حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ
" ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جس کی وصیت کو اس کی موت بعد من و عن پورا کیا گیا ہو۔"
ثابت بن قیس انصاری خزرج کے ہر دلعزیز سردار تھے اور یثرب کی گنی چنی شخصیتوں میں سے ایک تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ زندہ دل، حاضر جواب، فصیح البیان اور بلند آواز والے تھے۔ جب بولتے تو سامعین پر سناٹا چھا جاتا اور دیگر مقررین ان کی موجودگی میں مرعوب ہوجاتے۔ یہ ان خوش قسمت اشخاص میں سے تھے جنہیں یثرب میں پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ جب انہوں نے مبلغ اسلام حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی مترنم اور دلدوز آواز سے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو دل پر اثر کر گئی ۔ جب قرآنی آیات کی تشریحات سنی تو الله سبحانه تعالیٰ نے ایمان کے لئے ان کے سینے میں انشراح پیدا فرمایا دیا، نبی اکرم صلی الله عليه وسلم کے جھنڈے تلے آکر ان کی قدر و منزلت اور شان وشوکت کو چار چاند لگ گئے ۔
جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو ثابت بن قیس نے اپنی قوم کے شہسواروں کو ساتھ لے کر آپﷺ کا شاندار استقبال کیا۔ آپ اور آپﷺ کے رفیق سفر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کو خوش آمدید کہا اور آپ کے سامنے نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں خطاب کیا ۔خطبے کا آغاز حمد و ثناء اور درود سلام سے کیا اور اختتام ان کلمات پر کیا۔
یا رسول اللہ ﷺ ہم آپ سے معاہدہ کرتے ہیں کہ ہم دل وجان سے آپﷺ کا ساتھ دیں گے ،ہم آپﷺ کی اسی طرح حفاظت کریں گے جیسے ہم اپنے جان ومال؛ اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ انداز اختیار کرنے پر ہمیں کیا ملے گا؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
اس حسن و سلوک پر تمہیں جنت ملےگی۔۔۔۔۔جنت نام سنتے قوم کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے اور بیک ذبان کہنے لگے ۔اس بدلے پر ہم راضی ہیں یا رسول اللہ ﷺ! ۔۔اس دن سے رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس کو خطیب کا لقب عطا کر دیا جیساکہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنا شاعر ہونے کے اعزاز سے نوازا تھا۔
جب عرب وفود آپﷺ کے سامنے اپنی قوم کے خطباء شعراء کی فصاحت کا تذکرہ کرتے تو آپﷺ خطیبوں کے مقابلے میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور شعراء کے مقابلے میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو پیش کرتے
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ پکے مومن، سچے متقی، اپنے رب سے بہت زیادہ ڈرنے والے اور اللہ تعالی کو ناراض کرنے والے کاموں سے اجتناب کرنے والے تھے۔ ایک روز رسول اللہ ﷺ نے انہیں انتہائی غم و اندوہ میں مبتلا دیکھا، خشیت الہی سے ان کے کندھے کانپ رہے تھے۔
آپﷺ نے دریافت فرمایا: تجھے کیا ہوا؟
عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ مجھے اندیشہ ہے کہ میں تباہ یو گیا۔
آپﷺ نے پوچھا: وہ کیسے؟
عرض کیا: اللہ سبحانہ و تعالی نے ہمیں منع کیا تھا کہ ہماری ایسے کارناموں پر تعریف کی جائے جو ہم نے سر انجام ہی نہیں دیئے اور ہمارا دل اس قسم کی تعریف کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں تکبر سے منع کیا اور میں خود پسندی کا خوگر ہوں۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تسلی دینے کے لئے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر مسلسل تھپکی دینے لگے، یہاں تک کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
اے ثابت! کیا تجھے پسند نہیں کہ زندگی میں تیری تعریف ہو، شہادت کی موت نصیب ہو اور تم جنت میں داخل ہو جاؤ ۔
یہ خوش خبری سن کر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے چمک اتھا اور کہنے لگے:
کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ! کیوں نہیں یا رسول اللہ ﷺ!
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تیرے ساتھ اسی طرح پیش آئے گا۔
جب یہ ایت نازل ہوئی:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَـرْفَعُـوٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَـهٝ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَاَنْـتُـمْ لَا تَشْعُرُوْنَ○
اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور نہ بلند آواز سے رسول سے بات کیا کرو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے کیا کرتے ہو کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔
تو حضرت قیس بن ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی محفل سے کنارہ کشی کرنے لگے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انہیں انتہا درجے کی محبت تھی، غم زدہ ہو کر اپنے گھر میں ہی بیٹھے رہتے۔ صرف فرض نمازوں کے لئے گھر سے نکلتے
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی غیر حاضری کو محسوس کیا تو ارشاد فرمایا: ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی خبر کون لائے گا؟
انصار میں سے ایک شخص نے کہا: میں یا رسول اللہ ﷺ!
وہ شخص حالات معلوم کرنے کے لئے جب ان کے گھر پہنچا تو دیکھا کہ حضرت قیس بن ثابت رضی اللہ عنہ سر نیچے کئے ہوئے افسردہ و غمگین بیٹھے ہیں۔
اس نے پوچھا: اے ثابت! کیا حال ہے؟
فرمایا: بہت برا حال ہے ۔
اس نے پوچھا: کیا ہوا؟
فرمانے لگے: تم جانتے ہو کہ میری آواز بہت بلند ہے اور اکثر اوقات میری آواز رسول اللہ ﷺ کی آواز سے بلند ہو جاتی ہے اور قرآن مجید میں جو آیت نازل ہوئی ہے وہ بھی تمھیں معلوم ہے۔ میں یہاں اپنے آپ کو اس لئے روکے ہوئے ہوں کہ میرے اعمال ضائع نہ ہو جائیں اور اہل جہنم میں سے ہو جاؤں۔۔۔۔
یہ سن کر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا اور آپکو صورتحال بتائی۔
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے خدشات آپﷺ کی خدمت میں پیش کئے ،یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اس کے پاس ابھی جاؤ اور اس سے کہو تم اہل جہنم میں سے نہیں ہو ،بلکہ تم جنتی ہو ۔
بلا شبہ حضرت ثابت بن قیس کے لئے یہ بہت بڑی بشارت تھی اور زندگی میں ملنے والا ایک بڑا اعزاز تھا-
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بدر کے علاوہ باقی تمام غزوات میں شریک رہے اور لڑائی کے دوران انتہائی خطرناک محاذ پر شوق شہادت میں بے دریغ لڑے۔ ہر مرتبہ شہادت بہت قریب سے پلٹ گئی یہاں تک کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب مسلمانوں اور مسیلمہ کذاب کے درمیان لڑائی ہوئی تو اس لڑائی میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ لشکر انصار کے سپہ سالار تھے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پورے اسلام کے سپہ سالار تھے ۔
اکثر معرکوں میں مسیلمہ کذاب کی فوجیں مسلمانوں پر غالب رہیں، یہاں تک کہ دشمن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے خیمے میں داخل ہو گئے،خیمے کی طنابیں کاٹ ڈالیں اور اسے بری طرح چیر پھاڑ کر رکھ دیا اور انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بیوی کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا ۔اس روز مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ بہت کبیدہ خاطر ہوئے۔ جب مسلمان شکست خوردہ ہو کر ایک دوسرے کو عار دلانے لگے تو ان کا دل غم و اندوہ سے لبریز ہو گیا شہری دیہاتی کو بزدلی کا طعنہ دینے لگے اور دیہاتی شہریوں کے متعلق کہنے لگے کہ یہ کچھ جانتے ہی نہیں۔
اس نازک موقع پر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ زعفران ملا کفن اپنے سر پر باندھا اور سب کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگے ۔مسلمانو! ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس طرح نہیں لڑا کرتے تھے بڑے افسوس کی بات ہے کہ دشمن تم پر حاوی ہو چکا ہے، یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم دشمن کے مقابلے میں پسپا ہو چکے ہو پھر اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ دعا کی
الہی! میں مسیلمہ کذاب اور اس کی قوم کے شرک و الحاد سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ الہی! میں مسلمانوں کی پسپائی سے بھی برأت کا اظہار کرتا ہوں۔
پھر حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت سالم مولی بن حذیفہ رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمانوں کے کندھے سے کندھا ملا کر ببر شیر کی مانند ایک زوردار حملہ کیا جس سے عام مسلمانوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور مشرکوں کے قدم ڈگمگانے لگے۔
میدان خار زار میں مسلسل ہر طرف سے دشمن پر کاری ضربیں لگاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ یہاں تک کہ تیروں سے ان کا جسم چھلنی ہو گیا اور اسی شہادت کے اعلی مرتبے پر فائز ہوئے جس کی بشارت سرور عالم رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی۔ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون حاصل ہوا۔ اس لئے کہ ان کی جرآت و شجاعت کی بنا پر لڑائی کا پانسہ پلٹا اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں آ گیا اور انہیں فتح نصیب ہوئی ۔
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے جسم پر ایک بہت عمدہ زرہ تھی ،ایک مسلمان فوجی وہاں سے گزرا اس نے زرہ اتار کر اپنے پاس رکھ لی-
دوسری رات ایک مسلمان فوجی نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ۔
انہوں نے کہا:میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ ہوں کیا تم مجھے پہچانتے ہو ؟اس نے کہا ہاں:
فرمایا:میں تمہیں ایک وصیت کرتا ہوں تم اسے خواب سمجھ کر بھول مت جانا ۔
کل جب مجھے قتل کر دیا گیا تو میرے پاس سے ایک مسلمان گزرا جس کا حلیہ یہ ہے وہ میری زرہ اتار کر اپنے خیمے میں لے گیا ،وہ خیمہ چھاونی کے فلاں کونے میں واقع ہے ۔وہاں اس نے میری زرہ کو دیگچے کے نیچے رکھ دیا اور دیگچے کے اوپر کچاوا رکھ دیا ۔تم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ کسی شخص کو بھیجے اور وہ میری زرہ اٹھا لائے ۔وہ ابھی تک اسی جگہ پڑی ہوئی ہے۔
میں تمہیں ایک دوسری بھی وصیت کرتا ہوں تم اسے خواب سمجھ کر ضائع مت کر دینا اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کہنا جب تم مدینہ منورہ خلیفہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم،صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ تو انہیں یہ کہنا کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے اوپر اتنا قرض ہے اور اس کے فلاں فلاں دو غلام ہیں، میرا قرض ادا کر دیں اور میرے غلاموں کو آزاد کر دیں۔
اس کے بعد اس شخص کی آنکھ کھل گئی تو اٹھ کر وہ سیدھا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور خواب میں جو کچھ دیکھا سب کہہ سنایا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے زرہ لانے کو ایک شخص کو بھیجا،زرہ اسی جگہ اسی حالت میں موجود تھی ۔وہ اٹھا کر لے آیا جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ خلیفہ الرسول صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی وصیت بتائی تو انہوں نے اس وصیت کو پورا کر دیا ۔
ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی ایسا شخص دکھائی دیتا ہے ۔جس نے فوت ہونے کے بعد اس انداز سے وصیت کی ہو اور پھر وہ من وعن پوری کر دی گئی ہو ۔
اللہ سبحانہ وتعالی حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور اللہ تعالی نے ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے ۔
حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
1۔ الاصابہ مترجم۔ 904
2۔۔الاستیعاب۔ 192/1
3۔۔تھذیب التھذیب۔ ا2/2
4۔۔فتح الباری۔ 405/6
5۔۔تاریخ اسلام علامہ ذھبی 371/1
6۔۔حیات صحابہ۔ ۔جلد چہارم
7۔۔البیان والتبین 359،201/1
8۔۔سیرت ابن ھشام۔
207/4۔ 318/3۔ 152/2
9۔الصدیق حسین ھیکل 160
10۔سیر اعلام النبلاء۔۔۔۔۔۔
11۔اسد الغابہ 275/1
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا
طالب دعاء ----- لقمان قاسمی
0 Comments