عرب کی اخلاقی حالت


                        💫تاریخ اسلام💫

                 


                                ﷽ 


                 🔴عرب کی اخلاقی حالت🔴


          ملک عرب جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے قدیم سے *سامی خاندان* کا گہوراہ رہا ہے۔ طبقه اولی یعنی *عرب بائدہ* کے حالات بہت ہی کم معلوم ہو سکے ہیں، اور ان سے یہ اندازه نہیں ہوسکتا کہ عرب بائدہ کی اخلاقی حالت اپنے ہم عصر اقوام عالم کے مقابلہ میں کیا تھی۔ تاہم یہ قیاس ضرور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے ابتدائی زمانے میں جب کہ *ربع مسکون* پر انسانی آبادی تعداد نفوس کے اعتبار سے بہت کم ہوگی ۔ عموما سب کی اخلاقی حالت ایک ہی درجہ کی ہوگی۔ *بنی اسرائیل* کے عروج و ترقی سے پیشتر اور *عرب بائدہ* کے بعد *قحطانی عربوں* کے دور دورہ میں عرب کے اندر بہت سی حکومتوں اور سلطنتوں کا پتہ چلتا ہے، لیکن کسی زمانہ میں بھی کوئی ایک سلطنت تمام ملک عرب پر قابض و متصرف نہیں ہوئی ۔ صوبہ صوبہ میں علیحدہ علیحدہ حکومتیں قائم تھیں اور ان میں بعض زیادہ مشہور بھی تھیں ۔ تاہم ملک کے اندر آزاد گروہ خانہ بدوشی کے عالم میں اونٹوں پر اپنے خیمے اور چھولداریاں لادے ہوئے سفر کرتے اور پھرتے ہوئے دیکھے جاتے رہے ہیں ۔ سبزہ پانی ضروریات زندگی کی نایابی نے اہل عرب کو ہمیشہ آواره و سرگرداں اور اس مدامی سفر نے ان کو ہمیشہ جفاکش اور مستعد رکھا۔ ضروریات زندگی کی کمی نے ان کے تمدن کو ترقی کرنے نہیں دی اور ان کی معاشرت میں کوئی نمایاں اور اصلاح اور قابل تذکرہ تغیر واقع نہ ہوا۔ مشاغل کی کمی اور مناظر کی یک رنگی نے ان کی فرصتوں کو بہت وسیع اور فارغ اوقات کو بہت طویل کر دیا تھا۔ ریگستانوں کی وسعت و کثرت پیداوار ملکی اور قیمتی اشیاء کی باپیدگی آبادیوں اور شہروں کی قلت نے کسی بیرونی فتح مند قوم اور ملک غیر بادشاہ کو ملک عرب کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا۔ سیاحوں اور تاجروں کے متوجہ کر لینے کا بھی کوئی سامان اس جزیرہ نما میں نہ تھا لہذا غیر قوموں اور دنیا کے دوسرے ملکوں کی ترقیات سے اہل عرب عموما بے خبر رہے اور کسی بیرونی ملک اور بیرونی قوم کے تمدن، اخلاقی اور معاشرت سے اہل عرب متاثر نہ ہو سکے۔

     خواجہ حالی نے عرب کی نسبت بالکل صحیح لکھا ہے ۔

نہ وہ غیر قوموں پر چڑھ کر گیا تھا
               نہ اس پر کوئی غیر فرماں روا تھا



                         🔴مفاخرت🔴

     ان حالات میں ظاہر ہے کہ *اہل عرب* کے اندر دو ہی چیزیں خوب ترقی کر سکتی تھیں ۔ ایک شعر گوئی جس کے لیے وسیع فرصتیں اور کھلے میدان میں راتوں کو بیکار پڑے رہنا کافی محرک تھے۔ دوسرے حفاظت خود اختیاری کی مسلسل مشق اور صعوبت کشی کی عادت نے ان کو جنگ و پیکار اور بات بات پر معرکہ آرائی اور زور آزمائی کا شوقین بنادیا تھا۔ آپس میں معرکہ آرائیوں کے میدان گرم رکھنے کے سبب وہ خودستائی اور باہمی تفاخر کی جانب بھی زیادہ مائل ہو گئے تھے۔ فخر و تعلی کے لیے بہادری اورسخاوت دو مضمون بہت دلچسپ تھے۔ بے کاری اور شاعری نے ان کو عشق بازی اور ان کے امراء کو شراب خوری کی طرف بھی متوجہ کر دیا تھا۔ بہادری اور سخاوت نے ان کو اعلی درجہ کا مہمان نواز اور قول و قرار کا پکا بنا کر حق تکریم بنادیا تھا۔ جو تیر اندازی مشاعرۓ مفاخرت مسابقت وغیرہ ان کے دل بہلانے کے مشائل تھے ۔ غرض کہ عرب والوں کے اخلاق ملک عرب اور اس کی آب و ہوا کے بے ساختہ طور پر مرتب کر دیئے تھے۔ عرب بائدہ کی طرف حضرت *ہودؑ* حضرت *صالحؑ*  وغیرہ کئی نبی مبعوث ہوئے اور ان انبیاء کی نافرمانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تمام ہلاک و برباد ہوا۔ دوسرے طبقہ یعنی *قحطانی عربوں* کی طرف بھی بعض ہادی مبعوث ہوئے اور اہل عرب بہت کم ان کی طرف متوجہ ہو سکے۔ چنانچہ نافرنیوں اور سرکشیوں کی پاداش میں بار بار ان پر بھی ہلاکتیں وارد ہوئیں۔ اس ملک کے باشندوں کی سرکشی و آزاد مزاجی نے ان کو تعلیمات انبیاء سے بھی زیادہ مستفیض نہ ہونے دی۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ پر بھی اس ملک کے تھوڑے سے آدمی ایمان لائے تھے۔ دین و مذہب کے معاملہ میں ان کے فخر نسب اور خود ستائی نے ان کو اپنے نبی بزرگوں کی مدح سرائی پر متوجہ کر کے بآسانی مشاہیر پرستی پر آمادہ کر کے اور بالآخر انہیں کے ناموں کے بتوں کی پوجا کا عادی بنا دیا تھا۔ بت پرستی نے ان کو اوہام پرستی اور عجیب عجیب حماقتوں میں مبتلا کر دیا تھا۔ جب قحطائی قبائل کا زور ملک میں کم ہونے لگا اور بنی اسماعیل یا عدنانی قبائل نے زور پکڑنا شروع کیا تو *قبیلہ خزاعہ* کی مکہ پر چڑھائی اور قبیلہ جرہم کی شکست نے عدنانی قبائل کو اطراف ملک میں پریشان و آوارہ کرکے حجاز میں بنی اسرائیل کے ابھرتے ہوئے زور کو سخت صدمہ پہنچایا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے ہر حصہ اور ہر صوبہ میں *عدنانی و قحطائی قبائل ایک دوسرے کے ہمسر و مد مقابل نظر آنے لگے اور اس طرح تمام جزیرہ نمائے عرب میں آزاد *مطلق العنان* چھوٹے چھوٹے قبائل کے سوا کوئی بھی بڑی اور قابل تذکرہ حکومت باقی نہ رہی ۔ اگر چہ ملک عرب کی بڑی بڑی سلطنتیں بھی *طوائف الملوکی* سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھیں اورکسی عربی بادشاہ کی حکومت اپنی رعایا پر ایسی بھی نہ تھی جیسی کہ *فارس* کے کسی معمولی سے *جاگیردار* یا اہل کار کی باشندگان فارس پر ہوتی تھی۔ تاہم اس *طوائف الملوکی* اور قبائل کی آزادی کے زمانے میں ملک عرب کے اندر بد *تمیزیوں ناہنجباریوں بداخلاقیوں* نے اور بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی اور یہ ترقی اپنی پوری تیز رفتاری اور زبردست طاقت کے ساتھ اس وقت تک جاری رہی جب تک اس تاریک تر ملک عرب میں آفتاب اسلام طلوع ہوا۔

      اہل عرب کی بڑی تعداد خانہ بدوشی کی حالت میں رہتی تھی اور بہت ہی تھوڑے لوگ تھے جو قصبوں اور آبادیوں میں مستقل سکونت رکھتے تھے۔ اہل عرب کو اپنے *نسب کے سلسلے* یاد اور محفوظ رکھنے کا بہت شوق تھا۔ آبا و اجداد کے ناموں اور کاموں کو وہ فخریہ بیان کرتے اور اسی ذریعہ سے لڑائیوں میں جوش اور بہادری دکھانے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ ملک کی آب و ہوا کا اثر تھا یا نسب دانی کے شوق کا نتیجہ تھا
کہ اہل عرب کی قوت حافظہ بہت زبردست تھی ۔ کئی کئی سو اشعار کے قصیدے ایک مرتبہ سن کر یاد کر لینا اور نہایت صحت کے ساتھ سنا دینا ان کے لئے معمولی بات تھی ۔ *شاعری اور قادر الکلامی* کے عام شوق نے ان کی زبان کو اس قدر ترقی یافتہ حالت تک پہنچا دیا تھا کہ وہ بجا طور پر تمام غیر عرب کو *عجم* یعنی گونگا کہتے تھے۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی کسی دوسرے قبیلہ کے ہاتھ سے مارا جاتا تو جب تک تمام قبیلہ اس دوسرے قبیلہسے اپنے مقتول کا بدلہ نہ لے لے چین سے نہیں بیٹھتا تھا۔ قصاص نہ لینا اور خاموش ہو کر بیٹھے رہنا ان کے نزدیک بڑی بھاری بے عزتی کی بات سمجھی جاتی تھی۔ *خانہ کعبہ کی عظمت اور بیت الله کا حج* تمام قبائل عرب میں ہر زمانہ میں مروج رہا ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا اور ظالم کے مقابلہ پر مستعد ہونا بھی ان میں ایک خوبی سمجھی جاتی تھی ۔ 

≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠≠



         تاریخ اسلام جلد ❶ 
      

               🌹  ͜͡ ۝͜͡  🌹

Post a Comment

0 Comments