ام المومنین حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان

 ام المومنین حضرت ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان 





بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


ام المومنین حضرت ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا بنت ابی سفیان



*ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اللہ و رسول کو دنیا کی ہر چیز پر ترجیج دی اور کفر کی طرف لوٹنے کو اسی طرح ناپسند کیا جیسے کوئی شخص آگ میں چھلانگ لگانے کو نا پسند کرتا ہے (مورخین)*




ابو سفیان کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ قریش کا کوئی فرد اس کی حکم عدولی یا کسی اہم معاملے میں اس کی مخالفت کی جرآت کر سکتا ہے، کیونکہ وہ مکہ مکرمہ کا ایسا سردار تھا جس کی باشندگان مکہ عزت اور اطاعت کیا کرتے تھے، لیکن ام حبیبہ رملہ رضی اللہ عنہا نے اپنے باپ کے خداؤں کا انکار کر کے اپنے بارے میں خوش فہمی کو خاک میں ملا دیا یہ اور ان کا خاوند عبد اللہ جحش اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لے آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا صدق دل سے اعتراف کر لیا۔    



ابو سفیان نے اپنی بیٹی اور داماد کو اپنے آبائی دین کی طرف لوٹانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ اس مشن میں کامیاب نہ ہو سکا، کیونکہ جو ایمان رملہ کے دل میں اتر چکا تھا ، اس کی جڑیں اتنی گہری ہو چکی تھی کہ ابو سفیان کی طرف سے بپا کیا گیا ظلم و ستم کا طوفان اسے اکھاڑ نہ سکا اور نہ ہی اس کا غلیظ و غضب ان کے پائے استقلال میں کوئی لرزش پیدا نہ کر سکا۔




حضرت رملہ رضی اللہ عنہا کے اسلام لانے کی وجہ سے ابو سفیان پر غم واندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، اپنی بیٹی کو رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے باز رکھنے اور اپنی مشیت کے تابع بنانے سے عاجز آ جانے کے بعد ہر دم اسی سوچ و بچار میں پڑا رہتا کہ اب میں قریش کے سامنے کیا منہ لے کر جاوں؟ وہ میرے متعلق کیا خیال کرتے ہوں گے کہ میرے جیتے جی بیٹی آباءواجداد کے دین کو ترک کر چکی ہے۔




جب قریش کو معلوم ہوا کہ ابو سفیان کی اپنی بیٹی رملہ اور داماد پر ناراض ہے تو انہوں نے ان دونوں کا عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کر دیا اور طرح طرح کی اذیتیں دینی شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ ان دونوں کو مکہ میں میں زندگی گزارنا مشکل ہو گیا۔




جب رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا تو رملہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا اور ان کا خاوند عبد اللہ جحش ان مہاجرین میں سر فہرست تھے ۔ جو دین و ایمان کی حفاظت کے لئے نجاشی کی پناہ گاہ کی طرف سرپٹ بھاگ نکلے تھے


ابو سفیان بن حرب اور دیگر زعمائے قریش کو یہ بات بڑی شاق گزری کہ مسلمان ان کے ہاتھوں سے نکل کر سر زمین حبشہ چین و آرام کی زندگی بسر کر نے لگیں قریش نے نجاشی کے  پاس  اپنے قاصد بھیجے، تاکہ وہ مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کریں اور پرزور یہ مطالبہ کریں کہ پہلی فرصت میں ان کو ہمارے حوالے کر دیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ لوگ عیسی علیہ سلام اور ان والدہ مریم کے متعلق ایسے  عقائد و نظریات رکھتے ہیں کہ کوئی غیرت مند انسان سن نہیں سکتا ۔




نجاشی نے ان قاصدوں کی باتیں سننے کھ بعد مہاجرین کے زعماء کی طرف یہ پیغام  بھیجا اور ان سے دین کی حقیقت اور عیسی علیہ السلام اور ان کی حضرت مریم کے متعلق نظریات معلوم کئے اور ان سے یہ بھی  مطالبہ کیا کہ قرآن مجید میں سے چند آیات سنائیں جب مسلمانوں نے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآنی آیات کی تلاوت سنائی تو نجاشی بے بسی کے عالم میں زار وقطار رونے لگا اور اتنا رویا کہ آنسوؤں سے اس کی داڑھی بھیگ گئی۔




 اور ان سے کہنے لگا: 

یہ آیات جا آپ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں اور وہ پیغام الہی جو حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام پر نازل کیا گیا بالکل اس نور کی طرح یکساں ہیں جو ایک منبع سے پھوٹ رہا ہو پھر اس اللہ واحدہ لا شریک پر ایمان اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کا بر ملا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی اس نے اس شخص کی حمایت و حفاظت کا اعلان کر دیا جو پناہ لینے  کی خاطر ہجرت کرکے اس کے ملک میں آ جائے، لیکن ایوان حکومت کے دیگر زعماء بدستور عیسائیت کے پیرو کار رہے ۔




حبشہ پہنچ جانے کے بعد ام حبیبہ رضی اللہ عنہا  کے دل میں آیا کہ اب دکھوں کے دن بیت چکے،  دشوار گزار اور تکلیف دہ راستوں سے گزر کر امن و سکون کی وادی میں پہنچ چکی ہوں- لیکن تقدیر میں جو فیصلے ہو چکے تھے ان کا انہیں کوئی علم نہ تھا۔



اللہ سبحان و تعالی کی حکمت بالغہ نے چاہا کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ایسا سخت امتحان لیا جائے جس سے عقل و دانش اور ہوشمندوں کی فہم و فراست دنگ رہ جائے اور پھر اس کٹھن ابتلاء سے کامیاب و کامران نکل کر عزوشرف کی چوٹی پر جلوہ افروز ہو سکے


ایک رات ام حبیبہ رضی اللہ عنہ اپنے بستر پر لیٹی تو اس نے خواب دیکھا کہ اس کا خاوند ایک گہرے سمندر کی تلاطم خیز موجوں میں بری طرھ غوطے کھا  رہا ہے اور رات بھی تاریک اور ڈراوئنی ہے وہ یک دم نیند سے گھبرا کر اٹھی اس خواب سے بہت مضطرب اور بے چین ہوئیں۔ لیکن اس نے اپنا یہ خواب خاوند کو بتانا نہ پسند کیا اور نہ ہی کسی اور کو ۔



 تھوڑے ہی عرصے بعد یہ خواب حقیقت کا روپ دھار گیا ابھی اس منحوس رات کے آنے والا دن ختم نہیں ہوا تھا  کہ اس کا خاوند مرتد ہو کر نصرانی بن گیا - پھر اس نے شراب نوشی کے لیے مےخانوں کے چکر لگانے شروع کر دیے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ طبیعت شراب نوشی سے سیراب ہی نہ ہوتی تھی اس نے شراب کے نشے میں ہر وقت دھت رہنا شروع کر دیا۔



 اس نے اپنی بیوی کو اختیار دے دیا، چاہے وہ طلاق لے لے یا چاہے عیسائیت قبول کر لے ۔



اب ام حبیبہ تذبذب میں مبتلا ہو گئیں اور فوری طور پر ان کے سامنے تین صورتیں آئیں:



 یا تو اپنے خاوند کی بات مان کر عیسائیت قبول کریں اور اس طرح دین سے مرتد ہو جائیں اور رسوائی کو اپنی زندگی کا مقدر بنا لیں نعوذ  باللہ!




 یہ راستہ وہ کسی صورت بھی اختیار نہیں کر سکتیں تھیں ۔ خواہ ان کے جسم کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچ ڈالا جائے ۔




دوسری صورت یہ تھی کہ اپنے باپ ابو سفیان کے گھر مکہ معظمہ واپس پہنچ جائیں جو ابھی تک کفر و شرک کا قلعہ اور مرکز  بنا ہوا تھا اور اس گھر مقہور ومغلوب ہو کر زندگی کے دن پورے کریں۔




تیسری صورت یہ تھی کہ سر زمین حبشہ  میں تنہا زندگی بسر کریں نہ ان کا وہاں کوئی خاندان تھا ہم وطن اور نہ  ہی مددگار۔




انہوں نے اللہ تعالی کی رضا کو ترجیح دیتے  سر زمین حبشہ میں اس وقت تک قیام کو ترجیح  دی جب تک اللہ  تعالی  اپنے فضل وکرم سے کوئی کشائش پیدا نہ کر دے


ام حبیبہ رضی اللہ عنہا  کو زیادہ عرصہ انتظار نہ کرنا پڑا ۔ ان کا خاوند عبد اللہ بن جحش عیسائیت قبول کرنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی فوت ہو گیا۔



 ابھی عدت پوری پوری نہ ہوئی تھی کہ دن پھر گئے۔ تنگی فراوانی میں بدل گئی اور خوشحالی اپنے سنہری پر پھیلائے ہوئے ان کے مظلوم گھر پر سایہ فگن ہو گئی۔ صبح کی نورانی کرنیں چاندی کی مانند چمک رہی تھیں ۔ فضا معطر تھی ۔ موسم دل ربا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے مسرت و شادمانی کا یہ پیغام لئے رقص کناں تھے۔




اتنے میں کسی نے دروازے پر دستک دی ۔ دروازہ کھولا تو سامنے شاہ حبشہ کی خادمہ ابرہہ کو کھڑے پایا۔ اس نے بڑے ادب و احترام سے جھک کر سلام کیا اور اندر انے کی اجازت طلب کی ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے کہا :




بادشاہ سلامت آپ کو سلام کہتے ہیں ۔



اور انہون نے اپ کے نام یہ پیغام بھیجا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنی زوجیت میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہ سلامت کو ایک خط بھی لکھا ہے۔ جس میں ان کو عقد نکاح کے لئے اپنا وکیل مقرر کیا ہے۔ آپ بھی جسے چاہیں اپنا وکیل بنا لیں۔




یہ سن کر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور بے پناہ مسرت و شادمانی سے جھومتے ہوئے اس خادمہ کی بلائیں لینے لگی اور وارفتگی کے عالم میں اسے دعائیں دینے لگی کہ اللہ تجھے خوش رکھے، اللہ تجھے خیر و برکت سے نوازے۔




اور اسی خوشی میں سونے کے کنگن ، چاندی کی پازیب، سونے کی بالیاں اور انگوٹھیاں اتار کر خادمہ کو بطور تحفہ دے دیں۔




آج ام حبیبہ رضی اللہ عنہا مسرت و شادمانی کے موقع پر اگر دنیا کے خزانوں کی مالک ہوتیں،  تو وہ بھی اس خادمہ کو بطور تحفہ عنایت کر دیتیں۔




حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے مسکراتے ہوئے فرمایا :



میں اپنی جانب سے خالد سعید بن عاص کو  اپنا وکیل مقرر کرتی ہوں،  کیونکہ وہ رشتہ میں میرے قریب ہیں


شاہ حبشہ نجاشی کے سبزہ زار اور سایہ دار درختوں کے جھرمٹ میں واقع عالیشان محل کے ایک خوب صورت اور آراستہ و پیراستہ وسیع ہال میں شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔ حبشہ میں موجود صحابہ کرام اس پر وقار تقریب میں شریک ہوئے۔ ان میں سے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عمہ اور عبد اللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ قابل ذکر ہیں۔



جب سب لوگ اکٹھے ہو گئے ، محفل جم گئی تو نجاشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا: میں امن دینے والے ، کمی کو پورا پورا کرنے والے اللہ پاک کی تعریف کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالی وہ بابرکت ذات ہے جس نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کو بشارت دی۔



حمد و ثنا کے بعد حاضرین محترم رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مجھے پیغام ملا ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت ابی سفیان کی ان سے شادی کر دیں اور میں مطالبہ مانتے ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا مہر چار سو دینار مقرر کرتا ہوں۔



پھر یہ دینار حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے وکیل خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دئیے ۔ پھر حضرت خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ  کھڑے  ہوئے اور فرمایا :

میں اللہ کی تعریف  کرتا ہوں، اسی سے مدد طلب کرتا ہوں ۔ اسی سے بخشش کا طلب گار ہوں اور اسی کے حضور اپنے گناہوں کی معافی کا خواہاں ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں حق و صداقت پر مبنی ضابطہ حیات دے کر بیجھا گیا، تاکہ اسے تمام نظام ہائے زندگی پر غالب کر دے۔ اگرچہ کافر اس کو ناپسند کریں۔


حمد و ثنا کے بعد۔


حاضرین محترم ! میں رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالبے کو قبول کرتے ہوئے ، اپنی موکلہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بنت ابی سفیان کا نکاح رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتا ہوں


اللہ اس کار خیر میں برکت عطا فرمائے ام حبیبہ کو اپنی اس خوش بختی پر مبارک باد ہو۔



پھر مہر میں دئیے گئے دینار اٹھائے اور ام حبیبہ رضی اللہ کے  سپرد کرنے کے لئے روانہ ہو گئے ۔



باقی صحابہ بھی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ۔



نجاشی نے ان سے کہا تشریف رکھئے انبیاء علیہ السلام کی سنت ہے جب وہ شادی کرتے ہیں تو کھانا کھلاتے ہیں  میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے آپ تمام کو کھانے کی دعوت دیتا ہوں۔تمام حاضرین نے کھانا کھایا اور اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔



امیر المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب مہر کی خطیر رقم میرے پاس پہنچی تو میں نے تو میں نے اس میں سے پچاس دینار شاہ حبشہ کی اس خادمہ کو بھیج دئیے جس نے مجھے نکاح کی خوش خبری سنائی تھی۔



اور ساتھ یہ پیغام بھیجا کہ میں اسی دن سے یہ مال تجھے دینا چاہتی تھی جب تم نے مجھے نکاح کی خوش خبری دی تھی لیکن اس وقت میرے پاس مال نہیں تھا فرماتی ہیں:



تھوڑی دیر بعد ابرہہ میرے پاس آئی سونے کے یہ دینار اور وہ تمام زیورات مجھے واپس لوٹا دئے جو میں نے اس کو بطور تحفہ دئے تھے اور کہا کہ شاہ حبشہ نے مجھے منع کر دیا ہے اور فرمایا ہے: کہ میں اس میں سے کوئی چیز اپنے پاس نہ رکھوں میں یہ تمام زیورات  بصد شکریہ واپس کرتی ہوں اور انہوں نے اپنی تمام بیویوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے موجود تمام عطریات آپ کی خدمت میں پیش کریں


دوسرے روز میرے پاس زعفران، عود اور عنبر کے دلربا لے کر آئیں اور کہنے لگی:


مجھے آپ سے کام ہے۔


میں نے پوچھا وہ کیا؟


بڑی رازداری سے کہا۔ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تابع ہو چکی ہوں - میرا رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہنا اور آپ کو یہ بھی بتا دینا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا چکی ہوں۔



خدآ را میری بات بھولنا نہیں۔  


پھر اس نے میراسامان ترتیب دیا اور سفر کی تیاری میں میرا ہاتھ بٹایا۔


میں جب دور دراز کا سفر طے کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچی تقریب نکاح کا واقعہ آپ کو سنایا۔ابرہہ کا ایمان افروز کردار بیان کرتے ہوئے

اس کا سلام عرض کیا رسول آکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابرہہ کی باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:


وعلیھما السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔



ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رملتہ بنت سبی سفیان کے مفصل حیات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔



1۔ الاصا بہ  : 441/4


2۔ الاستیعاب  : 303/4


3- اسد الغاباة :  457/5 


4- صفتہ الصفوة اصفوة :22/2


5- المعارف لابن قیتبہ : 3440-136


6۔سیر اعلام النبلاء : فہرست دیکھئے


7۔ مراة الجنان : فہرست دیکھئے


8۔ السیرةالنبویہ لابن ہشام : فہرست دیکھئے


10۔ تاریغ الطبری : دسویں جلد کی فہرست دیکھئے


11۔ طبقات ابن سعد : آٹھویں جلد کی فہرست دیکھئے


11۔ تہذیب الہذیب


12۔ حیات صحابہ 


13۔ اعلام النساء  :  464/1



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شدہ


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ---- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments