نبیﷺ کا قبائل کا دورہ


     

                         سیرت النبی ﷺ

          

                                 ﷽  

                        💎قبائل کا دورہ💎 

انحضرت ﷺ کا معمول تھا، جب حج کا زمانہ آتا تھا اور عرب کے قبائل ہر طرف سے آکر مکہ کے آٓس پاس اترتے تو آپﷺ ایک ایک قبیلہ کے پاس جاتے اور تبلیغ اسلام فرماتے ، عرب میں مختلف مقامات پر میلے لگتے تھے، جن میں دور دور کے قبائل آتے تھے، آپﷺ ان میلوں میں جاتے اور اسلام کی تبلیغ فرماتے۔

    ان میلوں میں سے عکاظ جو اہل عرب کا قومی اور علمی دنگل تھا اور مجنہ اور ذوالمجاز کا نام مورخین نے خاص طور پر لیا ہے، قبائل عرب میں سے بنو عامر، محارب، فزارہ، غسان، مرہ، حنیفہ، سلیم، عبس ، بنونضر، کنده، کلب ، حارث بن کعب ، عزرہ، حضارمہ مشہور قبائل ہیں۔ ان سب قبائل کے پاس آپﷺ تشریف لے گئے لیکن ابولہب ہر جگہ ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپﷺ کسی مجمع میں تقریر کرتے تو برابر سے کہتا کہ "دین
سے پھر گیا ہے اور جھوٹ کہتا ہے ۔‘‘

    بنی حنیفہ یمامہ میں آباد تھے، ان لوگوں نے نہایت تلخی کے ساتھ جواب دیا۔ مسیلمہ کذاب جس نے آگے چل کر نبوت کا دعوی کیا ، اس قبیلہ کا رئیس تھا۔

    قبیلہ بنو ذہل بن شیبان کے پاس جب آپﷺ گئے تو حضرت ابوبکر وہ بھی ساتھ تھے۔ حضرت ابوبکر نے مفروق سے کہا: تم نے کسی پیغمبر کا تذکرہ سنا ہے؟ وہ یہی ہیں ‘‘ مفروق نے انحضرتﷺ کی طرف رخ کر کے کہا: " برادر قریش! تم کیا تلقین کرتے ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: ”خدا ایک ہے اور میں اس کا پیمبر ہوں اور یہ آیتیں پڑھیں:

     { قل تعالوا اتل ما حرم ربکم عليكم الا تشركوا به شيئا و بالوالدين احسانا. ولا تقتلوا اولادكم من املاق. نحن نرزقكم واياهم. ولا تقربوا الفواحش ما ظهر منها وما بطن. ولا تقتلوا النفس التي حرم الله الا بالحق. ذالكم وصىكم به لعلكم تعقلون }
                                  (٦/ الانعام:۱۵۲)

    "کہہ دو کہ میں تمہیں سناؤں کہ خدا نے کیا چیزیں حرام کی ہیں ، یہ کہ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کا حق خدمت بجالاؤ اور اپنے بچوں کو افلاس کے خیال سے قتل نہ کرو، ہم تم کو اور ان کو دونوں کو روزی دیں گے ۔ فحش باتوں کے پاس نہ جاؤ ۔ وہ ظاہر ہوں یا پوشیده اور آدمی کی جان جس کو خدا نے حرام کیا ہے،ناحق ہلاک نہ کرو‘‘

      اس قبیلے کے رؤساء، مفروق، مثنی، اور ہانی بن قبصیہ تھے اور وہ سب اس موقع پر موجود تھے۔ ان لوگوں نے کلام کی تحسین کی لیکن کہا کہ مدتوں کا خاندانی دین دفعتہ چھوڑ دینا زود اعتقادی ہے۔ اس کے علاوہ ہم کسری کے زیر اثر ہیں اور معاہدہ ہو چکا ہے کہ ہم اور کسی کے اثر میں نہ آئیں گے۔ آپ نے اس کی راست گوئی کی تحسین کی اور فرمایا کہ خدا اپنے دین کی آپ مدد کرے گا۔‘‘

     قبیلہ بنو عامر کے پاس گئے تو ایک شخص نے جس کا نام (بحیرہ بن ) فراس تھا۔ آپﷺ کی تقریر سن کر کہا: یہ شخص مجھ کو ہاتھ آجائے تو میں تمام عرب کو مسخر کرلوں ۔ پھر آپﷺ سے پوچھا کہ اگر ہم تمہارا ساتھ دیں اور تم اپنے مخالفوں پر غالب آجاو تو تمہارے بعد ریاست ہم کو ملے گی؟‘‘آپ ﷺ نے فرمایا: یہ خدا کے ہاتھ ہے۔ اس نے کہا: ہم اپنا سینہ عرب کی آماج گاہ بنائیں اور حکومت غیروں کے ہاتھ آۓ ہم کو یہ غرض نہیں۔‘‘

          

         💎قریش کی آپﷺ کو ایذا رسانی💎

      اسباب مذکورہ بالا کی بنا پر قریش نے آنحضرتﷺ کی سخت مخالفت کی اور چاہا کہ آپﷺ کو اس قدر ستائیں کہ آپﷺ مجبور ہو کر تبلیغ اسلام سے دست بردار ہو جائیں ، سوئے اتفاق یہ کہ جو کفار آپﷺ کے ہمسایہ تھے لیکن ابوجہل، ابولہب، اسود بن عبد يغوث ، ولید بن مغیرہ، امیہ بن خلف، نضر بن حارث ، منبہ بن حجاج، عقبہ بن ابی معیط، حکم بن ابی العاص سب قریش کے سر بر آورده رؤسا تھے اور یہی سب سے بڑھ کر آپﷺ کے دشمن تھے، یہ لوگ آنحضرتﷺ کی راہ میں کانٹے بچھاتے ، نماز پڑھتے وقت ہنسی اڑاتے ، سجدہ میں
آپ کی گردن پر اوجھڑی لاکر ڈال دیتے، گلے میں چادر لپیٹ کر اس زور سے کھینچتے کہ گردن مبارک میں بدھیاں پڑ جاتیں۔ آپﷺ کی روحانی قوت اثر کو دیکھ کر لوگ جادوگر کہتے ، دعوائے نبوت کو سن کر مجنوں کہتے ، باہر نکلتے تو شریر لڑکے پیچھے پیچھے غول باندھ کر چلتے، نماز جماعت میں قرآن زور سے پڑھتے تو قرآن، قرآن کے لانے والے (رسول اللہﷺ اور قرآن کے اتارنے والے (خدا) کو گالیاں دیتے۔

     ایک دفعہ آپ ﷺ حرم میں نماز پڑھ رہے تھے، روسائے قریش بھی موجود تھے، ابوجہل نے کہا کاش اس وقت کوئی جانتا اور اونٹ کی اوجھ نجاست سمیت اٹھالاتا کہ جب محمد سجدہ میں جاتے تو ان کے گردن پرڈال دیتا۔ عقبہ نے کہا: یہ خدمت میں انجام دیتا ہوں ۔ چنانچہ اوجھ لاکر اپﷺ کی گردن پر ڈال دی ، قریش مارے خوشی کے ایک دوسرے پر گرے پڑتے تھے کسی نے جاکر حضرت فاطمہ کو خبر کی، وہ اگرچہ اس وقت صرف پانچ چھ برس کی تھیں لیکن جوش محبت سے دوڑی ائیں اور اوجھ ہٹا کر عقبہ کو برا بھلا کہا اور بددعائیں دیں۔

أنحضرت ﷺ جب کہیں کسی مجمع عام میں دعوت اسلام کا وعظ فرماتے تو ابولہب جو اپﷺ کے ساتھ ساتھ رہتا تھا برابر سے کہتا جاتا کہ یہ جھوٹ کہتا ہے۔ ایک صحابی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ جب کہ میں اسلام نہیں لایا تھا آنحضرت ﷺ بازار ذوالمجاز میں گئے اور مجمع میں گھس کر لوگوں سے کہا کہ ”لا الہ الا اللہ کہو ابوجہل اپﷺ پر خاک پھینکتا جاتا تھا اور کہتا کہ اس کے فریب میں نہ آنا، یہ چاہتا ہے کہ تم لات و عزی کی پرستش چھوڑ دو ‘‘ طائف میں کفار نے آپ ﷺ کو جو اذیتیں پہنچائیں ان کا بیان پیچھے گزر چکا۔

     ایک دفعہ اپ ﷺ حرم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے ، عقبہ نے آپ ﷺ کی گردن میں چادر لپیٹ کر نہایت زور سے کھینچی ، اتفاقا حضرت ابو بکر آگئے اور آپ ﷺ کا شانہ پکڑ کر عقبہ کے ہاتھ سے چھڑایا اور کہا کہ اس شخص کو قتل کرتے ہو جو صرف یہ کہتا ہے کہ خدا ایک ہے۔‘‘

    جو لوگ آنحضرت ﷺ کی دشمنی میں نہایت سرگرم تھے اور رات دن اسی شغل میں رہتے تھے ان کے نام جیسا کہ ابن سعد نے طبقات میں لکھے ہیں حسب ذیل ہیں:

ابوجہل
ابولہب
اسود بن عبد يغوث
حارث بن قیس بن عدی
ولید بن مغیرہ
امیہ
ابی بن خلف
ابوقیس بن فاکہہ بن مغیرہ
عاص بن وائل
نضر بن حارث
منبہ بن حجاج
زہیر بن ابی امیہ
سائب بن سیفی
اسود بن عبدالاسد
عاص بن سعید بن العاص
عاص بن ہاشم
عقبہ بن ابی معيط
ابن الاصدی ہذلی
حکم بن ابی العاص
عدی بن حمراء

     یہ سب کے سب آنحضرت ﷺ کے ہمسایہ اور ان میں سے اکثر صاحب جاہ و اقتدار تھے۔ یہ جو کچھ ہوا، گو نہایت درد انگیز اور حسرت خیز تھا ۔ لیکن تعجب انگیز نہ تھا، دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ہے کہ نامانوس اور اجنبی صدائیں بہ رغبت سن لی گئی ہوں، حضرت نوح علیہ السلام کو سینکڑوں برس تک قوم کی نفرت اور
وحشت کا سامنا رہا، یونان دنیا کی شائستگی کا معلم اول ہے۔ تاہم اسی حکمت کدہ میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا، حضرت عیسی علیہ السلام کو دارورسن کا منظر پیش آیا۔ اس بنا پر عرب اور قریش نے جو کچھ کیا وہ سلسلہ واقعات کی غیر معمولی کڑی تھی لیکن غور طلب یہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں سرور عالم ﷺ نے کیا کیا؟



           مسلمانوں کا گھبرانا اور آپ ﷺ کا تسلی دینا۔       

     سقراط (زہر کا) پیالہ پی کر فنا ہو گیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے مخالفت سے تنگ آکر ایک قیامت خیز طوفان کی استدعا کی اور دنیا کا ایک بڑا حصہ برباد ہو گیا حضرت عیسی علیہ السلام تیس چالیس شخصوں کی مختصر جماعت پیدا کر کے بروایت نصاری سولی پر چڑھ گئے، لیکن سرور کائنات ﷺ کا فرض ان سب سے بالاتر تھا، حضرت خباب بن الارت نے جب قریش کی ایذا رسانی سے تنگ آکر انحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ ﷺ ان کے حق میں بد دعا کیوں نہیں فرماتے تو آپ ﷺ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا کہ تم سے پہلے وہ لوگ گزرے ہیں جن کے سر پر آرے چلائے جاتے اور چیر ڈالے جاتے تھے، تاہم وہ اپنے فرض سے باز نہ آئے ، خدا اس کام کو پورا کرے گا یہاں تک کہ شتر سوار صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا اور اس کو خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا ۔‘‘

     کیا یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری نہیں ہوئی ؟

           ≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠

        سیرت النبی علامہ نعمان شبلی جلد       
      

                          🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments