#حضرت ابو بکرؓ کی مکہ کی زندگی


                 💫سیر الصحابہ💫


                  

                             ﷽ 


                   


                   

             🔴حضرت ابو بکرؓ کی مکہ کی زندگی🔴


      أنحضرتؐ نے بعثت کے بعد کفار کی ایذا رسانی کے باوجود تیرہ برس تک مکہ میں تبلیغ و دعوت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ حضرت ابو بکرؓ اس بے بسی کی زندگی میں جان، مال، رائے و مشورہ، غرض ہر حیثیت سے آپ کے دست و بازو اور رنج و راحت میں شریک رہے۔ آنحضرتؐ  روزانه صبح و شام حضرت ابو بکرؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور دیر تک بمجلس راز قائم رہتی۔ قبائل عرب اور عام مجمعوں میں تبلیغ و ہدایت کے لئے جاتے تو بھی ہمرکاب ہوتے اور نسب دانی اور کثرت ملاقات کے باعث لوگوں سے آپ کا تعارف کراتے ۔' 

       مکہ میں ابتداء جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی، جو اپنے مشرک آقاؤں کے اپنے ظلم و ستم میں گرفتار ہونے کے باعث طرح طرح کی اذیتوں میں مبتلا تھے۔ حضرت ابوبکر نے ان مظلوم بندگان توحید کو ان کے جفا کار مالکوں سے خرید کر آزاد کر دیا۔ چنانچہ 

حضرت بلال ، 

عامر بن فہیر ، 

نذیره 

نہدیہ، 

جاریہ ،

بنی مومل

بنت نہدیہ

    وغیرہ نے اسی صدیقی جود و کرم کے ذریعہ سے نجات پائی۔


       کفار جب کبھی آنحضرت پر دست تعدی درازی کرتے تو یی مخلص جانثار خطرہ میں پڑ کر خود سینہ سپر ہو جاتا ۔ ایک دفعہ آپؐ خانہ کعبہ میں تقریر فرما رہے تھے مشرکین اس تقریر سے سخت برہم ہوئے، اور اس قدر مارا کہ آپؐ بے ہوش ہو گئے۔ حضرت ابوبکر نے بڑھ کر کہا’’خدا تم سے سمجھے،  کیا تم صرف ان کو اس لئے قتل کر دوگے کہ ایک خدا کا نام لیتے ہیں‘‘


  اسی طرح ایک روز أںحضرتؐ نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی حالت میں عقبہ بن معیط نے اپنی چادر سے گلوئے مبارک میں پھندا ڈال دیا۔ اس وقت اتفاقا حضرت ابو بکرؓ پہنچ گئے،  اور اس ناہنجار کی گردن پکڑ کر خیر الانام علیہ السلام سے علیحدہ کیا،  اور فرمایا:  کیا تم اس کو قتل کروگے جو تمہارے پاس خدا کی نشانیاں لایا اور کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟“


انحضرتؐ اور حضرت ابو بک‍رؓ میں رشتہ مصاہرت مکہ ہی میں قائم ہوا،  لیکن حضرت ابوبکر کی صاحبزادی حضرت عائشہ آنحضرتؐ کے نکاح میں آئیں لیکن رخصتی ہجرت کے دو سال بعد ہوئی





    

🔴 ابو بکرؓ کا ہجرت حبشہ کا قصد اور واپسی 🔴



       ابتداءً مشرکین قریش نے مسلمانوں کی قلیل جماعت کو چنداں اہمیت نہ دی،  لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ روز بروز ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے،  اور اسلام کا حلقۂ اثر وسیع ہوتا جاتا ہے،  تو نہایت سختی سے انہوں نے اس تحریک کا سد باب کرنا چاہا۔ ایذا اور تکلیف رسانی کی تمام ممکن صورتیں عمل میں لانے لگے ۔ آنحضرتؐ نے جب اپنے جانثاروں کو ان مصائب میں مبتلا پایا،  تو ستم زدوں کو حبش کی طرف ہجرت کی اجازت دی۔ اور بہت سے مسلمان حبش کی طرف روانہ ہو گئے ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ بھی باوجود وجاہت ذاتی اور اعزاز خاندانی کے اس داروگیر سے محفوظ نہ

