سیدہ ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہا

 سیدہ ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہا







بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم


✨باذن اللہ تعالی✨


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه


سیدہ ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہا


  


💕✨خاندانی پس منظر: 


نام ام ایوب، والد کا نام قیس بن سعد، شادی خالد بن زید کے ساتھ ہوئی۔ ان کی کنیت ابو ایوب انصاری تھی۔ وہ انصارکے معززین میں سے تھے۔ دونوں میاں بیوی ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا ہے:


🌷وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۰۰﴾ 

{التوبة ٩/ ١٠٠}


 اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے ۔


💕✨ام ایوب اور ان کے خاوند کا اسلام قبول کرنے کا واقعہ:


سیدہ ام ایوب رضی اللہ عنہا ایک دن صبح کے وقت جب ننید سے بیدار ہوئیں تو انہوں نے اپنے خاوند ابو ایوب انصاری کو دیکھا کہ وہ سفر پر روانہ ہونے کی تیاری کر رہے ہیں، انہوں نے تلوار اپنے گلے میں لٹکائی ہوئی ہے اور اپنی شہباء نامی گھوڑی پر سوار ہیں۔ 


جب انہوں نے اپنے خاوند سے پوچھا کہ کہاں جارہے ہیں؟

تو اس نے بتایا کہ وہ مکہ معظمہ جا رہا ہے ۔ تاکہ اس نبی کا دیدار کر سکے جس کا وہاں ظہور ہوا ہے اور وہ لوگوں کے پاس نیا دین لائے ہیں ۔ وہ لوگوں کو بتوں کی عبادت چھوڑ دینے اور ایک اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں

  


ام ایوب نے اپنے خاوند کو الوداع کیا اور خود کلامی کا انداز اپناتے ہوئے اپنے آپ سے باتیں کرنے لگی، ان کے دل میں یہ امنگ انگڑائیاں لینے لگی کہ کاش! یہ نبی اپنی حکمت و دانش سے کام لیتے ہوئے اس شریعت کے ذریعے سے جسے وہ لے کر آئے ہیں، اوس و خزرج کے درمیان بھڑکنے والی لڑائی کی آگ کو بجھا دیں۔ کاش! یہ خیر و بھلائی کا سفیر اور اصلاح کا ذریعہ بن کر سامنے آئیں اور ان کے سینوں سے بغض اور کینے کے کانٹے نکال دیں اور وہ یہودیوں کے جرائم اور شر پسند عزائم کا خاتمہ کر دیں کیونکہ یہودی ہی اوس اور خزرج کے درمیان فتنہ و فساد کا بیچ بوتے ہیں اور شرک کی آگ بھڑکاتے ہیں۔ 


ام ایوب نے یہ دلی تمنا کی کہ اس کا خاوند مکہ معظمہ سے صحیح سالم ہر طرح سے خیر و عافیت کے ساتھ واپس لوٹ آئے۔


ام ایوب اپنے خاوند کی واپسی کا انتظار کرنے لگی، خاوند کے زیادہ دیر اپنے گھر سے غائب رہنے کی وجہ سے ام ایوب کے دل و دماغ میں اندیشوں کے طوفان بپا ہونے لگے، اضطراب اور وسوسوں کے جھکڑ چلنے لگے۔ وہ خود کلامی کا انداز اپناتے ہوئے اپنے آپ سے پوچھنے لگی: میرے سر کا تاج کب لوٹ کر گھر آئے گا؟


بہت دنوں کی جدائی کے بعد ایک دن ام ایوب اپنے دروازے پر دستک کی آواز سنتی ہے، اسے محسوس ہوا کہ دروازے 

پر اس کا خاوند ابو ایوب دستک دے رہا ہے، کیونکہ اس کے دروازہ کھٹکا نے کا انداز دوسروں سے مختلف تھا. یہ دستک اس بات کی دلیل تھی کہ اس کا خاوند صحیح سالم سفر سے واپس لوٹ آیا ہے۔ انھوں نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو چہرے پر مسرت و شادمانی کے آثار دیکھ کر خوش ہو گئیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ پہلے وہ قدرے آرام کر لیں اور سفر کی تھکاوٹ اتار لیں، لیکن ابو ایوب کا دل چاہتا تھا کہ وہ پہلی ہی فرصت میں اپنی بیوی کو مسرت بھری خبروں سے آگاہ کرے۔ اسے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا تھا کہ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوشگوار معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں تاخیر کرے۔


ابو ایوب نے اپنی بیوی کو بتایا کہ کس طرح اس کی اور اس کے ساتھیوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ملاقات ہوئی اور وہ تمام آپ کے ساتھ شیریں کلام سے کس طرح لطف انداز ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مٹھاس بھری گفتگو نے کس طرح ان کے دلوں کو اپنا اسیر بنایا اور کس طرح ان کے دلوں میں اعتماد کی فضا پیدا کی. کس طرح ہم سب سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیش کردہ شرعی احکامات پر ایمان لائے اور آپ کی تصدیق کی اور کس طرح سب نے اللہ تعالٰی کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نصرت کے معاہدے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت کی

  


ابو ایوب نے ابھی بات مکمل نہ کی تھی کہ اس کی بیوی ام ایوب کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور اس کی باتوں نے ام ایوب کے دل پر گہرا اثر کیا۔ اس نے بے ساختہ انداز میں کہا میں نے اپنا چہرہ اللہ کے سپرد کر دیا اور پھر والہانہ انداز میں کہنے لگی۔


💕اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ


میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سواکوئی معبود حقیقی نہیں اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔


ام ایوب نے اپنی زندگی کے خوشگوار دن ابو ایوب کے ساتھ شاداں و فرحاں گزارے۔ وہ اس کی رائے پر اعتماد کرتی رہیں اور اس دانشمندی کی معترف رہیں۔ انہیں اس بات کا بھی اعتراف تھا کہ اس کا خاوند اس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ 


اب ابو ایوب نے ایک ایسے دین کو اپنا لیا ہے جو لوگوں کے تمام حالات کو سنوارنے کا باعث ہے اور اپنے فیض کے چشموں سے انہیں سیراب کرنا چاہتا ہے۔ اب بھلا وہ اپنے خاوند کی پیروی کیوں نہیں کرے گی۔ کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ام ایوب نے یہ محسوس کیا کہ اسے سعادت نے ڈھانپ لیا ہے اور اسے ایسا امن اور سکون میسر آیا جو اس سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا تھا۔


جب سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے گھر مہمان بن کر ٹھہرے اور لوگوں کو قرآن پڑھ کر سنایا اور انہیں دین الہی کے احکامات سمجھائے تو ابو ایوب بھی ان لوگوں میں سے ایک تھے۔ وہ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی مجالس میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے 

تھے تاکہ ان محفلوں میں جو قرآنی آیات پڑھی جاتی ہیں انہیں سن کر یاد کر لیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیاری احادیث کی سماعت اور دینی احکامات سے روشناس ہو جائیں۔ 


سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ جو کچھ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے سنتے اسے اپنی بیوی سیدہ ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہا اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو بتاتے


💕✨نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت:


ایک دن صبح کے وقت مدینہ منورہ کے باشندوں نے نیند سے بیدار ہوتے ہی یہ خوشگوار خبر سنی کہ سید البشر، حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و سلم مکہ معظمہ کو چھوڑ کر مدینہ منورہ تشریف لا رہے ہیں۔ اب چاہیے کہ مدینہ ان کے استقبال کے لئے اپنے بازو پھیلا دے اور مدینہ منورہ کے تمام مرد و زن اور بچے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خوش آمدید کہنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑیں اور آپ کا احسن انداز میں استقبال کریں۔


 نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دھیرے دھیرے مدینہ منورہ کے قریب آ رہے ہیں۔ لوگوں نے اس تاریخی موقع پر گھروں میں بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کا انتظار کرنے سے انکار کر دیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کے لئے دیوانہ وار اپنے گھروں سے باہر نکلے، تاکہ استقبال کرتے ہوئے آپ کے ساتھ مدینہ منورہ میں داخل ہوں۔ 


جب انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دلکش و حسین جھلک دکھائی دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرنے والوں کی زبان سے یہ دلفریب ترانہ فضا میں گونجنے لگا:


✨طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَينَا مِنْثَنِيًَاتِ الْوَدَاع


✨وَجَبَ الشُكْرُعَلَيْنَامَا دَ عَا لِلٌَهَدَاع


✨ايٌُھَا المَبْعُوثُ فِيْنَا جِِئتَ بِا لاَمْرِِ الْمُطَاع


✨جِئتَ شَرٌَفْتُ الْمَدِينَة مَرْ حَبًا يَا خَبرَ دَاع


ترجمہ: ہم پر چودھویں کا چاند جنوبی پہاڑوں سمت طلوع ہوا. ہم پر اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔ کیسا عمدہ دین اور یہ تعلیم ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے! تیری اطاعت ہم ہر فرض ہے۔ خوش آمدید! اے داعی الی الخیر! تیرے آنے سے مدینہ کو شرف ملا۔


انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جس جوش و خروش اور والہانہ انداز میں استقبال کیا اور انہیں خوش آمدید کہا، ایسا دلنشیں منظر مدینہ منورہ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ہر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قصوا نامی اونٹنی کی نکیل پکڑنے کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا رہا تھا، تاکہ وہ اونٹنی کی باگ پکڑ کر اپنے گھر لے جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے ہاں معزز مہمان کی حیثیت سے ٹھہریں۔ ہر ایک کے دل کی یہ تمنا تھی کہ یہ عظیم شرف اسے حاصل ہو، لیکن اس دن ہوا کیا؟

  

✨💕سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل مدینہ کے ہاں مہمان بننا:


جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کا ذوق وشوق دیکھا اور ان کے چہرے سے اندازہ لگا لیا کہ ہر کوئی آپ کو اپنے گھر مہمان بنانے کی دلی تمنا رکھتا ہے ۔


تو آپ نے ارشاد فرمایا:


خلوسبیلھا فانھا مامورة


اس اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو ، یہ حکم کی پابند ہے۔


قصوا اونٹنی آہستہ رفتار سے چل رہی تھی یوں لگ رہا تھا کہ وہ یہ سوچ رہی ہے کہ ٹھہرنے کے لئے کون سی جگہ مناسب ہو گی ۔ پھر وہ اچانک سیدنا ابو ایوب خالد بن زید الانصاری رضی اللہ عنہ کےگھر کے سامنےٹھہر گئی۔


حضرت ام ایوب رضی اللہ عنہا اونٹنی کے قدموں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ اس بات کا انتظار کر رہی تھیں کہ اونٹنی کا سوار کہاں ٹھہرتا ہے ۔ انہوں نے دیکھا کہ اونٹنی ان کے گھر کے سامنے ٹھہر گئی ہی ہے تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ، یہ خوشی کے آنسو تھے جنہیں وہ روک نہ سکیں ۔ بے انتہا خوشی کی بنا پر ان کی آنکھیں چھلک پڑیں انہیں بے پناہ خوشی اس بات کی تھی کہ آج دنیا کی عظیم ترین ہستی ان کے گھر مہمان بن کر ٹھہرے گی ۔

سیدہ ام ایوب جلدی سے اندر گئیں تاکہ اپنے معزز مہمان کے لئے بیٹھنے کی جگہ تیار کرے ، ان کے آرام کی جگہ کو درست کرے، ان کے لئے عمدہ کھانے کا اہتمام کرے۔


در اصل وہ سعادت اور خوش بختی کے نقطہ عروج پر فائز ہو چکی تھیں انہوں نے سعادت کا آخری درجہ پا لیا تھا ۔


سیدنا ابو ایوب انصاری جلدی سے آگے بڑھے تاکہ اپنے عظیم ترین معزز مہمان کا سامان اٹھا کر اندر لے جائیں۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم استقبال کرنے والوں اور خوش آمدید کہنے والوں کو شکریہ ادا کر رہے تھے ۔


سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: 


اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمارے گھر تشریف آوری سے ہماری عزت و شرف کو چار چاند لگ گئے ہیں ، ہماری شان و شوکت اوج ثریا پر پہنچ گئی ہے۔ سیدنا ابو ایوب انصاری کا گھر دو منزلہ تھا ۔ سیدہ ام ایوب رضی اللہ عنہا نے بالائی منزل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش کے لئے مختص و صاف کر دیا ۔


جب ابو ایوب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش کے لئے بالائی منزل کا اہتمام کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نچلی منزل میں رہائش کو ترجیح دی کیونکہ نچلی منزل میں ملاقات کے لئے آنے والوں کے لئے سہولت تھی

  

چونکہ نچلی منزل میں ملاقات کے لئے آنے والوں کے لئے سہولت تھی ۔

اہل خانہ کو معزز مہمان کی خواہش کا احترام کرتےہوئے اپنا موقف تبدیل کرنا پڑا۔


ارشاد باری تعالی ہے:


🌷وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنًا ﴿ؕ ٣٣: ٣٦﴾


 اور ( دیکھو ) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا ( یاد رکھو ) اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا ۔


پہلی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نچلی منزل میں رہے ، سیدنا ابو ایوب انصاری اور ان کی بیوی بالائی منزل میں چلے گئے۔ دونوں نے سونےکا ارادہ کیا لیکن انہیں یہ ناگوار محسوس ہوا کہ ہم اوپر ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے ہیں۔ وہ دونوں طلوع فجر تک جاگتے رہے اور مسلسل پشمانی میں مبتلا رہے۔ جب صبح ہوئی تو دونوں نیچے اترے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں سلام عرض کی اور سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم ساری رات جاگتے رہے۔ ہمیں یہ اندیشہ لاحق رہا کہ کہیں ہماری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ ہو اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور وحی کے درمیان حائل نہ ہو جائیں۔ 


سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں مودبانہ التجا کی کہ آپ از راہ کرم بالائی منزل پر تشریف لے جائیں۔ 


تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالائی منزل پر قیام پذیر ہو گئے۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نچلی منزل میں منتقل ہو گئے۔ دونوں میاں بیوی اپنے معزز مہمان کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے۔ 


ان دونوں کی ہر ممکن کوشش یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری طرح راحت اور سکون میسر آئے۔ مسجد نبوی کی تعمیر ہونے اور اس کے ساتھ ملحق ازواج مطہرات کے لئے حجروں کی تعمیر مکمل ہونے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف فرما رہے۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی سیدہ ام ایوب رضی اللہ عنہا کو مبارک ہو کہ ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جی بھر کر مہمان نوازی کا شرف حاصل کیا۔ آنکھوں اور دلوں کو تو ہمیشہ اس نوعیت کے سکون کی آرزو رہتی ہے

  


جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر سے اپنے حجروں میں منتقل ہونے کا ارادہ کیا تو دونوں میاں بیوی حد درجہ رنجیدہ خاطر ہوئے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا غم لاحق ہوا لیکن جب انہیں یہ پتا چلا کہ آپ کی رہائش ہمارے قریب ہی ہو گئی یعنی امہات المومنین کے حجرے ان کے گھر کے سامنے ہیں۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہمارے پڑوس میں ہی رہائش پذیر رہیں گے تو انہیں دلی سکون میسر آیا اور ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔


💕✨آل ابو ایوب کی سخاوت:


سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہا کی عادت میں سخاوت کا پہلو غالب تھا۔ 


سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔ 


حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا کہ تم اپنے گھروں سے کیوں باہر آئے ہو؟


دونوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی وجہ سے گھر سے باہر نکلے ہیں۔ شائد کھانے کے لئے کچھ مل جائے جس سے بھوک کا کچھ مداوا ہو سکے۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں بھی اسی لئے گھر سے باہر نکلا ہوں جس وجہ سے تم دونوں گھر سے باہر آئے ہو مجھے بھی بھوک لگی ہوئی ہے۔ 


اٹھو! وہ دونوں اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو لیے اور ایک انصاری کے گھر تشریف لے گئے ۔ 


وہ گھر میں موجود نہیں تھا۔ جب اس کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا ۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کہ گھر والا کہاں ہے؟


 اس نے بتایا کہ وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گیا ہے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ گھر کا مالک انصاری صاحب بھی آ گیا۔ 


جب اس کی نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں پر پڑی تو خوشی سے جھوم اٹھا اور مسرت و شادمانی کے والہانہ انداز میں اظہار کرتے ہوئے کہا:


 میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے آج میرے غریب خانے میں معزز مہمان بیجھے ہیں۔ جو مجھے دل و جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ میری خوش قسمتی کے کیا کہنے! میرے تو وار نیارے ہو گئے ہیں۔ میرے گھر کے آنگن میں تو بہار آ گئی ہے۔


 وہ جلدی سے گیا اور کھجوروں کا ایک خوشہ لے آیا۔ جس میں ڈوکے خشک اور تر کھجوریں تھیں

  

عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کھائیں اور اس نے جلدی سے چھری تھم لی ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: دیکھنا کہیں کوئی دودھ دینے والی بکری ذبح نہ کر دینا ۔انہوں نے ایک نو عمر بکری کو ذبح کیا اور اس کا سالن تیار کروایا ۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں نے بکری کا گوشت تناول فرمایا ، کھجوریں کھائیں اور پانی پیا جب تینوں خوب سیر ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرما یا قیامت کے دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا ، بھوک نے تمہیں اپنے گھروں سے نکالا اور اب تم اس حال میں ںواپس لوٹ رہے ہو کہ عمدہ خوراک کی نعمت سے سرفراز ہو چکے ہو ۔"


اس میزبان صحابی کا نام ابو الہیثم بن التہیان رضی اللہ عنہ ہے۔


یاد رہے مہمان نوازی کی خدمت سر انجام دینے والے سیدنا ابو ایوب انصاری اور انکی بیوی ام ایوب انصاریہ تھیں۔


تاریخ نے یہ عظیم منظر دیکھا کہ کائنات کی تین عظیم ہستیاں بھوک کی وجہ سے اپنے گھر سے باہر آنے پر مجبور ہوتی ہیں اور وہ اس تلاش میں ہیں کہ کہیں سے کوئی شے کھانے کو مل جائے۔ جس سے ان کی بھوک کا مداوا ہو سکے ۔


جبکہ دنیا میں بعض لوگوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ خوراک کی فراوانی اور بد ہضمی انہیں مار دیتی ہیں اور پھر بھی وہ اپنے پیٹ بھرنے اور خواہشات کو پورا کرنے کے لئے بغیر حلال و حرام کی تمیز کے بے تحاشہ مال جمع کرتے رہتے ہیں۔



💕✨سیدہ ام ایوب اور اس کے خاوند کی عبادت میں محنت اور مصروفیت:


سیدہ ام ایوب رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کو اہل مدینہ میں یہ امتیاز حاصل تھا کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی ہونے کا شرف حاصل تھا ۔


جب وہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی خوشگوار آواز سنتے، جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے فرض نماز پڑھنے کے لئے بلاتے تو یہ میاں بیوی خوشی سے جھوم جاتے ۔وہ ہر اذان کے سننے کے بعد اللہ تعالی کا اس نعمت پر شکر ادا کرتے کہ اس دین اسلام کی طرف ان کی رہنمائی کی ہے۔ 

لیکن حمد شکر کا زبان سے اظہار کرنا کافی نہیں۔ ایمان کا دل میں جگہ پکڑنا اور عمل سے اس کی تصدیق کا ہونا ضروری ہے ،صرف زبان سے اقرار کر لینا کافی نہیں، یہی وجہ ہے کہ سیدہ ام ایوب اپنے خاوند کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں۔



وہ باقاعدگی کے ساتھ فرض نماز ادا کرتیں، اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے نوافل ادا کرتیں، وہ رات کو بہت تھوڑا سوتیں اور زیادہ حصہ عبادت میں مصروف رہتیں وہ صرف رمضان کے روزوں پر اکتفا نہیں کرتیں تھیں بلکہ نفل روزے بھی کثرت سے رکھتی تھیں کیونکہ وہ یہ جانتی تھیں کہ اللہ تعالی کی رضا کے لئے جو روزہ رکھا جاتا ہے اللہ تعالی خود اس جزا عطا فرماتا ہے


سیدہ ام ایوب رضی اللہ عنہا قرآن کریم کو اپنا بہترین ہم نشین خیال کرتی تھیں، وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتیں اور اسے زبانی یاد بھی کرتیں۔ کبھی قرآن مجید اپنے خاوند کی زبانی بھی سنتیں۔ وہ قرآن کریم کا جو حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے وہ گھر آکر اپنی بیوی کو سناتے ۔


قرآن کریم کی آیات پر غور وفکر کرنے سے سیدہ ام ایوب رضی اللہ عنہا کے دل میں لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ موجزن ہو چکا تھا ۔ فقراء اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کا شوق ان کے دل میں فروزان ہو چکا تھا ، تمام مسلمانوں کی تکالیف کو دور کرنا ان کا مقصد حیات بن چکا تھا۔


دونوں میاں بیوی کو عبادت میں شغف حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔


روایت احآدیث کے حوالے سے ان دونوں نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا۔


امام مسلم نے اپنی مشہور و معروف کتاب "صحیح مسلم" میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے ۔فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرماتے اور بچا ہوا کھانا میری طرف بھیج دیتے ۔


ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا سارا کھانا بھیج دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا ،کیوںکہ اس میں لہسن تھا ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا لہسن حرام ہے؟


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں وہ حرام نہیں میں اس کی بو کی وجہ سے ناپسند کرتا ہوں"- 


میں نے کہا اے اللہ کے رسول! جو آپ کو نا پسند ہے وہ مجھے بھی نا پسند ہے ۔


سیدنا ابو ایوب اور سیدہ ام ایوب رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اللہ اور رسول کی اطاعت کے جذبے سے بیعت کی اور دونوں زندگی بھر اس جذبے پر قائم رہے ، یہاں تک کہ قضائے الہی سے وفات پا گئے ۔

اللہ تعالی ان دونوں پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے، انہیں اپنی رضا سے نوازے اور جنت الفردوس میں بہتر جگہ عطا کرے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت الفردوس میں اعلی و ارفع مقام پر فائز کیا ۔ اللہ تعالی دونوں میاں بیوی کو جزائے خیر سے نوازے۔


آمین یا رب العالمین!



🌴بارک اللہ فیکم🌴


============>ختم شدہ 

  

 

تالیف۔۔۔۔ محمود طعمہ حلبی

ترجمہ ۔۔۔۔۔ محمود احمد غضنفر الباشا


طالب دعاء ----- لقمان قاسمی


Post a Comment

0 Comments