تعذیب مسلمین



                      
                                 سیرت النبی ﷺ

                 

                                      ﷽ 

                            🔴تعذيب مسلمین🔴


    رسوخ عزم، قوت اراده، شدت عمل، انسان کے اصلی جوہر ہیں اور داد کے قابل ہیں ، لیکن انہی اوصاف کا رخ جب بدل جاتا ہے تو وہ سخت دلی، بے رحمی، درندہ طبعی اور سفاکی کا مہیب قالب اختیار کر لیتے ہیں۔ اسلام جب آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ کو ان کے قبیلوں نے اپنے حصار حفاظت میں لے لیا تو قریش کا طیش و غضب ہر طرف سے سمٹ کر ان غریبوں پر ٹوٹا جن کا کوئی پار و مددگار نہ تھا، ان میں کچھ غلام اور کنیزیں تھیں، کچھ غریب الوطن تھے، جو دو ایک پشت سے مکہ میں آر ہے تھے اور کچھ کمزور قبیلوں کے آدمی تھے، جو کسی قسم کی عظمت و اقتدار نہیں رکھتے تھے۔ قریش نے ان کو اس طرح ستانا شروع کیا کہ جور و ستم کی تاریخ میں اس کی مثال پیدا کرنا قریش کی یکتائی کی تحقیر ہے۔

    یہ آسان تھا کہ مسلمانوں کے خس و خاشاک سے سر زمین عرب دفعته پاک کر دی جاتی ، لیکن قریش کا نشہ انتقام اس سے نہیں اتر سکتا تھا، مسلمان اگر اپنے مذہب پر ثابت قدم رہ کر پیوند خاک کر دیے جاتے تو اس میں جس قدر قریش کی تعریف نکلتی، اس سے زیادہ ان بیکسوں کا صبر و استقلال داد طلب ہوتا قریش کی شان اس وقت قائم رہ سکتی تھی جب یہ لوگ جاده اسلام سے پھر کر پھر قریش کے مذہب میں آجاتے ، یا شاید ان کو مسلمانوں کی سخت جانی کا امتحان لینا اور اس کی داد دینا منظور تھا۔

    قریش میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا دل واقعی اس حالت پر جلتا تھا کہ ان کا مدتوں کا بنا بنایا کارخانہ درہم برہم ہو جاتا ہے، ان کے آباء و اجداد کی تحقیر کی جاتی ہے، قابل احترام معبودوں کی عظمت مٹی جاتی ہے ، یہ لوگ صرف حسرت و افسوس کرکے رہ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ چند خام طبقوں کے دماغ میں خلل آگیا ہے۔ عتبه، عاص بن وائل وغیرہ اسی قسم کے لوگ تھے۔ لیکن ابوجہل، امیہ بن خلف وغیرہ کا معیار اس سے زیادہ بلند تھا۔




                   🔴مسلمانوں پر ظلم کے طریقے🔴

    بہر حال قریش نے جور ظلم کے عبرت ناک کارنامے شروع کئے ، جب ٹھیک دوپہر ہو جاتی تو وہ غریب مسلمانوں کو پکڑ تے ، عرب کی تیز دھوپ، ریتلی زمین کو دوپہر کے وقت جلتا توا بنا دیتی ہے، وہ ان غربیوں اسی توے پر لٹاتے، چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے کہ کروٹ نہ بدلنے پائیں، بدن پر گرم بالو بچھاتے، لوہے کو آگ پر گرم کر کے اس سے داغتے ، پانی میں ڈبکیاں دیتے۔ مصیبتیں اگرچہ تمام بیکس مسلمانوں پر عام تھیں لیکن ان میں جن لوگوں پر قریش زیادہ مهربان تھے، ان کے نام یہ ہیں:

❶ حضرت خباب بن الارت ، تمیم کے قبیلہ سے تھے، جاہلیت میں غلام بنا کر فروخت کر دیے گئے تھے۔ ام انمار نے خرید لیا تھا، یہ اس زمانہ میں اسلام لائے جب انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ارقم کے گھر میں مقیم تھے اور صرف چھ سات شخص اسلام لاچکے تھے۔ قریش نے ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دیں، ایک دن کوئلے جلا کر زمین پر بچھائے ، اس پر چت لٹایا، ایک شخص چھاتی پر پاؤں رکھے رہا کہ کروٹ بد لنے نہ پائیں یہاں تک کہ کوئلے پیٹھ کے پیچھے پڑے پڑے ٹھنڈے ہو گئے ، حضرت خباب نے مدتوں کے بعد جب یہ واقعہ حضرت عمر  کے سامنے بیان کیا تو پیٹھ کھول کر دکھائی کہ برص کے داغ کی طرح بالکل سپید تھی، حضرت خباب جاہلیت میں لوہاری کا کام کرتے تھے، اسلام لائے تو بعض لوگوں کے ذمہ ان کا بقایا تھا، مانگتے تو جواب ملتا جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہ کرو گے ، ایک کوڑی نہ ملے گی ، یہ کہنے کہ نہیں جب تک تم مرکر پھر جیو نہیں۔

❷ حضرت بلال یہ وہی حضرت بلال ہیں جو مؤذن کے لقب سے مشہور ہیں حبشی النسل اور امیہ بن خلف کے غلام تھے، جب ٹھیک دوپہر ہو جاتی تو امیہ ان کو جلتی بالو پر لٹاتا اور پتھر کی چٹان سینہ پر رکھ دیتا کی جنبش نہ کرنے پائیں، ان سے کہتا کہ اسلام سے باز آجا ورنہ یوں ہی گھٹ گھٹ کر مر جائے گا لیکن اس وقت بھی ان کی زبان سے "احد‘‘ کا لفظ نکلتا ، جب یہ کسی طرح متزلزل نہ ہوئے تو گلے میں رسی باندھی اور لونڈوں کے حوالے کیا، وہ ان کو شہر کے اس سرے سے اس سرے تک گھسیٹتے پھرتے تھے لیکن اب بھی وہی رٹ تھی آحد أحد ۔

❸   حضرت عمار یمن کے رہنے والے تھے، ان کے والد ياسر مکہ میں آئے، ابو حذیفہ مخزومی نے اپنی کنیز سے جس کا نام سمیہ تھا، شادی کردی تھی ۔ عمار اسی کے پیٹ سے پیدا ہوئے، یہ جب اسلام لائے تو ان سے پہلے صرف تین شخص
اسلام لا چکے تھے۔ قریش ان کو جلتی ہوئی زمین پر لٹاتے اور اس قدر مارتے کہ بیہوش ہوجاتے ، ان کے والد اور والدہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا تھا۔

❹    حضرت سمیہ حضرت عمار کی والدہ تھیں ، ان کو ابوجہل نے اسلام لانے کے جرم میں برچھی ماری اور وہ ہلاک ہو گئیں۔

❺    یاسر حضرت عمار کے والد تھے ، یہ بھی کافروں کے ہاتھ سے اذیت اٹھاتے اٹھاتے ہلاک ہو گئے ۔

❻   حضرت صہیب یہ رومی مشہور ہیں ۔ لیکن درحقیقت رومی نہ تھے، ان کے والد سنان کسری کی طرف سے ابلہ کے حاکم تھے اور ان کا خاندان موصل میں آباد تھا، ایک دفعہ رومیوں نے اس نواح پر حملہ کیا اور جن لوگوں کو قید کر کے لے گئے ان میں صہیب بھی تھے۔ یہ روم میں پلے۔ اس لئے عربی زبان اچھی طرح بول نہ سکتے تھے، ایک عرب نے ان کو خریدا اور مکہ میں لایا یہاں عبداللہ بن جدعان نے ان کو خرید کر کے آزاد کر دیا۔

     أنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوت اسلام شروع کی تو یہ اور عمار بن یاسر ایک ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی ترغیب دی اور مسلمان ہو گئے ۔ قریش ان کو اس قدر اذیت دیتے تھے کہ ان کے حواس مختل ہو جاتے تھے۔ جب انہوں نے مدینہ کو ہجرت کرنی چاہی تو قریش نے کہا: اپنا سارا مال و متاع چھوڑ جاؤ تو جا سکتے ہو، انہوں نے نہایت خوشی سے منظور کیا۔

❼   حضرت ابو فکیہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے اور حضرت بلال کے ساتھ اسلام لائے امیہ کو جب یہ معلوم ہوا تو ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور آدمیوں سے کہا کہ گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اور تپتی ہوئی زمین پر لٹائیں، ایک "گبریلا" راہ میں جارہا تھا، امیہ نے ان سے کہا: تیرا خدا یہ تو نہیں ہے۔ انہوں نے کہا میرا اور تیرا دونوں کا خدا الله تعالی ہے۔ اس پر امیہ نے اس زور سے ان کا گلا گھوڑا کہ لوگ سمجھے دم نکل گیا، ایک دن ان کے سینے پر اتنا بھاری بوجھل پتھر رکھ دیا کہ ان کی زبان نکل پڑی۔ 


❽   لبینہ یہ بچاری ایک کنیز تھیں، حضرت عمر اس بے کس کو مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے تھے کہ میں نے تجھ کو رحم کی بنا پر نہیں بلکہ اس وجہ سے چھوڑ دیا ہے کہ تھک گیا ہوں ۔ وہ نہایت استقلال سے جواب دیتیں کہ اگر اسلام نہ لائے تو خدا اس کا انتقام لے گا۔

❾   حضرت زنیرہ حضرت عمر کے گھرانے کی کنیز تھیں اور اس وجہ سے حضرت عمر ( اسلام سے پہلے ان کو جی کھول کر ستاتے، ابوجہل نے ان کو اس قدر مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں۔

❿   حضرت نہدیہ اور ام عبیس یہ دونوں بھی کنیزیں تھیں اور اسلام لانے کے جرم میں سخت سے سخت مصیبتیں جھیلی تھیں ۔

     حضرت ابو بکر کے دفتر فضائل کا یہ پہلا باب ہے کہ انہوں نے ان مظلوموں میں سے اکثروں کی جان بچائی۔

 حضرت بلال ،
 عامر بن فہیر ،
 لبینہ،
 زنیرہ ،
 نہدیہ،
 ام عبیس رضی اللہ عنہم

    ان سب کو بھاری بھاری داموں پر خریدا اور آزاد کر دیا ۔  یہ لوگ وہ تھے جن کو قریش نے نہایت سخت جسمانی اذیتیں پہنچائیں ، ان سے کم درجہ پر وہ لوگ تھے جن کو طرح طرح سے ستاتے تھے۔

❶   حضرت عثمان جو کبیر السن اور صاحب جاہ و اعزاز تھے، جب اسلام لائے تو دوسروں نے نہیں بلکہ خود ان کے چچا نے رسی سے باندھ کر مارا، 

❷ حضرت ابو ذر جو ساتویں مسلمان ہیں جب مسلمان ہوئے اور کعبہ میں اپنے اسلام کا اعلان کیا تو قریش نے مارتے مارتے ان کو لٹا دیا،

❸ حضرت زبیر بن العوام جن کا مسلمان ہونے والوں میں پانچواں نمبر تھا، جب اسلام لائے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھواں دیتے تھے،

❹ حضرت عمر کے چچا زاد بھائی سعید بن زید جب اسلام لائے تو حضرت عمر نے ان کو رسیوں سے باندھ دیا۔

    لیکن یہ تمام مظالم، یہ جلادانہ بے رحمیاں، یہ عبرت خیز سفاکیاں ایک مسلمان کو بھی راہ حق سے متزلزل نہ کر سکیں ۔

     ایک نصرانی مورخ نے نہایت سچ لکھا ہے:

    " عیسائی اس کو یاد رکھیں تو اچھا ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائل نے وہ درجہ نشۂ دینی کا آپ کے پیروں میں پیدا کیا ۔ جس کو عیسی علیہ السلام کے ابتدائی پیروؤں میں تلاش کرنا بے فائدہ ہے جب عیسی علیہ السلام کو سولی پر لے گئے تو ان کے پیرو بھاگ گئے ، ان کا نشہ دینی جاتا رہا اور اپنے مقتدا کو موت کے پنجہ میں گرفتار چھوڑ کر چل دیے۔ بر عکس اس کے کہ ان کے پیرو ، اپنے مظلوم پیغمبر کے گرد آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ میں اپنی جانیں خطرہ میں ڈال کر کل دشمنوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کیا۔

≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠

سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد ❶ 
      

               🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹
    

Post a Comment

0 Comments