بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
✨باذن اللہ تعالی✨
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه
*صحابہ کرام رضی اللہ عنہم*
حضرت ابو طلحہ زید بن سہل انصاری رضی اللہ عنہ
*"ابو طلحہ کے مہر سے بہتر ہم نے کوئی مہر نہ دیکھا جو اس نے اپنی بیوی ام سلیم کو دیا"*
ابو طلحہ زید بن انصاری کو جب معلوم ہوا کہ ام سلیم رمیصاء بنت ملحان نجاریہ بیوہ ہو چکی ہے، چند روز پہلے اس کا خاوند فوت یو گیا ہے تو بہت خوش ہوئے ۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی چونکہ ام سلیم اک پاکدامن دانشمند سلیقہ شعار حسین و جمیل اور سگھڑ خاتون تھی ان کے جی میں آیا کہ کیوں نہ پہلی فرصت میں نکاح کا پیغام بھیجا جاے مبادہ کہ کوی اور چاہنے والا سبقت لے جائے اس صورت میں اس دل پسند سلیقہ شعار اور معزز خاتون سے محروم رہ جاؤں۔
ابو طلحہ کو اپنے آپ پر بڑا اعتماد تھا کہ ام سلیم مجھے مسترد کر کے کسی دوسرے شخص کو اپنے لیے منتخب نہیں کرے گی۔
اس لیے کہ میں جوان رعنا ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہر دلعزیز اور صاحب ثروت ہوں اس کے علاوہ مجھے بنو نجار کا شہسوار اور یثرب کا ایک ماہر تیر انداز ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ام سلیم کے گھر کی طرف روانہ ہوے.چلتے چلتے راستے میں خیال آیا کہ ام سلیم نے مبلغ اسلام حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی دعوت و تبلیغ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا ہے۔اس بنا پر کہیں مجھے وہ مسترد نہ کر دے لیکن ساتھ ہی یہ خیال آیا کوئ بات نہیں اس میں کیا حرج ہے ؟
اس کا خاوند بھی تو اپنے آباؤاجداد کا پیروکار تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے پہلو تہی کیے ہو ئےتھا۔
بہر حال ابو طلحہ رضی اللہ عنہ ام سلیم کے گھر پہنچے.اندر آنے کی اجازت طلب کی.اس نے اجازت دے دی ام سلیم کا بیٹا انس بھی گھر میں موجود تھا ابو طلحہ نے مدعا بیان کرتے ہوےنکاح کا مطالبہ کر دیا۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تجھ جیسے شخص کو رد تو نہیں کیا جا تا.لیکن میں تجھ سے ہر گز شادی نہیں کروں گی اس لیے کے تم کافر ہو ابو طلحہ نے سمجھا کہ ام سلیم بہانہ کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے کسی ایسے شخص کو منتخب کر لیا ہو جو مجھ سے زیادہ مالدار اور باعزت ہو۔
یہ خیال آتےہی ابو طلحہ نے ام سلیم سے کہا اے ام سلیم اللہ کی قسم!
میرا کافر ہونا تجھے شادی سے نہیں روک رہا۔
ام سلیم نے پو چھا تو کیا چیز روک رہی ہے؟
ابو طلحہ نے کہا کہ سونے چاندی کی چمک دمک۔
کہنے لگی اچھا سونا چاندی میری آنکھو ں کو خیرہ کیے ہوئے ہے؟
بو لے ہاں۔
کہنے لگی:اے ابو طلحہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ و سلم اور تجھے گواہ بنا کر کہتی ہوں اگر تو مسلمان پو جاے تو میں تیرے ساتھ شادی کر لوں گی اور میں تجھ سے کوئی سو نے چاندی کا مطالبہ نہیں کروں گی ۔بلکہ تیرا اسلام ہی میرا مہر ہو گا۔
ابو طلحہ ام سلیم کی یہ بات سن کر سوچ میں ڈوب گیا فوراً ذہن اپنے اس بت کی طرف پلٹا جسے اس نے بہت عمدہ لکڑی سے تیار کروایا تھا اور یہ بت اس کے لیے مخصوص تھا.جیسا کہ اس قوم کے سرداروں میں رواج تھا کہ ہر سردار اپنے لیے نہایت عمدہ نفیس اور اعلئ قسم کی لکڑی سے بت تیار کرواتا.جبکہ وہ گہری سوچ و بچار میں غلطاں و پریشان تھا تو ام سلیم نے گرم لوہے پر ایک ضرب لگائی فرمانے لگیں:
ابو طلحہ! کیا تم جانتے ہو کہ وہ معبود جس کی تم عبادت کرتے ہو. وہ زمین سے پیدا ہوا ہے
ابو طلحہ زید بن انصاری نے کہا: ہاں
ام سلیم فرمانے لگی: تمہیں شرم نہیں اتی کی درخت کے ایک ٹکڑے کو اپنا معبود بناتے ہو اور دوسرے ٹکڑے کا ایندھن بنا کر آگ سینکتے ہو اور اس کے ڈریعے روٹی پکاتے ہو۔
اے ابو طلحہ اگر تو مسلمان یو جائے تو میں تجھ سے شادی کر لوں گی اور اسلام کے علاوہ کسی مہر کا تجھ سے مطالبہ نہیں کروں گی۔
یہ سن کر ابو طلحہ بولے مجھے اسلام میں داخل ہونے کا طریقہ کون بتائے گا؟
ام سلیم نے کہا:
وہ طریقہ میں بتاؤں گی!
کہا کیسے؟
فرمایا : "پہلے لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھو" ۔ پھر اپنے گھر جاو اپنے بت کو پاش پاش کر کے گھر سے باہر پھینک دو۔
یہ سن کر اب طلحہ کا چہرہ کھل اٹھا اور بلند آواز سے کہنے لگا:
اشھد ان لا الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
اس کے بعد ام سلیم نے ان سے شادی کر لی ۔ مسلمان کہا کرتے تھے کہ ہم نے ام سلیم سے بہتر مہر کسی کا نہیں دیکھا ۔
اس نے اپنا مہر اسلام ہی کو قرار دیا۔
اس دن سے ابو طلحہ اسلام کے جھنڈے تلے آ گئے اور اپنی تمام تر طاقت اور سر بلندی کے لئے صرف کرنے لگے۔ آپ ان ستر خوش نصیب اشخاص میں شامل ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت عقبہ کا شرف حاصل ہوا اور ان کے ہمراہ ان کی بیوی ام سلیم بھی اس کار خیر میں شریک تھی۔
یہ بارہ نقیبوں میں تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب میں آباد مسلمانوں کی حفاظت اور نگہبانی کے لیے بیجھا اور خدمت کے لئے امیر مقرر کیا تھا
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے دل میں آپ کی محبت گھر کر چکی تھی اور یہ محبت ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر چکی تھی۔ نوطت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ آنکھیں دیدار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیر نہ ہوتیں اور دل آپ کی شیریں کلامی سے لطف اندوز ہونے کا یر دم مشتاق رہتا جب بھی فارغ وقت ملتا تو آپ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے اور محبت بھرے انداز میں یوں فرماتے :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری جان آپ پر قربان، میری عزت آپ پر نچھاور ۔
غزوہ احد میں ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمان پسپا ہو کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مجبورا کچھ فاصلے پر چلے گئے۔ مشرکین نے ہر طرف سے حملہ کر دیا۔ آپ کے دو دانت شہید کر دئے پیشانی ہونٹ زخمی ہو گئے اور چہرے سے خون کے فوارے پھوٹ نکلے۔ افواہ پھیلانے والوں نے یہ مشہور کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دئیے گئے ہیں۔
یہ اندوہناک خبر سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے اور یہ مایوسی کے عالم دشمن کے آگے لگ کر بھاگ نکلے اس خطرناک موقع پر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ہمراہ چند صحابی میدان کار زار میں جمے رہے اور ان میں سر فہرست حضرت ابو طلحہ تھے۔
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ڈھال بن کر چٹان کی طرح جمے رہے۔
تھوڑی دیر بعد حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کمان سنبھالی تیر درست کئے اور یکے بعد دیگرے مشرکین کو نشانہ بنانے لگے یہ اتنے ماہر تیر انداز تھے کہ ان کا کوئی بھی نشانہ خطا نہیں جاتا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایڑیاں اٹھا کر اس کا ہر نشانہ دیکھنے لگے یہ صورت حال دیکھ کر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پا قربان، میری جان اور جسم کا ہر حصہ آپ پر نثار۔ آپ اس طرح دشمن کو نہ جھانکیں خطرہ ہے کہ کہیں وہ آپ کو نشانہ نہ بنا لیں۔
اتنے آپ کیا دیکھتے ہیں کہ لشکر اسلام میں ایک مجاہد تیروں سے بھرا ہوا ترکش اٹھائے بھاگا جا رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی: ارے بھاگنے والے! یہ تیر ابو طلحہ(رضی اللہ عنہ ) کے سامنے پھینک دے تاکہ یہ اس کے کام آ سکیں بھاگتے ہوئے اپنے ساتھ مت لے جا۔
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مسلسل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے رہے یہاں تک کہ تین کمانیں ٹوٹ گیئں اور بے شمار دشمن موت کے گھاٹ اتار دئے پھر لڑائی ختم ہوئی اور اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بال بال بچا لیا
جیسا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ دوران جنگ اللہ کی راہ میں اپنی جان نثار کر دینے کے لئے سخی تھے، اسی طرح راہ اللہ میں اپنا مال خرچ کرنے میں سخاوت کے دھنی تھے۔ مدینہ منورہ میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی ملکیت کھجور اور انگور کا ایک بہت بڑا باغ تھا جس کی مثال نہیں ملتی تھی اس کے پھل بہت عمدہ اور پانی نہایت میٹھا تھا- ایک روز حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اپنے باغ میں سایہ دار درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے تھے۔ کہ ایک سبز رنگ ، سرخ چونچ اور گلابی پاؤں والا خوبصورت پرندہ اس درخت کی ٹہنی پر بیٹھ کر بڑی سریلی اور تمام تر توجہ اس کی طرف ہو گئی اور یہ دلکش آواز میں اتنے محو ہوئے کہ یہ یاد نہ رہا کہ رکعت پڑھ چکے ہیں؟
دو رکعت ' تین رکعت ' کچھ یاد نہیں جب نماز سے فارغ ہوئے سیدھے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ ماجرا کہہ سنایا' باغ کے دلفریب منظر ' پرندے کی دلسوز اواز ' پودوں کی بھینی بھینی خوشبو سے نماز میں پیدا ہونے والی غفلت کا شکوہ کیا اور ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا :
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ رہنا میں نے یہ باغ اللہ کے لئے وقف کر دیا۔
اب آپ اپنی پسند کے مطابق جہاں چاہیں اسے صرف کریں۔
حضرت ابو طلحہ نے روزے دار اور مجاھد کے روپ میں تمام زندگی بسر کی جب موت آئی اس وقت بھی آپ روزے کی حالت اور جہاد کے سفر پر تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تیس سال زندہ رہے ایام عید کے علاوہ کبھی روزہ نہیں چھوڑا لمبی زندگی پائی - بڑھاپا بھی جہاد کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا دین الہی کے غلبے اور کلمتہ اللہ کے لئے دور دراز سفر کرتے رہے ۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں نے ایک جنگ کے سلسلے میں بحری سفر اختیار کیا تو حضرت ابو طلحہ بھی قافلے کے ساتھ روانہ ہونے کے لئے تیار ہونے لگے بوڑھے باپ کو تیار ہوتے دیکھ بیٹوں نے کہا:
ابا جان اللہ آپ پر رحمت کرے۔اب آپ بوڑھے ہو چکے ہیں آپ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر بہت جنگیں لڑیں از راہ کرم آپ آرام کریں اب ہماری باری ہے ہم آپ کی جانب سے جنگ لڑیں گے۔ بیٹوں کی بات سن کر فرمانے لگے بیٹو سنو! اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
انفرو خفافا و ثقالا وجاھدو باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ
ہلکے اور بوجھل نکل کھڑے ہو اور اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔
اس نے ہم سب کو جہاد میں نکلنے کا حکم دیا ہے عمر کی کوئی قید نہیں لگائی اور لشکرے اسلام کے ساتھ جہاد کے لئے روانہ ہو گئے
یہ عمر رسیدہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ لشکر اسلام کے ساتھ کشتی پر سوار سمندر کے بسط میں مصروف سفر تھے کہ شدید بیمار ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
مسلمان ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے لئے کسی جزیرے کی تلاش کرنے لگے، لیکن انہیں سات دنوں میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی لاش تروتازہ رہی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے آرام کی ننید سو رہے ہیں۔
سمندر کے دامن میں۔۔۔۔۔۔
اہل خانہ اور وطن سے دور۔۔۔۔
خاندان اور گھر سے دور۔۔۔۔
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا گیا۔
یہ دوری ان کو کوئی نقصان نہ دے گی کیونکہ یہ اپنے اللہ سبحانہ و تعالی کے قریب ہیں۔
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
1۔ الاصابہ : 566/1
2۔ اسد الغابہ( مترجم): 1434
3۔ الاستیعاب : 1834
4۔ الطبقات الکبری : 504/3
5۔ صفتہ الصفوہ : 190/1
6۔ تاریخ الطبری : 414/3
7۔ تھذیب ابن عساکر : 192/4-181-124/3-619-/2
سیرت ابن ھشام : فہرست دیکھئے
9۔ حیات الصحابہ : چوتھی جلد کی فہرست دیکھئے
🌴بارک اللہ فیکم🌴
============>ختم شد
تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا
ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر
طالب دعاء ---- لقمان قاسمی
0 Comments