حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ

حضرت عبداللہ  بن جحش رضی اللہ عنہ





بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

✨باذن اللہ تعالی✨

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

۔حضرت عبداللہ  بن جحش رضی اللہ عنہ

"وہ پہلا عظیم صحابی جسے امیر المومنین کے لقب سے پکارا گیا۔"



اب ہم آپ کے سامنے ایک ایسے جلیل القدر صحابی کا تعارف پیش کریں رہے ہیں ۔

جنہیں کئی اعتبار سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب حاصل تھا اور آپ کا شمار ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں  ہوتا تھا جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی ۔

آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے ۔ یہ اس طرح کے آپ کی والدہ امیمہ بنت عبدالمطلب آللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتے میں پھوپھی لگتی تھیں ۔

اور آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسبتی بھائی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا ۔
کیونکہ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ تھیں ۔

یہ وہ پہلے خوش نصیب شخص ہیں جن کے ہاتھ میں اسلام کا پرچم تھاما گیا اور انہیں یہ خوش قسمتی بھی حاصل ہے کہ ان کو سب سے پہلے امیر المومنین کیا گیا ۔

یہ عظیم المرتبہ صحابی حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی خفیہ انداز میں دین کی دعوت پیش کرنے کے لیے دار ارقم میں تشریف فرما تھے: کہ حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہو گئے اس لیے آپ کو اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل ہے ۔

جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ایذا رسائیوں کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا۔

توحضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ فہرست میں دوسرے نمبر پر اور حضرت ابو سلمہ سرفہرست تھے ۔

ہجرت کرنا یعنی راہ خدا میں اپنا گھر چھوڑنا حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ یہ اور ان کے بعض قریبی رشتہ دار اس سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے ۔

لیکن اس دفعہ ہجرت کا پروگرام پہلے کی نسبت وسیع پیمانے پر تھا ۔ اس لیے کہ تمام اہل خانہ، رشتہ دار عزیز مرد اور عورت بوڑھے جوان سب ہی شامل تھے ۔

کیونکہ یہ پورا خاندان مسلمان ہو گیا تھا تو جب یہ مدینہ منورہ داخل ہوا تو ان کے گھروں میں ویرانی پھیل گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان گھروں میں کبھی کوئی شخص آباد نہ ہوا تھا
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا ہجرت کیے کہ قریش کے سرداروں نے مکہ معظمہ میں  چکر لگانے شروع کر دیے ۔

تاکہ معلوم کر سکیں کہ کن مسلمانوں نے ہجرت کا راستہ اختیار کیا ہے اور کون کون یہاں آباد ہیں۔

یہ معائنہ کرنے میں ابو جہل اور عتبہ بن ربیعہ بھی تھے۔ عتبہ نے بنو جحش کے گھروں کو دیکھا کہ تیز ہوائیں چل۔رہی ہیں اور ان میں گردوغبار ہے۔
اور یہ گھر ویران پڑے اپنے مکینوں کو تلاش رہے ہیں ۔

ابو جہل نے کہا : یہ کیسے لوگ ہیں کہ ان کو اپنے گھروں کی بھی پروا نہیں ۔

ابو جہل نے حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کہ عالیشان گھر پر قبضہ کر لیا اور اس میں باقاعدہ طور پر رہائش اختیار کر لی ۔

جب حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہیں بڑا افسوس ہوا ۔


رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبداللہ کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ اللہ تیرے لیے جنت میں ایک گھر بنا دے ؟عرض کی، کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جنت میں تیرا گھر بن چکا ہے یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے ۔


حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو ابھی یکے بعد دیگرے دو ہجرتوں کے بعد مدینہ منورہ میں قرار ملا ہی تھا اور قریش کے ہاتھوں بے پناہ اذیت اٹھانے کے بعد انصار کی ہمدردی میں تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔


اور تھوڑی ہی راحت کے بعد ان کو اپنی زندگی کے کٹھن امتحان اور تلخ تجربے سے گزرنا پڑا ۔
اس کو ذرا غور سے سنیں ۔


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پہلا قافلہ فوجی مہم کے لیے تیار کیا وہ آٹھ افراد پر مشتمل تھا اور اسی  عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور سعید بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلہ کے فوجیوں سے ارشاد فرمایا: آج میں تمہارا امیر تم میں سے ایک ایسے شخص کو مقرر کرتا ہوں جو تم۔میں سب سے زیادہ بھوک اور پیاس برداشت کرنے والا ہے ۔

پھر پرچم حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا ۔ یہ عالم اسلام کی وہ پہلی شخصیت ہیں جن کو سب سے پہلے فوجی دستے کا پرچم دیا گیا اور امیر مقرر کیا گیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو خصوصی ہدایات جاری کی اور ایک خط دے کر انکو میم پر روانہ کر دیا ۔

