حضرت حمزہؓ اور عمرؓ کا اسلام


                           سیرت النبی ﷺ

                 


                                      ﷽  
      

               🔴حضرت حمزہؓ اور عمرؓ کا اسلام 🔴


    انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمام میں سے حضرت حمزہ کو آپ سے خاص محبت تھی، وہ آپ سے صرف دو تین برس بڑے تھے اور ساتھ کے کھیلے تھے، دونوں نے ثوبیہ کا دودھ پیا تھا اور اس رشتہ سے بھائی بھائی تھے، وہ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا کو محبت کی نظر سے دیکھتے تھے، ان کا مذاق طبیعت سپاہ گری اور شکار افگنی تھا معمول تھا کہ منہ اندھیرے تیر کمان لے کر نکل جاتے ،دن بھر شکار میں مصروف رہتے ، شام کو واپس آتے تو پہلے حرم میں جاتے ، طواف کرتے ، قریش کے رؤسا صحن حرم میں الگ الگ دربار جما کر بیٹھا کرتے تھے، حضرت حمزہ بھی ان لوگوں سے صاحب سلامت کرتے کبھی کبھی کسی کے پاس بیٹھ جاتے ، اس طریقہ سے سب سے یارانہ تھا اور سب لوگ ان کی قدر و منزلت کرتے تھے۔

     آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخالفین جس ہے رحمی سے پیش آتے تھے، بیگانوں سے بھی دیکھا نہ جا سکتا تھا۔ ایک دن ابوجہل نے رو در رو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہایت سخت گستاخیاں کیں، ایک کنیز دیکھ رہی تھی، حضرت حمزه شکار سے آئے تو اس نے تمام ماجرا کہا۔ حضرت حمزہ  غصہ سے بے تاب ہو گئے ، تیر و کمان ہاتھ میں لئے حرم میں آئے اور ابوجہل سے کہا میں مسلمان ہو گیا ہوں ۔‘‘

     انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جوش حمایت میں انہوں نے اسلام کا اظہار تو کر دیا لیکن گھر پر آئے تو متردد تھے کہ آبائی دین کو دفعتہ کیونکر چھوڑ دوں ، تمام دن سوچتے رہے، بالآخر غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ دین حق یہی ہے دو چار روز کے بعد حضرت عمر بھی اسلام لائے۔

     حضرت عمر کا ستائیسواں سال تھا کہ آفتاب رسالت طلوع ہوا۔ یعنی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے حضرت عمر کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز نامانوس نہیں رہی تھی چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید اسلام لائے ۔ حضرت سعید کا نکاح حضرت عمر کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا، اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں، اسی خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبداللہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا لیکن حضرت عمر ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے، ان کے کانوں میں جب صدا پہنچی تو سخت برہم ہوئے ، یہاں تک کہ قبیلہ میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے، لُبینہ ان کے خاندان کی کنیز تھی جس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ دم لے لوں تو پھر ماروں گا ،لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زد و کوب سے دریغ نہیں کرتے تھے لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتا تھا اترتا نہ تھا ، ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بد دل نہ کر سکے۔ آخر مجبور ہو کر (نعوذ بالله ) خود ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے کارکنان قضا نے کہا:

ع     آمد آں یارے که ما می خواستیم

     راہ میں اتفاقا نعیم بن عبداللہ مل گئے، ان کے تیور دیکھ کر پوچھا: خیر ہے؟ بولے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں، انہوں نے کہا: " پہلے اپنے گھر کی خبر لو، خو تمہارے بہن اور بہنوئی اسلام لا چکے ہیں۔ فورا پلٹے اور بہن کے ہاں پہنچے، وہ قرآن پڑھ رہی تھیں، ان کی آہٹ پاکر چپ ہو گئیں اور قرآن کے اجزا چھپا لئے لیکن آواز ان کے کانوں میں پڑ چکی تھی ، بہن سے پوچھا: یہ کیا آواز تھی؟ بولیں: کچھ نہیں ، انہوں نے کہا: میں سن چکا ہوں تم دونوں مرتد ہو گئے ہو، یہ کہ کر بہنوئی سے دست و گریباں ہوئے اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی۔ یہاں تک کہ ان کا جسم لہولہان ہو گیا ۔ لیکن اسلام کی محبت اس سے بالاتر تھی، بولیں کہ "عمر جو بن آئے کرو لیکن اسلام اب دل سے نکل نہیں سکتا۔" ان الفاظ نے حضرت عمر کے دل پر خاص اثر کیا، بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا، ان کے جسم سے خون جاری تھا، دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی، فرمایا تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ ، فاطمہ نے قرآن کے اجزاء لا کر سامنے رکھ دیے، اٹھا کر دیکھا تو یہ سورہ تھی:

{ سبح للہ ما في السموت و الأرض وهو العزیز الحكيم } . (۵۷/ الحديد:۱)

    زمین اور آسان میں جو کچھ ہے خدا کی تسبیح پڑھتا ہے اور خدا ہی غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘

     ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہوتا جاتا تھا ، یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے:
     { امنوا بالله ورسوله ) (۵۷/ الحدید:٧) 

    ”خدا پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ ‘‘ تو بے اختیار پکار اٹھے کہ :

    ( أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله).

   میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی خدا نہیں اور یہ کہ محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔



    یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ارقم کے مکان میں جو کوہ صفا کی تلی میں واقع تھا، پناه گزین تھے۔ حضرت عمر نے آستانہ مبارک پہنچ کر دستک دی، چونکہ شمشیر بکف گئے تھے ، صحابہ کو تردد ہوا لیکن حضرت حمزہ نے کہا: "آنے دو مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ہے، ورنہ اس کی تلوار سے اس کا سر قلم کردوں گا ۔ حضرت عمر نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کے فرمایا: کیوں عمر! کس ارادے سے آیا ہے؟‘‘ نبوت کی پر جلال آواز نے ان کو کپکپا دیا ،نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا کہ ایمان لانے کے لئے ۔ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام صحابہ نے مل کر اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں ۔

    حضرت عمر کے ایمان لانے نے اسلام کی تاریخ میں نیا دور پیدا کر دیا، اس وقت تک اگرچہ چالیس پچاس آدمی اسلام لا چکے تھے ، عرب کے مشہور بہادر حضرت حمزه سید الشهداء نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا، تاہم مسلمان اپنے فرائض مذہبی علانیہ نہیں ادا کر سکتے تھے اور کعبہ میں نماز پڑھنا تو بالکل نا مکن تھا، حضرت عمر کے اسلام کے ساتھ دفعتہ یہ حالت بدل گئی ، انہوں نے علانیہ اسلام ظاہر کیا ، کافروں نے اول اول بڑی شدت کی لیکن وہ ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جاکر نماز ادا کی ، ابن ہشام نے اس واقعہ کو عبد الله بن مسعود کی زبانی ان الفاظ میں روایت کیا ہے

    " فلما اسلم عمر قاتل قريشا حتى صلي عند الكعبة وصلينا معه"

    جب عمر اسلام لاۓ تو قریش سے لڑے یہاں تک کعبہ میں نماز پڑھی اور ان کے ساتھ ہم لوگوں نے بھی پڑھی‘‘

     صحیح بخاری میں ہے کہ جب حضرت عمر  اسلام لائے تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، اتفاق سے عاص بن وائل آنکلا، اس نے پوچھا: کیا ہنگامہ ہے، لوگوں نے کہا: عمر مرتد ہو گئے ، عاص بن وائل نے کہا: تو کیا ہوا، میں نے عمر کو پناہ دی ۔

≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠


❶ سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد 
      

                      🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments