوری ہو جائے گی ۔جس نے حضرت محمد صلی الله عليه وسلم کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ مجھے اپنے دین میں برحق ہونے میں ذرہ برابر شک نہیں ۔میرے خیال میں الله تعالیٰ نے اس شیطان سے بڑھ کر ملعون کسی کو پیدا ہی نہیں کیا ۔بخدا! جب سے میرا اس سے واسطہ پڑا ہے، اسے فاجرو فاسق ہی پایا نہ اس لعین کو حقوق کا خیال ہے اور نہ ہی کسی برائی سے باز آتا ہے۔



میں نے کہا: ہم اسے کس طرح قتل کر سکتے ہیں؟ 


اس نے کہا یہ شیطان بڑا محتاط ہے۔ محل میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں اس نے چوکیدار نہ کھڑے کئے ہوں، البتہ یہ کونے والا کمرہ ان کی دستبرد سے باہر ہے۔ اس کمرے کی بیرونی دیوار کھلے میدان کی طرف ہے آپ رات کی تاریکی میں اس بیرونی دیوار میں نقب لگائیں۔اندر روشن چراغ اور ہتھیار پڑے ہوں گے اور میں آپ کا انتظار کروں گی، پھر آپ چپکے سے اس کی خواب گاہ میں داخل ہو کر اسے قتل کر دینا ۔



میں نے کہا: محل کے اس کمرے میں نقاب لگانا کوئی آسان کام نہیں ۔ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان وہاں سے گزرے اور وہ چوکیدار کو چوکنا کر دے۔اس طرح صورتحال بگڑ جائے گی۔



 بہن نے میری بات سن کر کہا: آپ کی بات تو صحیح ہے ۔


ہاں میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے ۔

میں نے کہا وہ کیا؟



اس نے کہا :آپ کل ایک شخص کو مزدور کے روپ میں میرے پاس محل میں بھیجنا۔ میں اس سے کمرے کے اندرونی جانب سے دیوار میں اتنا بڑا سوراخ کرا دوں گی کہ دیوار کا معمولی سا حصہ باقی رہ جائے گا ۔ آپ رات کے وقت اسی جگہ میں نقب لگانا آپ کے ہاتھ لگانے سے ہی دیوار میں سوراخ ہو جائے گا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔



میں نے کہا یہ بہت ہی اچھی تجویز ہے۔


یہ منصوبہ بنا کر میں واپس آ گیا۔ اپنے ساتھیوں کو اطلاع دی اور ان کو اس راز سے آگاہ کیا اور ہم نے انہیں چوکس رہنے کے لئے کہا اور انہیں یہ بھی بتایا کہ کل فجر کے وقت ہم اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیں گے۔

 


جب رات کی تاریکی پھیل گئی اور وقت مقرر قریب آ گیا، میں اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ منزل کی طرف روانہ ہوا۔ دیوار کو نقب لگائی، کمرے میں داخل ہو گٰے اندر پڑے ہوئے ہتھیار پکڑے چراغ ہاتھ میں لیا اور دشمن خدا کی خلوت گاہ کی طرف چلے میری چچا زاد بہن دروازے پر کھڑی تھی۔



اس نے اشارہ کیا میں دبے پاؤں اندر داخل ہوا وہ گہری نیند میں خراٹے لے رہا تھا میں نے اس کی گردن پر ٹکوے کا وار کیا تو بیل کی طرح دھاڑا اور ذبح کئے ہوئے اونٹ کی طرح تڑپنے لگا جب چوکیدار نے اس کی گھگھیائی ہوئی آوازیں سنیں تو خلوت گاہ کی طرف لپکےاور کہنے لگے اندر سے یہ آوازیں کیسی آرہی ہیں ۔۔میرے چچا کی بیٹی نے ان سے کہا:


ًجاؤ آرام کرو، گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ الله کا نبی اس پر وحی نازل ہو رہی ہے وہ منہ لٹکائے واپس لوٹ گئے۔

 


ہم محل میں طلوع فجر تک رہے ۔طلوع فجر کے بعد میں محل کی دیوار پر چڑھا اور آذان دینا شروع کر دی اور ساتھ یہ بھی کہا اشھد ان الاسودالعنسی کذاب تاکہ مسلمان میرے اشارے کو سمجھ جائیں یہ کلمات سنتے ہی مسلمانوں نے محل پر حملہ کر دیا آذان کی آواز سن کر چوکیدار چوکس ہو گئے اور گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی


 میں نے محل کی دیوار کے اوپر اسود عنسی کا سر نیچے پھینک دیا- اسود عنسی کے پیروکار نے جب اس کا سر نیچے دیکھا تو کمزور پڑ گئے اور ان کی طاقت زائل ہو گئی۔جب مومنوں نے اس کا سر دیکھا تو نعرہ تکبیر بلند کیا اور دشمن پر زور دار حملہ کیا- طلوع آفتاب سے پہلے جنگ ختم ہو گئی اور مسلمانوں نے قلعہ پر قبضہ کر لیا ۔


طلوعِ آفتاب کے بعد جب چہار سو روشنی پھیل گئی، تو ہم نے رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی طرف قاصد روانہ کئے۔


جب یہ خوشخبری دینے والے قاصد مدینہ پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم گذشتہ روز اپنے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں- 


قاصد حیرانی و پریشانی کی تصویر بنے ہوئے تھے کہ انہیں بتایا گیا کہ نبی اقدس صلی الله عليه وسلم کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اسی رات آگاہ کر دیا تھا جس رات اسود عنسی کو قتل کر دیا گیا تھا-


 رسول اقدس صلی الله عليه وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: 

گذشتہ رات اسود عنسی کو قتل کر دیا گیا ہے- اس کو ایک ایسے شخص نے قتل کیا ہے جس کا تعلق ایک بابرکت گھرانے سے ہے-


آپ سے دریافت کیا گیا ۔ 


یا رسول اللہ صلی الله عليه وسلم! وہ مبارک شخص کون ہے؟ 


آپ نے فرمایا فیروز۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

فیروزاپنے مشن میں کامیاب ہو گیا ۔

      

حضرت فیروز کے بارے ميں معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں-

 

ا. الاصابہ مترجم : 7012


2الستیعاب : 204/3


3.اسد الغابہ : 271/4


4.تزیب التزیب : 305/8


5.طبقات ابن سعد : 533/5

 

6.تاریخ طبری تیسری جلد دیکھیں


7.کامل ابن اثیر : واقعات گیارہویں ہجری


8.فتوح البلدان : 113/111


9.جمرہ الانساب : 381


10.تاریخ الخمیس : 155/2


11.دائرہ المعارف الاسلامیہ :198/2 


12.تاریخ خلیفہ بن خیاط :83 


حیات صحابہ : 240-238/2


14.الاعلام : 299/5



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شد 

  

 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا

طالب دعاء ----- لقمان قاسمی



Post a Comment

0 Comments