اور فرمایا: کہ وہ دو دن کے سفر کے بعد اس خط کو کھولیں ۔جب انہوں نے دو دن کا سفر مکمل۔کیا تو اس خط کو کھولا اور اس میں  یہ تحریر تھی ۔

جب تم میرے اس خط کو پڑھ لو تو آگے چلتے جانا اور جب مکہ اور طائف کے درمیان ایک نخلستان آئے تو وہاں پڑاؤ ڈال لینا اور وہاں پر بیٹھ کر قریش پر کڑی نگاہ رکھنا اور ہمیں قریش کی خبر دینا ۔

حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کیا حکم دیا ہے اور فرمایا: کہ تم میں  سے جس کو شہادت کا شوق ہو وہ میرے ساتھ چلے اور جس کو شہادت کا شوق نہیں ہو وہ بڑی خوشی سے واپس جا سکتا ہے ۔ 

اس فوجی دستے کے ہر فرد نے یہی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم۔ چشم ما روشن دل ماشاد۔

ہم تو آپ کے ساتھ وہیں جائیں گے جہاں پر آپ کو جانے کا حکم دیا گیا ہے۔

سب مجاہد ایک ساتھ آگے بڑھے۔ یہاں تک کہ نخلستان تک پہنچ گئے اور ہر طرف راستوں پر پھیل گئے تاکہ قریش کی حرکات کا پتہ چلا سکیں ۔ گشت کے دوران انہوں نے چار افراد پر مشتمل تاجروں کا ایک قافلہ دیکھا جس میں عمرو بن جعفری' حکم بن کیسان' عثمان بن عبداللہ اور مغیرہ شامل تھے اور ان کے پاس کے پاس قریش کا مال و تجارت  وافر مقدار میں تھا

مجاہد آپس میں مشورہ کرنے لگےکہ اب کیا کریں یہ حرمت کے مہینوں کا آخری دن ہے۔ اگر ہم انہیں قتل کر دیں تو یہ حرمت کا مہینہ ہے' اس مہینہ میں کسی کا خون بہانا درست نہیں اور پھر اس سے تمام عربوں میں بے چینی پھیل جائے گی۔ اگر ہم نے انہیں کچھ مہلت دے دی' تو یہ شام تک حرم کی حدود میں داخل ہو جائیں گے اور اس طرح یہ ہم سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

کافی غور و فکر کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے اور کچھ ان کے قبضہ میں ہے اسے قابو کر لیا جائے۔ یہ فیصلہ کرتے ہی اس تجارتی قافلہ پر حملہ کر دیا۔ان میں سے ایک کو قتل کر دیا، دو کو گرفتار کر لیا اور چوتھا بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔

حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی دونوں قیدیوں اور سامان سے لدے ہوئے اونٹ ہانک کر مد ینہ لے آئے جب یہ قافلہ رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کی اس کاروائی کو ناپسند کیا۔

اور ان سے کہا: میں نے تو آپ کو کاروائی کا حکم نہیں دیا تھا۔ میں نے تو تمھیں صرف یہ حکم دیا تھا کہ قریش کی نقل و حرکت پہ نگاہ رکھیں اور ان کی خفیہ کاروائیوں سے ہمیں مطلع کرتے رہیں ۔ دونوں قیدیوں کو تو آپ ﷺ پاس ٹھہرائے رکھا تاکہ ان کے متعلق کو ئی مناسب فیصلہ کر لیں اور سامان میں سے کسی چیز کو ھاتھ نہ لگایا۔ رسول اللہ ﷺ کے تیور دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جحش رضي الله عنه اور ان کے ساتھی حواس باختہ ہو گئے اور اس بات کا شدت سے احساس کہ ہم تو آپ ﷺ کی حکم عدولی کر کے ہلاک ہو گئے۔

اور مزید تکلیف دہ صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ تمام صحابہ رضي الله عنہم  نے ان سے بائیکاٹ کر دیا،جو بھئ سامنے آتا منہ پھیر کر گزر جاتا۔ سب کی زبان پر یہی کلمہ تھا کہ یہ وہ اشخاص ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کا حکم نہیں مانا۔۔۔۔۔


اس وقت تو ان کی پریشانی کی کوئی انتہا نہیں رہی جب انہیں اس بات کا علم ہوا کہ قریش اس واقعہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لینے کے لیے اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں ۔

اور تمام قبائل میں یہ پروپیگنڈہ رہے گا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت والے مہینے کو حلال قرار دے دیا ۔ اس میں انہوں نے ناحق خون بہایا' مال چھینا' بے گناہوں کو گرفتار کیا۔

حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بہت غم ہوا اور وہ سخت پریشانی میں  مبتلا ہو گئے۔ 

ایک دن یہ غم و اندوہ اور پرشیانی کی تصویر بنے بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے ان کو مبارک باد دی کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے تمہیں بری کر دیا ہے ۔

اللہ رب العزت تمہارے اس کارنامے پر راضی ہو گیا اوراس سلسلے میں نبی ﷺ پر قرآن نازل کر دیا ہے۔ یہ خبر سن کر وہ خوشی سے اچھل پڑے ۔


اور اب یہ حال ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خوشی سے  ان کو مل رہے ہیں اور ان کو مبارک باد دے رہے ہیں اور ان آیات کی تلاوت کر رہے ہیں جو ان کے حق میں نازل ہوئی تھیں ۔


ان کی بریت کے سلسلہ میں قرآن مجید میں یہ آیات نازل ہویئں ۔

🌷217: يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ○

217: (اے محمدﷺ) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں لڑنا بڑا (گناہ) ہےاور خدا کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا)۔ اور اہل مسجد کو اس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں) خدا کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے۔ اور فتنہ انگیزی خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر مقدور رکھیں تو تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں۔ اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں جس میں ہمیشہ رہیں گے (سورة البقرة )


جب یہ آیات کریمہ نازل ہوئیں تو رسول اللہﷺ بہت خوش ہوئے۔ مال و تجارت بطور فدیہ قبضہ میں لے کر قیدیوں کو آزاد کر دیا اور حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی۔

 اسے تاریخ اسلام کا سب سے بڑا معرکہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ معرکہ جس میں مال غنیمت حاصل کیا گیا۔ اسی میں مسلمانوں کے ہاتھ پہلا مشرک قتل ہوا اور اس میں سب سے پہلے دو دشمن گرفتار ہوئے۔

اسلامی تاریخی میں یہ پہلا پرچم ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے تیار کر کے امیر قافلہ کے ہاتھوں دیا اور حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جنہیں پہلی مرتبہ "امیر المومینین" کے لقب سے پکارا گیا۔
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے میدان بدر میں بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیئے لیکن غزوہ احد میں تو آپ نے کما کر دیا۔
حضرت سعد بن ابی و قاص رضی اللہ عنہ ایک ناقابل فراموش واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب احد کی جنگ شروع ہوئی تو حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ مجھے ملے اور فرمایا:

کیا تم اللہ سے کوئی دعا نہیں کرو گے میں نے عرض کی کیوں نہیں! ہم ایک گوشے میں الگ ہو گئے اور میں نے اللہ کے حضور یہ دعا کی۔

پروردگار عالم جب میں دشمن کے سامنے آؤں تو مجھے ایسے شخص سے پنجہ آزمائی کا موقع دینا ۔

جو بڑا ہی بہادر ہو اور جنگجو ہو اور انتہائی غصیل ہو ۔ میں اس سے لڑوں اور وہ مجھ سے لڑے ۔ پھر مجھے اس پر غلبہ عطا فرما اور میں اس کو قتل کر دوں اور اس کے سارے مال پر قبضہ کر لوں ۔


حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ نے میری دعا پر آمین کہا ۔

اور پھر خود یہ دعا مانگنے لگے:

الہی ! مجھے ایسے شخص سے پنجہ آزمائی کا موقع دینا ۔جو بڑا ہی بہادر ہو اور جنگجو ہو اور انتہائی غصیل ہو ۔ میں اس سے لڑوں اور وہ مجھ سے لڑے اور میں تیری رضا کے لیے لڑوں پھر وہ مجھے قابو کرنےمیں کامیاب ہو جائے اور وہ میری ناک اور کان کاٹ ڈالے اور میں قیامت کے دن آپ کے سامنے اسی حالت میں آؤں ۔

اور پھر اے اللہ تو مجھ سے سوال کرے ۔عبداللہ  کس لیے تیری ناک اور کان کاٹے گئے؟ تو میں عرض کروں کہ اللہ تیری رضا کی خاطر ۔۔
اور آپ کی طرف سے مجھے یہ جواب ملے ۔اے عبداللہ تو سچ کہتا ہے ۔


حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی دعا میری دعا سے بہت بہتر تھی اور اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی ۔

میں نے سر شام دیکھا کہ دشمن نے ان کو قتل کر دیا اور ان کی ناک اور کان کاٹ کر ایک درخت کے ساتھ لٹکائے ہوئے ہیں ۔


اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور انکو شہادت کا شرف حاصل ہوا۔ جیسا کہ ان کے ماموں سیدالشہدا  حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا اور آپ کے پاکیزہ آنسو ان کی قبر کو سیراب کر رہے تھے ۔
اور خوشبو پھیل رہی تھی ۔


🌴بارک اللہ فیکم🌴


========= ختم شدہ۔۔۔۔
 

تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر 
 
طالب دعا۔۔ لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments