حضرت ابو دسمہ وحشی بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت ابو دسمہ وحشی بن حرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ 







 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه



حضرت ابو دسمہ وحشی بن حرب


*جس طرح اس نے امت محمدیہ کی ایک ذی وقار شخصیت کو قتل کیا اسی طرح ایک بد ترین خلائق شخص کو بھی تہہ تیغ کیا۔ مورخین*



 وہ کون شخص ہے جس نے غزوہ احد میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو قتل کرکے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا دل دکھایا تھا ۔



پھر جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کو قتل کرکے مسلمانوں کے دل کو ٹھنڈا کیا۔  وہ تھے وحشی  بن حرب جن کے کنیت ابو دسمہ تھی۔

 


آپ سے ایک بڑی درد ناک داستان منسوب ہے آئیے ہم آپ کو یہ داستان  غم ان کی زبانی سناتے ہیں ۔



ابو دسمہ وحشی بن حرب فرماتے ہیں:  کہ میں قریش کے ایک سردار حبیب بن  مطعم کا غلام تھا۔

 


غزوہ بدر میں اس کے چچا طعیمہ بن عدی کو حمزہ بن عبدالمطلب نے قتل کر دیا۔   اس سے میرے مالک کو بہت غم لاحق ہوا اور اس نے لات و عزی کی قسم کھائی کہ میں اپنے چچا کے قاتل سے ضرور بدلہ لوں گا۔  اس کے بعد وہ حضرت  حمزہ رضی اللہ عنہ  کو قتل کرنے کے لئے گھات میں لگا رہا۔




ابھی زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ قریش رسول مقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف نبرد آزما ہونے اور بدر کے مقتولین کا بدلہ چکانے کے کئے نئے جوش و جذبے سے غزوہ احد کے لئے تیاری کرنے لگے۔  لشکر کو ترتیب دیا معاونین کو جمع کیا، لشکرکی قیادت ابو سفیان بن حرب کے سپرد کی اور مہم کے لئے روانہ ہو گئے ابو سفیان نے اس موقع پر  قریش ان بیگمات کو بھی ساتھ لے لیا جن کے خاوند،  باپ یا بھائی قتل ہو چکے تھے تاکہ یہ میدان جنگ میں لڑائی کرنے والوں کے حوصلے بلند کریں میدان سے بھاگنے کی صورت میں یہ بیگمات راستے میں کھڑی ہو کر انہیں عار دلائیں ۔



اان بیگمات ابو سفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ پیش پیش تھی۔  اس کے باپ،  چچا اور بھائی قتل کر دیئے گئے تھے ابو دسمہ فرماتے ہیں جب یہ لشکر روانہ ہوا تو حبیب بن مطعم نے میری طرف دیکھا اور کہا:  

 


ابو دسمہ کیا تو غلامی سے چھٹکارا چاہتا ہے؟



میں نے کہا مجھے کون غلامی  کی زنجیر  آذاد سے کرائے گا ؟



اس نے کہا: میں


میں نے کہا وہ کیسے؟


اس نے کہا اگر تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دے تو تو آذاد ہو گا۔

 


میں نے کہا اس عہد کو پورا کرنے کی ضمانت  کون دے گا؟



اس نے کہا: جس کو تو چاہے میں سب کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ میں اس عہد کو نبھاؤں گا-

 


میں نے کہا: مجھے منظور ہے- میں ایک حبشی انسان تھا نیزہ بازی، تیر اندازی، خنجر اور کلہاڑی چلانے کا بڑا ماہر تھا



میرا نشانہ کبھی خطا نہ جاتا میں نے اپنی کلہاڑی پکڑی اور لشکر کے ساتھ ہو لیا لشکر کے پیچھے پیچھے بیگمات قریش کے ساتھ خراماں خرامان چل رہا تھا۔ مجھے جنگ سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔



جب بھی میرا ابو سفیان کی بیوی ہندہ کے پاس سے گزر ہوتا یا وہ میرے پاس سے گزرتی اور دھوپ میں کلہاڑی کا لشکارا دیکھتی تو بے ساختہ پکار اٹھتی: ابو دسمہ! اج مقتولین بدر کا بدلہ چکا کر کلیجے کو ٹھنڈا کر دیں۔



 جب ہم احد کے پاس پہنچے دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا تو میں حمزہ بن عبد المطلب کی تلاش میں نکلا میں ان کو پہلے سے پہچانتا تھا اور وہ کسی سے مخفی بھی نہ تھے۔



کیونکہ وہ ہر وقت اپنی پگڑی شتر مرغ کا پر پیوست کیے رکھتے تھے اور یہ اس دور میں عرب کے جنگجو بہادروں کی علامت ہوا کرتا تھا ۔



تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا امیر حمزہ شمشیر زنی کرتے ہوئے اور مد مقابل کو تہہ تیغ کرتے ہوئے نیچے اتر رہے تھے۔



کوئی ان کے سامنے ٹھہرنے اور ٹابت قدم رہنے کی سکت نہیں رکھتا تھا ۔ وہ کشتوں کے پشتے لگاتے ہوئےتیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔



 میں انہیں دیکھ کر ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا اور شست باندھ لی  کہ جونہی میرے قریب آئیں تو ان پر یکدم حملہ کر دوں۔



 اتنے میں قریش کا مشہور شہسوار سباع بن عبدالعزی میدان میں اترا اور پکارنے لگا،  امیر حمزہ میرے مقابلے میں آؤ! امیر حمزہ یہ چیلنج سن کر اس کے مقالے میں اترتے ہوئے کہنے لگے: مشرکہ کے بیٹے ادھر آ ؤ اور بڑی برق رفتاری سے تلوار کا ایسا زور دار وار کیا کہ وہ چشم زدن میں ان کے قدموں ڑھیر ہو گیا اور میں نے موقع پا کر اچانک زور دار وار کیا اور  میری کلہاڑی نے ان کے پیٹ کے نچلے حصے کو کاٹتے ہوئے دونوں ٹانگوں کو چیر کر رکھ دیا ، میری طرف وہ دو قدم جوش سے  چلے لیکن ٹانگوں نے ساتھ نہ دیا اور وہیں گر پڑے ۔ کلہاڑی ان کے جسم میں پیوست تھی۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ فوت ہو گئے ہیں تو میں ان کے پاس آیا کلہاڑی نکالی اور خیموں جا کر بیٹھ گیا مجھے اس سے زیادہ لڑائی میں دلچسپی نہ تھی میں نے تو انہیں  صرف اس لالچ میں قتل کیا کہ مجھے آذاد کر دیا جائے


پھر اس کے بعد گھمسان کا رن پڑا ،لڑائی کا تنور گرم ہو گیا - صحابہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  لڑائی کی لپیٹ میں آگئے ،ان میں سے کافی تعداد میں شہید ہو گئے ۔۔



اس نازک موقعہ پر ہندہ بنت عقبہ دیگر بیگمات قریش کو ساتھ لے کر مسلمانوں کی بکھری ہوئی لاشوں کے پاس گئی ،انہوں نے ان کےپیٹ کاٹ دئیے، آنکھیں نکال دیں ، ناک کاٹ دئیے ،پھر ان کے ہار بالیاں بنا کر زیورات کی جگہ پہن لئیے ۔



ہندہ نے اپنا سونے کا ہار مجھے دیتے ہوئے کہا:


ابو دسمہ یہ تیرا انعام ہے اسے سنبھال کر رکھنا یہ بڑا قیمتی زیور ہے ۔



جب لڑائی  ختم ہو گئی - تو لشکر کے ساتھ مکہ معظمہ واپس لوٹ آیا ،تو حبیب بن مطعم نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے مجھے آزاد کر دیا-

 


میں آزاد تو ہو گیا ،لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور مسلمانوں میں دن بد ن اضافہ ہو رہا ہے- جوں جوں  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام چار سو پھیلنے لگا ، توں توں مجھ پر خوف کے بادل منڈلانے لگے ۔



مجھے اپنی اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا میں مسلسل اسی حالت میں مبتلا رہا ، یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لشکر جرار لے کر مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔یہ منظر دیکھ میں طائف کی طرف بھاگ نکلا لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد باشندگان طائف بھی اسلام کی طرف مائل ہو گئے ، انہوں نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے ایک وفد تشکیل دیا۔



 یہ صورت حال دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میری گلو خلاصی کے تمام دروازے بند ہوتے دکھائی دینے لگے میں سوچنے لگا کہ شام، یمن، یا کسی اور ملک کی طرف بھاگ جاؤں۔



بخدا ! میں اسی حزن و ملال میں مبتلا تھا کہ میری حالت زار دیکھ کر ایک خیرخواہ کو مجھ پر ترس آگیا ،اس نے کہا ارے وحشی بن حرب ، اللہ کی قسم !حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جو کلمہ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے ۔


اس کی یہ بات سن کر یثرب  کی طرف طرف روانہ ہو گیا جب میں وہاں پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ مسجد میں تشریف فرما ہیں میں آنکھ بچا کر بڑی احتیاط سے مسجد میں داخل ہوا اور آپ کے سامنے کھڑے ہو کر پکار اٹھا


 اشھدان لا اله الا الله واشھد ان محمدا عبده و رسوله


میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔۔



جب آپ نے میری زبان سے کلمہ شہادت سنا تو اپنی نگاہیں میری طرف اٹھائیں۔

جب مجھے دیکھا تو نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں اور فرمایا تم وحشی ہو!



میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔


آپ نے فرمایا : بیٹھو اور مجھے بتاؤ  کہ تم نے امیر حمزہ کو کیسے قتل کیا تھا؟



میں وہاں بیٹھ کر پورا واقعہ بیان کر دیا جب میرا بیان ختم ہوا تو آپ نے غصے سے اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا: وحشی تم پر افسوس ہے۔

میری نظروں سے دور ہو جاؤ- آج کے بعد میں تجھے نہ دیکھوں۔ اس دن سے میں آپ کی نگاہوں سے اہک طرف رہنے لگا۔   


جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے سامنے بیٹھ جاتے تو میں آپ کے پیچھے بیٹھ جاتا کہ کہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ کی نظر مبارک مجھ بد نصیب پر نہ پڑ جائے ، اور اس طرح مجھے دیکھ کر آپ کو تکلیف نہ ہو۔


میں مسلسل اسی المناک حالت میں مبتلا رہا، یہاں تک کہ زسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔


پھر اپنی داستان غم بیان کرتے ہوئے وحشی بن حرب نے کہا:


باوجودیکہ میں جانتا تھا کہ اسلام پہلے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے پھر بھی وہ گھناؤنا جرم جس کا میں نے ارتکاب کیا تھا وہ بڑی مصیبت جس میں نے مسلمانوں کو مبتلا کیا تھا ۔ وہ میرے نہا ں خانہ دل سے کبھی محو نہ ہوا ، اب میں شدت سے اس موقع کی تلاش میں رہنے لگا کہ اس جرم کا کفارہ ادا کر سکوں



جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا ،حضرت ابو بکر امیر المئومنین بن گئے تو مسیلمہ  کذاب کا ساتھی بنو حنیفہ مرتد ہو گیا ۔


خلیفہ اول نے مسیلمہ سے نبرد آزما ہونے اور اس کی قوم بنو حنیفہ کو دین الہیہ کی طرف واپس لانے کے لئے کے لئے لشکر تیار کیا، میں نے  اپنے دل میں سوچا ۔اب موقعہ آیا ہے کہ میں اپنے ارمان پورے کروں اور پچھلے سارے دھونے دھو ڈالوں۔



پھر میں لشکر  اسلام  کے ساتھ  ہو لیا ، اپنی وہی کلہاڑی ہاتھ میں  لی ۔جس کے ساتھ سید الشھداء امیر حمزہ کو قتل کیا تھا، میں  نے قسم  کھا لی کہ یا تو مسیلمہ کذاب  کو قتل کروں گا یا خود جام شہادت نوش کروں گا


 جب مسلمانوں نے مسیلمہ اور اس کے لشکر  پر گلستان موت میں زور دار حملہ کیا، دشمنان خدا کے گوشت کے ٹکڑے فضا میں اڑنے لگے، میں مسیلمہ کھ انتظار میں تھا ، اسے ایک جگہ ہاتھ میں تلوار لئے دیکھا اور ایک انصاری کو دیکھا


 کہ وہ بھی میری طرح گھات لگائے کھڑا ہے ہم دونوں اس کو قتل کر دینا چاہتے تھے ۔۔


میں نے آگے بڑھ کر کلہاڑی چلائی جو اس کے بدن میں پیوست ہو گئی اتنے میں انصاری نے اس پر تلوار سے وار کیا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم۔ میں سے کس کےوار سے وہ جہنم واصل ہوا ۔۔اگر میرے وار قتل ہوا تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گا کہ میں نے اپنی زندگی میں امت محمدیہ کی ایک پر وقار شخصیت کو قتل کیا اود ایک بد ترین خلائق شخص کو بھی قتل کیا    


ابو دسمہ وحشی  بن حرب رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی جاننے کے لئے درج ڈیل کتابوں کا

 مطالعہ کریں:


1.  الاصابة     : 315/6


2. اسد الغابة  : 83/5


3۔ الاستيعاب  : 208/3


4.التاريخ الكبير: ج4.ق180/2


5.الجمع بين رجال الصحيحين: 546/2


6.تجريد اسماء الصحابة :136/2


7.السيرة النبويه لا بن حسام:فہرست دیکھیے


8تھذیب التھذیب : 113/11


9۔مسند ابو داود :  186


10۔الکامل لابن اثیر :108/2


11۔تاریخ الطبری:دسویں جلد کی فہرست دیکھیے 


12۔امتاع الاسماء:152/1


13:سیر اعلام النبلاء: 129/1


14:المعارف لابن قتیبہ : 144


15۔ تاریخ الاسلام علامہ

 ذھبی : 252/1



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شدہ


تالیف۔۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرحمن رافت الباشا

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر


طالب دعاء ---- لقمان قاسمی

Post a Comment

0 Comments