تھے۔ چنانچہ جب حضرت علی بن عبد اللہؓ ان کی تبلیغ سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے،  تو حضرت علیؓ کے چچا نوفل بن خویلد نے ان دونوں کو ایک ساتھ باندھ کر مارا اور حضرت ابو بکرؓ کے خاندان نے پیچھے حمایت نہ کی۔ ان اذیتوں سے مجبور ہو کر آپ نے آنحضرت ا سے اجازت لی، اور رخت سفر باندھ کر عازم یحبش ہوئے۔ جب آپؓ مقام "برک الغما'‌' میں پہنچے،  تو، '‌' ابن الدغنہ'‌' رئیس '‌' قارہ'‌' سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے پوچھا ابو بکرؓ کہاں کا قصد ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ قوم نے مجھے جلا وطن کر دیا ہے۔ اب ارادہ ہے کہ کسی اور ملک کو چلا جاؤں،  اور آزادی سے خدا کی عبادت کروں ۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تمسا آدمی جلا وطن نہیں کیا جاسکتا۔ تم مفلس و بے نوا کی دست گیری کرتے ہو،  قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو،  مہمان نوازی کرتے ہو،  مصیبت زدوں کی اعانت کرتے ہو۔ میرے ساتھ واپس چلو اور اپنے وطن ہی میں اپنے خدا کی عبادت کرو۔ چنانچہ آپ ابن الدغنہ کے ساتھ پھر مکہ واپس آئے ۔ ابن الدغنہ نے قریش میں پھر کر اعلان کر دیا کہ ا‌ۤج سے ابو بکرؓ میری امان میں ہیں ۔ ایسے شخش کو جلا وطن نہ کرنا چاہیئے،  جو محتاجوں کی خبر گیری کرتا ہے،  قرابت داروں کا خیال رکھتا

ہے،  مہمان نوازی کرتا ہے،  اور مصائب میں لوگوں کے کام آتا ہے ۔ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو تسلیم کیا،  لیکن فرمائش کی کہ ابو بکر کو سمجھا دو کہ وہ جب اور جس طرح چاہے اپنے گھر میں نمازیں پڑھے،  اور قرآن کی تلاوت کریں،  لیکن گھر سے باہر نمازیں پڑھنے کی ان کو اجازت نہیں ۔ مگر جیسا

کہ پہلے ذکر آچکا ہے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے عبادات الہی کے لئے اپنے صحن خانہ میں ایک مسجد بنا لی تھی ، کفار کو اس پر بھی اعتراض ہوا۔ انہوں نے ابن الدغنہ کوخبر دی کہ ہم تمہاری ذمہ داری پر ابو بکرؓ کو اس شرط پر امان دی تھی کہ وہ اپنے مکان میں چھپ کر اپنے مذہبی فرائض ادا کریں ۔ لیکن اب وہ صحن خانہ میں مسجد بنا کر اعلان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ، اس سے ہم کو خوف ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہو کر اپنے آبائی مذہب سے بد عقیدہ نہ ہو جائیں ۔ اس لئے تم انہیں مطلع کر دو کہ اس سے باز آجائیں ورنہ تم کو زمہ داری سے بری سمجھیں ۔ ابن الدغنہ نے ابو بکر صدیقؓ سے جا کر کہا تم جانتے ہو کہ میں نے کس شرط پر تمہاری حفاظت کا ذمہ لیا ہے ، اس لئے یا تو تم اس پر قائم رہو یا مجھے ذمہ داری سے بری سمجھو، میں نہیں چاہتا کہ عرب میں مشہور ہو کہ میں نے کسی کے ساتھ بد عہدی کی،  لیکن حضرت ابو بکرؓ نے نہایت استغناء کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے تمہاری پناه کی حاجت نہیں،  میرے لئے خدا اور اس کے رسول کی پناہ کافی ہے


 

                                                                                                                                                            

       حضرت ابو بکر کا ھجرت مدینہ اور خدمت رسول 

 


     کفار ومشرکین کا دست ستم روز بروز زیادہ دراز ہوتا گیا، تو آپ نے پھر دو بارہ ہجرت کا قصد فرمایا، اس وقت تک مدینہ کی سر زمین نور اسلام سے منور ہو چکی تھی، اور ستم رسیدہ مسلمانوں کو نہایت خلوص و محبت کے ساتھ اپنے دامن میں پناہ دے رہی تھی۔ اس لئے اس دفعہ آپؓ نے مدینہ کو اپنی منزل قرار دیا اور ہجرت کی تیاری شروع کردی، لیکن بارگاہ نبوت سے حکم ہوا کہ ابھی

عجلت سے کام نہ کرو۔ امید ہے کہ خدائے پاک کی طرف سے مجھے بھی ہجرت کا حکم ہوگا ۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نہایت تعجب سے پوچھا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا آپ کو بھی ہجرت کا حکم ہوگا؟‘‘ ارشاد ہوا ہاں!‘‘ عرض کی یا رسول اللہ! مجھے ہمراہی کا شرف نصیب ہو۔ فرمایا ہاں ! تم ساتھ چلو گے“۔ اس بشارت کے بعد ارادہ ملتوی کر دیا اور چار ماہ تک منتظر ہے۔


       حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ آنحضرت عموما صبح و شام حضرت ابو بکر صدیق کے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک روز منہ کو چھپائے ہوئے خلاف معمول ناوقت تشریف لائے ۔ اور فرمایا کہ کوئی ہوتو ہٹا دو۔ میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ حضرت ابو بکر صدیق نے عرض کی کہ گھر والوں کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ اندر تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے ہجرت کا حکم ہو گیا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق نے پھر ہمراہی کی تمنا ظاہر کی ۔ ارشاد ہوا ہاں تیار ہو جاؤ ۔ وہ تو چار مہینے سے اسی انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے ، فورا تیار ہو گئے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ اور حضرت اسماء نے جلدی جلدی رخت سفر درست کیا۔ حضرت اسماء کو توشہ دان باندھنے کے لئے کوئی چیز نہیں ملی تو انہوں نے اپنا کمربند پھاڑ کر باندھا اور دربار نبوت سے ذات النطاقین کا خطاب پایا۔ حضرت ابو بکر صدیق نے پہلے ہی سے دو اونٹ تیار کر لئے تھے۔ ایک آنحضرت کی خدمت میں پیش کیا اور ایک پرخود سوار ہوئے ۔ اسی طرح نبیؑ صدیقؓ کا مختصر قافلہ راہی مدینہ ہوا۔


      اس قافلہ کی پہلی منزل غار ثور تھی ۔ حضرت ابوبکر نے غار میں پہلے داخل ہو کر اس کو درست کیا جو سوراخ اور بھٹ نظر آئے ان کو بند کیا، پھر انحضرت سے اندر تشریف لانے کیلئے عرض کیا۔ آپ اس غار میں داخل ہوئے اور اپنے رفیق مونس کے زانو پر سر مبارک رکھ کر مشغول استراحت ہو گئے ۔ اتفاقا اسی حالت میں ایک سوراخ سے جو بند ہونے سے رہ گیا تھا ایک زہریلے سانپ نے سر نکالا لیکن اس خادم جانثار نے اپنے آقا کی راحت میں خلل انداز ہونا گوارہ نہ کیا اور خود اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اس پر پاؤں رکھ دیا۔ سانپ نے کاٹ لیا زہر اثر کرنے لگا درد و کرب کے باعث آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے لیکن اس وفا شعار رفیق نے اپنے جسم کو حرکت نہ دی کہ اس سے خواب راحت میں خلل اندازی ہوگی ۔ اتفاقا آنسو کا ایک قطره ڈھلک کر آنحضرت کے چہرۂ انور پر دیکھا جس سے حضور بیدار ہو گئے اور اپنے خاص نمگسارکو بے چین دیکھ کر فرمایا ابو بکر کیا ہے؟ عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں سانپ نے کاٹ لیا۔ آنحضرت نے اسی وقت اس مقام پر اپنا لعاب دہن لگا دیا۔ اس تریاق سے زہر کا اثر دور ہو گیا ۔


    حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ کو ہدایت کر دی تھی کہ دن کو مکہ میں جو واقعات پیش آئیں رات کو ہمارے پاس آکر ان کی اطلاع کرتے رہنا اسی طرح اپنے غلام "عامر بن فہیرہ کو حکم دیا تھا کہ مکہ کی چراگاہ میں بکریاں چرائیں اور رات کے وقت غار کے پاس لے لیں ۔ چنانچہ صبح کے وقت جب حضرت عبد الله واپس آتے تو حضرت عامر بن فہیرہ ان کے نشان قدم پر بکریاں لاتے تاکہ نشان مٹ جائے اور کسی کو شبہہ نہ ہو ۔ رات کے وقت انہیں بکریوں کا تازہ دودھ غذا کے کام آتا۔ غرض تین دن اور تین راتیں اسی حالت میں بسر ہوئیں اور یہ تمام کارروائی اس احتیاط سے عمل میں آتی تھی کہ قریش کو ذرا بھی شبہ نہ ہوا۔ 


     اس عرصہ میں کفار بھی اپنی کوششوں سے غافل نہ تھے جس روز آنخضرت نے ہجرت فرمائی ہے اسی روز قریش کی مجلس ملی سے آپ کے قتل کا فتوی صادر ہو چکا تھا، اور تمام ضروری تدبیریں عمل میں آچکی تھیں ۔ چنانچہ ابوجہل وغیرہ نے اس روز رات بھر کا شانہ اقدس کا محاصره رکھا لیکن جب وقت معین پر خواب گاہ میں داخل ہوئے تو وہ گوہر مقصود سے خالی تھا۔ وہاں سے حضرت ابو بکر صدیق کے دولت کدہ پر گئے اور حضرت اسماء سے ان کے والد کو دریافت کیا۔ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی تو ابوجہل نے غضبناک ہو کر زور سے ایک طمانچہ مارا۔ اور اسے یقین ہو گیا کہ یہ دونوں ایک ساتھ یہاں سے روانہ ہو گئے 



      قریش اپنی ناکامی پر سخت برہم ہوئے۔ اسی وقت اعلان کیا گیا کہ جو شخص محمد کو گرفتار کر کے لائے گا اس کو سو(۱۰۰) اونٹ انعام دیئے جائیں گے ۔ چنانچہ متعدد بہادروں نے مذہبی جوش اور انعام کی طمع میں آپ کی تلاش شروع کی ۔ مکہ کے اطراف میں کوئی آبادی ، ویرانہ، جنگل اور پہاڑیا سنسان میدان ایسا نہ ہوگا جس کا جائزہ نہ لیا گیا ہو یہاں تک کہ ایک جماعت غار کے پاس پہنچی ، اس وقت حضرت ابو بکر صدیق کو نہایت اضطراب ہوا اور حزن و یاس کے عالم میں بولے اگر وہ ذرا بھی نیچے کی طرف نگاہ کریں گے تو ہم دیکھ لئے جائیں گے۔ آنحضرت نے آپ کو تشفی دی اور فرمایا مایوس و غمزدہ نہ ہوں، ہم صرف دو نہیں ہیں، ایک تیسرا خدا ) بھی ہمارے ساتھ ہے۔  اس تشفی آمیز فقرہ سے حضرت ابو بکر صدیق کو اطمینان ہو گیا اور ان کا مضطرب دل امداد غیبی کے تیقن پر لازوال جرآت و استقلال سے مملو ہو گیا ۔ خدا کی قدرت کہ کفار جو تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچے تھے ان کو مطلق محسوس نہ ہوا کہ ان کا گوہر مقصود اسی غار میں پنہاں ہے اور وہ ناکام واپس چلے گئے ۔


       چوتھے روز یہ کارواں آگے روانہ ہوا۔ اب اس میں بجائے دو کے چار آدمی تھے ۔ حضرت ابو بکر نے اپنے غلام "عامر بن فہیرہ" کو راستہ کی خدمات کے لئے پیچھے بٹھا لیا ہے۔ عبد بن اریقط آگے آگے راستہ بناتا جاتا ہے۔ حضرت ابو بکر مہبط وحی و الہام کی حفاظت کے لئے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں، اور کبھی پیچھے ہو جاتے ہیں ۔ اسی اثناء میں "سراقہ بن جعشم" قریش کا ہرکارہ گھوڑ اڑاتا ہوا قریب پہنچ گیا۔ حضرت ابو بکر نے خوفزدہ ہو کر کہا یا رسول اللہ یہ سوار قریب پہنچ گیا‘‘۔ ارشاد ہوا، غمگین نہ ہو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ بارگاہ رب العالمین میں دعا کی ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں پھنس گئے ۔ اتر کا پانسہ پھینک کر فال نکالی ۔ جواب آیا کہ اس تعاقب سے دستبردار ہو جاؤ ۔ نہ مانا، پھر آگے بڑھا پھر وہی واقعہ پیش آیا۔ مجبور ہو کر امان طلب کی اور واپس آگیا۔


      حضرت ابو بکر صدیق نہایت کثیر الاحباب تھے۔ راہ میں بہت سے ایسے شناسا ملے جو آنحضرت کو پہچانتے نہ تھے ۔ وہ پوچھتے تھے کہ ابو بکر تمہارے ساتھ کون ہے؟ آپ گول مول جواب دیتے کہ یہ ہمارے رہنما ہیں ۔ غرض اس طرح پہلی منزل ختم ہوئی ۔ حضرت ابو بکر

نے ایک سایہ دار چٹان کے فرش درست کر کے اپنے محبوب آقا کے لئے استراحت کا سامان بہم پہنچایا اور خود کھانے کی تلاش میں نکلے۔ اتفاق سے ایک گڈریا اسی چٹان کی طرف آرہا تھا اس

سے پوچھا کہ یہ بکریاں کس کی ہیں ؟ اس نے ایک شخص کا نام لیا۔ پھر دریافت فرمایا کہ اس میں کوئی دودہاری بکری بھی ہے؟ اس نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا ہمیں دودھ دو گے؟ اس نے رضامندی ظاہر کی تو آپ نے ہدایت کی کہ پہلے ان کو اور ہاتھوں کو گردوغبار سے اچھی طرح صاف کر لو۔ اس

نے حسب ہدایت وہ دودھ دوہ کر پیش کیا۔ آپ نے ٹھنڈا کرنے کے لئے اس میں تھوڑا سا پانی ملایا اور کپڑے سے چھان کر خدمت بابرکت میں لائے ۔ آپ نے نوش کیا اور دوسری منزل کے لئے چل کھڑے ہوئے ۔


       اسی طرح مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا "بارہویں ربیع الاول" سنہ نبوت کے "چودہویں" سال مدینہ کے قریب پہنچا۔ انصار کو آنحضرت کی روانگی کا حال معلوم ہو چکا تھا وہ نہایت بے چینی سے آپ کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ آپ شہر کے قریب پہنچے تو انصار استقبال کے لئے نکلے اور ہادی برحق کو حلقہ میں لے کر "شہر قبا" کی طرف بڑھے ۔ آنحضرت نے اس جلوس کو داہنی طرف مڑنے کا حکم دیا اور بنی عمرو بن عوف میں قیام پذیر ہوئے ۔ یہاں انصار جوق در جوق زیارت کے لئے آنے لگے ۔ آنحضرت خاموشی کے ساتھ تشریف فرما تھے اور حضرت ابو بکر کھڑے ہو کر لوگوں کا استقبال کر رہے تھے۔ بہت سے انصار جو پہلے آنحضرت کی زیارت سے مشرف نہیں ہوئے تھے، وہ غلطی سے حضرت ابو بکر کے گرد جمع ہونے لگے۔ یہاں تک کہ جب آفتاب سامنے آنے لگا اور جانثار خادم نے بڑھ کر اپنی چادر سے آقائے نامدار پر سایہ کیا تو اس وقت خادم و مخدوم میں امتیاز ہو گیا اور لوگوں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانا ۔


      حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم *قبا* میں چند روز مقیم رہ کر مدینہ تشریف لائے اور حضرت *ابو ایوب انصاری* کے ہاں مہمان ہوئے ۔ حضرت ابو بکر بھی ساتھ آئے اور حضرت *خارجہ بن زید ابن ابی زہیر* کے مکان میں فروکش ہوئے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ کے اہل و عیال بھی حضرت طلحہ کے ساتھ مد بینہنچ گئے۔ لیکن مدینہ کی آب و ہوا مہاجرین کے لئے نہایت نا موافق ہوئی ۔ خصوصا حضرت ابو بکر ایسے شدید بخار میں مبتلا ہوئے کہ زندگی سے مایوس ہو گئے ۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ نے حال پوچھا تو اس وقت بہ شعر ورد زبان تھا ۔


     کل امرء مصبح في اهلة 

                                              والموت ادنی من شراك نعله 


    ہر آدمی اس حالت میں اپنے اہل وعیال میں صبح کرتا ہے 

           کہ موت جوتے کے تسمہ سے بھی قریب تر ہوتی ہے



حضرت عائشہ یہ حال دیکھ کر آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کیفیت عرض کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا:


     "اللهم حبب الينا المدينة کحبتنا مكة او اشد وصححها و بارک لنا في صاعها ومدها وانقل حماها فاجعلها بالحجفة"


     "اے خدا تو مکہ کی طرح یا اس سے بھی زیادہ مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا کر اس کو بیماریوں سے پاک فرما اسکے صاع اور مد میں برکت دے اور اس کے (وبائی) بخار کو *جحفہ* میں منتقل کر دے۔

     دعا مقبول ہوئی ۔ حضرت ابوبکر بستر مرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور مدینہ کی ہوا مہاجرین کے لئے مکہ سے بھی زیادہ خوش آٓئند ہوگئی۔ 



              ≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠


                            ❶   سیر الصحابہ جلد 

      


              🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments